کالم : بزمِ درویش :- خاک کا پتلا
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
میرے سامنے ایک ادھیڑ عمر فالج زدہ شخص نشان عبرت بنا بیٹھا تھا اس کی حرکات تاثرات رویئے اور جسم کے ہر حصے سے بے بسی بے کسی لا چارگی ٹپک رہی تھی اِس کا آدھا جسم بری طرح فالج کی گرفت میں تھا فالج نے اِس کے آدھے جسم کو پتھر کا بنا کر رکھ دیا تھا بلکہ فالج نے اِس کے آدھے جسم کو ناکارہ بنا کر رکھ دیا تھاآدھا جسم زندہ آدھا مردہ قدرت نے اِس شخص سے بہت ہی خوفناک اور بھیانک انتقام لیا تھا۔ قدرت نے اِس سے آدھی زندگی چھین کر اِس کو نیم مردہ زندہ لا ش بنا کر چھوڑ دیاتھا اگر اِس کے آدھے جسم میں دوڑتی زندگی بھی قدرت چھین لیتی تو شاید یہ بے بسی مجبوری بے کسی عذاب سے نہ گزرتا۔
قدرت نے اِس کے متکبر طاقت ور جسم پر آدھی موت وارد کرکے کو اِس کی اوقات یاد دلا دی تھی آج تک یہ بیما ری اور بڑھاپے میں جکڑا رحم طلب مدد طلب نظروں سے ہر ایک کو دیکھ رہا تھا آج جب اِس کی رگوں میں اچھلتا دوڑتا خو ن سرد ہو گیا تھا ایک وقت ایسا بھی تھا جب طاقت جوانی اقتدار کے نشے میں یہ اِسی جسم سے مجبوروں غریبوں مظلوموں کو بے رحمی بے دردی سے مارا کر تا تھا اِس کو اپنی طاقت عقل اور اقتدار کو بہت زیا دہ نشہ تھا جب اِس کے جسم میں گرم طاقت ور خون دوڑتا تھا اور اِس کے سر پر اقتدار کا سورج روشن تھا تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اِس کی رگوں میں دوڑتا خون اِس کے جسم اور اعضا کی طاقت کبھی کم بھی ہو سکتی ہے اِس کا اقتدار اختیار کبھی غروب بھی ہو سکتا ہے طاقت اور جوانی اور قتدار کے نشے میں دھت انسان یہی سمجھتا ہے کہ اِس دھرتی کا سب سے نرالہ طا قت ور صاحب اقتدار اور صاحب عقل میں ہی ہو ں، جس خوبصورتی طاقت عقل اور اقتدار کا آج میں مالک ہوں یہ تما م خو بیاں اس سے پہلے کسی کو بھی نصیب نہیں تھیں۔ ایسی خو ش فہمی بلکہ غلط فہمی اکثر انسانوں کو ہو جا تی ہے انسان اِس کو پرموٹ کر نے کے لیے جسم کو خوبصورت سے خوبصورت طاقتور بنا نے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈتا ہے ہر روز نئے پا پڑ بیلتا ہے دوسرں میں نما یاں اور منفرد رہنے کے لیے مہنگے سے مہنگے لباس پر فیومز گھڑیاں اور سونے کی انگو ٹھیاں اور زنجیریں پہننا ہے جہازی گا ڑیوں شاہی محلات جیسے بنگلوں فارم ہاسوں میں رہتا ہے بڑے بااثر لوگوں سے تعلقات رکھتا ہے خود پر اور دوسروں پر بے دریغ اپنی دولت لٹا تا ہے اِسی تمام حما قتوں کا مقصد ایک ہی ہو تا ہے کہ میں سب سے الگ طاقت ور اور صاحب عقل ہوں شب و روز ایسی ہی حرکتوں میں لگا رہتا ہے لیکن یہ مشبِ غبار یہ بھول جاتا ہے اِن کمزور بیما ر بو ڑھوں کو دیکھ کر قبرستان میں جا کر اِس کی عقل ٹھکانے نہیں آتی کہ شہر خموشاں میں اِس جیسے لاکھوں انسان مٹی کے ڈھیر کا حصہ بن چکے ہیں کیڑے مکوڑے حشرات الارض اِس جیسے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے جسموں کی مٹی کو چاٹ چکے ہیں اب اِس قبروں میں کھوپڑیاں اور ہڈیاں ہی نشان عبرت ہیں اگر آپ کسی بھی قبرستان چلے جائیں اورایک لمحے کے لیے یہ سوچیں کہ ایک سوسال پہلے یہ سارے کے سارے ہما ری طرح ہی زندہ حرکت کر تے ہنستے کھیلتے لڑتے جھگڑتے انسان تھے اِس کرہ ارض پر فرعون نمرود شداد سکندر چنگیزخان ہلاکو خان امیر تیمور انسان پوری طاقت اور غرور کے ساتھ زندہ تھے ایسے ظالم طاقتور لاکھوں جنگجو سپاہیوں کے ساتھ جس ملک یا شہر کا رخ کر تے اس کو صفحہ ہستی سے مٹا کر لاکھوں انسانوں کا قتل عام کر تے ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنا تے شہروں اور