کھانا کھانے سے پہلے دیکھیں کہ آپ کیا کھارہے ہیں اور کیوں؟
بین علومی لیکچر سیریز کے تحت ’’اردو زبان میں صحت و تغذیہ‘‘ پر ڈاکٹر عابد معز کا لیکچر
رپورتاژ: اسما امروز
ریسرچ اسکالر‘ یونیورسٹی آف حیدرآباد
اردو زبان و ادب کے حوالے سے مختلف جامعات میں سیمینار،توسیعی خطبے اور چھوٹے بڑے پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں اردو کے شعرا وادبا ء اور مختلف اصناف کے حوالے سے اکابرین کے خطبے سننے کو ملتے ہیں لیکن کچھ ایسے پروگرام بھی ہوتے ہیں جن کے موضوعات ہمیں حیرت میں ڈال دیتے ہیں پروگرام کی نوعیت سے ہمیں اردو کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس کی اہمیت بھی آشکار ہوتی ہے۔ اسی نوعیت کا ایک پروگرام شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے کانفرنس ہال میں مورخہ 2 نومبر 2023 بروز جمعرات شام تین بجے عمل میں آیا جس کا عنوان تھا ”اردو زبان میں صحت و تغذیہ” –
یہ پروگرام بین علومی لیکچر سیریز کا پہلا لیکچر ہے ۔ظاہر ہے کہ اس موضوع کا تعلق اردو ادب سے نہیں ہے لیکن اردو زبان سے بڑا گہرا تعلق ہے پروگرام کے مہمان خطیب ڈاکٹر عابد معز (ایم۔ بی بی۔ ایس,ایم ایس سی) تھے۔جو نہ صرف اردو ادب سے گہری واقفیت رکھتے ہیں بلکہ انہیں اردو کا بہترین طنز و مزاح نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ان کی اسی خصوصیت اور زبان دوستی کی بنا پر پروفیسر فضل اللہ مکرم نے ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”وہ طب کے رفیق اور ادب کے رقیب ہیں ”۔ اس خصوصی لیکچر کا آغاز روایت کے مطابق شال پوشی سے ہوا اس پروگرام کے ناظم ڈاکٹر خوشتر نے پروگرام کے ابتدا میں ڈاکٹر عابد معز کا تفصیلی تعارف پیش کیا۔ جس میں انہوں نے عابد معز کی تعلیم سے لے کر ادبی خدمات، طبی خدمات کا بخوبی احاطہ کیا۔ انہوں نے عابد معز کے حوالے سے اکابرین کے آرا بھی بتائیں۔ جس سے عابد معز کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات کا بخوبی اندازہ ہوا۔اس کے بعد صدر شعبہ اردو پروفیسر فضل اللہ مکرم نے موصوف سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پیشہ ور ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی خدمت میں بھی پیش پیش رہتے ہیں اور ہم طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کی تخلیقات پڑھتے آئے ہیں لیکن اس وقت ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک طبیب ہیں بلکہ ہم انہیں کسی یونیورسٹی کا استاد سمجھتے تھے۔ پروفیسر فضل اللہ مکرم کے اس تعارف خطبے کے بعد ڈاکٹر عابد معز سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا ان کا یہ لیکچر نہایت عمدہ اور معلوماتی تھا۔ انہوں نے جامعہ عثمانیہ کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے بہت سی معلومات فراہم کی انہوں نے بتایا کہ عثمانیہ میڈیکل کالج اردو ذریعہ تعلیم کا قیام 1926 میں عمل میں آیا جو 1950 تک جاری رہا۔ جامعہ عثمانیہ میں ابتدا میں اردو میں میڈیکل کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن 1950 میں یہ سلسلہ ختم کر کے ذریعہ تعلیم انگریزی قرار دے دیا گیا۔عثمانیہ یونیورسٹی میں ماڈرن میڈیسن چوتھے نظام کی ایماء پر ہوا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ لوگ جنہوں نے میڈیکل کی تعلیم اردو میں حاصل کی تھی وہ خدا ترس لوگ تھے جو کم پیسوں میں مریضوں کا علاج کرتے تھے اور یہ خدا ترسی اردو کی ہی دین تھی۔ انہوں نے یونانی کے زوال اور ایلوپیتھی کے عروج کے وجوہات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یونانی میں تحقیق بند ہو گئی لوگوں نے نئے ایجادات کرنے چھوڑ دیے جبکہ ایلوپیتھی میں تحقیق جاری رہی جس کی وجہ سے آج وہ اکثر بیماریوں کا علاج بنانے میں کامیاب ہے اسی لیے ہر میدان میں تحقیق ہوتی رہنی چاہیے تاکہ علوم میں جمود نہ ہو۔
