آسام سے مسلمانوں کو نکالنے کی تیاری :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

آسام سے مسلمانوں کو نکالنے کی تیاری

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770

سرکاری اراضی پر سے غیر قانونی قبضوں کو بر خواست کر نے کے نام پر آسام پولیس نے اپنے ہی ملک کے شہریوں کے ساتھ جو ظالمانہ رویہ اختیار کیا اس پر ہر منصف مزاج شخص کا دل تڑپ اٹھا ہے۔ 23/ ستمبر کو پولیس نے جس وحشیانہ انداز میں نہتے لوگوں پر فائرنگ کردی اس کے نتیجہ میں دو افراد کی موت ہوگئی اور بیسیوں لوگ پولیس فائرنگ سے زخمی ہو گئے۔ اس پر تشدد کارستانی کے دوران یہ دل سوز واقعہ بھی دیکھنے کو ملا کہ پولیس کے ساتھ موجود ایک کیمرہ مین ایک مقتول کی میت پر کودتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کررہا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا کہ اب ملک میں انسانیت بھی دم توڑ چکی ہے۔ حیوانیت اور بر بریت کے جنون نے انسانوں کی عقل وہوش کوبھی ٹھکا نے لگا دیاہے۔ نیم مردہ جسم کی بے حرمتی کرنا اور اس کا ویڈیو بنا کر وائرل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانوں کی بسیتوں میں اب بھیڑئے بھی رہنے لگے ہیں۔ آسام کے ضلع درنگ کے گاؤں دھول پور اور اس کے اطراف ہوئے اس ظلم اور جبر کے واقعات کوہوئے ایک ہفتہ گذر گیا ہے۔ لیکن اب بھی ہر طرف ایک سناٹا چھایا ہوا ہے۔ اس علاقہ کے غریب مسلمان زیرِ آسمان جینے پر مجبور ہیں۔ ان کے مکانات توڑدئے گئے یا جلا دئے گئے۔ زندگی گزارنے کے لئے اب ان کے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہاں لوگوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کرلیا ہے اس لئے ان کے خلاف انخلا کی کاروائی کی گئی۔ لیکن گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں چالیس، پچاس برسوں سے آ باد ہیں۔ وہ ووٹ بھی دیتے ہیں اور ان کے نام این آر سی (نیشنل رجسٹر فار سٹیزنس) میں بھی ہے۔ ان ساری قانونی دستاویزات رکھنے کے باوجود پولیس کی جانب سے اچانک ان پر ہلّہ بول دینا اور انہیں پوری طرح تباہ تاراج کر دینا یہ ایک منظم سازش ہے۔ انتظامیہ نے کسی کے اشارے پر ہی اس قسم کی بربریت کا مظاہرہ کر تے ہوئے بے قصوروں کا قتلِ عام کیا ہے۔ اگر بالفرضِ محال یہ سرکاری زمین ہے تب بھی اچانک اس طریقہ سے گولیاں بر سا کر لوگوں کی جانیں لینے کی اجازت ایک مہذب سماج میں نہیں دی جا سکتی۔ دنیا کے کسی ملک کا قانون اس بات کی تائید نہیں کرتا کہ ایک معمولی قطعہ زمین کے لئے انسانوں کی قیمتی جانیں لے لی جائیں۔ لیکن افسوس کہ ایک جمہوری ملک میں پولیس راج کی جڑیں مضبوط کی جارہی ہیں۔ چیف منسٹر آسام ہمنت بسوا سرما نے پولیس کے اس ظلم کا سخت نوٹ لینے اور خاطی پولیس عہدیداروں کے خلاف کاروائی کر نے کے بجائے یہ کہا کہ ہم سرکاری اراضی پر قبضے میں نرمی نہیں دے سکتے۔ سوال یہ ہے کہ مبینہ سرکاری اراضی کے حصول کے لئے کیا چیف منسٹر یہ کہہ کر پولیس کو کھلا لائسنس دے رہے ہیں کہ وہ اس معاملے جو چاہے کرے، حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔ سرکاری زمین کو حکومت عوام کو سمجھا بجھا کر اور انہیں کوئی متبادل زمین دے کر بھی حا صل کر سکتی تھی۔ انسانوں کی جانیں لے کر اور ان کے گھروں کو اُجاڑ کر آسام کی بی جے پی حکومت کے کارندوں نے اپنی درندگی کا کھلا ثبوت دیا۔ اب بھی یہ لٹے پٹے لوگ کھیتوں میں خوف کے عالم میں زندگی گزاررہے ہیں۔ ان کی جھونپڑیوں میں سے چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ یہ ظلم اور جبر کی داستان آخر کیوں دہرائی جا رہی ہے؟ملک میں عدالتیں موجود ہیں۔ قانون کے ذریعہ دستاویزات کی جانچ کی جاسکتی ہے۔ اگر یہ سرکاری زمین ہے تو پھر لوگ وہاں کیسے برسوں سے رہ رہے ہیں اور اب کیوں ان کو وہاں سے ہٹانے کے لئے پولیس وحشیانہ اور ظالمانہ رویہ اختیار کی ہوئی ہے؟
