آر ایس ایس سر براہ کی پھر نئی منطق :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

آر ایس ایس سر براہ کی پھر نئی منطق

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سر سنچالک موہن بھاگوت نے پھر ایک مرتبہ اس بات کو دہرایا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے آ باء و اجداد ایک ہی ہیں اور ہر ہندوستانی شہری ہندو ہے۔ انہوں نے 6/ ستمبر کو پونے میں "نیشن فرسٹ، نیشن سپریم "کے عنوان پر منعقدہ سمینار سے خطاب کر تے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ اس سمینارکا اہتمام گلو گل اسٹراٹیجک پالیسی فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔اس میں ہندو قوم پرستوں کے علاوہ مسلم دانشوروں نے بھی شرکت کی۔

موہن بھاگوت اپنے پیشرو آر ایس ایس سربراہوں کے بر عکس ہندوؤں اور مسلمانوں میں زیادہ سے زیادہ میل میلاپ کے خواہاں ہیں۔ اسی مقصد کے خاطر آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ بھی اندریش کمار کی نگرانی میں قائم کی ہے۔ ملک کے بعض مسلم دانشور، مذہبی رہنماء، سماجی جہد کار اور خاص طور پر مسلم خواتین اس منچ سے وابستہ ہوتی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں اندریش کمار کو آر ایس ایس سر براہ کی پوری سر پرستی حا صل ہے۔ جو مسلم دانشور یا مذہبی رہنماء اپنے آپ کو اس منچ سے قریب کر رہے ہیں، ان کا بھی دعویٰ ہے کہ اس قربت کے نتیجہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جا نے والی غلط فہمیاں دور ہو سکتی ہیں اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آ ہنگی کا ما حول پروان چڑھ سکتا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں اس پر کسی اور وقت گفتگو کی جائے گی۔ اس وقت موہن بھاگوت جی کے وہ خیا لات پیش نظر ہیں، جس کا انہوں نے مذکورہ سمینار میں اظہار کیا ہے۔ آر ایس ایس سربراہ کا اندازِ گفتگو بڑا نرالا ہو تا ہے۔ وہ ایک تِیر سے کئی نشانے لگا تے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے ادعّا کیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے آباء و اجداد ایک ہی ہیں اور فوری انہوں نے یہ الزام بھی لگا دیا کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آورں کے ذریعہ آ یا ہے۔ انہوں نے تاریخ کوتوڑ مڑور کر پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی تاریخی حقیقت ہے اور اس کو اسی طریقہ سے بیان کر نا چاہئے۔ تاریخی سچائیوں کو جھٹلاتے ہوئے موہن بھاگوت یہ باور کر انا چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے آیا۔ ان کی اس بات میں کوئی صداقت ہے تو پھر ملابار کے ساحل پر مسلمانوں کے جو تجارتی قافلے آ ئے تھے کیا وہ تاریخ کے من گھڑت قصے ہیں؟ اسی طرح جو صو فیاکرام نے اسلام کی دعوت کی خاطر ہندوستان کا جورخ کیا وہ محض قصہ کہانی ہے؟ یہ کہنا کہ ہندوستان میں مسلمان حملہ آوروں کی حیثیت سے آ ئے تاریخ سے کھلا کھلواڑ ہے۔ اس دروغ گوئی کے بعد یہ تصور کر لینا کہ ہندوؤں اورمسلمانوں میں یکجہتی اور اتحاد پیدا ہو سکتا ہے تو یہ محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے لکچر میں یہ دعویٰ کیا کہ لفظِ ہندو، مادرِ ارضی، ہمارے آباء واجداد اور ہندوستانی ثقافت پر دلالت کر تا ہے، اس لئے ہر ہندوستانی شہری ہندو ہے۔ پھر انہوں نے اپنی حب الوطنی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے کہا کہ ہم ہندوستانی غلبہ کے حصول کی اصطلاحوں میں سوچتے ہیں نہ کہ مسلم غلبہ کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا ہر شہری آرایس ایس کی سوچ کو اپنالے تا کہ ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی ممکن ہو سکے۔ اسی لئے نیشن فرسٹ، نیشن سپریم کے نظریہ کو عام کیا جائے۔ مو ہن بھاگوت نے سمینار میں موجود مسلم دانشوروں کو تلقین کی کہ وہ بنیاد پرستوں اور سخت گیروں کے خلاف سخت موقف اختیار کریں تا کہ ہندوستان میں ایسی طاقتیں ابھر نہ سکیں۔ موہن بھاگوت نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ہندوستان ایک سوپر پاور ملک ہے اور وہ کسی سے ڈرنے یا گھبرانے والا نہیں ہے۔ تو پھر یہ سب لکچر بازی کیوں کی جارہی ہے؟
