قومی یکجہتی : مفہوم، پس منظر اور رکاوٹیں :- محمد قمر سلیم

Share

قومی یکجہتی : مفہوم، پس منظر اور رکاوٹیں

محمد قمر سلیم
موبائل:9322645061

آزادی کے 75سال مکمل ہونے کے بعد بھی ہندوستان میں قومی یکجہتی کا مسئلہ اہم ہے۔ قومی یکجہتی کا تعلق شہری کی ذہنی ہم آہنگی، جذباتی ہم آہنگی اور حب الوطنی کے جذبے سے ہے۔جس کی بنا پر ایک ملک کے باشندے اپنے ملک کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ قومی یکجہتی کے جذبے کی بناپر ملک کے شہریوں میں آپس میں برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ قومی یکجہتی ایک نفسیاتی اور تعلیمی عمل ہے۔اس میں لوگوں کے لیے ہم آہنگی، آپسی تعلقات، عام شہریت کا جذبہ اور ملک سے محبت کا جذبہ شامل ہے جیسا کہ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کہا تھاکہ قومی یکجہتی اینٹ اورچونے، ہتھوڑے اور چھینی سے نہیں بنائی جاتی ہے۔

یہ تو افراد کے دماغوں اور دلوں میں پیار یا محبت کے جذبے سے فروغ پاتی ہے۔اس کے پیدا ہونے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے تعلیم کا راستہ۔ یہ راستہ حالانکہ بہت دھیما ہے لیکن مستقل اور ٹھوس ہے۔
"National Integration cannot be built by brick and mortar, it cannot be built by chisel and hammer. It has to grow silently in the minds and hearts of men. The only process is the process of education.” Dr. Radha Krishnan.
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں مختلف فرقے مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولتے ہوئے بھی ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہمیشہ ہی اس ملک میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائیوں نے میل ملاپ کی مثالیں قایم کی ہیں۔ خاص طور سے ہندوستان کے اکثریتی طبقے اور سب سے بڑے اقلیتی طبقے نے قومی یکجہتی کی بنیادوں کومضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہندوستان میں ایک عرصے تک ہندو اور مسلمانوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ دونوں ہی حکومتوں کے دور میں ہندو مسلمان دو بھائیوں کی طرح رہے ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہندوستان کے عوام غیر ملکی حکومت کے غلام ہو گئے۔ 1857؁ء میں انگریزی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں نے جد و جہد شروع کی۔ آزادی کی 90سالہ لڑائی میں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائیوں نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔گاندھی جی کے ساتھ ساتھ آزادی کے لیے جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں ان میں اینی بیسینٹ، گوکھلے، تلک، لاجپت رائے، سبھاش چندر بوس، مولانا محمد علی جوہر، مولانا محمود علی، مولانا ابوالکلام آزاد، بھگت سنگھ، چندر شیکھرآزاد، اشفاق اللہ، پندت جواہر لال نہرووغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ان رہنماؤں کی قربانیاں رنگ لائیں۔ بالآخر 15اگست1947؁ ء کو ہندوستان آزاد ہوگیالیکن آزادی کے ساتھ ایک دردناک واقعہ جڑاہوا ہے یعنی ملک کا بٹوارہ۔