آسام میں جب سے بی جے پی کو اقتدار ملا ہے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھدی گئی ہے۔ کسی نہ کسی عنوان سے مسلمانوں کو پریشان کرنا حکومت کا شیوہ ہو گیا ہے۔ دوسری مرتبہ آسام میں بی جے پی کے ہاتھوں میں ریاست کی زمامِ کار آئی ہے۔ اپنے پہلے دور میں بھی آسام کی بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف ہر محاذ پر اپنی انتقامی ذہنیت کا ثبوت دیا۔ آسام میں غیر ملکی شہریوں کامسئلہ برسوں سے چل رہا ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے لئے آنجہانی راجیو گاندھی کے دورِ حکومت میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا۔ اس معاہدہ پر عمل کیا جاتا تو آسام کی شورش دَم توڑدیتی، لیکن بی جے پی نے اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے غیر ملکی شہریوں کے مسئلہ کو زندہ رکھا۔ اس حوالے سے وہ آسام کے مسلمانوں کو آسام سے ہی نہیں بلکہ ملک سے بھگانے کی تدبیریں کرتی رہی۔ چارسال پہلے آسام میں این آر سی کے مسئلہ کو جس انداز میں چھیڑا گیا اس سے سارا ملک اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ یہ بات زور و شور سے کہی جانے لگی کہ آ سام کے بعد پورے ملک کے شہریوں کو این آر سی کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ آسام میں این آر سی کی گونج کے ساتھ ہی مرکز کی بی جے پی حکومت نے اسی دوران شہریت ترمیمی قانون کو منظور کر نے کا منصوبہ بنالیا۔ اس قانون کے ذریعہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والے ہندوؤں، سکھوں،عیسائیوں، پارسیوں اور جین طبقہ کو ہندوستانی شہریت دینے کا اعلان کیا گیا۔ 2019میں لوک سبھا میں منظور کئے گئے اس متنازعہ اور متعصب قانون کے خلاف سارے سکیولر اور انصاف پسند شہریوں نے زبردست احتجاج شروع کر دیا۔ ملک کی آزادی کے بعد یہ پہلا عوامی ردّ عمل تھا جس کے سامنے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ سماج کے سارے ہی طبقے بِلا لحاظِ مذہب و ذات، جنس و علاقہ سی اے اے کے خلاف ڈٹ گئے۔ دہلی کے شاہین باغ کی خوا تین کے احتجاج نے عالمی شہرت حاصل کرلی۔ کوویڈ۔19 کی قہر سامانی نے مرکز کی بی جے پی حکومت کو بچالیا ورنہ عوامی غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے کہا جارہا تھا کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اٹھا طوفان مودی حکومت کا صفایا کر دے گا۔ کوویڈ۔19سے سبق لیتے ہوئے دنیا کی ساری حکومتوں اور بالخصوص ہمارے ملک کے حکمرانوں کو اپنے طرزِ حکمرانی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی عوام کے تئیں ہمدردی اور ایثار کا ثبوت دینا تھا۔ لیکن افسوس کہ کورونا کے وحشت ناکی کو کھلی آ نکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی حکومتوں کے طور طریقے نہیں بدلے۔ آج بھی اپنے ہی ملک کے شہریوں کے جسم پولیس کی گولیوں سے چھلنی کئے جا رہے ہیں۔ خوف اور ہراس کا ماحول پیدا کر کے ان کے بنیادی حقوق کو چھینا جا رہا ہے۔ ظلم و وحشت اور درندگی کی خونین تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ جمہوریت کا خوش نما نقاب اورٹھ کر غریبوں کی بستیاں جلائی جارہی ہیں۔ قانون کی حکمرانی محض زبان تک باقی رہ گئی۔ حکمرانوں کے دِل میں اب اس کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی۔ نہتے شہریوں پر بندوقیں تان کر ہم دنیا کو امن کا پیغام نہیں دے سکتے۔ اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور اپنی خفت کو مٹانے کے لئے ملک کے ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف لغو اوربے بنیاد پروپگنڈا کر کے فرقہ پر ست طاقتیں ملک میں فرقہ پرستی کا زہر گھول کر اپنے حقیر سیاسی مفادات کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن ملک اور قوم کو آگ و خون کی نذر کر نے والوں کے ہاتھ بھی اس آگ میں بھسم ہو جائیں گے شاید اس کا ان کو ابھی خیال نہیں آ رہا ہے۔ نہتے نوجوانوں کی لاشوں پر کسی کا بھی راج سنگھاسن زیادہ عرصہ تک ٹِک نہیں سکتا۔ آسام میں جو خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے یہ خون رائیگاں نہیں جا ئے گا۔معین الحق جیسے نوجوان کی موت پر اس کے معصوم بچوں کی بددعا عرشِ الہی کو ہِلا کر رکھ دے گی اور کاتبِ تقدیر بے قصوروں پر وحشیانہ تشدد کر نے والوں کو نشانِ عبرت بنا دے گا۔
