کچھ یادیں کچھ باتیں ۔ از ۔ غلام یزدانی

Share

yezdaniiڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم
اورینٹل اردو پی جی کالج۔اردو ہال۔حمایت نگر۔حیدرآباد

جناب غلام یزدانی کی تالیف: کچھ یادیں کچھ باتیں
اخلاقی اقدار کی پاس دار اور تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہے

محترم غلام یزدانی صاحب ایک ممتاز قانون دان ہیں اس کے باوجود کئی ایک تعلیمی ‘ادبی‘تہذیبی اور مذہبی اداروں سے ان کی وابستگی انہیں ایک حرکیاتی اور ہمہ پہلو شخصیت بنا دیتی ہے۔بلا شبہ وہ اردو تہذیب کے آئینہ دار ہیں اور حیدرآبادی تہذیب کی عمدہ مثال ہیں۔وہ بنیادی طور پر ایک اچّھے انسان ہیں۔انسانی اقدار پر یقین رکھتے ہیں‘انسان دوستی کے جذبہ کو پروان چڑھاتے ہیں اور انسانی ہمدردی تو ان کا پیشہ ہے تبھی تو چند فسادیوں نے ان پر جان لیوا حملہ کیا تھا لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے اس حملہ کے بعد حیدرآبادیوں کے ذہنوں میں ان کا قد اور بڑھ گیا تھا۔ گزشتہ دنوں ان کی ایک تالیف ’’ کچھ یادیں کچھ باتیں‘‘ منظر عام پر آئ ہے جسے مولف نے تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ جسے دیدن ‘گفتن اور شنیدن کہا جا سکتا ہے۔
استاد محترم ڈاکٹر گیان چند کا کہنا ہے کہ یادداشتیں بھی آپ بیتی کی ایک قسم ہے۔اس میں اپنی زندگی کے واقعات اور تجربے اس طرح بیان کیے جاتے ہیں کہ دوسرے کئی اشخاص کے بارے میں دلچسپ شخصی معلومات سامنے آجاتی ہیں‘ ان کی شخصیت کی جھلک دکھائ دے جاتی ہے‘یہ آپ بیتی کی قسم ہے کیوں کہ اس میں واقعات مصنف کے پس منظر میں بیان کیے جاتے ہیں(ادبی اصناف ص ۱۳۹)۔جناب غلام یزدانی نے اسی اصول کے تحت اپنی یادداشتوں کوترتیب دیا ہے جسے عہد آصفی کی جھلکیاں‘ادب اور ادبی شخصیتوں کی گل افشانیاں‘سیاست اور اہل سیاست کی گلکاریاں‘ایوان عدالت کے آس پاس‘گلشن تعلیم کے شگوفے‘چمنستان صحت کے پھول اور یہاں وہاں کے گل بوٹے جیسے عنوانات میں بانٹا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصّہ جو مصنف کے سفرناموں پر مشتمل ہے جنھوں نے سعودی عرب‘ دبئی‘سری لنکا‘سویت یونین ‘ امریکہ ‘کینیڈا‘ برطانیہ اور دیگر یوروپی ممالک کا دورہ کیا اور اپنے اسفار کے توسط سے ان ملکوں کی ادبی‘تہذیبی‘ثقافتی اور معاشرتی جھلکیاں دکھائ ہیں۔خصوصی طور پر مضمون ’’ دیار غیر میں حیدرآبادی تہذیب ‘‘بڑی محنت اور محبت سے لکھا ہے تبھی تو
یہ باتیں دل سے نکلتی ہیں اور سیدھے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں جبکہ کتاب کا تیسرا حصّہ تصاویر کے البم پر مبنی ہے ۔ پہلے البم میں مصنف کی اہل خاندان کے ساتھ کی تصاویر کے علاوہ مختلف ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں کی منہ بولتی داستانیں ہیں۔ دوسرا البم حیدرآباد کی مختلف تاریخی عمارتوں کی تصاویر پر مبنی ہے جو حیدرآباد کی تہذیب ‘ثقافت اور تمدن کا مرقع نظر آتا ہے۔