کچھ مفاد پرست لوگوں نے اپنے فائدے کے لیے ملک میں فرقہ واریت کا بیج بو دیا۔ اس کے نتیجے میں ہی، ہندوستان اور پاکستان،دو ملکوں کا وجود عمل میں آیا۔ہندوستان کے بٹوارے میں ہر فرقے کے لوگوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔کسی ایک فرقے کو موردِ الزام ٹھہرانا غلط ہوگا غرض یہ کہ بھارت کی آزادی ملک کے بٹوارے کے ساتھ ہوئی۔آزادی ملتے ہی ملک میں فرقہ وارانہ فسادت شروع ہوگئے اور خون کی ہولی کھیلی جانے لگی۔ پاکستان بننے کے باوجود ہندوستان سے محبت کرنے والے مسلمانوں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہندو اور سکھ بھائیوں کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی میں لگ گئے۔
ہندوستان میں یکجہتی کی مثالیں اس دور میں ہی نہیں ملتی ہیں بلکہ اس کی پوری تاریخ ہے۔جب سے مسلمانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھاتب سے ہی آپسی میل ملاپ، بھائی چارے کا بول بالا رہا ہے۔ہندوستان میں ترکوں کی آمد سے مسلمانوں کی حکومت کا آغاز ہوا حالانکہ اس سے پہلے عربوں کو ہندوستان کی تہذیب و تمدن سے دلچسپی رہی ہے۔ عرب اور بدھ مذہب کو ماننے والوں میں تجارتی اور ثقافتی تعلقات تھے۔ ہندوستان میں ہر دور میں یکجہتی کی مثالیں ملتی ہیں چاہے گجرات کے بلہر راجہ ہوں یا ملا بار کے ساموری راجہ، چاہے راجہ گوڑ ہوں یا الور کے راجہ مہروگ، خلیجی خاندان کی حکومت ہو، تغلق خاندان کی حکومت ہو یا مغلیہ خاندان کی حکومت ہوکوئی بھی دور ایسا نہیں ہے جس میں تعصب کی مثالیں ملتی ہوں۔ان تمام حکومتوں میں ہندو مسلمان آپس میں مل کر رہتے تھے۔ ان سبھی راجاؤں اور بادشاہوں نے ہندو مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح کا بھی تعصبانہ برتاؤ اختیار نہیں کیا۔ہر دور میں ہندو مسلمانوں کو اپنے اپنے مذہب کو ماننے اور اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت تھی۔ بادشاہوں کے محلوں میں ہندو اور راجاؤں کے دربارمیں مسلمان اونچے عہدوں پر فائز تھے۔قومی یکجہتی کی ایسی مثالیں دونوں کے دور میں ملتی ہیں۔دراصل ہندو مسلم اتحاد کو انگریزوں کی آمد سے ٹھیس پہنچی۔ انگریز حکمرانوں نے اپنے اقتدار کی خاطر ہندو مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی۔ ہندوؤں کو مسلم حکمرانوں اور مسلمانوں کو ہندو حکمرانوں کے خلاف بھڑکایا۔
اگر دیکھا جائے تو یہی وہ موڑ تھا جس نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا کی اور انھیں احساس دلایا کہ وہ ایک قوم نہیں بلکہ دو الگ الگ فرقے ہیں۔انگریزوں کا بوئے ہوئے بیج نے ایک زہریلا پودا بن کر اپنے زہر سے ہندوستان کے صاف وشفاف ماحول کوزہر آلود بنا دیا تھا۔ نفرت کی آگ کم ہونے کے بجائے دن بہ دن بڑھتی گئی اور ایک ہی ملک کے باشندے ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے۔ آخر اس نفرت کی وجہ کیا ہے؟ کون سی ایسی باتیں ہیں جو قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے جدو جہد تو جاری ہے لیکن یہ تووقت ہی بتائے گاکہ ہم اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں۔ کچھ خاص رکاوٹیں اس طرح ہیں: ُٓ