آسام ہندوستان کی وہ ریاست ہے جہاں جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی بستی ہے۔ تیرہویں صدی سے اس علاقہ میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب ہندوستان کی آزادی سے پہلے ملک کا بٹوارا ہوا، آسام کے مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنا وطن بنایا۔ لیکن اس کی قیمت اس انداز میں چکانی پڑے گی اس کے بارے میں انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا۔ آزادی کی سوغات اور اس کے ثمرات ابھی آسامی مسلمانوں کی دہلیز تک بھی نہیں پہنچ پائے کہ ان کی شہریت پر سوالات اٹھنے شروع ہو گئے۔ انہیں بنگلہ دیشی گھس پٹیوں کے لقب سے نوازا جانے لگا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے 1979میں غیر ملکیوں کے خلاف تحریک نے زور پکڑ لیا۔ یہ تحریک تو تھی اُن ہندو بنگالیوں کے خلاف جو غیرقانونی طور پر آسام میں آ کر بس گئے تھے۔ لیکن بُرا ہو ووٹوں کی سیاست کا کہ اس تحریک کا رخ مسلمانوں کی طرف پھیر دیا گیا۔ خون آشامی کی یہ داستان بڑی طویل ہے جو اخبار کے ایک کالم میں سما نہیں سکتی۔ حالات بگڑتے ہی چلے گئے اور مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوگیا۔ نیلی کے فساد میں دس ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا۔ کانگریس کی گوگوئی حکومت مسلمانوں کو دلاسے دلاتی رہی لیکن آسام مسلمانوں کے لئے جہنم زار ہی بنتا چلا گیا۔ گوگوئی کے نرم ہندوتوا نے ریاست میں بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع دیا۔ چند سال کی جدوجہد کے بعد مئی 2016میں آسام میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی۔ سربنندسونوال چیف منسٹر بنائے گئے۔ اپنی پہلی معیاد سے ہی بی جے پی نے اپنے ایجنڈے پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ آسام کے طے پائے معاہدہ کو برفدان میں ڈال کر این آر سی کا ہوّا کھڑا کیا گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ نیشنل رجسٹر فار سیٹزنس پوری شفافیت سے تیار کیا جائے گا لیکن جب جولائی 2018میں قطعی لسٹ شائع آئی تو 37 لاکھ کے قریب لوگوں کے نام لسٹ سے غائب تھے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر دوسری لسٹ کی تیاری کا اعلان کیا گیا۔ اگست 2019میں جب دوسری لسٹ آئی تو 20لاکھ کے قریب افراد کے نام لسٹ میں نہیں تھے۔ مسلمانوں کے نام اس لسٹ میں شامل کرنے سے روکنے کے لئے عہدیداروں کو ہدایات تک دے دی گئی تھیں۔ ساری دستاویزات رکھنے کے باوجود مسلمانوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کر نے سے انکار کیا گیا۔طرفہ تماشا یہ کہ ملک کے پانچویں صدر جمہوریہ مرحوم فخر الدین علی احمد کے بھتیجہ کانام فہرست سے غائب رہا۔ سابقہ چیف منسٹعر آسام انورہ تیمور اور 1857کی پہلی جنگِ آزادی میں حصہ لینے والے مجاہدین کے افرادِ خاندان کے نام بھی رجسٹر میں نہیں رہے۔ اس سے اندازہ لگا لیا جا سکتا ہے آسام میں گزشتہ ہفتہ بربریت کا جو ننگا کھیل کھیلا گیا اس کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں۔ ساری سازش یہی ہے کہ آسام سے مسلمانوں کا قلع قمع کر دیا جائے۔ اسی لئے کبھی نیلی میں کشت وخون کا بازار گرم کیا گیا، کبھی کھوکھرا جھاڑ میں آسامی قبائیلوں سے ان کی مڈ بھیڑ کرادی گئی اور پھر این آر سی کی تلوار تو ہمیشہ آ سامی مسلمانوں کے سروں پر لٹکتی رہے گی۔ اب جوخونین واردات سامنے آئی ہے یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آج دھول پور گاؤں کو نشانہ بناتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں کی جانیں لی گئی ہیں، ان کے گھروں کو لوٹ لیا گیا ہے اور انہیں پھر سے وہاں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ ایسے نازک وقت ملت کے قائدین کو ان مصیبت زدہ افراد کی مدد کے ساتھ آسام کے مسلمانوں کو مستقبل میں پیش آنے والی خطرناک افتاد سے محفوظ رکھنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تا کہ آسام کے مسلمان اپنے تمام شہری حقوق کے ساتھ وہاں رہ سکیں۔ اگر مسلم جماعتیں اور تنظیمیں صرف وقتی قانونی یا مالی امداد کرکے مطمئن ہو جائیں تو یہ مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس لئے طویل مدتی منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے ورنہ ہر تھوڑے دن کے بعدایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
——

ڈاکٹر اسلام الدیم مجاہد

Share
Share
Share