کالم : بزمِ درویش – آزادی یا فحاشی
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
جب سے اسلام آباد میں عثمان مرزا نے جوان جوڑے پر بند کمرے میں کپڑے اتا ر کر ذلیل اور تشدد کیا ہے پھر اُس کے بعد خونی درندے ظاہر جعفر نے اپنی ہی دوست نور مقدم کو بلا کر بند کمرے میں اُس کے جسم سے چھیڑ چھاڑ کی پھر اُس کا سر تن سے جدا کر کے اُس کے سر سے فٹ بال کھیلا یہ مناظر دیکھ کر اہل وطن دم بخود ہیں کہ یہ جوان نسل کیا کر رہی ہے کس راستے پر چل پڑی ہے انسان کا اس قدر گھناؤ نا روپ پہلی بار نظرو ں کے سامنے سے گزرا۔
اِن دونوں واقعات نے مہذب معاشرے کے چہرے کو بری طرح بگاڑ کر رکھ دیا ہے کیا ہمارا معاشرہ اِس قدر خطرناک تعفن زدہ بانجھ اور بنجر بلکہ درندگی شدہ ہو چکا ہے جو اِن دونوں جوانوں نے صنف نازک کے ساتھ کیا اِن دونوں واقعات کا اگر تجربہ کریں تو حیران کن حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ دونوں واقعات میں ملزموں نے جو درندگی کی اُس پر وہ شرمندہ یا خوفزدہ نہیں بلکہ عثمان مرزا تو احساس تفاخر ہے اِس طرح ظلم کر رہا تھا جیسے وہ کسی کھیل کے میدان میں کامیابی سے کھیل رہا ہے یا پھر کسی فلم میں ولن کا رول ادا کر رہا ہے ظلم اور درندگی کرتے وقت اُس کے چہرے یا گفتگو حرکات سے بلکل بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کوئی بہت غلیظ حرکت کر رہا ہے بلکہ وہ خوشی خوشی نارمل سی بات سمجھ رہا ہوتا ہے پھر بعد میں کپڑے اتار کر فلم بنا تا پھر جوڑے کو بلیک میل کر کے اُن سے لاکھوں روپے بٹور تا رہا۔پتہ نہیں وہ اِس دھندے میں کب سے کتنے لوگوں کو ظلم کی چکی میں پیس چکا تھا اُس کے ساتھ کتنے لوگ تھے معاشرے کے کون سے بااثر لوگ اُس کی پشت پناہی کر رہے تھے اِن سوالوں کے جوابوں نے اہل علم و دانش کو چیر کر رکھ دیا ہے دوسرے واقعے میں ظاہر جعفر نے جس طرح جوان لڑکی کو بلا کر خنجر کے وار کر کے لہو لہان کیا پھر اُس کا سر کاٹ کر اُس سے فٹ بال کھیلا یہ کیا ہے ایسا منظر ایسا واقعہ کیوں اور کیسے ہو گیا حیران کن سچائی یہ سامنے آتی ہے کہ پہلے جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آتا تو فورا مدرسوں پر اسلامی تنظیموں پر یا اسلام کی تعلیمات پر الزام لگا دیا جاتا ہے کہ مدرسوں میں اساتذہ جہالت سے لبریز ہو تے ہیں وہ مہذب معاشروں کی ضروریات اخلاقیات سے واقف نہیں اسلامی مدرسے ایسے جوانوں کی نرسری ہیں جہاں پر ایسے سفاک درندے پرورش پاتے ہیں یہی واقعہ اگر کسی مدرسے کے طالب علم سے ہو جاتا تو اب تک ہمارے ملک کی نام نہاد ترقی پسند تنظیموں نے بھونچال لے آنا تھا مغرب کی آزادی اور عورت مارچ کے حمایتیوں نے طوفان بر پا کر دینا تھا کہ مذہبی پابندیاں ہم برداشت نہیں کریں گے ایسے جوان اِن مذہبی درس گاہوں میں ہی پرورش پاتے ہیں لیکن یہاں معاملہ الٹ نکلا کیونکہ عثمان مرزا اور ظاہر جعفر کسی مدرسے کے تعلیم یافتہ نہیں بلکہ ظاہر جعفر تو امریکی نیشنل اور امریکہ کی جدید تعلیمی درس گاہوں سے تعلیم یافتہ ہے اُس کے والدین مذہبی اقدار پر کا ر بند نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی ایلیٹ کلاس امیرزادوں میں شامل ہیں ظاہر جعفر امریکہ کے بعد برطانیہ میں بھی زندگی گزار چکا ہے۔ اور پھر حیران کن حقیقت یہ سامنے آتی ہے یہ خود ایک نفسیاتی معالج بن کر مختلف جگہوں پر ذہنی بیماریوں پر لیکچر بھی دیتا تھا یعنی یہ ہمارے ترقی یافتہ مہذب معاشرے کا ایک تعلیم یافتہ سمجھ دار جوان تھا جس کے والدین اعلی خاندانی روایات کے حامل تھے اپنے بیٹے کو امریکہ اور برطانیہ کے ترقی یافتہ مشہور اداروں سے تعلیم حاصل کرائی نور مقدم عورت مارچ کے حمایتی میں اگلے مورچے پر نظر آتی ہے عورت مارچ اور آزادی کے حمایتی اب خاموش کیوں ہیں اب وہ اِس مکروہ آزادی کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے کہ یہاں تو کوئی اسلامی مدرسہ ملوث نہیں ہے نہ ہی یہ پاکستان کے جہالت کے ماحول میں پروان چڑھا ہے عثمان مرزا اور ظاہر جعفر کے دونوں واقعات مہذب نام نہاد ترقی یافتہ کلچر کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں جس کے گن گاتے اور جگالی کرتے ہمارے دانشور نظر آتے ہیں جن کو مغرب پرستی کا دورہ ہر وقت پڑا رہتا ہے جو مغرب کی تعریفوں پر دن رات اپنی انرجی ضائع کرتے نظر آتے ہیں اب ان مغرب زدہ دانشوروں کو سانپ سونگھ گیا ہے آزادی اور فحاشی کی دلدادہ عورتیں جو آزادی مارچ کے نعرے مارتی سڑکوں پر نکل آئی تھیں وہ بھی خاموشی کی چادر اوڑھے سو رہی ہیں دن رات اسلام اور اسلامی مدرسوں اسلامی تعلیم پر حقارت تنقید کی گولہ باری کی بجائے اگر ایسے جنسی جانور نما درندوں کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو ہم اپنے خاندانوں اور معاشرے کو اِن درندوں سے بچاسکتے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ آزادی پسند امیر والدین نے مغرب کی تقلید میں اپنی اولاد کو بے لگام کھلا چھوڑ رکھا ہے ترقی یا فتہ مہذب اور ایلیٹ کلاس کے دعوے دار ایسے والدین دولت تعلقات کے زور پر اپنی اولاد کو مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں بھیج کر معاشرے میں اپنی ناک بلند کرتے ہیں کہ ہمارا سپوت فلاں ترقی یافتہ ملک کی فلاں یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے پھر دولت کی بارش کر کے اُس کو جوانی کے گرم خون میں عیاشی آزادی کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں مغرب کا معاشرہ جوصدیوں پہلے مذہب کی چادر اتار کر پھینک کر لادین گروپ میں شامل ہو چکا ہے وہ جوانوں کو آزاد جنسی جانور بنا دیتے ہیں دوسرا یور پ نے بلیو جنسی فلموں کی بھر مار کر کے جوانوں کو مذہب سے دور کر دیا ہے اوپر سے پھر کوئی روک ٹوک نہیں اسلام اور اسلامی حدود و قیود پابندیوں سے آزاد ہو کر یہ جوان نسل راتوں کو بلیو فلمیں دیکھتے ہیں جس میں رشتوں کو کھلے عام پامال کیا جاتا ہے وہاں پر ماں باپ بہن بھائی کسی رشتے کا خیال یا احترام نہیں ہے ان کو دیکھ کر مذہب سے دور جوان بھی رشتوں کے تقدس اور نزاکت سے آزاد ہو کر جنسی درندہ بن جاتا ہے پھر اسلام نے شدت سے نشہ آور اشیاء کو حرام قرار دیا ہے مذہب سے دورجدت پسند کہلوانے کے شوق میں جدید آزاد طبقہ والدین اور جوان نسل کھلے عام پارٹیوں میں نشہ آور چیزوں کا بھرپور استعمال کر تے ہیں فحش جنسی فلموں اور نشے کی آغوش میں پل کر یہ نسل تیار ہوتی ہے نشہ اور فحاشی کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ جوان نسل جنسی درندے کا روپ دھار لیتی ہے جو مقدس رشتوں کے تقدس سے عاری ہوتی ہے اور لذت کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی ہے جبکہ اسلام کی آغوش میں پروان چڑھتی نسل کو رشتوں کا تقدس اور بھرم اخوت بھائی چارے کا بخوبی احساس ہو تا ہے وہ کسی کے ایک خون کے قطرے کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے ہر عورت کو ماں بہن بیٹی کا مقدس مقام دیتا ہے اگر ہم اپنے خاندانوں کو معاشرے کو اور ملک کو پر امن دیکھنا چاہتے ہیں تو مغرب کی آزادی فحاشی کو ترک کر کے اسلام کی مقدس آغوش میں آنا ہو گا صوفیا کرام کی اخوت بھائی چارے کی فضا کو قبول کر نا ہو گا جہاں پر دشمن کو بھی دودھ کا پیالہ پیش کیا جاتا ہے پوری انسانیت کی بقا اسلام اور صوفیا کرام کے امن کے پیغام میں ہے نہیں تو آزادی اور فحاشی کے اِس سیلاب سے اِسی طرح معاشرے تباہ برباد ہوتے رہیں گے فحاشی کی کوکھ سے عثمان مرزا اور ظاہر جعفر جیسے جنسی خونی درندے جنم لے کر خود کو والدین خاندان اور معاشرے کو برباد کر تے رہیں گے ہماری بقا صرف اور صرف اسلام اور صوفی ازم کے بھائی چارے اور اخوت میں ہے۔
———–