۱۔ فرقہ پرستی:۔ہندوستان میں فرقہ پرستی کی تاریخ پرانی ہے۔ آزادی سے اب تک ملک کے کسی نہ کسی حصّے میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ ان ہی فسادات کی بنا پر قومی یکجہتی پیدا کرنے کی غرض سے ہمارے آئین میں 1976؁ء میں 42ویں ترمیم کے ذریعے سیکولر(Secular)اور (Integrity)اتحادکا لفظ جوڑا گیا۔سیکولر اوراتحاد کے ا لفاظ بھی اسی لیے جوڑے گئے کہ ملک کے مختلف مذاہب، فرقوں، ذاتوں، زبانوں اور صوبوں میں بٹے افرادمیں اتحاد پیدا کیا جاسکے۔ ایک سیکولر ریاست ہونے کے باوجود اور اتحاد کی دہائی دینے کے باوجود ملک میں ہم نہ توسیکولر سماج قایم کر سکے اور نہ ہی اتحاد قایم کر سکے۔ایسا لگتا ہے کہ صرف کاغذی کارروائی پوری کرنے کی خاطر آئین میں سیکولر اور اتحادکے ا لفاظ جوڑ دیے جبکہ عملی جامہ نہیں پہنایا گیااور اگر حکومت نے کچھ اقدامات اٹھائے بھی ہیں تو وہ ٹھوس نہیں ہیں۔
۲۔ ذات پات:۔ قومی یکجہتی کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ ذات پات ہے۔ذات پات کے اثر سے ہماری سیاست اچھوتی نہیں ہے اور نہ ہی انتظامیہ میں اس کا دخل کم ہے۔ اپنی اپنی ذات کو فروغ دینے کی وجہ سے عام آدمی میں بھی ذات پرستی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ بھی ایک میٹھا زہر ہے۔ویسے تو ذات پات ہندو ازم کا وصف لیکن مسلمان، عیسائی، سکھ بھی ذات پات کے زہر سے اچھوتے نہیں ہیں۔ مشہور مورخ ڈاکٹر بشنبھر ناتھ پانڈے ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں:1950؁ ء کے قریب جب میں الہ آباد میونسی پالٹی کا چیرمین تھا تب وہا ں اکبر الہ آبادی کے بھانجے کسی محکمے کے سپرینٹینڈینٹ تھے۔ ایک دن آکر مجھ سے کہنے لگے، ’چیر مین صاحب!آپ تو باہر بہت دورے کرتے ہیں میری لڑکی نے ایم اے پاس کر لیا ہے۔ میں سخت پریشان ہوں اس کی شادی کے لیے۔کہیں کوئی لڑکا آپ کو دکھائی دے تو چرچا کریں۔مگر، ہاں ایک بات کا خیال رہے کہ ہم سنّی رضوی ہیں، شیعہ نہیں۔(ڈاکٹر بشنبھر ناتھ پانڈے، ص۔22 (
۳۔ زبان:۔ قومی یکجہتی کی راہ میں زبان کے اختلافات بھی رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔آزادی کے بعد زبان کی بنیاد پر ملک کے صوبوں کی تقسیم ہوئی۔ کوئی صوبہ ہندی بولنے والوں کا تو کوئی بنگالی اور تمل وغیرہ کا۔ غرض یہ کہ اس تقسیم کی بنا پر ایک زبان والا دوسری زبان سے نفرت کرنے لگا اور شاید زبان کا اختلاف بھی آج کا پیدا کردہ نہیں ہے۔شروع سے ہی اردو ہندی کے اختلافات رہے ہیں۔یہاں تک زبان کی بنیاد پر ہندی ہندوؤں کی اور اردو مسلمانوں کی زبان بنا دی گئی۔ اس تفریق سے مقامی زبان بولنے والوں کو تقویت ملی۔ ان لوگوں نے بھی اپنی اپنی زبانوں کو منوانے کے لیے آوازیں اٹھانا شروع کر دیں۔یہی وجہ ہے کہ زبان کی بنیاد پر بھی فسادات ہوتے ہیں۔
۴۔صوبائیت:۔اس مسئلے کا تعلق ملک کا اکائی کی شکل میں بنے رہنے اور قومی یکجہتی کے جذبے کو فروغ کے ساتھ جڑاہوا ہے۔ آج پورے ہندوستان میں اپنے اپنے صوبے کا مسئلہ کھڑا کر دیا گیا ہے کہیں خالصتان، کہیں کشمیر، کہیں گورکھا لینڈ تو کہیں بوڈولینڈ وغیرہ ہر علاقے کے لوگ اپنے لیے ایک الگ ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہندوستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ قومی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی حدود میں آنے والے صوبوں اور علاقوں کی یکساں ترقی ہو۔
