کالم : بزمِ درویش – خونی درندہ
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
ابھی وطن عزیز کے لوگ اسلام آباد کے سانحے عثمان مرزا کے پاگل پن‘بد معاشی اور جنسی استحصال سے نہیں نکلے تھے عثمان مرزا کا ایک جوڑے پر جنسی تشدد مار کٹائی مذاق اڑانا اپنے ساتھیوں کے سامنے مظلوم جوڑے کے کپڑے اتار کر ذلیل و رسوا کر نا‘ اپنی ذات کی کالی خواہشات کی تسکین کرنا خوابوں کی دنیا کا گینگ ماسٹر انڈر ورلڈ کا سرغنہ بننا کمزور مظلوموں کو بند کمرے میں خوفناک سزائیں دینا‘ پورا پاکستان اِس جنسی کھیل سے سکتے میں تھا کہ ایک اور ایٹم بم پھٹ پڑا جب نور مقدم اور ظاہر جعفر کا خونی سیکنڈل سامنے آگیا
اِس واقع اور منظر نے تو پاکستانیوں کو اُدھیڑ کر رکھ دیا کہ کس طرح ایک نفسیاتی جنسی درندے نے نور مقدم کو گھر بلا کر اُسکو اذیتیں دے دے کرپہلے لہو لہان کیا پھر درندگی میں خون آشام درندوں کی درندگی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تیز دھار خنجر سے لڑکی کے جسم پروار پروار کرتا گیا جب لڑکی کے جسم میں بہت سارے سوراخ بن گئے اور اُن سوراخوں سے خون کی دھاریں ابلنا شروع ہو گئیں اِس طرح نکلنے خون کو دیکھ کر سنگدل سے سنگدل انسان بھی خوف زدہ ہو کر ظلم و بربریت اور مزید چیر پھاڑ سے باز آجاتا ہے لیکن قاتل جنسی درندہ جو مغرب امریکہ برطانیہ کی اعلیٰ درجے کی درس گاہوں سے تعلیم حاصل کر نے آیا تھا اُس کو خوف یارحم نہیں بلکہ ہر نئے زخم اور خون کی دھار کے بعد اُس کی درندگی میں مزید اضافہ ہو جاتا‘مقتول نور مقدم کو جب ملاقات کے دوران پتہ چلا کہ قاتل بے رحم اور جلا دبن چکا ہے اور وہ اس کی جان کے در پے ہے تو اُس نے بھی زندگی کی بقا کے لیے چھت سے نیچے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن درندے نے پیچھا کیا اپنے نوکروں سے کہا باہر کا دروازہ بند کر دو پھر نیچے آکر اُس مقتول لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا ہوا پھر اپنے ذبح خانے میں لے گیا یہاں پر معاشرے کا بانجھ پن اور بے حسی بھی نظر آتی ہے جب گھر کے ملازم نے نور مقدم کو جان بچانے کے لیے بھاگتے دیکھا اِس سے پہلے وہ چیخ و پکار بھی سن چکا ہو گا لیکن اُس میں بھی شاید انسانیت کی رمق نہیں تھی اُس نے لڑکی کو بھاگنے نہیں دیا اُس کا ساتھ دینا اُس کی حفاظت کر نا تو دور کی بات ایک جان بچاتی مظلوم لڑکی جو قاتل کے بے رحم ہاتھوں سے جان بچانے کے لیے اوپری منزل سے نیچے کود پڑی تھی صرف اُس کے راستے کی دیوار نہ بنتا اُس کو بھاگنے دیتا تو نور مقدم بھی بچ جاتی اور پورا پاکستان جس صدمے یا فالجی کیفیت سے دوچار ہے عوام بھی اِس اذیت میں مبتلا نہ ہو تے پھر قاتل نے اپنی درندگی کی داستان کو اور ہولناک دہشت ناک اِس طرح بنایا کہ پہلے تو لڑکی کو جگہ جگہ سے زخمی کیا یہاں بھی اُس کی تسکین نہیں ہو تی بلکہ اُس کو مارنے کے بعد اُس کے سر کو تن سے جدا کر کے اُس کے سر سے فٹ بال کھیلتا رہا درندگی ظلم پاگل پن کا ایسا مظاہرہ پہلے کسی نے نہ دیکھا پھر کتنی دیر خونی جنسی درندہ مردہ جسم اور اُس کے کٹے ہو ئے سر سے کھیلتا رہا پھر جب تھک گیا تو اپنے دوستو ں اور گھر والوں کو فون کیا یہاں پر امیر والدین جو ہمارے آزاد اعلیٰ کلاس کی نمائندگی کر تے ہیں انہوں نے نفسیاتی علاج گاہ کے لوگوں کو اِس طرح کال کی کہ برخوردار کسی ذہنی الجھن میں گرفتار ہیں جا کر امیر زادے کی مدد کریں پھر اُس ادارے کے لوگ جب گھر پر آتے ہیں تو قاتل صاحب تو قتل کی روح فرسا داستان رقم کر کے کمرہ بند کر کے لڑکی کے سرسے فٹ بال کھیل رہے تھے اب لوگوں نے دیواریں پھلانگ کر سیڑھی لگا کر گھر تک رسائی حاصل کی پھر جا کر قاتل کے کمرے کو توڑ کر کھولا تو قاتل کا خونی جذبہ ابھی تک ابل رہا تھا لڑکی کا سر تن سے جدا کرنے کے بعد بھی اُسے قرار نہیں آیا تھا خون آلودہ خنجر ہاتھ میں لیے وہ آنے والوں پر حملہ آور ہو گیا اُن کو زخمی کر نا شروع کر دیا ایک جوان لڑکی کی جان لینے اُس کا سر کاٹنے کے بعد بھی اُس کی درندگی ماند نہیں پڑرہی تھی بلکہ وہ ابھی اور لوگوں کا خون بہانا چاہتاتھا وہ تو شکر ہے کہ آنے والے لوگ زیادہ تھے انہوں نے چادروں وغیرہ کی مدد سے اُس کو پکڑنے کی کو شش کی اِس دوران درندے نے ان کو بھی مارنے کی پوری کوشش کی لیکن دھینگا مشتی میں تھک کر آخر قابو آگیا تواِس درندے کو چادروں سے باندھ دیا گیا اب اللہ کا شکر آنے والے زیادہ لوگ تھے اگر وہ ایک یا دو ہوتے یا اُس کے پاس جو پستول پڑا تھا قدرت کی مہربانی کہ جب اُس کو چلانے کی کو شش کی تو گولی پستول میں پھنس گئی اِس طرح پستول اب مزید گولہ باری کر نے سے قاصر تھا اگر پستول ٹھیک حالت میں ہوتا تو اِس خونی درندے نے لڑکی کے جسم میں بارود کے سوراخ کر نے کے بعد آنے والے انسانوں کو بھی اپنی درندگی کا نشانہ بنا نا تھا خنجر سے اِس نے مارنے کی کو شش کی لیکن پکڑا گیا اِس طرح بہت سارے لوگوں کی جانیں بچ گئیں اِسی دوران شور چیخ و پکار سن کر کسی نے پولیس کو اطلاع دے دی جب تک پولیس آتی ہے نفسیاتی علاج گاہ کے کارندے قاتل کو چادروں سے باندھ چکے ہوتے ہیں جب پولیس کمرے میں آتی ہے تو وہ بھی ششدرہ جاتی ہے پورا کمرا لہو لہان انسانی خون سے سرخ تھا ایک جگہ زخمی جوان لڑکی کا جسم جبکہ اُس کے کچھ فاصلے پر اُس کا کٹا ہوا سر سارے کمرے میں سامان بکھرا ہوا تھا ہر طرف خون ہی خون تھا ایسا خوفناک دل کو دہلانے والا منظر پولیس والوں نے بھی شاید ہی کبھی زندگی میں دیکھا ہو بہت سارے قاتل کسی کو قتل کرتے ہیں لیکن قتل کرنے کے بعد وہ لاش کی بے حرمتی نہیں کرتے سرکاٹ کر اُس کے فٹ بال نہیں کھیلتے یا آنے والوں پر حملہ آور نہیں ہوتے لیکن یہاں تو قاتل نے درندگی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے تھے اِس قدر بھیانک درندگی کہ پتھر بھی رو پڑیں اور شیطان بھی دہل کر رہ جائے کہ انسان ایسے بھی کر سکتا ہے اِس درندے کو جب پولیس نے گرفتار کر لیا تو بھی اِس کا پاگل پن دور نہیں ہوا امریکن انداز میں انگریزی بولنا شروع کر دی کہ میں تو امریکن شہری ہوں اردو نہیں جانتا ساتھ ہی یہ پاگل بن کر میں امریکی شہری ہو ں اِس لیے میرے پاس لائسنس ٹو کل ہے میں کسی کو بھی اپنی مرضی کے خلاف چلنے پر قتل کر کے اُس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہوں یہ ہمارے معاشرے کے بگڑے ہو ئے امیر زادوں کا حال ہے جو کہ والدین کے غلط لاڈ پیار اور آزادی کی وجہ سے یہ امیر زادے انسانوں سے خونی درندوں کا روپ دھار کر معاشرے کے امن کے ویری بن کر معاشرے کے سکون کو درہم برہم کر دیتے ہیں ساتھ ہی موجودہ دور کی لعنت نشہ آور اشیاء کی عام دستیابی گولیاں نشیلے مشروبات جواِن امیر زادوں کے دماغوں اور انسانی سوچوں کو چاٹ کراِن کوانسان سے خونی درندہ بنا دیتے ہیں دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ایسے بگڑے امیر زادے پھر معاشرے میں اپنی من مانی کر تے نظر آتے ہیں جو اِن کی بات مان لے وہ تو اِن سے بچ جاتا ہے جو ان سے اختلاف یا انکار کی جرات کرے اِن کے نازک طبع کو ناگوار گزرتا ہے پھر یہ دن رات نفسیاتی سوچوں میں غرق انکار کرنے والے کے لیے سزا کا تعین کر تے ہیں پھر اُس کو مار کر دوسروں کے لیے نشان عبرت بنانے کی کو شش کر تے ہیں اِس قاتل نے ارباب علم و دانش اور نفسیاتی معالجوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ کس طرح ایسے درندوں کو لگام ڈالی جائے تاکہ پر امن معاشرہ ایسے درندوں سے محفوظ رہ سکے۔
——-