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا شروع سے دعویٰ رہا کہ ہندوستان میں بسنے والے سارے شہری ہندو ہیں۔ لیکن اس کا کوئی تاریخی ثبوت آر ایس ایس آج تک پیش نہیں کر سکی۔ لفظِ ہندو کا استعمال کب سے شروع ہوا اس پر خودہندو دانشوروں کے درمیان کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کی کوئی مستند دلیل تاریخ سے نہیں دی جا سکی۔ حتی کہ ہندوؤں کی مذہبی کتا بوں جیسے وید، اپنشّد اور دیگر قدیم سنسکرت کتابوں میں یہ لفظ نہیں ملتا۔ "ہندو”لفظ کی وجہ تسمیہ "سند ھو”بتائی جا تی ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے "Discovery of India "میں لکھا کہ لفظِ ہندو، واضح طور پر سندھو سے نکلا ہے۔ اسی سندھو لفظ سے ہندو اور ہندوستان بنے ہیں۔ بعض جدید محققین کا ماننا ہے کہ ہندو لفظ فارسی زبان سے آیا ہے۔ خود ہندوؤں کے بعض طبقے اس لفظ پر اعتراض کر تے ہیں۔ آریہ سماج کے لوگوں نے با ضابطہ سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہندو نہیں ہیں بلکہ آ ریہ ہیں۔ اسی طرح حالیہ عرصہ میں کئی دلت قائدین نے دعویٰ کیا کہ وہ ہندو نہیں ہیں بلکہ دلت ہیں۔ حیدرآباد کے مشہور دلت لیڈر اور عثمانیہ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر کنچا ایلیا نے اپنی تصنیف ” Why I am not Hindu” میں پورے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ دلت طبقہ، ہندو نہیں ہے۔ برہمن وادی انہیں غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ سنگھ پریوار ان ساری حقیقتوں سے آ نکھیں چُرا کر اب اگر ملک کی ساری آ بادی کو ہندو بنانے پر مصر ہے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آخر اس کے پیچھے کیا منصوبہ کارفرما ہے۔ سنگھ سے وابستہ افراد اپنے آپ کو ہندو کہنے پر فخر محسوس کر تے ہیں۔ ان کو اپنے دھرم پر فخر کرنے حق ہے۔ لیکن دوسروں کو بزورِ طاقت یا غلط پروپگنڈا کے ذریعہ ہندو ماننے پر مجبور کرنا نہ صرف ایک غیر انسانی اور غیر اخلاقی حرکت ہے بلکہ اس قسم کے عزائم رکھنا ملک کے دستور کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دستورِ ہند نے ہر شہری کو عقیدہ و فِکر کی آ زادی دی ہے۔ کوئی مخصوص نظریہ کسی پر زبردستی مسلط نہیں کیا جا سکتا لیکن آر ایس ایس کاایجنڈا یہی ہے کہ ملک کے پورے شہریوں کو "ہندتوا”کی چھتر چھایا میں لایا جائے۔ ہندو ہونے پر اصرار کر نے کا مقصد یہی ہے کہ ہندوستان کے شہری اپنے مذہب سے دستبردار ہو کر ہندتوا کو قبول کر لیں۔راشٹر یہ سو یم سیوک سنگھ کو اسی مقصد کے پیشِ نظر قائم کیا گیا۔ آر ایس ایس کے سر سنچالک موہن بھاگوت آج جو بیانات دے رہے ہیں وہ دراصل اسی کا تسلسل ہے جس کا اعادہ آر ایس ایس کا ہر سربراہ اپنے دورِ صدارت میں کرتا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ موہن بھاگوت ایک کڑوی بات کو میٹھے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ مسلم دانشور اگر آر ایس ایس کے نظریہ ساز "ونئے دامودر ساورکر”کی مشہورِ زمانہ کتاب "ہندتوا "کا مطالعہ کرلیں تو وہ موہن بھاگوت کی باتوں سے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ انہیں تاریخ سے صحیح واقف کرانے میں کا میاب ہو جائیں گے۔ وی۔ ڈی۔ ساورکر نے ہندتوا کا جو خواب دیکھا ہے موہن بھاگوت اس کی تعبیر تلاش کر نے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے طریقہ دوسرا اختیار کیا ہے لیکن منزل ایک ہی ہے۔ اس حقیقت کو جانے بغیر کوئی یہ سمجھنے لگے کہ آر ایس ایس کی پالیسی بدل گئی ہے اور موہن بھاگوت سب ہندوستانیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم کر چکے ہیں تو یہ صرف خیالی با تیں ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سنکھ پریوار پر اپنے قیام(1925)سے اب تک اپنے منصوبے کے مطابق کام کر رہا ہے۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد ہندوستان میں "ہندو راشٹر "قائم کرنا ہے۔ جہاں ہندوؤں کے مخصوص طبقہ کو بالادستی حاصل ہو۔ جہاں اقلیتوں کے کوئی دستوری اور جمہوری حقوق با قی نہ رہیں۔ ملک میں ایک خاص مذہب، تہذیب اور زبان کو جاری و نافذ کر دیا جائے۔ اب جب کہ اقتدار ان کے ہاتھوں میں آ چکا ہے ہندوتوا کو عملی روپ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کچھ ہی دن پہلے (4/جولائی 2021) راشٹریہ مسلم منچ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں "ہندوستانی فرسٹ، ہندوستان فرسٹ "کے زیر عنوان خطاب کر تے ہوئے ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ جو ہندو مسلمانوں کو ہندوستان میں نہ رہنے کے لئے کہتا ہے وہ حقیقت میں ہندو ہی نہیں ہے۔ انہوں نے ملک میں ہونے والے ہجومی تشدد کے پسِ منظر میں کہا کہ ماب لنچنگ میں ملوث ہونے والے ہندوتوا کے مخالف ہیں اور وہ ایسے عناصر کی تائید نہیں کر تے۔ ان کے اس بیان پر راشٹریہ مسلم منچ سے وابستہ مسلم دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں نے جم کر موہن بھاگوت کی تعریف کی اور یہ دعوی کر نے لگے کہ واقعی آر ایس ایس کا نظریہ مسلمانوں کے تئیں بدل چکا ہے۔ لیکن با خبر حلقے جانتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات کے باوجود مسلمانوں کو مارنے پیٹنے اور انہیں ہلاک کر نے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آ ئی۔ انتہا یہ کہ ایک مسلم لڑکی کی دارالحکومت میں بڑی بیدردی کے ساتھ عصمت لوٹی جا تی ہے اور پھر اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے انسانی درندے جھاڑیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ لیکن ابھی تک خاطیوں کی گرفتاری عمل میں نہیں آ تی ہے اور لڑکی کے افراد خاندان کو انصاف نہیں ملتا ہے۔ آر ایس ایس سربراہ نے راشٹر یہ منچ کے اپنے اُ س خطاب میں یہ بات کہی تھی کہ ہندوستان کے عوام کا ڈی این اے ایک ہے۔ اس لئے ہندویامسلمان کی اصطلاح میں نہیں سوچنا چاہئے۔ جب ہندو اور مسلمان کا ڈی این اے ایک ہے تو پھر ایک بے بس لڑکی کے ساتھ یہ گِھناؤنا سلوک کیوں ہوا اور کیوں آر ایس ایس کے سربراہ مودی حکومت سے مطالبہ نہیں کر تے کہ ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ مسلمانوں کے وہ خود ساختہ دانشور اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے اور سنگھ پریوار سے یہ سوال کرنے میں کیوں جھجک محسوس کر تے ہیں کہ ظلم اور بر بریت کی ایسی وارداتوں کو فور ی روکاا جائے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ان بہی خواہوں نے آر ایس یس کے قصیدے پڑھنے کا تہیہ کرلیا تاکہ حکومت سے اس وفاداری کا صِلہ پاسکیں۔ چناچہ باور کیا جا رہا ہے کہ جو با اثر شخصیتیں راشٹریہ منچ سے اپنی وابستگی رکھی ہیں انہیں حکومت بڑے بڑے مناصب پر فائز کر رہی ہے تا کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر خاموشی سے عمل آ وری ہو سکے۔ اندرون دو مہینہ موہن بھاگوت کا مسلمانوں کے حوالے سے اہم بیانات کا دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں کو بہلا پھسلا کر آر ایس ایس کے قریب کر کے ا نہیں گھر واپسی کا انتظام کرناہے۔ اب یہ خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مسلسل آ رہی ہیں کہ سنگھ پریوار مسلمانوں کا "دھرم پریورتن "کرنے میں سارا زور لگارہا ہے۔ خاص طور پر غریب مسلم خاندانوں کی لڑکیوں کو نشانہ بنا کر ان کا مذہب تبدیل کرکے غیر مسلم لڑکوں سے ان کی شادیاں کرائی جا رہی ہیں۔ ان سارے حادثات کے باوجود موہن بھاگوت یا ان کے حواری فرقہ پرستوں کو کوئی لگام نہیں دیتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کے سربراہ اپنی تقاریر کے ذریعہ کس کو اپنا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ ان کی منطق کو یہ سمجھ کر مان لیاجائے کہ انہوں نے ماب لنچنگ کے تعلق سے جوبات کہی ہے وہ دل سے کہی تو پھر کسی رکشہ چلانے والے مسلمان کو ہجومی تشدد کا شکار کیوں بنایا گیا؟ اگر بھاگوت جی کے نزدیک ہندو اور مسلمان ایک ہی قوم کا حصہ ہیں تو پھر مسلمانوں کے ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں ناانصافی اور تعصّب کیوں بر تاجا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موہن بھاگوت مسلمانوں کو طفل تسلی دے کر آر ایس ایس کے ایجنڈے کو آ گے بڑھا رہے ہیں اور افسوس ہے کہ بعض نام نہاد مسلمان ان کی صف میں شامل ہو کر ان کی سُر میں سُر ملارہے ہیں۔ المیہ اس بات کا ہے کہ جن کو قوم و ملک کی قیادت کرنی تھی وہ دوسروں کی غلامی پر رضا مند ہو گئے۔
—–

ڈاکٹر اسلام الدیم مجاہد

Share
Share
Share