جن باتوں کے ذریعے قومی یکجہتی پیدا کی جا سکتی ہے ان میں سب سے اہم تعلیمی نصاب میں ہم آہنگی ہے۔ ملک میں تعلیمی نصاب اس طرح کا ہونا چاہیے جس سے دل میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا ہو۔ تعلیم کا طریقہ اور اس کا معیار پورے ملک میں یکساں ہو۔ ملک کی تمام زبانوں کو فروغ دیا جائے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے قریب آ سکیں۔ تعلیم کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ لوگ اپنے آپ کو فقط ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی ہی نہ سمجھیں بلکہ ہندوستانی بھی سمجھیں۔ ایسی کتابیں تیار کی جائیں جس سے ایک دوسرے خلاف نفرت کم ہو۔ طلبا میں قوم اور سماج کے لیے محبت پیدا ہو۔تعلیم قومی یکجہتی قایم کرنے کا سب سے آسان اور مستحکم طریقہ ہے۔ نصاب میں کسی بھی مذہب کے بارے میں جانکاری دینے،کسی بادشاہ یا راجہ کے بارے میں لکھنے سے پہلے اس کی اچھی طرح تحقیقات کرنا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں ڈاکٹربشنبھر ناتھ پانڈے ٹیپو سلطان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 1928؁ ء میں ٹیپو سلطان کے سلسلے میں کچھ الہ آباد میں تاریخی چھان بین کر رہا تھا۔ ایک دن دوپہر کو اینگلو بنگالی کالج کے کچھ طلبا آئے اور انھوں نے یہ درخواست کی کہ میں ان کے ہسٹری ایسو شیشن کا افتتاح کردوں۔چونکہ وہ کالج سے سیدھے آئے تھے تو ان کے ساتھ ان کی کتابیں بھی تھیں۔ میں ان کتابوں میں سے ہندوستان کی تاریخ کے ورق الٹنے لگا۔جب میں ٹیپو سلطان کے سبق پر پہنچا تو دیکھا اس میں درج تھا،’تین ہزار برہمنوں نے اس لیے خدکشی کر لی کہ ٹیپو سلطان انھیں زبردستی مسلمان بنانا چاہتا تھا۔ میں نے مورخ کا نام دیکھا تو لکھا تھا مہامہوپادھیاے ڈاکٹر ہر پرساد شاستری،کلکتہ یونیورسٹی کے سنسکرت ڈپارٹمنٹ کے صدر۔(ڈاکٹر بشنبھر ناتھ پانڈے،ص۔47)
ڈاکٹر صاحب نے اس بارے میں تحقیق کی اور میسور گزیٹیر میں اس واقعہ کو تلاش کیالیکن میسور گزیٹیر میں وہ واقعہ نہیں تھاجبکہ مصنف کے مطابق وہ واقعہ میسور گزیٹیر سے لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے بعد کلکتہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے حکم سے شاستری کی کتاب ہائی اسکول سے خارج کردی گئی۔ تاریخ کی وہ کتاب اتر پردیش، بہار، اڑیسہ، بنگال اور آسام کے ہائی اسکول کی ٹکسٹ بک تھی۔اب اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غلط اطلاع سے کتنے ذہن پراگندہ ہوتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ٹیپو سلطان کاسپہ سالار کرشنا راؤبرہمن تھا۔ اس کا وزیر اعظم پورنیا بھی برہمن تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق ٹیپوسلطان کم وبیش 156 مندروں کو ہر سال تحفے اور چڑھاوا بھجوا یا کرتا تھا۔ٹیپو سلطان کے قلعے کے اندر سری رنگناتھ مندر بھی تھا۔ایلفسٹن نے مسلم حکمرانوں کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی حکومتوں میں ہندوؤں کے مندروں اور دھرم شالاؤں کی حفاظت کی جاتی تھی۔ برندا ون، گووردھن اور متھرا کے مندروں کو شاہی خزانے سے مدد دی جاتی تھی۔
