گاندھی کا بھارت ،سراج الدین قریشی کی حق گوئی اور آر ایس ایس
محمد احمد
آج کل آر ایس ایس اور مسلمانوں کے درمیان ڈائیلاگ کی خبریں اکثر سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اسی ڈائیلاگ کی خبروں کے بیچ ہمارے وزیراعظم امریکی دورے پر ہیں اور آسام میں اقلیتوں پر جس طرح سے ظلم ہوا اور اس ظلم میں جس طرح سے جمہوریت کا چوتھا ستون بھی شامل رہا، اس پر مزید یہ کہ پانچجنیہ کے ایڈیٹر نے جس طرح ایک فرضی ٹوئیٹ کے ذریعہ ملک میں تشدد کو ہوا دینے کی کوشش کی اور کہاکہ جامعہ کے نور نگر علاقہ میں مندد کو مسمار کیا جارہا ہے اس کے باوجود وہ ابھی تک آزاد ہیں ،وہ یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ’ نیو انڈیا‘ کی بنیاد کن ستونوں پر کھڑی ہوگی اور اس میں گاندھی کی اہنسا نیتی کا کتنا دخل ہوگا؟
آپ ذرا سوچئے جب امریکی صدر نے وزیراعظم مودی سے ملاقات میں گاندھی کی اہنسا نیتی کا ذکرکیا اور اس کے بعد جب آسام کے تشدد کی کلیپنگ امریکی صدر کو دکھائی گئی ہوں گی تو انہوںنے کیا سوچا ہوگا اور ہماری دنیا میں کیا امیج بنی ہوگی ؟ لیکن اس کے باوجود سچائی یہ ہے کہ ڈیڈ لاک سے بہتر ڈائیلاگ ہے اور یہی انسانی مسائل کا حل ہے۔ سچ ہے کہ گفت و شنید سے ہی راہیں کھلتی ہیں، جسے ہم واد بھی کہہ سکتے ہیں ، لیکن وواد سے راہیں بند ہوتی ہیں اور تنائو کا ماحول پیدا ہوتا ہے جس کے بعد لڑائی اور جھگڑے کا طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ اسی ڈائیلاگ کو آگے بڑھانے کیلئے گذشتہ روز انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر جس کے مقاصد میںمسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے مابین ڈائیلاگ کی راہیں ہموار کرنا شامل ہے ،ایک انتہائی خوبصورت تقریب کا انعقاد عمل میں آیا ۔ موقع تھا ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب ’ دی میٹنگ آف مائنڈز ‘ پر گفتگو کا ۔اس تقریب میں مسلمانوں کی طرف سے سینٹر کے صدر سراج الدین قریشی، نائب صدر ایس ایم خان ،صاحب کتاب ڈاکٹر خواجہ افتخار احمداور ڈاکٹر امام عمیر احمد الیاسی شامل ہوئے ، جبکہ آر ایس ایس کی طرف سے اندریش کمار، بی ایچ یو کے سابق وائس چانسلر گریش چندر ترپاٹھی، سوامی اودھیشا نند گری جی مہاراج (جونا اکھاڑا)نے شرکت کی ۔ سراج الدین قریشی نے جس بے باکی ، حق گوئی اور قوت ایمانی کیساتھ 20کروڑ مسلمانوں کی عملی نمائندگی کی اسے آنے والا مورخ تاریخ کے سنہرے اوراق میں درج کرنے کیلئے مجبور ہو گا ۔
سراج الدین قریشی نے اندریش کمار کے سامنے لنچنگ کے مسائل کو اٹھاتے ہوئے کہاکہ ’ سر موب لنچنگ کے اندر مسلم لوگوں کو مارا جاتا ہے ۔ بغیر کسی وجہ کے ٹارگیٹ کیا جاتا ہے۔ حکومت اس کے اندر بہت کم رول پلے کر پاتی ہے۔ اس کی وجہ سے کیا ہوتا ہے کہ سر میسیج سرکار کا غلط جاتا ہے‘‘۔ سراج الدین قریشی نےمسلمانوں کے خلاف درج ہونے والے یواے پی اے جیسے مقدموں میں انہیں جیلوں میں ٹھونسے جانے اور غدار وطن قرار دیئے جانے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ’ ’اسی طرح سے بہت سارے جھگڑے ہوتے ہیں، لڑائی ہوتی ہے ۔ …سر یہ تو کانسٹی ٹیوشنل رائٹ ہے کہ سر ملک کے اندر ہم اپنی بات کہہ سکیں اور یہ ہر ایک کو کہنے کا حق حاصل ہے ، لیکن کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک مسلم کمیونٹی کا آدمی اگر کچھ بول دیتا ہے تواس کو ٹارگیٹ کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ دوسری کمیونٹی کا آدمی اگر کچھ بات کہتا ہے تو اس کے خلاف ری ایکشن تک نہیں ہوتا ہے‘‘ ۔ انہوں نے سالوں سے جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کے معاملات کو بھی آر ایس ایس لیڈر کے سامنے انتہائی جرات کے ساتھ رکھا ۔انہوںنے کہاکہ ’ ’سر ایسے ایسے بچے ہیں جو دس دس سال جیل میں رہتے ہیں اور جب ان کا فیصلہ آتا ہے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کا کوئی جرم ہی نہیں تھا۔ ان کی زندگی کو کون سدھارے گا؟ دس سال ،پندرہ سال، بیس سال، پچیس پچیس سال، ایسے لوگ ہیں جو جیل میں پڑے رہتے ہیں۔جب وہ واپس آتے ہیں تو وہ نہ تو دنیا کے رہتے ہیں نہ دین کے اور نہ ملک کے‘‘ ۔اندریش کمار کو مخاطب کرتے ہوئے سراج الدین قریشی نے آگے کہاکہ ’’میری آپ سے درخواست ہے کہ ان تمام چیزوں پر غور کیا جائے، کیونکہ موقع ہے بات کہنے کا۔ اس لئے میں نے کہہ دی اور بھی بہت ساری باتیں ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوںکہ ان ساری باتوں سے ہم آپ کو آگاہ اس لئے کرانا چاہتے ہیںکہ واقعی اگر ہم جڑنے کی بات کرتے ہیں ،ایک دوسری کمیونٹی کیساتھ ملنے کی بات کرتے ہیں ، دل سے دل ملانے کی بات کرتے ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ ہم کو کوئی پریکٹیل پاتھ ، ہمیں کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا پڑے گا،جس کے اندر سب مل کر ایک ساتھ چلیں۔ اس کے اندر آر ایس ایس کا ایک بہت بڑا رول ہے۔ اس کے اندر سرکار کا ایک بہت بڑا رول ہے۔ اس کے اندر این ایس اے اجیت ڈول صاحب کا بہت بڑا رول ہے۔ یہ سارے کے سارے لوگ سر بہت امپارٹنٹ ہیں۔این ایس اے سے میٹنگ ہوئی ،انہوںنے بھی کہاکہ انٹر فیتھ ڈائیلاگ ہونا چاہئے۔ مسلمان، ہندو مل کر چلنا چاہئے ۔ مسلمانوں کو سرکار کیساتھ رہنا چاہئے ۔ میں (سراج الدین قریشی ) نے کہاکہ سر سرکاروں کو بھی تو مسلمانوں کیساتھ رہنا چاہئے۔ وہ اس بات کو بھی مانتے ہیں، رہنا چاہئے ۔ سراج قریشی کی ان باتوں کی اہمیت اس لئے اور بڑھ جاتی ہے ،کیونکہ جو کچھ ہو رہاتھا وہ اوپن پلیٹ فارم پر ہورہا تھا اور قومی میڈیا کے کیمرے اور قلم کی نگاہوں کے سامنے ہورہاتھا ۔
اس میٹنگ میں پروفیسر گریش چندر ترپاٹھی نے بھی کئی اہم نکات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرقہ وارنہ ہم آہنگی پر زور دیا ۔انہوں نے کہاکہ ’ہمارے اجداد نے اگر صرف اپنے بارے میں سوچا ہوتا۔اپنے اوراپنے پریوار کے بارے میں سوچا ہوتا تو ہم کبھی آزاد نہیں ہوتے۔ اپنے بارے میں سوچنا ،پریوار اور برادری کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ، کیونکہ اسی سے ملک اور قومیں بنتی ہیں ، لیکن دوسروں کی قیمت پر نہیں‘۔ انہوںنے کہاکہ میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کا جرم نہیں ہے ۔اگر ہم نے ان کو ٹھیک راستہ دکھایاہوتا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک اچھے راستے پر چلنے کیلئے تیار ہوتے ۔پروفیسر ترپاٹھی کے مطابق ’اگر صرف بھارت کے بارے میں ہمارے اجداد نے سوچا ہوتا تو بھارت آج عالمی طاقت بننے کی طرف نہیں بڑھ رہا ہوتا ۔ ہمارے اجداد نے مانا جس میں سبھی مذاہب کے لوگ شامل تھےکہ پوری دنیاایککنبہ ہے اور پریوار میں ایک دوسرے پر ظلم نہیں کیا جاتا ہے بلکہ ایک دوسرے کی مدد کی جاتی ہے ۔ اگر کسی کیساتھ ظلم ہورہاہے تو ہم اس کیساتھ کھڑے ہوں ۔ واضح رہے کہ پیارے رسول نے بھی یہی فارمولہ حلف الفضول میں مکہ والوں کے سامنے بیس سال کی عمر میں پیش کیاتھا ،جس میں یہ شامل تھا کہ مکہ کے اندر اگر اہل مکہ کسی پر ظلم کریں گے تو ہم ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور مکہ والوں پر کوئی ظلم کرے گا تو اس کا مقابلہ کیا جائے ۔ ترپاٹھی نے کہاکہ میں اپنے سرکار کےمتروں سے ایک بات اکثر کہتا ہوںکہ ’سرکار جب تک نہیں بنتی ہے تب تک الگ بات ہے اور جب بن جاتی ہے تو جنہوںنے ووٹ دیا ان کی بھی ہوتی ہے اور جنہوںنے ووٹ نہیں دیا ان کی بھی ہوتی ہے ۔اس لئے سب کے وقار کا تحفظ ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ آنے والی نسلیں شاید ہم کو معاف نہ کریں اور وہ کہیں کہ ہمارے ڈرپوک اور مفاد پرست اجداد ہمیں کون سا دیش اور کون سا سماج دے کر گئے؟ اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم سماج کی چنوتیوں کو سمجھیں اور جو لوگ اس میں معاون ہیں ان کا ساتھ دیں۔یاد رکھیںکہ جس سماج میں لوگ لیتے کم اور دیتے زیادہ ہیں وہ ترقی کرتا ہے اور جس میں لوگ لیتے زیادہ اور دیتے کم ہیں وہ بکھر جاتا ہے ۔شریفوں سے سماج کو زیادہ نقصان ہوا جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں ؟ہم ایسے معاملات میں نہیں الجھنا چاہتے ہیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ اس میٹنگ میں آر ایس ایس نمائندہ اندریش کمار نے لنچنگ پر بولتے ہوئے کہاکہ کشمیری پنڈتوں کے لنچنگ پر بھی تو بولنا چاہئے ۔اب جناب والا کو کون بتائے کہ اس وقت مرکز میں بی جے پی کی حمایت سے ہی وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی سرکار چل رہی تھی۔ کس نے بی جے پی کو سرکار گرانے اور اپنی بات رکھنے سے روکا تھا؟ کب تک ہر گناہ مسلمانوں پر تھوپا جائے گا؟ اس کا بھی فیصلہ ہونا چاہئے ۔ اندریش کمار کو شاید یہ بھی یاد ہو کہ موجودہ وزیر دفاع نے پارلیمنٹ میں اپنے ایک بیان میں ایک موقع پر کہاتھاکہ سرکار کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا تو ،اگر کشمیری پنڈتوں کیساتھ ظلم ہوا تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کیلئے بی جے پی کتنی ذمہ دار ہے ؟کیا ایک لنچنگ کیساتھ دوسری لنچنگ کو جائز ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟تاہم اندریش کمار نے لنچنگ کی مذمت بھی کی۔ انہوںنےشہروںکے نام بدلے جانے کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہاکہ ہم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ اکبر کو دین الہی کے نام پر پریاگ راج کو الہ آباد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟کشمیر میں چار سو جگہوںنے کا نام بدلا گیا ،اس پر بھی تو بولئے۔ شاید یہاں بھی اندریش کمار تاریخ سے منہ موڑ گئے ۔اندریش کمار نے ملک کی تقسیم کیلئے گاندھی جی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہاکہ جہاں یہ سچ ہے کہ گاندھی جی نے ملک کی آزادی کیلئے جد وجہد کی وہیں یہ بھی سچ ہے کہ اگر گاندھی جی آمرن انشن پر بیٹھ جاتے تو ملک نہیں تقسیم ہوتا ۔کیا یہ بات کوئی مسلمان بول کر اب تک آزاد ہوتا ؟ اب سمجھنے والوں کیلئے اشارہ کافی ہے کہ آر ایس ایس ڈائیلاگ چاہتا ہے یا ڈیڈ لاک ، لیکن ڈائیلاگ کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ چلتے رہناچاہئے شاید کسی دن کوئی بہتر نتیجہ سامنے آئے۔آخر میں سوال یہی ہے کہ ہمارے کتنے اکابرین ہیں جو سراج الدین قریشی کی طرح اوپن فورم پر سچ بولنے کی جرات رکھتے ہیں ؟
مضمون نگار وطن سماچار کے فائونڈنگ ایڈیٹر ہیں
—–