ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم
اورینٹل اردو پی جی کالج حمایت نگر ،
حیدرآباد۔500029
قطب شاہی عہد میں تلگو ادب کا فروغ
قطب شاہی درباروں نے فارسی اور اردو ادب کو فروغ دیا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے لیکن ان مسلم درباروں نے مقامی اور علاقائی زبان و ادب اور ان کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو جو ترقی دی ہے وہ یقیناًحیرت کی بات ہے۔ ویسے مقامی عوام سے میل ملاپ بڑھانا، ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا، ان کی دلجوئی کرنا اور حسب ضرورت امداد کرنا یقیناًاسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا پھر اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی حکمت عملی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔
گولکنڈہ کے درباروں نے دیگر علاقائی زبانوں کے فروغ کے علاوہ تلگو زبان و ادب کو پروان چڑھانے میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اس ضمن میں گفتگو کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ تلگو زبان اور اس کے علاقہ پر روشنی ڈالی جائے تاکہ موضوع پوری طرح روشن ہوسکے۔
تلگو دراصل تینے (شہد) اور آگو (ہے یا ہونا) کا مرکب ہے۔ جس کے معنی شہد جیسی میٹھی زبان یا شہد کی سی مٹھاس کا ہونا ہے۔ دور قدیم کے تلگو شعراء ننّیا اور تکّنا نے تلگو کے لیے آندھرم اور تنگو کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ تلگو کو آندھرا باشا بھی کہا جاتا ہے اور آندھراپردیش کو وینگی بھی کہتے ہیں۔ وینگی دراصل تلگودیس کا وہ علاقہ ہے جو گوداوری اور کرشنا کے درمیان واقع ہے۔ رامائن اور مہاربھارت میں آندھرا کا لفظ جنوبی ہند کی ایک نسل کے لیے استعمال ہوا ہے جبکہ رامائن میں ایک اور جگہ یہ لفظ علاقہ کے معنوں میں برتا گیا ہے اور ایک روایت یہ بھی ہے ’’آندھراڈو، ایک حکمراں گزرا ہے اور جس علاقہ پر اس کی حکمرانی تھی وہ علاقہ آندھرا کہلایا جانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن تغلق نے اس علاقہ کا نام تلنگ رکھا تھا جو آگے چل کر تلنگی یا تلنگانہ ہوا۔آج کل اس نام کے بہت چرچے ہیں۔ تلگو رسم خط دایروی شکل کا ہوتا ہے جو دیکھنے میں بڑا خوبصورت لگتا ہے۔ تلگو حروف کی تعداد دیگر دراوڑی زبانوں سے زیادہ ہے۔ تلگو ماہرین کا کہنا ہے کہ تلگو رسم خط مکمل اور سائنٹفک ہے۔ جب کہ کوئی بھی رسم خط سائنٹفک نہیں ہے اور اسے ہونا بھی نہیں چاہئے۔ اردو عربی کی بہت سی آوازیں تلگو میں ادا نہیں کی جاسکتیں تبھی تو پل بھر میں عربی اردو کا کا ’’ذلیل‘‘ تلگو میں ’’جلیل‘‘ ہوجاتا ہے۔
بہمنی حکومت کے زوال کے بعد اس سلطنت کے پانچ ٹکڑے ہوگئے اور علاقہ تلنگانہ قطب شاہیوں کے زیر حکومت آگیا جس کا بانی سلطان قلی تھا اس سلطنت کے آٹھ حکمراں گزرے ہیں۔ انہیں سلاطین آندھرا بھی کہا جاتا ہے۔
قطب شاہی دور کے سلاطین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ مذہب کو ریاست سے الگ رکھا اور اپنے عقائد کو کبھی بھی امور سلطنت پر مسلط نہیں کیا۔ وہ انتہائی روادار اور روشن خیال تھے۔ اس ضمن میں ہندوستان کا کوئی بھی مسلم بادشاہ قطب شاہیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تبھی تو انہیں آندھراپردیش سے اس قدر ذہنی وابستگی اور جذباتی لگاؤ تھا کہ انہوں نے آندھرا کی تہذیب و ثقافت تلگو زبان و ادب اور رقص و موسیقی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان حکمرانوں میں اہم نام ابراہیم قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ اور ابوالحسن تانا شاہ نے دکن کی سیاست اور تہذیب پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ مشہور مورخ ڈاکٹر وینکٹ رمیا نے ’’سلاطین قطب شاہی کی رواداری‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’انہوں نے ہندوؤں کی مذہبی تعلیم، پوجا پاٹ اور مندروں کی نگہداشت کے لیے بڑے بڑے گاؤں وقف کرکے اپنی ہندو رعایا کا دل موہ لیا تھا۔ آج بھی دریائے کرشنا کے ساحل پر عبداللہ کے عہد کا ایک کتبہ موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایک گاؤں کسی وید کی برہمن کے نام وقف کردیا تھا تاکہ اس کی آمدنی سے پوجا پاٹ، قربانی اور وید شاستر کی تعلیم کے اخراجات کی پابجائی ہوسکے۔‘‘
سلطان قلی کی شہادت اور جمشید کی تخت نشینی کے بعد ابراہیم قطب شاہ نے وجیانگر ریاست میں سات سال تک پناہ لی اور اس دوران اس نے تلگو زبان و ادب اور تہذیب و تمدن کو نہایت قریب سے دیکھا بلکہ تلگو تہذیب اس کی روح میں رچ بس گئی تھی اور ان ہی لوگوں کی اخلاقی تائید سے گولکنڈہ پر قابض ہوا۔ مذہب و مسلک کے لحاظ سے اس نے بڑی وسیع النظری سے کام لیا۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ (۱) لکھتے ہیں :
’’اس کی اولاد بھی مختلف زبانیں بولنے والی اور مختلف مذہبوں کے ماننے والی عورتوں سے تھی۔ اس کا بڑا شہزادہ شاہ عبدالقادر کی ماں بیدر کے ایک مشہور مشائخ خاندان سے تھی۔ شہزادہ محمد قلی اور شہزادہ خدابندہ کی ماں ایک آندھرا خاتون بھاگیہ رتی تھیں۔ شہزادہ محمد امین کی والدہ ایران کے سادات سے تھیں اور شہزادہ حسین قلی ایک شیعہ خاتون کے بطن سے تھا۔ اس نے آندھراؤں، حبشیوں، دکنی مسلمانوں اور ایرانیوں کو اپنے دربار میں مساوی ترقی کے مواقع دیئے۔‘‘
گولکنڈہ کے سلاطین نے فارسی، اردو کے علاوہ تلگو زبان و ادب کے فروغ میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی ایسے کئی فرامین اور دستاویز ہاتھ لگے ہیں جو تلگو زبان میں تحریر کئے گئے تھے حالاں کہ درباری زبان تو فارسی تھی۔ خصوصاً ابراہیم قطب شاہ نے تلگو ادب اور تہذیب کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ دکن کا پہلا مسلمان حکمراں تھا جسے تلگو ادب اور تہذیب سے بے حد لگاؤ تھا تبھی تو اس نے اپنے دربار میں تلگو ادب اور شاعروں کی سرپرستی کی اس کے عہد میں گولکنڈہ تلگو علم و ادب کا مرکز بن گیا تھا اور تلگو زبان و ادب کو سیکھنا یا واقف ہونا نہ صرف باعث شان سمجھاجاتا تھا بلکہ تہذیب و شائستگی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ ڈی رامانجا راؤ ابراہیم کی تلگو دوستی کے بارے میں لکھتے ہیں:(۲)
’’ابراہیم کو اس کی ہندو رعایا عقیدت سے ملک بہرام و بھورام کے نام سے یاد کرتی تھی۔ وہ دکن کا پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے تلگو ادب سے گہری دلچسپی لی اور تلگو کے عالموں اور شاعروں کو ان کے حوصلے سے زیادہ نوازا۔ اس کے عہد میں گولکنڈہ تلگو علم و ادب کا مرکز بن گیا تھا۔۔۔ اس نے شہزادوں کے لیے تلگو زبان و ادب کی تعلیم کا خاص انتظام اور اہتمام کیا تھا۔‘‘
تلگو شعراء اور ادباء بھی ابراہیم کو بے حد عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ تبھی تو تلگو ادب میں کئی جگہ ابراہیم کو ’’ملکی بھراموڈو‘‘ اور ’’بھرام شاہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک تلگو شاعر نے ابراہیم کو رام کے نام سے یعنی رام بھراموڈو کہا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ابراہیم نے تلگو ادب سے محبت کی اور تلگو ادیبوں نے ابراہیم کو دیوتا کا درجہ دے رکھا تھا۔