اسی طرح سے ہندو راجاؤں کے بارے میں بھی متعصبانہ باتیں سننے کو ملتی ہیں۔انگریزی مورخوں نے چھترپتی شیواجی کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں۔شیوا جی کو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن بتایا گیا جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔کچھ مراٹھا مورخوں نے بھی یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیوا جی کا مقصد ہندو پد پادشاہی قایم کرنے کا تھا۔لیکن ’پونا مہزر‘ جس میں شیواجی کے دربار کی کارروائیاں درج ہیں، اس میں 1657؁ ء میں شیواجی کے افسروں اور ججوں کی مقرری کا بھی ذکر ہے۔شیواجی کی نئی سرکار نے جن قاضیوں کو مقرر کیا ان میں قاضی اور نائب قاضیوں کے نام ہیں۔ جب مسلم رعایا کے مقدمے پیش ہوتے تو شیواجی مسلم قاضیوں کے مشورے سے فیصلہ دیتے تھے۔ شیواجی کے مشہور نیول کمانڈروں میں دولت خاں اور دریا خاں سہرنگ تھے۔جس وقت وہ لوگ پدم درگ کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے اس وقت سِدّی کی فوج نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شیواجی نے اپنے صوبے دار جیواجی ونایک کو انھیں رسد اور روپے بھیجنے کی ہدایت دی، جسے اس نے وقت پر نہیں بھیجااس پر شیواجی نے اسے برخواستگی اور قید کا حکم دیتے ہوئے لکھا کہ،’تم سمجھتے ہو کہ تم برہمن ہو۔اس لیے میں تمہیں تمہاری اس دغا بازی کے لیے معاف کر دوں گا؟ تم برہمن ہوتے ہوئے بھی دغاباز نکلے اور تم نے سدّی سے رشوت لے لی لیکن میرے مسلمان نیول کمانڈر کتنے وفادار نکلے کہ اپنی جان پر کھیل کر ایک مسلمان سلطان کے خلاف انھوں نے میرے لیے بہادرانہ لڑائی لڑی۔ (ڈاکٹر بشنبھر ناتھ پانڈے،ص۔39-40 (
کچھ مفاد پرست مورخوں نے اپنی جھوٹی شہرت کے لیے تاریخ کو غلط انداز میں پیش کیا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک غلط کتاب کو نصاب میں شامل ہونے سے پہلے ہی روک دینا چاہیے۔ نصاب میں کوئی بھی کتاب یا سبق پوری چھان بین کے بعد ہی رکھا جائے۔ اس طرح کے واقعات پیش کیے جائیں جس سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
قومی یکجہتی قایم کرنے کے لیے ایک انصاف پسند سماج قایم کرنا ضروری ہے۔ سماجی انصاف قایم کرنے کے لیے ٹھوس قدم اٹھائے جائیں۔چھوا چھوت کو ختم کرنے کے لیے موثر قانون ہی نہ بنائے جائیں بلکہ ان پر دیانتداری سے عمل ہو۔روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ سماج کے ہر طبقے کو مساوی طور پر ترقی دی جائے۔
ہمارے ملک میں بے کاری اور غریبی پھیلی ہوئی ہے جس انسان کو بھوک مٹانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہ ملے، بیماری میں دوا نہ ملے تو اس انسان سے ہم کبھی بھی یہ امید نہیں کر سکتے کہ وہ یکجہتی جیسی کسی چیز کے بارے میں سوچے گا۔لوگوں میں اعلا اصولوں کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ملک سے غریبی اور بیکاری کو مٹایا جائے کیوں کہ ایک بھوکے انسان کے لیے اصول کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔
تہذیبی ہم آہنگی بھی قومی یکجہتی کے لیے ضروری ہے۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت سی تہذیبیں ایک ساتھ فروغ پا سکتی ہیں۔ انھیں مساوی طور پر بڑھاوا دیا جانا چاہیے تاکہ ان کے آپسی تعلقات کی بنا پر گنگا جمنی تہذیب کا فروغ ہو سکے۔ اس تہذیبی ہم آہنگی سے قومی یکجہتی کو بڑھاوا ملے گا۔
