کہانی : وقت کی چوری :- ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی

Share

کہانی : وقت کی چوری

ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر وصدر شعبہئ اردو
گورنمنٹ ڈگری کالج،سِّدی پیٹ۔502103،ریاست تلنگانہ
موبائل:9346651710

آج کا دن بچوں کے لئے بہت یادگار دن تھا،آج مدرسہ کے سارے بچے خوش خوش نظر آرہے تھے،ان کا سالانہ امتحان مکمّل ہو چکا تھا،امتحان کا بوجھ سر سے اترنے اور ہاسٹل سے اپنے اپنے گھروں کو جانے کی خوشی میں وہ پھولے نہیں سمارہے تھے،صبح کا ناشتہ کر کے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق اور کھیل کود میں مصروف تھے،تھوڑی ہی دیر میں مدرسہ کا سالانہ جلسہ شروع ہونے والا تھا،جس میں چند بچوں کوتقریری و تحریری مظاہرہ بھی پیش کرنا تھا،اور جلسہ کے اختتام پرتکلّف ظہرانہ سے انہیں لطف اندوز بھی ہونا تھا،باورچی خانہ سے بریانی اور ڈبل کے میٹھے کی خوش بو بچوں کی خوشیوں میں مزید اضافہ کررہی تھی،اور اب وہ اٹھلاتے،خراماں خراماں اور کشاں کشاں جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔

بچوں کے پروگرام کی کاروائی بچوں کی انجمن الفلاح کے ناظم میاں مظفّر نے شروع کی،جو بچوں میں بہت مقبول تھے،اور جسے ہم مذاق میں سیکولر نیتا کہا کرتے تھے،میاں مظفّر،اونچی جماعت کے طلبہ اور اساتذہ ئکرام نے بڑی محنت اورشفقت سے بچوں کو تیّار کیا تھا،بچوں نے دھواں دھار تقریریں کیں،عمدہ مضامین و مقالات پڑھے،حمد،نعت،قرأت اور تعلیمی ڈرامے بہت سلیقہ سے پیش کئے۔
سب سے آخر میں مدرسہ کے ناظم صاحب مائک پر جلوہ افروز ہوئے،انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں بچوں کی تعلیمی کارکردگی کا جائزہ لیا،نصاب کی تکمیل اور امتحان میں بچوں کے بہتر مظاہرہ پر اطمینان کا اظہار کیا،اس کے ساتھ ہی انہوں نے طلبہ کو غیر نصابی کتب اور اخبار و رسائل کے مطالعہ اور مضامین و کہانیاں لکھنے کے لئے وقت نکالنے بلکہ اس کے لئے تھوڑی چوری کی ترغیب دی۔
چوری کا نام سنتے ہی بچے چونک پڑے کہ آج ناظم صاحب کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ہمیں چوری سکھا رہے ہیں۔انہوں نے مزید وضاحت کی:بچو!چوری بہت بری چیز ہے،لیکن آج میں تمہیں ایک ایسی چوری بتاؤں گا جو ہرگز بری نہیں ہے،اس چوری کے ذریعہ تمہاری شخصیت میں چار چاند لگ جائیں گے،تمہارا نام روشن ہو گا،تم دنیا کے بڑے آدمیوں میں شمار کئے جاؤگے،اور وہ ہے وقت کی چوری۔
تم درسی کتب،کھیل کود،فضول دوستی اور مٹر گشتی سے تھوڑا وقت چرا کراگرکتب خانہ کی کتب و رسائل اور اخبارات کے مطالعہ میں صرف کروگے،اور اپنے وسیع مطالعہ کی روشنی میں مضامین اور کہانیاں وغیرہ تحریر کروگے تو تمہارا شمار مصنّفین اور اہلِ قلم میں ہوگا،اور ایک دن تم بڑے مصنّف،مترجم،محقّق،شاعر،ادیب،فلسفی اورقائد ومفکّر کی حیثیت سے یاد کئے جاؤگے،ناظم صاحب نے عبد الماجد دریاآبادی اورجوش ملیح آبادی جیسے ادیب و شاعر کی مثال دی،جو اسی طرح چوری چھپے غیر نصابی کتب و جرائد پڑھ کراور لکھنے کی مسلسل مشق کر کے بڑے آدمی کہلائے۔
آج تمہارے والدین اور اساتذہ کو صرف تمہارے پاس ہونے کی فکر ہے،اگر تم پاس نہیں ہوئے تو ان کی بے عزّتی ہوگی،اس لئے وہ تمہیں ہر وقت درسی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیں گے،لیکن یاد رکھو!امتحان میں پاس ہونا اور مضامین کو سمجھنا دو الگ الگ چیزیں ہیں،ایک بچہ اگر امتحان میں ۰۹۔۵۹ فی صد نشانات حاصل کرتا ہے،تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو تمام مضامین پر عبور ہے،ہو سکتا کہ اس نے محض رٹ کر امتحان لکھا ہو۔
اس کے برخلاف جس بچہ نے رٹنے کے بجائے سمجھ کر اپنے الفاظ میں امتحان کے پرچے حل کئے ہوں،ہو سکتا ہے کہ اس کو امتحان میں کم نشانات حاصل ہوئے ہوں،لیکن ایسا بچہ آگے چل کر بہت ترقّی کر جائے گا۔
اپنے الفاظ میں امتحانی پرچے تحریر کرنے کے لئے خود سے لکھنے کی مشق ضروری ہے،اور یہ مشق مضمون نویسی،کہانی و نظم نویسی،ڈرامے،تقریراور مباحثہ کے مقابلوں میں حصّہ لینے اور اپنے طور پر مضامین اور کہانیاں وغیرہ لکھنے کی مشق اور اصلاح سے حاصل ہوتی ہے۔
آج بچے امتحان کا نام سنتے ہی گھبرا جاتے ہیں،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ مضمون کو سمجھ کر اپنے طور پر لکھنے کے بجائے رٹ کر امتحان لکھتے ہیں،اور امتحان ہال میں مارے ڈر کے بھول جاتے ہیں،اور کسی طرح الٹا سیدھا لکھ کر پاس ہو جاتے ہیں،لیکن امتحان گاہ سے نکلنے کے بعد انہیں مضمون کا کچھ حصّہ بھی یاد نہیں رہتا ہے۔
مگر جو بچے خود سے مضمون اور کہانیاں لکھنے کے عادی ہوتے ہیں،وہ بڑے سے بڑے امتحان میں شرکت کرنے سے نہیں گھبراتے،اور ہمیشہ اچھے نمبرات سے کامیاب ہوتے ہیں۔
حضرت ناظم صاحب نے بچوں سے عہد لیا کہ وہ آئندہ تعلیمی سال سے صرف رٹ کر امتحان نہیں لکھیں گے،بلکہ خود ہی سے امتحان میں سوالات کے جوابات تحریر کریں گے،اور اس کے لئے درسی کتب کے علاوہ معاون درسی کتب، ادبی کتب و رسائل اوراخبارات کا مطالعہ ضرور کریں گے،اور اس کے لئے اپنے نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) میں سے تھوڑا وقت چوری کریں گے،نہیں چوری نہیں،اپنے نجی نظام الاوقات میں سے تھوڑا وقت اور چھٹیوں کے زمانہ میں زیادہ سے زیادہ وقت کتب و رسائل کے مطالعہ میں صرف کریں گے۔
چھٹیوں میں گھر جانے کے بعد اکثر بچوں نے ناظم صاحب کی نصیحتوں کو بھلا دیا،لیکن کئی ہونہار اور لائق بچوں نے نئے تعلیمی سال سے ناظم صاحب کے عہد پر عمل کیا،انہوں نے امتحان میں پچھلے سال کے مقابل اچھے نمبرات حاصل کئے۔ان کو لائبریری کی کتب و رسائل میں طرح طرح کے موضوعات پر دل چسپ مضامین،کہانیاں،ناول،ڈرامے اورشاعری پڑھ کربہت مزہ آنے لگا،وہ رات کے بارہ بجے تک لائبریری میں رہتے اور چھٹیوں کے دنوں میں پورا دن مطالعہ کرنے یا لکھنے میں مصروف رہنے لگے،دوسرے بچے ان کو کتاب کا کیڑا کہہ کر چڑانے لگے،جب کہ وہ مدرسہ کے دیواری جریدوں (Wall Magazines)اور شہر کے اخبارات و رسائل میں اپنے مضامین اور کہانیاں دیکھ کر کافی خوش ہوتے،اور اچھے سے اچھے رسائل میں اپنی تحریریں چھپانے کی خاطر چھٹیوں کے دنوں میں بھی زیادہ تر لکھنے پڑھنے میں وقت گزارتے۔کسی نے سچ کہا ہے:,, اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا،،
مدرسہ کے ناظم صاحب چوں کہ خود مشہور کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف تھے،وہ اپنے مدرسہ کے لائق فرزندوں کی تحریریں اخبارات ورسائل میں دیکھ کر ان بچوں سے بہت خوش رہنے لگے،اور ان کے لئے خصوصی وظیفہ مقرر فرمایا۔ناظم صاحب کی بات بالکل صحیح نکلی،آج ان بچوں میں کوئی صحافی ہے،کوئی مصنّف،کوئی پروفیسر،کوئی رفاہی خدمت گار ہے،کوئی عوامی قائد ہے،توکوئی شعلہ بیان مقرّر و خطیب ہے،اور کوئی اسکولوں،مدرسوں،یتیم خانوں اور رفاہی اداروں کا بانی و ناظم ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
Dr.Syed Asrarul Haque
Asst.Professor & HOD Urdu
Govt.Degree & P.G.College,
Siddipet-502103,T.S.

—–

ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

Share
Share
Share