دہشت گرد( افسانہ)
محمد انیس فاروقی ۔ٹولی چوکی حیدرآباد
’’مئی لارڈ، یہ شخص جو اپنے چہرے پر مقدس داڑھی کا نور چھلکائے اور معصومیت کا نقاب تانے ملزم کے کٹھرے میں کھڑا خود کو بے گناہ ظاہر کرنے کی سعی کررہا ہے ، ایک انتہائی ظالم ، جابر اور وحشت ناک دہشت گرد ہے جس نے کئی معصوموں کی جان لی ہے۔ اس کے ہاتھ کئی بے گناہوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مئی لارڈ ، اس کی دہشت گردی نے کئی دوشیزاؤں کی مانگ سے سیندور کھرچ ڈالا اور اُنھیں سہاگن سے ودھوا ہونے پر مجبور کیا۔ بیوگی کا بے داغ لباس اُن کا مقدر بنا ڈالا۔ کئی ماؤں کی گود سونی کردی اور کئی معصوم بچوں کو ماں کے ممتا بھرے آنچل سے محروم کیا۔ یہی نہیں مئی لارڈ ، اُس کی وجہ سے کئی لہلاتی کھیتیاں بنجر زمین بن گئیں اور کئی بستیاں اس کی دہشت گردی کی وجہ سے صحرا کا منظر پیش کرنے لگیں۔ اس لئے مئی لارڈ ، میری عدالت سے درخواست ہے کہ ایسے خطرناک دہشت گرد کو اتنی سخت سزا دے کہ ہر دیکھنے والا دہل جائے اور ایسی عبرت حاصل کرے کہ دوبارہ کوئی اور دہشت گرد جنم نہ لے سکے۔ مئی لارڈ ، ملزم کا گناہ جتنا سنگین ہے اُس کی سزا بھی اُتنی ہی عبرتناک اور بدترین ہونی چاہئے۔ مئی لارڈ مجھے اس سے آگے کچھ اور کہنا نہیں ہے !‘‘ سرکاری وکیل نے اپنی بات ختم کی اور اپنی نشست پر جا بیٹھے۔
آرڈر ، آرڈر ، جج صاحب نے ہتھوڑا ٹیبل پر مارتے ہوئے کہا تو عدالت میں بیٹھے ہوئے مرد و خواتین جو ایک دوسرے سے اُس کیس کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے لگے تھے یک بیک خاموش ہوگئے۔ عدالت میں پھر پُراسرار خاموشی چھا گئی۔ جج صاحب نے ملزم کے کٹھہرے میں کھڑے گُرمیت سنگھ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ’’مسٹر سنگھ ، ابھی ابھی سرکاری وکیل صاحب نے جو الزامات تم سے منسوب کئے ہیں، کیا تمہیں قبول ہے۔؟ اگر تم اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو تو تمہیں پوری پوری آزادی ہے۔ تم اپنی صفائی میں جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہہ سکتے ہو ، خود کہو یا پھر اپنے وکیل صفائی کے ذریعے۔!‘‘
’’جج صاحب ، اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے اس کیس کی پیروی خود کرنا چاہوں گا۔ جو کچھ میں اس عدالت کو بتا سکتا ہوں ، کوئی بھی وکیل صفائی نہیں بتائے گا۔ جج صاحب میری آپ سے استدعا ہیکہ یہ عدالت میری سابقہ زندگی کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ تب اس عدالت کو پتہ چلے گا کہ آیا میں واقعی دہشت گرد ہوں ، یا مجھے دہشت گرد بنایا گیا ہے۔ جج صاحب سرکاری وکیل صاحب نے جو ، جو الزامات مجھ پر لگائے ہیں، اس کی سچائی پر اس عدالت کو یقین ہوجائے گا تو جج صاحب آپ جو بھی سزا دیں گے مجھے قبول ہوگی ۔!‘‘ ملزم گرمیت سنگھ نے جج صاحب سے درخواست کی تو اُس کے چہرے پر ایک عزم نمایاں تھا۔
’’ٹھیک ہے عدالت تمہاری یہ درخواست قبول کرتی ہے‘‘۔ جج صاحب نے کہا اور پھر اُنھوں نے سرکاری وکیل کو ہدایت دی کہ معزز عدالت کو ملزم کی سابقہ زندگی کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔ پھر اس کیس کی سماعت دو مہینے کے لئے ملتوی کردی گئی تاکہ مطلوبہ معلومات حاصل کرنے کے لئے مناسب وقت دیا جائے۔
وقت آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔ گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ وقت کی سوئی اپنے دائرے میں گھومتی رہی۔ گھنٹے دنوں میں اور دِن ہفتوں میں بدلتے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے دو مہینے بیت گئے۔ اس وقفے میں سرکاری وکیل صاحب نے پولیس کے اعلیٰ حکام کی مدد سے گرمیت سنگھ کی سابقہ زندگی کے بارے میں تفصیلات حاصل کرلی تھیں۔ دو مہینے کا وقت گزر چکا تھا اور آج پھر گرمیت سنگھ کے کیس کی سماعت تھی۔
