اردو زبان : فن تدریس
مصنف : محمد قمر سلیم
مبصر: ڈاکٹر عبدالماجد انصاری،
وائس پرنسپل، مہاراشٹر کالج، ممبئی
اچھی کتاب وہی کہلاتی ہے جس کے عنوان میں نیا پن ، مفید موضوع، زبان میں تسلسل، ہر لفظ اور جملہ کتاب لکھنے کے مقصد کے مطابق، قاری پر اپنی چھاپ چھوڑے، پڑھنے کے بعد معلومات میں اضافہ کرے، اطمینان بخش ہو، مجموعی طور پر متاثر کن ہو، دماغ کو غذا پہنچانے والی، بیان عادلانہ اورجاذب نظر ہو۔کتاب ‘اردو زبان: فنِ تدریس ’کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ مندرجہ بالا بیان کردہ بیشتر خوبیوں سے مزین ہے۔
زبان کی تدریس ہمیشہ سے ہی موضوع بحث اور مشکل امر رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ زبان کی تدریس میں تخلیقی طریقے اور نت نئے راستوں کی تلاش ندارد رہی ہے۔ محترم محمد قمر سلیم نے اس سنگلاخ میدان میں باعزم قدم رکھا اور اسے گلستاں بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک پین ایک کتاب ایک فرد بھی معاشرے میں گراں قدر تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ یہ کتاب بھی اردو زبان کی تدریس میں نمایاں اور درکار تبدیلیوں کی بنیاد بن سکتی ہے۔
کتاب کا پیش لفظ این سی ای آر ٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر محمد نعمان خاں صاحب نے لکھا ہے ۔نعمان صاحب اس کتاب کی افادیت کے بارے میں لکھتے ہیں، ‘ یہ کتاب اس معنی میں بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں ڈاکٹر محمد قمر سلیم نے نئے موضوعات کو شامل کیا ہے جن پر اردو زبان کی تدریس کے دوران انھوں نے مختلف عملی تجربے کیے ہیں۔۔۔اس کتاب میں تدریس کے معیار کو بلند اور بہتر ، موثر و دلچسپ بنانے کی خاطر درسیاتی مواد کو جدید تقاضوں کے تحت فنی اور استدلالی انداز میں پیش کیا گیا ہے تاکہ طلبا، اساتذہ اور زیرِ تربیت معلمین میں سیاق و سباق کے تئیں گہرا شعور اور صحیح فہم پیدا ہو سکے۔’
میں نے جب کتاب کی فہرست پر نظر دوڑائی تو یہ کتاب نئے موضوعات اور تقاضوں سے مزین نظر آئی ۔ان موضوعات کو دیکھ کر ایک تو یہ احساس ہوا کہ اردو زبان کی تدریس میں ان موضوعات کو کیوں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ موضوعات کو دیکھ کر دل میں متن کو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ پڑھ کر احساس ہوا کہ مصنف نے ان موضوعات کو برتنے میں ان کا حق ادا کر دیا ہے۔
چھ ابواب پر مشتمل یہ کتاب اردو زبان کی تدریس کے پرانے انداز اور طریقوں کی خامیاں اور غلطیاں بتاتے ہوئے نئے اور ماڈرن راستوں سے متعارف کراتے ہوئے ان کے فوائد پر بھی مدلل گفتگو کرتی ہے۔ بدلتے زمانے اور خاص کر تیکنیکی تبدیلوں کی وجہ سے اب زبان کی تدریس کے نئے اور ماڈرن راستوں کو اپنانا ہی ہوگا ورنہ اردو پر آئی آفت ان جدید حالات میں مزید پریشان کن بنتی جائے گی۔
فاضل مصنف نے اپنے طویل تجربات کی بنیاد پر بڑی عرق ریزی سے اردو زبان کی تدریس میں درپیش مسائل کا تذکرہ کیا ہے اور ٹھیک وہیں پر نئے حالات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے راستوں اور طریقوں کی رہنمائی بھی فرمائی ہے۔
