افسانہ: گِرتا دام
تحریر : ابن آدم
وہ جب تک گاؤں میں رہے موتی، بیل گاڑی کے پیچھے پیچھے چلتارہا۔ جیسے اُسے اندیشہ ہو کہ بیل گاڑی پر لدی ہوئی بوریاں کوئی چُرا لے گا اور جب گاؤں پیچھے رہ گیا، تب وہ اپنی چمکیلی آنکھوں سے چنّوکی طرف دیکھنے اور اس کے آس پاس منڈلانے لگا۔ ایسا لگتاتھاکہ اب وہ مطمئن ہے ۔چنّو بھی اُس کی اس توجہ سے خوش ہوگیا۔
چنّو اُسے پکارتاتو وہ اُس کے بالکل قریب آکر چلنے لگتا اورجب چنّو چمکارتاتو وہ اپنی دُم ہلاتا اور اپنا چہرا بیل گاڑی سے نیچے لٹکنے والے چنّو کےپیروں سےرگڑتا ۔اس کے ایسا کرنے سے چنّو کے پیروں میں گدگدی ہوتی اور وہ ہنس کر جلدی سےاپنے پیر سمیٹ لیتا۔ کچھ دیر بعد موتی دوڑ کر بیل گاڑی کے نیچے چلا گیا۔
’’دیکھو باپو! موتی گاڑی کے نیچے چلاگیا۔وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہی چل رہاہے۔‘‘
چنّونے بغل میں بیٹھےاپنے باپ ہری سے کہا۔ہری ،بیل گاڑی چلارہاتھا۔اُس کا منجھلا بھائی سُریش گاڑی پر بوریوں پر بیٹھا ہوا تھا۔ چنّو کی بات سن کروہ ہنس پڑا۔ہری نے مسکرا کر چنّو کو دیکھا اور کہا،’’ یہ تو کتّوں کی عادت ہوتی ہے بیٹا۔‘‘
’’ایسا کیوں ہے باپو؟‘‘چنّونے حیرانی سے پوچھا۔
’’پتانہیں بیٹا! مَیں نے اپنے باپوجی سے سناتھا کہ کُتّے ایسا سمجھتے ہیں کہ بیل گاڑی وہی کھینچ رہے ہیں۔ !!ہرّرر!!ہرّرر!!۔۔ہیّا!!‘‘
’’اس کا کیا مطلب ہے باپو؟‘‘چنّونے پوچھا۔
بیل گاڑی کی رفتار کم ہونے لگی تو ہری نے بیلوں کی پیٹھ پر چابک کی لکڑی سے ٹہوکے دیتے ہوئے کہا،’’ چلو بھئی !!! ہمیں دیر ہورہی ہے۔ ‘‘
’’کہونا باپو! کتّے بیل گاڑی کے نیچے کیوں چلتے ہیں؟بتاؤناباپو۔‘‘ چنّو نے ہری کا چابک والاہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا۔
ہری نے چابک رکھ کر آستین سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کہا،’’ بیل گاڑی کے نیچے چلتے ہوئے اُنھیں اپنی بڑائی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے چلنے کی وجہ سے گاڑی چل رہی ہے اورسب کام ہو رہے ہیں۔ایسا سمجھ کر وہ خوش ہوجاتے ہیں۔‘‘
چنّو نے کہا،’’ سچ ہی تو ہے۔ موتی بہت سارے کام کرتاہے۔‘‘
ہری نےحیرت بھری نظروں سے اُس کی طرف دیکھ کر پوچھا،’’ اچھا! کون سے کام کرتا ہے تیرا موتی؟‘‘
چنّونے کہا،’’ وہ کھیتوں میں کسی کو گھسنے نہیں دیتا۔‘‘
اس بار بوریوں پر بیٹھے سُریش نے پوچھا، ’’اور!!؟؟‘‘
’’وہ ہمارے گھر کی رکھوالی بھی کرتاہے۔‘‘
چنّو نے نظریں اُٹھا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اس بارہری نے پوچھا،’’ اور؟؟‘‘
چنّونے سوچتے ہوئے کہا،’’ وہ میرے ساتھ اسکول بھی توجاتاہےباپو!‘‘
’’اور بہت جلد چوتھی ککشا پاس کرلے گا۔‘‘ سُریش نے قہقہہ لگاتے ہوئےکہا۔