ملک کی قومی یکجہتی کی راہ میں سیاست داں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، مذہب، ذات پات، زبان، صوبے کے اختلافات ملک کی ہم آہنگی ختم کرنے کا کام تو کر ہی رہے ہیں لیکن ان کو ابھارنے والے سیاست داں ہی ہیں۔ سیاسی طاقت کو ہتھیانے کے لیے وہ کوئی بھی جھگڑا کھڑا کر دیتے ہیں۔فرقہ پرستی کے زہر کو ختم کرنے کے لیے پولس کا سہارا لیا جانے لگا ہے۔ پولس کا استعمال کم سے کم ہو نا چاہیے۔اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ پولس بھی فرقوں کی بنیاد پر سلوک کرتی ہے اس لیے پولس کی کاکردگی میں سدھار لانا ضروری ہے۔ پولس کے لیے ان کا کام مذہب، ذات پات،زبان اور صوبوں سے بڑھ کر ہے۔ طاقت کا استعمال قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور طاقت کا استعمال گھٹتی ہوئی اخلاقی قدروں کا نتیجہ ہے۔انتطامیہ میں پھیلی ہوئی بد عنوانی کو ختم کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو ملک کی بہبودی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ سماج کی بہبودی کے لیے مختلف سماجی اداروں کو قایم کرنا چاہیے۔
سرکاری اور ذاتی کوششوں سے بدامنی پھیلانے والے عناصر پر فتح حاصل کرنا چاہیے۔معاشی نا برابری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جانا چاہیے۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنا چاہیے۔ہر فرد کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا انتطام ہو۔ہر آدمی کوغریبی کی سطح سے اوپر اٹھانا چاہیے۔ ہمیں ایک ایسا سماج قایم کرنے کی ضرورت ہے جس میں مذہب، ذات پات، زبان، صوبے کی بنا پر اختلافات نہ ہواس کے لیے تعلیم کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے۔تعلیم قومی یکجہتی کو قایم کرنے اور مضبوط بنانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف علم دینا ہی نہیں ہے بلکہ طلبا کی شخصیت سازی بھی ہے۔ ساتھ ہی لوگوں کے نظریے کو بدلنے کی بھی ضرورت ہے۔
حواشی:
1۔کانسیپٹ آف نیشنل اِنٹیگریشن اینڈآبسٹیکل ٹو نیشنل اِنٹیگریشن: نکی، 26 جولائی 2010، انڈیا اِسٹڈی چینل ڈاٹ کام
2۔ہندوستان میں قومی یک جہتی کی روایات: ڈاکٹر بشنبھر ناتھ پانڈے، فخر الدین علی احمد میموریل لکچر۔8،1986
3۔دی کانسیپٹ آف نیشنل اِنٹیگریشن:نصیر احمد لون، اِنٹرنیشنل جرنل آف ریسرچ، جلد 5شمارہ1، جنوری 2018
4۔دی کانسیپٹ آف نیشنل اِنٹیگریشن: رمن دیپ کور،2جون2013، میپس آف انڈیاڈاٹ کام
5۔انڈراِسٹینڈنگ نیشنل اِنٹیگریشن اینڈ چیلینجیز اِن اِٹس وے: ڈاکٹر انکُرسنگھ، جرنل آف سوشیو ایجوکیشنل اینڈ کلچرل ریسرچ، جلد 1، شمارہ3،
6۔ نیشنل اِنٹیگریشن اینڈ اِٹس اِمپورٹینس اِن ماڈرن ورلڈ: جین ٹیلر، 25جولائی2017، افورڈیبل۔پیپرس ڈاٹ کام
۔۔۔۔۔
محمد قمر سلیم ۔ فلیٹ نمبر۔۳،
ایسوسی ایٹ پروفیسر ۔ آتماشانتی کوآپریٹو ہاؤزنگ سوسائٹی،
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن ۔ پلاٹ نمبر۔۳۳، سیکٹر۔۳
واشی، نوی ممبئی ۔ واشی، نوی ممبئی۔۳۰۷۰۰۴
موبائل:9322645061

—–

محمد قمر سلیم
Share
Share
Share