انسانوں کو زندہ جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتے اِن ظالموں نے شہروں کے شہر اور ملکوں کے ساتھ زمین کو ادھیڑ کر رکھ دیا ساری دنیا کے ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کے ڈھیر لوٹ کر لے گئے اور جب اِن ظالموں طاقتوروں لٹیروں کے جسموں میں دوڑتا خون سرد ہو تا جوانی کا سورج غروب ہو کر بڑھا پا اِن کے جسموں پر فیصلہ کرتا جسم پر کمزوری اور رعشہ طا ری ہو تا موت کی دھلیز اِن کو نظر آتی تو یہ سارے خزانے سو نے چاندی کے ڈھیر حسرت بھری نظروں سے دیکھتے کہ مو ت کا اندھا غار ان کا انتظار کر رہا ہے تو سرد آہ بھرتے اور با آواز کہتے ہے کو ئی کر ہ ارض پر جو یہ سارے کے سارے خزانے لے لے اور ہمیں ہما ری جوانی طاقت واپس کر دے اور پھر انہیں حسرت بھری نظروں سے یہ مو ت کے گمنام غار میں اتر جا تے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جا نے انسان اگر ذرا سا بھی غور و فکر سے کام لے تو اس پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جا تی ہے کہ تا ریخ کے اوراق طاقتور حکمرانوں ظالموں سے بھرے پڑے ہیں تا ریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک انسان کے سبق آموز واقعات موجود ہیں لیکن بے خبر انسان سبق لینے کی بجا ئے آنکھیں بند کر کے اِس جنوں مین مبتلا ہے کہ میں نے تو مرنا ہی نہیں میں تو خدا سے قیامت تک زندہ رہنے کا سر ٹیفکیٹ لے کر آیا ہوں زوال بڑھا پا یا موت یہ تو دوسروں پر وارد ہو تی ہے میں تو پتھر لو ہے کا بنا ہوں وقت زوال میرے لئے نہیں بنے دوسروں کو روزانہ قبروں میں اتارتا ہے روزانہ ہسپتالوں قبرستانوں کے قریب سے اِس بے پرواہی سے گزرتا ہے نہ نہ تو میں نے کبھی بیمار ہو نا ہے اور نہ ہی موت کا آہنی شکنجہ مجھے کسے گا بے خبر انسان یہ نہیں دیکھتا کہ اس سے اچھے تو یہ درخت پتھر مٹی کے ڈھیر گھر فرنیچر درو دیوار ندیا ں نا ے دریا سمندر چاند تا رے کا ریں گاڑیاں انساں کی بتا ئی ہو ئی ہزاروں لاکھوں ایسی چیزیں جو سینکڑوں ہزاروں سال تک قائم رہتی ہیں اور خو د انسان ایک سیکنڈ ایک سانس کا بھی بھروسہ نہیں رات جب نیند کی آغوش میں بے خبر ہو تا ہے تو پتہ نہیں اگلے دن بیدار بھی ہو تا ہے کہ نہیں جس دفتر میں کام کرتا ہے ایک ایک کر کے اس کے ساتھی فنا کی وادی میں اترتے چلے گئے انسان کے بچپن کے کتنے دوست رشتے دار جو اس کے سامنے شہر خموشاں میں منتقل ہو گئے کتنے جو آج صرف تصویروں اور یا دوں میں زندہ ہیں لیکن یہ انسان خود کو عقل کل سمجھنے والا دنیا کے ہنگا موں اور رنگوں میں اِسطرح گم ہے کہ موت لازوال بڑھا پا مجھے آنا ہی نہیں یہ بڑھاپے کے اس وقت کو بھولا ہوا ہے جب اِس کے اپنے ہی جسم پر اِس کا کنٹرول ختم ہو جا تا ہے جسم پر کمزوری اور رعشہ قبضہ جما لیتا ہے اپنے جسم کو ہی اپنی مر ضی سے حرکت دینے پر قادر نہیں رہتا اور جب جسم کے اعضا فالج زدہ یا بیما ری کا شکار ہو جا ئیں تو ڈاکٹر اِن اعضا کو کا ٹ کر الگ کر دیتے ہیں انسان کی اوقات یہ ہے کہ جن چیزوں کو کھا کر یہ جوان اور طاقت ور ہو تا ہے یہی چیزوں بڑھا پے میں انسان کو کھا نا شروع کر دیتی ہیں یہی چیزیں بیما ری میں اضا فے اور موت کو سبب بن جا تی ہیں انسان جب بیما ری اور مو ت کی دہلیز کی طرف بڑھتا ہے تو زندگی کے لمحات کو مزید طویل کرنے کے لیے در در جا کر زندگی اور صحت کی بھیک مانگتا ہے میرے سامنے بھی اپنے وقت کا مشہور و معروف تھانیدار بیٹھا تھا جس نے اقتدار اور طاقت کے نشے میں مجبور مظلوموں کی زندگی عذاب بنا رکھی تھا اور آج یہ خود بے بسی کی تصویر بنا زندگی کی بھیک مانگتا پھر رہا تھا۔
—-