زیر نظر کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا دلکش اسلوب ہے چونکہ مصنف میں ایک ظرافت نگار اور انشائیہ نگار چھپا ہواہے اس لیے انھیں اپنی یادوں اور باتوں کو دلچسپ پیرایہء اظہار میں بیان کرنے کا سلیقہ آتا ہے ۔چھوٹے چھوٹے واقعات پر مبنی یہ تحریریں دلچسپی کا سامان لیے ہوے ہیں جو زبان وادب‘مذہب ومعاشر ت اور تہذیب و ثقافت کے نادر نمونے ہیں۔نئی نسل کے لیے یہ تحریریں کوئ نعمت سے کم نہیں ہیں۔ذیل میں چند اقتباسات دیے جا رہے ہیں۔
۱) شریمتی اندرا گاندھی اپنے مختصردورہے پر حیدرآباد تشریف لا ئیں۔نواب میر عثمان علی خاں
و سابق راج پرمکھ ریاست حیدرآباد سے ملاقات کا کوئ پروگرام طئے نہیں تھا۔وہ اچانک خواہش
کرتے ہوے ملاقات کے لیے قیام گاہ حضور نظام(کنگ کوٹھی) پہنچیں۔بعد صاحب سلام‘
میزبان نے شکوہ کیا کہ کم از کم وہ اپنے پروگرام میں اس ملاقات کو شامل کرتیں تو انہیں آو بھگت
کا موقع ملتا۔شریمتی گاندھی نے جواب دیا’’باپ سے ملنے کے لیے بیٹی کو قبل از قبل اطلاع دینے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ (ص ۴)
۲) ’’صاحبزادہ معین الدین علی خاں‘شبابؔ تخلص فرماتے تھے۔وہ ایک دفعہ سالگرہ ہمایونی کے
موقع پر حضور نظام کی قیام گاہ کنگ کوٹھی آ پہنچے اور نذرانہ لیے نذری باغ میں داخل ہوے
موصوف سر سید احمد خاں کی سی وضع قطع کے تھے۔انھیں دیکھ کر نظام سابع نے قہقہ لگایا اور
کہا’’یہ شباب ہے؟‘‘ حضرت شباب نے جوابا عرض کیا’’ یہ اس سن کا شباب ہے‘‘ پھر کیا تھا
حضور زانوں پر ہاتھ مارکر قہقہے لگاتے رہے۔‘‘ (ص ۱۶)
۳) بادشاہ وقت میر عثمان علی خان نے بلبل ہند شریمتی سروجنی نائیڈو سے پوچھا کہ وہ مرحوم
(محبوب علی خاں) اور ان (عثمان علی خاں) میں کیا فرق پاتی ہیں؟بلبل ہند نے برجستہ
جواب دیا کہ’’ مرحوم دل والے تھے‘آپ دماغ والے ہیں‘‘ ( ص ۱۷)
۴) کامریڈ مخدوم محی الدین ایک دفعہ رات دیر گئے کھانے کی لیے ہوٹل پہنچے بیرے کو آرڈر
دیا’’خشکہ ‘سالن‘‘جواب ملا’’خلاص‘‘۔’’قورمہ‘شیر مال‘‘ جواب ملا ’’وہ بھی خلاص‘‘۔اس طرح جب چارپانچ کھانوں کے نام لے چکے اور جواب ملا ’’خلاص‘‘ تو مخدوم نے جھنجھلاتے ہوے کہا
’’ یہ ہوٹل ہے یا مخدوم کا گھر‘‘۔ (ص۲۹)
۵) عدالتی زبان کی اردو سے انگریزی میں تبدیلی کے ما بعد اثرات کا دور تھا۔انگریزی‘اردو‘
تلگو الفاظ اور دکھنی زبان‘ عدالتوں میں کھچڑی کے مانند استعمال ہونے لگے تھے۔ہائیکورٹ جج
جسٹس قمر حسن کے اجلاس پر ایک ایڈوکیٹ صاحب یوں مخاطب ہوے۔والا جناب مقدمہ طلبی زوجہ کے مرافعہ میں فیصلہ محفوظ کیے مدت ہوء۔ججمنٹ کی ڈیلیوری(فیصلہ صادر)ہونا ہے‘‘۔ جسٹس صاحب نے فورا نے جواب دیا’’ ابھی ڈیلیوری پینس(Delivery pains)
میں مبتلا ہوں۔نتیجہ جلد معلوم ہو جاے گا‘‘ (ص ۹۵)
۶) جامعہ عثمانیہ کے کمرہ اساتذہ میں چند اساتذہ کے ساتھ خلیفہ عبدالحکیم‘ ڈاکٹر اقبال قریشی اور ڈاکٹر مظفر الدین قریشی بھی تشریف فرما تھے۔ایک ملاقاتی آے اور خلیفہ صاحب سے مخاطب ہوکر کہا’’ میں ڈاکٹر قریشی سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔خلیفہ صاحب نے الٹ کر ان سے سوال کیا کہ ’’ یہاں ابو جہل بھی ہیں اور ابو لہب بھی‘‘ آپ کس قریشی سے ملنا چاہتے ہیں؟(ص۱۲۱)

ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور اخلاقی و تہذیبی اقدار کے حامل بھی۔ ان میں بعض و اقعات کسی لطیفہ سے کم نہیں ہیں مگر دانشور حضرات کے لطائف بھی حس مزاح کو ایک مثبت سمت عطا کرتے ہیں اور تہذیبی روایتوں کی پاسداری کا درس بھی دیتے ہیں۔ کھچڑی کا ایک سلوگن ملاحظہ ہو۔مصنف کا بیان ہے کہ حاجی بشیر احمد صاحب حیدرآبادی طرز کے ناشتہ کی کھچڑی کے لوازمات یوں بیان کرتے تھے کہ ’’ کھچڑی تیرے چار یار ‘قیمہ‘ پاپڑ‘ گھی‘ اچار ‘‘۔
ان یادداشتوں اور سفرناموں میں چونکہ مصنف بذات خود شریک یا چشم دید گواہ ہے اس لیے یہ بہت حد تک متاثر کن ہیں۔ تبھی تو اگر آپ کتاب کا مطالعہ ایک مرتبہ شروع کرتے ہیں تو ختم ہونے تک اسے نہیں چھوڑتے۔ یہ بات ابن صفی کے قارئین اچھی طرح جانتے ہیں۔میرے بچّے ابھی اسکول میں پڑھ رہے ہیں جب انھوں نے اس کتاب کوپڑھناشروع کیاتو بس پڑھتے ہی رہے اور کہتے رہے کہ کتنی اچھی اسٹوریز ہیں۔ کیا یہ سچ ہیں؟یہ سوال ان بزرگان علم و ادب سے ہے جنھوں نے دنیا دیکھی ہے۔جن کے سامنے سلطنتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں۔جن کی آنکھوں نے برسوں کی تہذیب و ثقافت کی جھلکیاں دیکھی ہیں جو اپنے اسلاف کے کارناموں کے چشم دید گواہ ہیں ‘ ان سے ادبا گزارش ہے کہ وہ اپنی ان یادداشتوں کو ضبط تحریر میں لائیں جن سے تہذیبی روایتیں آگے بڑھتی ہیں تا کہ مستقبل میں کوئ بچہ یہ سوال نہ کرے کہ کیا یہ واقعات صحیح ہیں ؟۔ اپنی تحریریں خدا کے لیے نامور نقادوں یا دانشوروں کے لیے نہ لکھیں بلکہ ان معصوم بچوں کے لیے لکھیں جو اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف نہیں ہیں کیوں کہ انہیں تہذیب و ثقافت سے دور رکھتے ہوے صرف مقابلہ جاتی امتحانوں کے لیے جھونک دیا گیا ہے۔یہ معصوم بچے ہی ہندوستان کا مستقبل ہیں اور ہندوستان کو اپنی تہذیب و ثقافت پر ناز ہے۔
یقین کامل ہے کہ جناب غلام یزدانی صاحب اس کتاب کو انگریزی میں بھی شائع کریں گے تاکہ انگریزی ذریعہ تعلیم بچے بھی مستفید ہوسکیں۔ اس کتاب کا مطالعہ ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے جسے مصنف یا انجمن بکڈپو حمایت نگر ‘حیدرآبادسے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔

Share
Share
Share