قطب شاہی درباروں نے جہاں اردو، فارسی شعراء کی ہمت افزائی کی اور جہاں وجہیؔ ، احمدؔ ، خیالیؔ ، غواصیؔ ، ابن نشاطیؔ ، طبعیؔ ، امینؔ ، جنیدی، غلام علی اور سیوک جیسے باکمال شعراء گزرے ہیں وہیں تلگو زبان و ادب کے کئی ایک شعراء نے بھی اپنے کمال کا لوہا منوایا ہے۔ ڈاکٹر زینت ساجدہ (۳) نے کچھ شعراء کا تعارف پیش کیا ہے جبکہ ابراہیم کے دربار سے کئی ایک تلگو شعراء وابستہ رہے۔ ان میں اونکی گنگادھر کوی، پنی کنٹی تلاگنا، کندوکوری ردرا کوی، سارنگ تمیا، ٹینالی راما کرشنوڈو، شنکرا کوی، ویلاگاپوڈی وین گنا، انگاداسیا ریّا، واسی راجو راتیا، کانوکولا، نوانما راجو، بیجاراجو، وینکاٹا نادھوڈو، ایالا راجو، پنگلی سورنّا، راما راجو بھوشناڈو، مری گنٹی سنگاراپاریلو وغیرہ لائق ذکر ہیں۔
گولکنڈے کا ممتاز تلگو شاعر اونکی گنگادھر کوی ہے جس پر ابراہیم قطب شاہ کی خاص عنایت تھی اس نے اپنی مشہور تصنیف ’’تپتی سمورن اپا کھیانم‘‘ کو ابراہیم کے نام معنون کیا۔ اس نے ایک نظم میں ابراہیم کی سلامتی کی دعا مانگی ہے۔ جمال کڑپوی(۴) نے اس نظم کا اردو ترجمہ کیا ہے یا کہیں سے نقل کیا ہے۔ شاعر لکھتا ہے :
اے وشنو، ۔۔۔ شہنشاہوں کے شاہنشاہ ملک ابرام کو اپنی حفاظت میں لے لے
وہ (رام) جو امن کا پجاری ہے
وہ جو دیگر بادشاہوں کے لیے جگمگاتا ہیرا ہے
اے کرشنا۔۔۔ تو جو برستے بادل کی طرح ہے
اے لچھمی۔۔۔ تو ج دنیا کو روشنی عطا کرتی ہے
اے تلسی ۔۔۔ تو جو وشنو کے سینہ پر ہیرے کی چمک پیدا کرتی ہے
اے اندرا۔۔۔ تو جو رنگ و بو پیدا کرتی ہے
اے مالک۔۔۔ بادل کی گرج میں بنسری کی آواز پیدا کرنے والے بادل کے پانی سے دھرتی کی پیاس بجاھانے والی میری دعا سن لے
ابرام کو اپنی رحمت سے مالا مال کردے‘‘
پنی کنٹی تلاگنا ابراہیم کے دربار سے وابستہ اہم تلگو شاعر ہے اس کی تصنیف ’’یایاتی چرتر‘‘ تلگو ادب میں ممتاز مقام رکھتی ہے۔ قطب شاہی درباروں کا یہ کارنامہ ہے کہ ان کے عہد میں خالص تلگو (اچاّ تلگو) میں شعر گوئی کا رجحان پیدا ہوا۔ تصنیف یایاتی چرتر اس کی بہترین مثال ہے۔ اس نے ٹھیٹ تلگو شعر کہنے کی کامیاب کوشش کی ورنہ اس سے قبل تلگو ادب پر سنسکرت کا ہی غلبہ رہا ہے۔ ڈی رامانجا راؤ کے بقول یایاتی چرتر کی پیروی میں کئی شاعروں نے اچا تلگو میں نظمیں کہیں لیکن تلاّگنا کو جو کامیابی حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ کندوکوری ردرا کوی اور مرن گنٹی سنگراچاریہ کو بھی ابراہیم کی سرپرستی حاصل رہی۔ کندوکوری کی دوتصانیف ’’نرن کشاپاکھیانم‘‘ اور ’’سگریودجیم‘‘ کو بھی خاصی شہرت ملی جبکہ مرن گنٹی کی تصنیف دسرتھ راجانند ناچرترا کو بھی تلگو ادب میں انفرادیت حاصل ہے۔
ابراہیم قطب شاہ کے انتقال پر سارا تلگو علاقہ غم و اندوہ کی لہر میں ڈوب گیا کیوں کہ اس کے انتقال سے تلگو زبان، ادب اور تہذیب کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی ممکن نہیں۔ ایک تلگو شاعر نے ابراہیم کی موت پر برہما (موت کا خدا) کو برا بھلا کہا ہے جو چاٹوپدیامنی منجری میں شامل ہے۔
کیا تجھ کو اور کوئی بادشاہ نہیں ملا
دنیا میں بہت سے حاکم ہیں جو شر پھیلاتے ہیں
لوگوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں
کاش ان میں سے کسی کی جان لے لیتا
لیکن تو نے ایسے شہنشاہ کی جان لی ہے جو امن کا پجاری تھا
کیا تو پھر اس قسم کے عظیم انسان کی تخلیق کرسکتا ہے !