ہری بھی ہنسنے لگا۔چنّو نے منہ پھلا لیا تو ہری نے کہا،’’ ارے ، تُوغصّہ کیوں ہوتاہے! چل مان لیا کہ تیرا موتی بہت کام کا ہے۔مَیں کوئی استاد یا گیانی نہیں ہوں۔مَیں نے تو صرف وہ بات کہی تھی جو سب کہتے ہیں۔ ‘‘
چنّو نے پوچھا،’’ کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’یہی کہ بیل گاڑی کے نیچے چلنے والا کتّا ایسا سمجھتا ہے کہ گاڑی وہی کھینچ رہاہے۔‘‘
چنّونے پوچھا،’’تو کیا ہمارا موتی بھی یہی سمجھ رہا ہے؟‘‘
ہری نے چنّو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،’’ تُو سیانا ہورہا ہے۔ ہاں موتی بھی یہی سوچ رہا ہوگا کہ اگر وہ رُک گیاتو ہم منڈی تک نہیں پہنچ سکیںگے۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیار سے ’چچ !!چچ!!‘ اور ’ہُرّرر!! ہُرّرر!! ‘ کی آوازیں نکال کر بیلوں کی کمر تھپتھپانے لگا۔ بیل گاڑی، اناج کی بوریوں سے بھر ی ہوئی تھی۔گاڑی کو کھنچنے کے لیے بیل پوری طاقت لگارہے تھے۔راستے میں اوبڑکھابڑ یا چڑھائی آتی اور بیل گاڑی رینگنے لگتی توہری بے چین ہوجاتا۔وہ بیلوں کی دُم پکڑ کر امیٹھنے لگتا۔ ایسا کرنے سے بیل بدک جاتے اور گاڑی کی رفتار پھر تیز ہوجاتی۔ یہ سب دیکھ کر چنّو بے چین ہورہاتھا۔منڈی اُن کے گاؤں سے قریب ہی تھی۔ ٹریکٹراور موٹرگاڑی سے کچھ گھنٹوں کا ہی سفر تھا اور ہری کے پاس دونوں ہی نہیں تھے۔ منڈی میں اناج فروخت کرنے کے لیے ، ہمیشہ کی طرح ،وہ، سُریش کے ساتھ صبح سویرے ہی گاؤں سے چل پڑتا تھا۔ منڈی کی سیر کرانے کے خیال سے اس باراس نے چنّو کو بھی ساتھ لے لیاتھا۔ برداشت سے باہر ہوگیا تو چُنّونے کہا، ’’باپو! باربارگبرو اور سبرو کی دُم کیوں مروڑتے ہو! اُنھیں درد ہوتا ہوگا نا!‘‘
سُریش پھرہنس پڑا۔ ہری نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’ تو پھرتُو ہی بتاکہ مَیں کیاکروں؟‘‘
چنّو نے کہا،’’وہ دونوں گاڑی کھینچ تو رہے ہیں۔پھر مارتے کیوں ہوباپو!‘‘
ہری نے کہا،’’ہم منڈی میں دیر سے پہنچے تو اناج کے دام کم ملیں گے اور اگر دام کم ملے تو ہم کھائیں گے کیا؟ اور انھیں کیا کھلائیں گے؟‘‘
چنّونے سوچتے ہوئے کہا،’’ دیر سے پہنچنے پر دام کیوں کم ملیں گے بھلا؟‘‘
ہری نے کہا،’’ منڈی میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔دیر سے آنے والوں کواپنا اناج کم دام میں ہی بیچنا پڑتا ہے۔ اب تُو ہی بتا کہ مَیں ان کونہ ماروں تو کیاکروں؟ کھاکھاکر موٹے ہو گئے ہیں تیز چلتے بھی تو نہیں۔‘‘
چنّو تھوڑی دیر سوچتا رہا اور پھر اُس نے سمجھ لیا کہ دیرسے پہنچنے والوں کو سزادینے کے لیے منڈی والے اناج کم دام میں خریدتے ہوں گے۔کیوں کہ دیر سے پہنچنے پر اسکول میں اُسے بھی سزادی جاتی تھی۔ اس پہیلی کوحل کرلینے کے بعد وہ موتی کوپیار سے دیکھنے اور پکارنے لگا۔موتی اپنی زبان لٹکائے، بیل گاڑی کے دائیں طرف چلنے لگتا تو کبھی بائیں جانب۔ کبھی وہ بیلوں کےآگے آگے دوڑتا۔