دینی تعلیم اور طلباء :- محمد نیاز احمد

Share

دینی تعلیم اور طلباء

محمد نیاز احمد
شمشیرپور کما، ضلع سیتا مڑھی، بہار۔

آج دنیا میں دو اقسام کے علوم رائج ہیں۔
ایک دینی جسے شرعی اور مذہبی بھی کہتے ہیں ( جس میں قرآن و احادیث، فقہ و تفسیر اور شرعی مسائل شامل ہیں )علم سے عبارت ہے، تو دوسری کی شناخت دنیاوی ( جس میں سائنس، ٹکنالوجی، طب، ریاضیات، معاشیات، شہریت، جغرافیہ، صنعتی و حرفتی اور بے شمار پیشہ ورانہ تعلیم شامل ہیں )علوم سے ہے۔

حالاں کہ آپ بنظر اس تقسیم کو دیکھیں تو یہ محض مبنی بر بے بنیاد ہے اور اس تقسیم کے پس پردہ سواۓ کسی بڑی سازش کے کچھ اور نہیں۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور مذہب اسلام میں اس قسم کی غیر منطقی تقسیم کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے ” فیھا تبیان لکل شئ” ہم نے ہر چیز کا اس میں واضح بیان کر دیا ہے۔ تو کیا اس رو سے سائنس، ٹکنالوجی اور دیگر علوم اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں؟ بلکل ہیں۔ اور اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے اکابر اور اسلاف کرام ہیں۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے بیشتر اسلاف ایک بڑے محدث و فقیہ اور مفسر کے علاوہ
زبردست ماہر ریاضیات، علم کیمیاء کے ماہر علم افلاک، نجوم، رمل، جغرافیہ اور سائنسی میدان کے شہسوار تھے۔ آج اس تقسیم کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک وہ طبقہ جو دینی علم حاصل کرے، وہ دنیاوی علوم سے بالکل بے بہرہ ہو جائے۔ اور دوسرا وہ طبقہ جو دنیاوی علوم حاصل کرے وہ دینی اور شرعی علوم سے مکمل نا آشنا اور جاہل رہ جائے۔
الغرض، میرا موضوع تحریر اس بحث سے الگ ہے بس ضمناً یہاں اس کا ذکر ہو گیا۔

قارئین! آپ کسی ایسے مدرسے میں گۓ ہیں جہاں حفظ و قرأت اور درس نظامی کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے؟
اگر نہیں، تو آپ ضرور کبھی تشریف لے جائیں اور وہاں تعلیم حاصل کر رہے طلباء کا احوال دریافت کریں اور ان کی فکر کو جانیں۔
یقیناً آپ بہت سے طلباء میں ایک قسم کی بے چینی، نا امیدی اور احساس کمتری دیکھیں گے۔
طلباء میں یہ باتیں کیوں پائی جاتی ہیں آپ تھوڑا سا غور کریں گے تو آپ کو اس سوال کا جواب مل جائے گا۔
تلاش معاش کی فکر ہر انسان کو ہوتی ہے اور یہ فطری چیز ہے۔
مدرسے کے طلباء جب مسجد کے اماموں، مؤذنوں اور مدرسے میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہ کو دیکھتے ہیں تو یقیناً ان کے اندر بے چینی پیدا ہونا فطری بات ہے۔
کیوں کہ موجودہ وقت میں یہی ایک ایسا شعبہ رہ گیا ہےجس کی تنخواہ مقررہ میقاد سے آگے ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
وہی برسوں پرانی روایتی بندھی ٹکی تنخواہ ۳۰۰۰ سے ۵۰۰۰ ایسا لگتا ہے مسجد کے متولی اور مدرسے کے سیکرٹری نے تنخواہ نہ بڑھانے کی قسم کھا رکھی ہے۔
ہر چند کے طلباء کے اندر ایسی سونچ کا پنپنا قطعی درست نہیں۔
کیوں کہ رزق کا تعلق صرف تدبیر سے نہیں بلکہ اس میں تقدیر کا بھی دخل ہے۔ کیوں کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو اسکول اور کالج کی تعلیم دلواتے ہیں، ڈگری کے حصول کے بعد موٹی موٹی رقم کمائیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے
” و یر زقہ من حیث لا یحتسب” ترجمہ، اور وہ ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔
اور دوسری آیت میں ارشاد فرماتا ہے
"ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب” ترجمہ، بےشک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
ان آیتوں سے یہ واضح ہو گیا کہ رزق کا تعلق صرف تدبیر سے نہیں ہے۔
عزیر طلباء! اگر آپ موجود وقت کا جائزہ لیں تو آشکارا ہوگا کہ ہزاروں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ اسکالر بے روزگار بیٹھے ہیں۔
بڑی بڑی نامور اور شہرہ آفاق یو نی ور سٹی سے ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔ ، ایم۔ ڈی کرنے کے بعد بھی معمولی سی کلینیک کھول کر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
لاکھوں انجینئر در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
عزیر طلباء آپ کو تو اپنی قسمت پر رشک کرنا چاہئے کہ اللہ پاک نے آپ کو دین کی خدمات کے لئے منتخب کیا ہے۔
اور ” العلماء ورثۃالانبیاء” کا تاج زریں آپ کے سر پر رکھا ہے۔
آخر میں قارئین سے اتنا عرض کروں گا کہ علماء اور دینی طلباء آپ کے مذہبی رہنما اور قائد ہیں، لہذا روایتی تنخواہ سے اٹھ کر ان کے لئے بیش قیمت تنخواہ مقرر کریں۔
——

محمد نیاز احمد
Share
Share
Share