یہاں تمام ابواب کے بارے میں بات نہیں کی جا سکتی لیکن چند نئے عنوانات پر نظر ثانی ضروری ہے۔ پہلا باب تدریس اور متن سے تعلق رکھتا ہے جس میں زبان کی تدریس کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرنے کے ساتھ ساتھ تدریس کے بنیادی عناصر اور متن کا تجزیاتی تجزیے پر بھی زور دیا ہے۔ان موضوعات پر این سی ای آر ٹی کے علاوہ شاید ہی کسی نے گفتگو کی ہو۔ دوسرا باب نظریات اور تکنیکیں بھی اہمیت کا حامل ہے جس میں آموزش سے متعلق نظریات، نقالی کے ذریعے تعلیم، تکثیری ذہانت، بچوں کی نفسیات، تعمیریت، تصور کی نقشہ بندی اورتدریس کے تعلق سے بہت تفصیلی بحث کی ہے۔ اگلے باب میں جریدۂ عکس پر پر مغز بحث کی ہے۔ چوتھا باب خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں مصنف نے اردو تدریس کو مختلف فلسفوں سے جوڑا ہے اور بہت ہی باریک بینی سے فلسفیوں کے خیالات سے اردو ، اردو اساتذہ کو جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ میری نظر سے ابھی تک کسی بھی اردو تدریسی کتاب میں فلسفیوں کو لے کر بحث نہیں کی گئی ہے۔ پانچواں باب جائزہ اور مسائل بھی نئے تقاضوں کی بھر پور عکاسی کر رہا ہے ۔ قمر سلیم صاحب نے جائزے کے نئے طریقوں کی پر زور وکالت کرتے ہوئے پرانے فرسودہ طریقوں سے گریز کرنے پر زور دیا ہے۔
کتاب کا با معنی خوبصورت سر ورق کتاب کی اہمیت و افادیت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔
کتاب کی زبان میں تسلسل ہونے کی وجہ سے دلچسپی قایم رہتی ہے اور ایک سنجیدہ موضوع کی کتاب بھی قاری پر اپنی چھاپ چھوڑ دیتی ہے۔
کہتے ہیں کہ
Buying books is costly but not buying is more costly.
کتابیں خریدنا مہنگا سودا ہے لیکن نہیں خریدنا زیادہ مہنگا سودا ہے۔
کسی مصنف نے لکھا ہے کہ جب مجھے ایک اچھی کتاب پڑھنے کا من ہوتا ہے تو میں ایک لکھ ڈالتا ہوں۔ محترم محمد قمر سلیم صاحب کا بھی یہی موقف ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف خود کے پڑھنے کے لیے ایک اچھی اور مفید کتاب لکھ ڈالی بلکہ اردو زبان کے اساتذہ اور شاگردوں کو اسے پڑھنے کا موقع فراہم کرکے ان سب پر بڑا احسان بھی کیا ہے۔
اردو زبان کی تدریس میں اگر اس کتاب کے پیش کردہ اصولوں، راستوں اور طریقوں کو اپنا لیا جائے تو یقیناً اردو زبان کے طلبا کی بقاء اور ترقی میں بڑی مدد ہوگی۔
میں اس عظیم کار خیر پر محترم محمد قمر سلیم صاحب کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ عام طور پر مصنفین جتنی کتابیں لکھنے کے متعلق سوچتے ہیں اس کے نصف ہی لکھ پاتے ہیں۔ جتنی کتابیں لکھی جاتی ہیں اس کی آدھی ہی چھپتی ہے۔ جتنی چھپتی ہے اس میں سے پچاس فی صد ہی بکتی ہیں۔ جتنی بکتی ہے اس میں سے آدھی پڑھی جاتی ہے، جتنی پڑھی جاتی ہے اس کی آدھی سمجھی جاتی ہے اور جتنی سمجھی جاتی ہے اس کے نصف پر عمل ہوتا ہے۔
مگر یہ کتاب اس کلیے سے مختلف ہے۔ یہاں ہر معاملہ صد فی صد کا ہے۔ یعنی محترم محمد قمر سلیم صاحب نے اس کتاب کے متعلق سوچا، لکھا اور کتاب شائع بھی ہوگئ اور اب کتاب صد فی صد پڑھی بھی جائے گی، سمجھی بھی جائے گی اور اس پر صد فی صد عمل بھی ہوگا ان شاء اللہ ۔
صفحات : 250
قیمت: 154
سن اشاعت: 2020
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
——