بعد ازاں انہوں نے تغذیہ کے حوالے سے گفتگو شروع کی اور تغذیہ کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی اور اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ صحت و تغذیہ نہایت اہم ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت دشوار اور صبر آزما کام ہے حتی کہ خود ڈاکٹر بھی اس پر عمل نہیں کر پاتے۔میری ہی بات لے لیں میں آپ کو صحت و تغذیہ کی افادیت بتا رہا ہوں میں شوگر کا مریض ہوں لیکن اگر ابھی آپ کے استاد پروفیسر فضل اللہ مکرم صاحب چائے پیش کریں گے تو میں خود کو روک نہیں پاؤں گا ”بادل نا خواستہ ” چائے پی ہی لوں گا. لیکن میرے اس عمل سے صحت و تغذیہ کی افادیت کم نہیں ہوتی۔ بات سے بات نکلی تو کسی نے سوال کیا کہ ہمیں کھانا کب کھانا چاہیے انہوں نے بتایا کہ ہمیں کھانا اس وقت کھانا چاہیے جب بھوک لگی ہو حالانکہ ہم ایسا نہیں کرتے ہم ہر مسئلے کا حل کھانا کھانے میں ہی تلاش کرتے ہیں۔ ذرا پریشان ہوئے تو کھانا کھا لیا، کچھ ٹینشن ہے تو بھی کھا لیا،فارغ ہیں کوئی کام نہیں ہے تو بھی کھا لیا، اداس ہے تو بھی کچھ کھا لیا، غرض کے ہر وقت ہم کھانے کے ارد گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کو تو اس وقت زوروں کی بھوک لگتی ہے جب ان کی نظر گھڑی پر پڑتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں اسی وقت کھانا کھانا چاہیے جب واقعی ہمیں بھوک لگی ہو۔پھر ایک سوال ہوا کہ ہمیں کتنا کھانا چاہیے جس پر انہوں نے اولا تو مزاحا کہا کہ ہم کون ہوتے ہیں بتانے والے کہ آپ کتنا کھائیں آپ کو جتنا جی چاہیں جب تک جی چاہے کھاتے رہیں۔دوسرے کے پلیٹ میں جھانکنا بری بات ہے۔انہوں نے یہ فقرہ ایسے مزاحیہ انداز میں کہا کہ محفل قہقہوں سے گونج گئی پھر انہوں نے اپنا داہنا ہاتھ ہوا میں اٹھایا اور پانچوں انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملا کر مٹھی بنائی اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے داہنے ہاتھ کی کلائی کو ایسے پکڑا کہ ایک حصار بن گیا اور اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک انسان کے لیے اتنا چاول کافی ہوتا ہے تبھی ان کے داہنے طرف بیٹھے پروفیسر فضل اللہ مکرم نے مسکراتے ہوئے مزاحیہ انداز میں پوچھا کہ یہ مٹھی بھر چاول کھانے سے پہلے یا کھانے کے بعد کھائیں؟ اس ظریفانہ سوال پر محفل میں ایک بار پھر قہقہوں کے شگوفے پھوٹ پڑے اور حال تالیوں سے گونج اٹھا۔ بات سے بات نکلتی رہی تو یہ کیوں کر ممکن تھا کہ طلباء کی ہوٹل بازی اور تیل مسالوں میں ڈوبے ہوئے ہوئے فاسٹ فوڈ اور سنیکس تک بات کیسے نہ پہنچتی خود صدر شعبہ اردو پروفیسر فضل اللہ مکرم نے ڈاکٹر عابد معز سے درخواست کی کہ آپ طلباء کو‘ جو ہاسٹل میں رہتے ہیں اور بریانی کو ہی اپنا مقصد حیات اور تریاق امراض کل سمجھتے ہیں اس کے حوالے سے کچھ گفتگو ہو جائے ڈاکٹر عابد معز نے اپنے مزاج کے مطابق اس میں بھی کچھ مزاح کے پہلو نکال لیے اور طلباء کو خوب ہنسایا اور ایک بہترین طنز و مزاح نگار کی طرح ظریفانہ انداز میں بہت سی مفید باتیں کہہ گئے جو طلباء کے لیے بہت ہی کارآمد رہیں۔ بالخصوص انہوں نے بریانی کے حوالے سے بتایا کہ اس میں جو مختلف انواع و اقسام کے مسالہ جات استعمال کیے جاتے ہیں وہ صحت کے لیے بہت مضر ہیں لہذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ انہوں نے خود کی خوراک کے بارے میں بتایا کہ میں بہت کم کھاتا ہوں جب میں اپنے بچوں کے ساتھ دسترخوان پر ہوتا ہوں تو وہ لوگ میرے کم کھانے پر تعجب کرتے ہیں اور زیادہ کھانے کا اصرار کرتے ہیں میں کہتا ہوں کہ تم لوگ کریڈٹ کارڈ والے ہو تم ہی لوگ زیادہ کھاؤ میں ٹھہرا راشن کارڈ والا میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
ڈاکٹر عابد معز نے صحت و تغذیہ کے حوالے سے اردو کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ آج ہم صحت و تغذیہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہمیں نہیں معلوم کہ ہمیں کیا کھانا چاہیے اور کتنے مقدار میں کھانا چاہیے اس کی وجہ اردو سے ہماری دوری ہے۔ اردو میں سب موجود ہیں جسے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں لیکن ہم اس زبان میں سب کچھ پڑھتے ہیں جسے ہم نہیں سمجھ پاتے یہی وجہ ہے کہ ہماری معلومات ادھوری رہ جاتی ہیں اسی لیے ہمیں اردو پڑھنا چاہیے۔ عابد معز کی گفتگو نہایت معلوماتی رہی اور اسلوب اتنا خوبصورت تھا کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور یہ پروگرام کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر شعبے کے اساتذہ ڈاکٹر عرشیہ جبین،ڈاکٹر اے-ار منظر،ڈاکٹر محمد کاشف،ڈاکٹر محمد نشاط اور ڈاکٹر رفیعہ سلیم بھی موجود تھے۔ان کے علاوہ شعبے کے ریسرچ اسکالرز طلبا اور طلبات بھی شامل رہے۔