وہ کہیں بھی ہوتا چنـو کے آواز دینے پروہ اس کے قریب آکر اُچھلنے لگتا۔ وہ سوکھی ندی کی پُلیا سے گزرنے لگے تونیچے رہنے والا ایک کتّا بھی گاڑی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ موتی نے پہلے تو اُسے کینہ توزنظروں سے دیکھااور پھر غرّایا۔ موتی کے اس رویّے پر پُلیا والا کتّا اپنی دُم ایسے ہلانے لگا جیسے وہ دُم ، دُم نہ ہوبلکہ امن و صلح کا پرچم ہو۔ اس پرچم کا اثرموتی پر ہوا اور وہ خاموش ہوگیا۔
چنّونے کہا،’’ باپو! ایک اور کتّاہمارے ساتھ چل رہا ہے۔ ‘‘
ہری نے گرتاہواانگوچھا اپنے سرپردرست کرتے ہوئے حیرت سےکہا،’’ اچھّا!! یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ اب تو تیرے پاس دو دو موتی ہوگئے۔‘‘
چنّونے سوچتے ہوئےکہا،’’مَیں اسے دوسرا نام دوں گا باپو۔‘‘
’’مَیں تو اسے منّو کہہ کرپکاروں گا۔‘‘سُریش ہنستے ہوئےبولا۔
چنّونے منہ بسورتے ہوئے ہری سے کہا،’’دیکھونا!!باپو!!‘‘
ہری نے کہا،’’ ارے اُس کی تو عادت ہے،پریشان کرنے کی۔ دُکھی کیوں ہوتاہے؟ تُو کوئی اچھاسا نام سوچ اس نئےکتّے کا۔‘‘
موتی زور زور سے بھونکنے لگا تو چنّونے دیکھا کہ پُلیا والا کتّا بھی گاڑی کے نیچے چل رہا ہے۔موتی بھونکتا ہوا تیزی سے گاڑی کے نیچے جھپٹا۔ پُلیاوالا کتّا ’کیاؤں ‘ ،’کیاؤں‘ کرتا ہوا وہاں سے نکل کر پُلیا کی طرف دُم دبا کر بھاگا۔
چنّونے کہا،’’ دیکھوباپو! موتی نے اُسے کاٹ بھگایا۔‘‘
ہری نے کہا،’’ ہاں جانے دے۔ کتّے آپس میں دشمن ہوتے ہیں۔‘‘
چنّونے پوچھا،’’ کیوں باپو! ایسا کیوں ؟‘‘
ہری نے کہا،’’ تُو بتا! کیاکوئی اپنی نیک نامی میں کسی کو بھاگی دار بناتا ہے ؟‘‘
چنّونے حیرت سے پوچھا،’’ کیا مطلب؟‘‘
ہری نے ہنستے ہوئےکہا،’’ موتی نہیں چاہتا ہوگا کہ گاڑی کھینچنے والوں میں اُس کے علاوہ پُلیا والے کتّے کا نام بھی شامل ہو۔‘‘
چنّواپنے باپ کی بات پر غورکرنے لگاتو ہری نے کہا،’’ یہ باتیں تو ہم جیسے بڑوں کو نہیں سمجھتیں تُوتو ابھی بہت چھوٹاہےرے۔اس بارے میں سوچ سوچ کرہلکان مت ہو۔ ‘‘
وہ باتیں کرتے کرتے دُورنکل آئےاب بیل گاڑی پکّی سڑک پر آگئی تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ آدھے سے زیادہ راستہ طے ہوچکا۔ تارکول کی چکنی سڑک پر بیل گاڑی کی رفتار بڑھ گئی۔ بیلوں کو گاڑی کھینچنے میں زیادہ طاقت نہیں لگانی پڑرہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں بیل گاڑی سرپٹ دوڑنے لگی۔ہری بھی جوش میں چابک لہرا رہاتھا اور ہُرّرر ۔۔۔ ہُرّرر کی آواز نکال رہاتھا۔ چنّوکے بال اور کپڑے ہوا میں لہرارہے تھے اور وہ کھل کھلا کر ہنس رہاتھا۔ اتنے میں گاڑی کا ایک پہیہ جھٹکا کھا کر کچھ اُوپر اُٹھا اور پھر تیزی سے نیچے آیا۔ اس کے ساتھ ہی عجیب سی آواز اُن کے کانوں میں پڑی۔ وہ آواز بیل کے ڈکرانے جیسی تھی۔ جھٹکا کھا کر جب گاڑی ترچھی ہوئی تھی تو ہری نے بےساختہ چنّو کے بازو کو زور سے پکڑ لیا تھا۔اگرایسا نہ ہوا ہوتا تو وہ زمین پر گر کر پلٹیاں کھا رہا ہوتا ۔ بیلوں کو اس جھٹکے کا علم ہی نہیں ہوسکا تھا اس لیے وہ دوڑے چلے جارہے تھے۔ ہری نے بیلوں کی لگام کھینچتے ہوئے تیز آواز میں پوچھا، ’’ سُوری !اے سُوری تُو ٹھیک تو ہے؟‘‘