کیا یہ بات تیرے دست قدرت میں ہے ؟ ‘‘
ابراہیم قطب شاہ کے بعد محمد قلی قطب شاہ تخت نشین ہوا اور اس کے دور میں بھی علم و ادب کی سرپرستی برقرار رہی۔ ویسے یہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر ہے لیکن اس نے تلگو زبان و ادب کے فروغ میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیئے۔ اس کے دربار میں فارسی اور دکنی کے شاعروں کی طرح تلگو شعراء بھی باریاب ہوتے تھے۔ وہ خود بھی اپنے باپ ابراہیم کی طرح تلگو کا شاعر تھا مگر دونوں کا تلگو کلام ابھی تک دستیاب نہیں ہوسکا ہے۔ ڈاکٹر محمد علی اثر (۵) محمد قلی کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’محمد قلی قطب شاہ اپنے باپ، دادا اور چچا کی روش سے ہٹ کر اپنے آپ کو دکن کی جغرافیائی خصوصیات سے اس طرح ہم آہنگ کرلیا تھا کہ وہ تلنگانہ کا راجہ معلوم ہوتا تھا۔ اس نے اپنے آباواجداد کے ترکستانی لباس کو ترک کرکے مقامی لباس وضع قطع اور طور طریق اپنائے۔ یہاں تک کہ مقامی زبان تلگو پر بھی عبور حاصل کیا۔ قطب شاہی سلاطین میں وہ پہلا اور آخری بادشاہ ہے جس نے داڑھی کے بجائے مونچھ رکھی اور اپنے کندھوں پر مقامی راجاؤں کی طرح ’’انگ وسترم‘‘ کپڑا یا چادر اوڑھا اور ایرانی وضع کے کوٹوں اور قاقم و سنجان کے نیمچوں اور شملوں کے بجائے دکن کی آب و ہوا کے مطابق دیسی ململ کے ہلکے پھلکے اور مہین کپڑے زیب تن کئے۔‘‘
محمد قلی قطب شاہ کے دربار سے وابستہ تلگو شعراء میں پٹامٹیا، سومایاجی گنیش پنڈیتلو، سارنگ تمیا، ملاریڈی اور سورابھی مادھورایا قابل ذکر ہیں۔ سارنگ تمیا کو قلی قطب شاہ اور سلطان قطب شاہ دونوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ اس نے ’’ویجنتی ولاسم‘‘ لکھی جو تلگو ادب کی منفرد تصنیف مانی جاتی ہے۔ ملاریڈی بھی قطب شاہ کے دربار سے وابستہ تلگو شاعر ہے جس نے شٹ چکروتی، شیوادھرموترم اور پدماپران قابل ذکر تصانیف لکھیں۔ ڈاکٹر زور(۶) کے مطابق اگر ابراہیم کے بعد محمد قلی جیسا حکمراں تخت نشین نہ ہوتا تو گولکنڈہ کا تمدن اس انتہائی عروج کو نہ پہنچ سکتا جس کی وجہ سے سرزمین دکن اب تک مشہور ہے۔
عبداللہ قطب شاہ کے دربار میں بھی فارسی، دکنی اور تلگو کو مساویانہ ترقی حاصل ہوئی۔ اس کے عہد میں رقص اور موسیقی کو بھی کافی عروج حاصل ہوا۔ یہ دور دکنی زبان کے لیے سنہری دور مانا جاتا ہے کیوں وجہیؔ ، غواصیؔ اور ابن نشاطیؔ جیسے شعرا نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ شہادت کربلا کے واقعات تلگو گیتوں میں بیان کئے جانے لگے۔ سارا آندھراپردیش کے کسان اپنا ہل چلاتے ہوئے آج بھی یہ گیت گاتے ہیں۔
قطب شاہی خاندان کے آخری فرماں روا ابو الحسن تانا شاہ نے بھی دکنی تہذیب اور تلگو زبان و ادب کی سرپرستی اسی خلوص و محبت کے ساتھ فرمائی جیسے ان کے آباء نے فرمائی تھی۔ ان کے دربار سے وابستہ تلگو کا مشہور شاعر گوپنا گزرا ہے جسے راما داسو کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے ’’سارادھی شاناکامو‘‘ کے نام تصنیف لکھی جو آج بھی مقبول ہے۔ اس کی ایک اور کتاب ’’راماداسو کیرتَنلو‘‘، بھی بہت مشہور ہوئی۔ یہ دونوں تصانیف ہندو مذہبی عقائد سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی لیے آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ اکناؔ اور مادناؔ نامی دو ہندو وزراء تاناشاہ کے دربار سے وابستہ تھے۔ دربار سے وفاداری اور عوام کی خدمت گزاری ان دونوں کا ایمان تھا۔ کے وی بہوپال راؤ(۷) کا کہنا ہے کہ ’’ہندوستان کی تاریخ میں اس نوعیت کی اور دوسری مثال نظر نہیں آتی۔ مادنا ایک دیانتدار محب وطن تھا۔ میر عالم نے اس کا صریحی اعتراف کیا ہے۔ مادنا لوگوں میں سے آیا، لوگوں کی خدمت کرتا رہا اور لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے قربان ہوگیا۔‘‘
جمال کڑپوی(۸) نے قطب شاہی سلاطین کی فیاضی اور رواداری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اس عہد میں نہ صرف ہندو شعراء و ادبا کی سرپرستی کی گئی بلکہ بہت سے
ہندوؤں کو حکومت کی جانب سے بڑی بڑی جائیدادیں بھی دی گئیں۔۔۔ قطب شاہی دور میں عموماً ہندوؤں کی اور خصوصاً برہمن عالموں کی بڑی قدر ہوئی۔ ’’کوچوپوڈی‘‘ مقام ان لوگوں کے حوالے کردیا گیا جو آرٹ اور ادب میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس طرح کوچوپوڈی ناٹک اور سنگیت وجود میں آئے جن کو شاہی سرپرستی حاصل تھی۔‘‘
سلاطین گولکنڈہ نے سارے علاقے کو اتحاد، اخوت اور بھائی چارگی کا مرکز بنادیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف اردو، فارسی اور تلگو شعرو ادب کی سرپرستی فرمائی بلکہ خود بھی ان زبانوں میں طبع آزمائی کی۔ وہ علم پرور سلاطین تھے جنہوں نے مقامی تہذیب و معاشرت کو گلے لگایا اور اسلامی روایتوں کے ساتھ ساتھ ان کو بھی پروان چڑھایا۔ شعر و ادب، موسیقی، رقص، تعمیرات میں نہ صرف اسلامی ثقافت کا عکس ملتا ہے بلکہ مقامی تہذیب و تمدن کی پرچھائیاں بھی نظر آتی ہیں۔ بلکہ ڈاکٹر جمیل جالبی(۹) کا کہنا ہے کہ ’’قطب شاہی بادشاہوں کی ایک مشترک خصوصیت یہ تھی کہ وہ سب کے سب اعلی تعلیم سے بہرہ ور تھے۔ انوہں نے ایک طرف اپنے نسلی خصائل باقی رکھے اور اسلامی علوم کو رقی دی اور دوسری طرف اپنے ملک کے تہذیب و تمدن کو اپناکر ایک ’’تیسرا کلچر‘‘ پیدا کیا جس میں دونوں کلچر کے صحت مند عناصر موجود تھے۔‘‘ ہندوستان کے کسی شاہی دربار نے اس قدر فیاضی اور علم پروری کا مظاہر نہیں کیا جتنا قطب شاہی درباروں نے انجام دیا ہے اور یہ سارے عالم کے لیے ایک آئیڈیل شاہی دربار ہیں۔ جن کی جتنی بھی پذیرائی کی جائے وہ کم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
۱۔ مضامین ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور، جلد سوم، زیر ترتیب سید رفیع الدین قادری، ص ۲۵
۲۔ تلگو ادب کی تاریخ، از ڈی رامانجا راؤ، زینت ساجدہ، سن اشاعت ۱۹۶۰ ء، ص ۴۱
۳۔ تلگو ادب کی تاریخ ، ص ۱۳۸
۴۔ دبستان گولکنڈہ، مرتب ڈاکٹر محمد علی اثر، ۱۹۸۱ ء ، ص ۱۶۰
۵۔ تحقیقاتِ اثر از پروفیسر محمد علی اثر، ۲۰۰۵ ء ، ص ۱۵،۱۴
۶۔ کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ، از ڈاکٹر زور، ۱۹۴۰ ء ، ص ۱۹۹
۷۔ وزرائے عظام قطب شاہان از کے وی بہوپال راؤ، حیدرآباد، ص ۱۷۶
۸۔ دبستان گولکنڈہ، ص ۱۶۷
۹۔ تاریخ ادب اردو (جلد اول)، از ڈاکٹر جمیل جالبی، ۲۰۰۴ ء، ۳۸۲