کالم : بزمِ درویش – مجبوریاں :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share

کالم : بزمِ درویش – مجبوریاں

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

وہ میرے سامنے مجسم التجا بن کر بیٹھی تھی۔ ایک معصوم 18سالہ نازک اندام کمزور جسم کی مالک بیٹی جس کی آنکھوں اور چہرے پر خوف، دکھ، دہشت کے خوفناک تاثرات واضح طور پر نظر آرہے تھے اس کی آنکھوں میں التجا اور مدد کے تاثرات گہرے سے گہرے ہو تے جارہے تھے۔ وہ بار بار دائیں بائیں دیکھ رہی تھی جیسے کو ئی اس کا پیچھا کر رہا ہو مجھے وہ معصوم ہرنی کی مانند لگ رہی تھی جو شکا ری کتوں کے چنگل سے بھاگ کر آئی ہو خوف اور دہشت نے اس کے نازک جسم کو جکڑا ہوا تھا۔

کسی شدید خوف کی وجہ سے بار بار اس کے جسم پر لرزا طاری ہو جا تا وہ بار بار مجھے کہہ رہی تھی کہ میں شدید خطرے میں ہوں پلیز میری بات فوری سن لیں شدت دکھ اور خوف سے اس کا چہرہ بار بار زرد پڑ رہا تھا اور بولنے کے دوران اس کے ہونٹ کا نپ رہے تھے۔ وہ کسی جان لیوا خوف اور کشمکش میں مبتلا تھی۔ وہ نوجوان تھی لیکن اس کے چہرے پر نو جوانی کی تازگی نہیں تھی اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔ اس کی حالت بتارہی تھی کہ پتہ نہیں وہ مشکلات کے کتنے صحراں سے گزر کر آئی ہو۔ مشکلات کی پتہ نہیں کتنی دلدلوں سے وہ گزر کر آئی ہو۔ نازک سی بچی پر پتہ نہیں کون سی مصیبت یا ظلم ہوا تھا کہ وہ مدد مدد پکار رہی تھی اس کی آواز چہرہ آنکھیں اور پورا جسم شدید دکھ اور درد میں مبتلا نظر آرہا تھا۔ مجھے جلد ہی احساس ہو گیا کہ وہ کسی بڑی مشکل میں ہے اِس لیے میں شفقت سے لبریز لہجے میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا بیٹی بتا میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہو ں۔ میری شفقت دیکھ کر اس نے رونا شروع کر دیا۔ روتے روتے اس نے اپنی جو دکھی داستان سنائی وہ سن کر میرے دل و دماغ کے سرکٹ بھی اڑ گئے میرے جسم میں کئی آتش فشاں پھٹ پڑے اس کی کرب ناک داستان یوں تھی۔ سر ہم تین بہن بھائی ہیں میرے والد صاحب 5سال پہلے فوت ہو گئے تو میری ماں نے ٹیوشن اور لوگوں کے کپڑے سی کر ہماری پرورش کی رشتہ داروں نے چند ماہ تو ہماری خبر گیری کی لیکن آہستہ آہستہ تمام رشتہ دار ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ گئے۔ اب اس ظالم معاشرے میں کوئی بھی ہمارا والی مدد گار نہ تھا۔ اوپر سے لوگوں کی گندی نظریں عزت کو سنبھالنا بھی مشکل ہو گیا بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا تھا میری ماں نے دن رات مزدوری کر کے مجھے ایف اے تک تعلیم دلائی دوسرے بہن بھائی مجھ سے چھوٹے ہیں۔ اب تین بچوں کی تعلیم جاری رکھنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اپنی ماں اور بہن بھائی کا ساتھ دوں گی اور اب کوئی نوکری کروں گی۔ اب میں نے نوکری کی تلاش شروع کر دی میں نے دو پرائیویٹ نو کریاں کیں لیکن چند دنوں بعد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میں غلط جگہ آگئی ہوں۔ کیونکہ دونوں جگہوں پر چند دن بعد ہی ناجائز مطالبے شروع ہو گئے جب میں نے ان کے مطالبوں کو ماننے سے انکار کر دیا تو مجھے مختلف بہانوں سے تنگ کیا جانے لگا اور نو کری میرے لیے بہت مشکل بنا دی گئی۔ جب یہ مشکل آخری حدوں سے بھی باہر گزر گئی اور مجھے احساس ہو ا کہ اب نو کری صرف ایک ہی صورت میں چلے گی کہ میں مالکوں کی ناپاک خواہشوں کی تکمیل کروں۔ لہذا میں نے دونوں نو کریا ں چھوڑ دیں اور گھر بیٹھ گئی لیکن گھر بیٹھنے کے چند دنوں بعد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ اِس طرح زندگی کی گاڑی آگے نہیں بڑھے گی تو میں نے پھر نوکری کی بھاگ دوڑ شروع کر دی میری ایک دوست نے بتایا کہ اب تم کوئی سرکاری نوکری حاصل کرو۔ سرکاری نوکری میں لڑکیاں با عزت نوکری کر سکتی ہیں۔ پرائیوٹ نوکریوں میں جو بلیک میلنگ ہو تی ہے وہ گورنمنٹ کی نوکریوں میں نہیں ہو تی اب باعزت نوکری کے لیے میں نے مختلف جگہوں پر جانا شروع کر دیا۔ سرکاری دفتروں نے دھکے کھانے کے چند دنوں میں ہی مجھے یہ احساس ہو گیا کہ سرکاری نو کری سفارش کے بغیر نہیں ملتی اب میرے پاس کوئی بڑی سفارش نہیں تھی۔ جس کو استعمال کر کے میں سرکاری نوکری حاصل کر سکوں۔ اِسی پریشانی اور بھاگ دوڑ میں کسی نے مجھے کسی بڑے آدمی کا بتایا کہ وہ تمھیں آسانی سے نوکری دلا سکتا ہے اب میں نے ہمت کی اور اس کی کوٹھی پر چلی گئی مجھے وہا ں پر ایک کارڈ دیا گیا کہ آپ اِس ایڈریس پر فلاں دن آجا آپ کی نوکری کا انتظام ہو جا ئے گا۔ میں خوشی خوشی گھر آگئی اور اپنی ماں کو بتایا کہ میری ملاقات آخر کار ایک فرشتہ نما انسان سے ہو گئی ہے جس نے نو کری دینے کا وعدہ کیا اب میں اس جگہ جاں گی تو مجھے نوکری بھی مل جائے گی۔ اب میں شد ت سے اس دن کا انتظار کر نے لگی آخر مقررہ دن میں اس جگہ پر پہنچ گئی۔خلاف توقع اس بنگلے پررش بلکل نہیں تھا۔ میں آنے والے بڑے طوفان سے بے فکر بڑے ڈرائینگ روم میں بیٹھی تھی کہ آخر اور انسان آگیا میں نے ادب سے سلام اور شکریہ ادا کیا کہ اس نے مجھ غریب پر ترس کھایا اور مجھے نوکری دلانے میں مدد کر رہے ہیں وہ میرے سامنے بیٹھ گیا وہ مجھے بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے اچھی طرح دیکھنے کے بعد وہ بولا تم بے فکر ہو جا تم کو نوکری بھی ملے گی اور تمھاری باقی ضروریات بھی پوری کی جائیں گی۔ اب اس نے مجھ سے نوکری کی درخواست مانگی اور کہا کہ میرے پاس آ اور مجھے درخواست دو میں نے جا کر اس کو درخواست دینے کی کوشش کی تو اس نے میرا بازو پکڑ کر اپنے پاس بیٹھا لیا۔ اور ساتھ ہی میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی میرا محسن فرشتے سے شیطان بن چکا تھا۔ مجھے شدت سے خطرے کا احساس ہوا کہ میں غلط جگہ آگئی ہو ں میں نے اللہ تعالی کو یاد کیا اور ہمت کر کے باہر کی طرف بھاگی کمرے سے نکل کر مین گیٹ کو کھولا اور با ہر نکل کر دوڑنا شروع کر دیا وہ شیطان بھی میرے پیچھے بھاگا جب میں گلی میں آگئی تو اس نے اپنے سیکورٹی گارڈ محافظ کو چلا کر کہا اِس لڑکی کو پکڑ کر لا اِس دوران میں گلی کو موڑ کراس کر گئی اِسی دوران اس کو سیکورٹی گارڈ موٹر سائیکل پر میرے پیچھے آتا نظر آیا تو اس نے جلد ہی مجھے پکڑ لیا میں اس کے قدموں میں گر گئی کہ اپنی بیٹیوں کے صدقے میں مجھے معاف کر دو اس شیطان کے پاس لے کر نہ جا اچانک اللہ تعالی کی مدد آئی اور گارڈ کو مجھ پر ترس آگیا اس نے مجھے کہا چلو میں تمھیں تمھارے گھر چھوڑ کے آتا ہو ں پھر وہ مجھے میرے گھر چھوڑ گیا۔ اگلے دن وہ گارڈ پھر میرے گھر آیا اس شیطان کو پتہ چل گیا ہے کہ میں نے تمھاری مدد کی میرے ساتھی نے مجھے فون کر دیا کہ تم واپس نہ آنا تمھارے خلاف تھانے میں رپورٹ کرا دی گئی ہے کہ تم نے روپے اور زیورات چوری کئے ہیں تم جیسے ہی واپس آ گے پکڑے جا گے۔ وہ گارڈ اب رات دن چھپتا پھرتا ہے اور وہ شیطان شکاری کتے کی طرح اس کے پیچھے پیچھے ہے۔ اس لڑکی کی داستانِ غم سن کر میری آنکھیں نمناک ہو گئیں وہ بار بار کہہ رہی تھی سر آپ دعا کریں وہ گارڈ جو میر ا محافظ تھااس ظالم کے قابو نہ آئے۔ پھر وہ بچی چلی گئی لیکن میری روح کو ادھیڑ کر چلی گئی پتہ نہیں ہر روز کتنی ایسی مجبور بچیاں گھر سے نکلتی ہیں اور ایسے ہی شیطانوں کے ظلم کا شکار ہو کر اپنی نازک انگلیوں سے اپنے زخمی جسموں کے ریزہ ریزہ وجودوں کو چنتی ہیں ہمارے مردہ معاشرے میں جو اب ہڑپہ اور موہنجوداڑوں بن چکا ہے وہ یہاں کا ہر شہری بے حسی اور بے غیرتی کے ہاتھوں بیعت ہو چکا ہے مظلوم گھروں سے زینب جیسی کئی بیٹیاں نکلتی ہیں لیکن اِن مظلوم بیٹیوں کی آواز کو ئی نہیں سنتا۔
—-

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
Share
Share