’’ہاں بھیّا۔مَیں ٹھیک ہوں۔ بڑے زور کا جھٹکا تھا۔ کیاہوا!!؟‘‘سُریش کی آواز سن کر ہری کو تسلی ہوئی۔
بیل گاڑی کی رفتار کم ہوگئی اورپھر وہ رُک گئی۔ہری اور چنّو کے دل اب بھی بہت تیزی سے دھڑک رہے تھے۔ اتنے میں ایک کار بیل گاڑی کے بازو سے گزر گئی۔ ہری نے چنّو کے سر اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا،’’ تجھے تو کہیں چوٹ نہیں آئی؟‘‘
چنّونے نفی میں سرہلایا۔ اتنے میں سُریش اُن کے پاس آکھڑا ہوا اور بولا،’’ بھیّا! مَیں نے اوپر سے موتی کو دیکھا۔وہ پیچھے دُور سڑک پر پڑا ہے۔ ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئےوہ چکّے میں آگیا۔ بھگوان کی کرپا رہی کہ ہم بچ گئے۔ ‘‘
ہری نے ایک نظر اپنے بیٹے کو دیکھا۔ چنّو وحشت زدہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ہری نےگاڑی سے اُترتے ہوئے سُریش سے کہا، ’’تُو چنّو کے پاس رہ۔ مَیں دیکھ آتاہوں کہ زندہ بھی ہے یا!‘‘
ہری اُنھیں چھوڑ کر چلا گیا تو سُریش نے چنّو کو بانہوں میں بھینچ کر کہا؛’’تُو گھبرا مت۔مَیں ہوں نا تیرے پاس۔‘‘
ہری واپس آیا اور سُریش سے بولا،’’اُس کی ٹانگیں کچل گئی ہیں ۔ ایسا لگتاہے کہ اُس کا پیٹ بھی چکے کے نیچے آ گیا ہے۔ اب وہ چل نہیں سکتا۔مَیں نے اُسے سڑک کے کنارے کردیا ہے۔ شاید کچھ دیر میں!!! ‘‘
اتنا کہہ کر وہ اپنی جگہ بیٹھ گیا۔سُریش بھی بوریوں پر جا بیٹھا اور بیل گاڑی دوبارہ چل پڑی ۔ ہری نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ مرجھایا ہوا سا تھا اور آنکھوں میں خوف اور غم کی پرچھائیاں رقص کرتی نظر آرہی تھیں۔ اُس نے چنّو سے کہا، ’’بیٹاتُو اُداس مت ہو۔واپسی میں پُلیاوالے کتّے کو گھرلے چلنا۔اگر وہ وہاں نہ ہوا تب بھی کوئی بات نہیں ہمارا گاؤں تو ایسے کتّوں سے بھرا پڑا ہے۔ گھر پہنچ کر تُو اُن میں سے جس کاچاہے موتی نام رکھ لینااور اُس کے ساتھ کھیلنا۔ اس لیے اب اُس کا خیال اپنے دل سے نکال دے۔ہم منڈی پہنچنےوالے ہیں۔مجھے یقین ہے اب بھی دیرنہیں ہوئی اور ہمیںاچھّے دام مل جائیں گے۔ مَیں تجھے منڈی کی سیر کراؤں گا۔ وہاں گُڑ کی جلیبیاں کھائے گاتو سب کچھ بھول جائےگا ۔ ‘‘
میٹھی جلیبیوں کے ذکر سے چنّوخوش ہوگیا۔اسے خوش ہوتا دیکھ ،ہری کے دل کو تسلّی ہوئی اور وہ بھی مسکرانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد بیل گاڑی منڈی کی طرف جانےوالے کچے راستے پر مُڑگئی۔ہری، بیلوں کی کمر پر ہتھیلی سے ٹہوکا دیتے ہوئے ہُرّرر ۔۔۔ ہُرّرر کی تیز آواز نکالنے لگا۔