آج عدالت نہ صرف عوام بلکہ اخباری نامہ نگاروں سے بھی بھری ہوئی تھی۔ پولیس ملزم گرمیت سنگھ کو بحفاظت عدالت تک لاچکی تھی۔ جج صاحب کا انتظار تھا۔ جیسے ہی جج صاحب اجلاس پر تشریف لائے ، چپراسی نے آواز بلند کی ’’ملزم گرمیت سنگھ عدالت میں حاضر ہو۔!‘‘ پولیس انسپکٹر راٹھوڑ اور دو جوان گرمیت سنگھ کو ہتھکڑیوں کے ساتھ عدالت میں ملزم کے کٹھہرے میں لاکھڑا کیا۔ جیسے ہی ملزم کٹھرے میں کھڑا ہوا عدالت میں موجود لوگوں کی سرگوشیوں کی آوازیں فضاء میں بلند ہونے لگیں تو جج صاحب نے ہتھوڑا میز پر آہستہ آہستہ مارتے ہوئے کہا ’’آرڈر ، آرڈر ، سرکاری وکیل صاحب ، جیسا کہ اس سے پہلے اس عدالت نے حکم دیا تھا ، یہ عدالت ملزم کی سابقہ زندگی کے بارے میں جاننا چاہتی ہے‘‘۔
مئی لارڈ ، ملزم کی سابقہ زندگی کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
گرمیت سنگھ کا تعلق پنجاب کے ایک عزت دار گھرانے سے ہے۔ اس کے باپ دادا گو کہ کاشت کار تھے لیکن اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ گرمیت سنگھ بھی پوسٹ گریجویٹ ہے ، اس نے کامرس میں ماسٹرس ڈگری حاصل کی۔ اس کی سابقہ زندگی بہت ہی صاف ستھری گزری۔ وہ ایک نیک اور رحم دل نوجوان تھا۔ کمزوروں کی مدد کرنا اور ناانصافی کے خلاف آواز اُٹھانااُس کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔ اُس نے جہاں کہیں بھی کمزوروں پر ظلم ہوتے دیکھا ، اُس کے خلاف آواز اُٹھائی اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے تک دم نہیں لیا۔ مئی لارڈ ، جیسا کہ زمینداروں کے متعلق کہا جاتا رہا کہ اکثر و بیشتر زمینداروں نے غریب عوام پر ظلم ڈھایا ہے۔ کمزوروں کی زمینیں غصب کی ہیں اور بعض اوقات اُن کی سماجی عزت اور بہو بیٹیوں کی عصمت پر بھی وار کیا ہے۔ ایسے ہی چند واقعات کے پس پردہ جب اُس نے آواز بلند کی تو اس کی زندگی خطرہ میں پڑگئی۔ ایسے ہی ایک زمیندار نے جوکہ سیاسی طاقت بھی رکھتا تھا اور وزیروں و سرکاری اعلیٰ افسروں سے جس کے قریبی روابط تھے ، گرمیت سنگھ پر دو ، بار قاتلانہ حملہ کروایا لیکن مئی لارڈ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے کے مصداق گرمیت سنگھ صاف بچ نکلا اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ لیکن جب گرمیت سنگھ سے انتقام نہ لیا جاسکا تو مئی لارڈ ، اُس کے دشمن نے اُس کے والدین اور گھر والوں کو پریشان کرنا شروع کردیا۔ مئی لارڈ ، بالکل فلموں میں بتائے جارہے واقعات کی طرح ایک دن موقع پاکر گرمیت سنگھ کی جوان بہن کا اغواء کرلیا گیا اور پھر وہ کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہی۔ اِس اندوہناک واقع کو وہ برداشت نہ کرسکی اور اپنی جان گنوا بیٹھی۔ مئی لارڈ ، اُس نے کنویں میں چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی۔ جوان بیٹی کی موت پر ایک جانب بوڑھے ماں باپ پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تو دوسری جانب گرمیت سنگھ کا جوان اور گرم خون انتقام کی آگ میں کھول اُٹھا اور مئی لارڈ ، یہی وہ واقعہ ہے جس نے گرمیت سنگھ کی زندگی بدل ڈالی۔ وہ ایک نیک اور رحم دل نوجوان سے آتنک واد اور دہشت گرد بن گیا۔ اُس نے جوابی کارروائی میں اُس زمیندار کی بیٹی کا بھی وہی حشر کیا جو کہ اُس کی جوان بہن کا ہوا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اُس کے ساتھیوں نے اُس کے اناج کے گودام کو جلاکر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا اور اُس کے جوان بیٹے کا بھی اغواء کرڈالا۔ اس واقعہ کو ہوئے پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن نہ ہی پولیس ہی اُسے ڈھونڈ پائی اور نہ ہی وہ خود واپس لوٹا۔ وہ زندہ بھی ہے یا مرچکا ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ مئی لارڈ ، اسی طرح کے کئی واقعات میں گرمیت سنگھ پھنستا چلا گیا اور اتنا دُور نکل گیا جہاں سے واپسی غالباً ممکن نہ تھی۔ نتیجتاً آج وہ ایک خطرناک دہشت گرد کے روپ میں اس عدالت میں مجرم کے کٹھہرے میں کھڑا ہے۔! مئی لارڈ ، ملزم گرمیت سنگھ پر لگائے گئے ایک ایک الزام کی صداقت عدالت کے سامنے آچکی ہے اور ملزم خود اس بات کی گواہی دے گا کہ اُس کے متعلق جو معلومات عدالت کو فراہم کی گئی ہیں، وہ سچائی پر مبنی ہیں یا پھر جھوٹ کا پلندہ ۔ مئی لارڈ ، میں عدالت کا زیادہ وقت ضائع نہ کرتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ ملزم گرمیت سنگھ نہ صرف ایک مجرم ہے بلکہ ایک خطرناک دہشت گرد بھی۔ اگر ایسے مجرم کو سخت سخت سزا نہ دی جائے تو آج کے سماج کا ہر نوجوان گرمیت سنگھ کے نقش قدم پر چل نکلے گا اور یہ سماج ، نیکی ، سچائی اور شرافت ، صرف کتابوں کے اوراق پر ڈھونڈتا رہ جائے گا۔ کسی سہاگن کا سہاگ باقی نہ رہے گا اور نہ کسی بھائی کی بہن کی عصمت محفوظ رہ پائے گی۔ مئی لارڈ ، ملزم گرمیت سنگھ کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ سننے والوں کے رونگٹھے کھڑے ہوجائیں اور دیکھنے والا کبھی اس طرح کے جرم کا مرتکب نہ ہونے پائے۔ مئی لارڈ ، عدالت سے میری یہی درخواست ہے۔!‘‘
سرکاری وکیل سے تفصیلات جاننے کے بعد جج صاحب نے گرمیت سنگھ سے استفسار کیا ’’مسٹر سنگھ ، تم نے سنا ، سرکاری وکیل صاحب نے تمہارے بارے میں جو کچھ کہا ، کیا وہ سب کچھ سچ ہے یا پھر جھوٹ کا پلندہ ۔ تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے تو یہ عدالت تمہیں موقع دیتی ہے۔ اگر تم اپنی صفائی میں اس عدالت کو کچھ بتانا چاہتے ہو تو بتا سکتے ہو۔!‘‘
ہاں ، ہاں جج صاحب ، جو جو الزامات سرکاری وکیل صاحب نے مجھ پر لگائے ہیں وہ سچ ہیں اور مجھے اِن سے انکار نہیں اگر میں اِن سے انکار کردوں تو میرا واح گرو مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ لیکن جج صاحب میری اس معزز عدالت سے درخواست ہے کہ یہ عدالت اُن عوامل کا جائزہ لے جوکہ ایک رحم دل اور نیک انسان کو ، جس نے کمزوروں کی مدد کے لئے ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمت کی اور اُس کے نتیجہ میں آج اُسے عدالت کے کٹھہرے میں ایک مجرم کے روپ میں کھڑا ہونا پڑا۔ جج صاحب جس کے باعث میرے بے داغ ماتھے پر دہشت گرد نام کا کلنک لگ گیا اُس کے خلاف پولیس کے اعلیٰ حکام اور سید کھدرپوش لیڈروں نے کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس لئے کہ وہ اِن لوگوں کی جیبیں اپنی غیر قانونی کمائی ہوئی دولت سے گرم کرتا ہے۔ ان لیڈروں کے لئے اپنے خزانے لٹاتا ہے۔ لاکھوں روپے اس لئے خرچ کرتا ہے کہ کروڑوں روپئے کما سکے اور سماج میں ’’کروڑی مل‘‘ کہلائے۔ میں اس عدالت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اُس کروڑی مل کو گرفتار کرکے اُسے سخت سے سخت سزا کیوں نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے کئی معصوم نوجوان دہشت گرد بننے پر مجبور ہورہے ہیں۔ جج صاحب ، عدالت اور قانون کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ مجرم کو نہیں جرم کو ختم کرے اور یہ معلوم کرے کہ دہشت گرد کو دہشت گرد بنانے والا کون ہے۔ پہلے اسے ختم کرنا ہوگا۔ تب کہیں دہشت گردی اور آنتک واد ختم ہوسکتا ہے۔ لیکن قانون اور عدالت کو صرف ثبوت اور گواہ چاہئے۔ جج صاحب میری آپ سے استدعا ہے کہ آپ یہ حکم جاری کریں کہ سیٹھ کروڑی مل کو فوراً گرفتار کیا جائے کیونکہ اُس کے خلاف قانون کو درکار ثبوت اور گواہ دونوں ہی میری شکل میں موجود ہیں۔ جج صاحب آپ مجھے جو بھی سزا دیں گے مجھے قبول ہے لیکن جج صاحب میرا جرم سیٹھ کروڑی مل کے جرم سے کئی گنا کم ہے کیونکہ دہشت گرد سے زیادہ سنگین مجرم دہشت گرد بنانے والا ہوتا ہے۔ اس لئے جج صاحب سیٹھ کروڑی مل کو جو بھی سزا دی جائے گی وہ مجھے دی جانے والی سزا سے دوگنی ہونی چاہئے۔ کیوں کہ اُس کے خلاف ثبوت بھی میں ہوں جسے اُس نے ایک رحم دل اور نیک نوجوان سے دہشت گرد بنا ڈالا اور گواہ بھی میں ہی ہوں کیوں کہ میری دہشت گردی اُسی کی دین ہے۔ جج صاحب اُسے فوراً گرفتار کروائیں اور اُس پر مقدمہ چلاکر اُسے کیفر کردار تک پہنچائیں اور اتنی سخت سزا دیں کہ اُس کی روح تک کانپ اُٹھے۔ بس جج صاحب اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے اور میں آپ کی دی ہوئی سزا کا منتظر ، آپ کا حکم سر آنکھوں پر لینے کے لئے تیار ہوں ۔!‘‘
گرمیت سنگھ کا اقبالی بیان سن کر نہ صرف جج صاحب بلکہ سرکاری وکیل ، حاضرین عدالت عوام اور پریس کے نامہ نگار ، ہر ایک کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں کیونکہ سیٹھ کروڑی مل کا نام نہ صرف ریاست بلکہ قومی سطح پر بھی بہت مشہور تھا۔ سماج میں اُس کا ایک مقام تھا۔ وہ کئی فلاحی اداروں سے وابستہ تھا اور کئی تنظیموں کا صدر بھی۔ عوام حیران تھے کہ بے داغ سفید پوشی کے پیچھے اتنا گھناؤنا کردار بھی چھپا ہوسکتا ہے!
دوسرے دن کے سارے اخبارات گرمیت سنگھ اور سیٹھ کروڑی مل کی تصاویر اور سرخیوں سے بھرے پڑے تھے۔ گرمیت سنگھ کیس کی تفصیلات نمایاں طور پر دی گئی تھیں۔ جج صاحب نے حکم دیا تھا کہ سیٹھ کروڑی مل کو فوراً گرفتار کرکے اس پر مقدمہ چلایا جائے اور گرمیت سنگھ کو اُس کے اقبال جرم اور خطرناک دہشت گردی کے جرم میں اُس کی سابقہ صاف ستھری زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے دس سال قید بامشقت کی سزا دی گئی تھی اور اگر گرمیت سنگھ جیل میں نیک نامی سے اپنی سزا کی تکمیل کرتا ہے تو یہ سزا مستقبل میں کم بھی کی جاسکتی ہے ۔ !
تنظیم حقوق انسانی نے گرمیت سنگھ کی حمایت میں ساری ریاست میں جلوس و جلسوں کا اہتمام کیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ اصل مجرم سیٹھ کروڑی مل کو فوراً گرفتار کرے اور اُس پر مقدمہ چلاکر سخت سے سخت سزا دی جائے۔ جب عوام بھی اس تنظیم کا ساتھ دینے لگے تو پولیس کے حکام نے حکومت کی ایماء پر سیٹھ کروڑی مل کو گرفتارکیا اور اُس پر مقدمہ چلایا۔ سیٹھ کروڑی مل نے وہ سارے الزامات قبول کرلئے جوکہ گرمیت سنگھ نے اس پر لگائے تھے۔ قانون انسداد دہشت گردی کے تحت اس مقدمہ میں اُسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ خبر جب ، جیل میں سزا کاٹنے والے گرمیت سنگھ کو سنائی گئی تو اُس نے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اپنی اشکبار آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’اے واحِ گرو آپ کی عدالت میں دیر ہے پر اندھیر نہیں ہے۔!‘‘ پھر اُس نے عہد کیا کہ سزا کے ختم ہونے پر وہ بقیہ زندگی کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کرتے ہوئے گزارے گا اور اپنی جبیں پر لگے دہشت گرد کے کلنک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا ڈالے گا۔!
One thought on “افسانہ ۔ دہشت گرد ۔ از ۔ محمد انیس فاروقی”
Acha afsana hai ,pasand aaya.mubarak