کشور ناہید کی تحریروں میں تانیثی رحجان
عبد العزیز ملک
لیکچرار شعبہ اردو، جی سی یونی ورسٹی فیصل آباد
(03447575487)
ا سر فلپ سڈنی ۴۳۵۱ء میں اپنی نظم میں ایک مصرع تحریر کیا:
"I dip my pen into my heart and I write”
”میں اپنا قلم اپنے دل میں ڈبوتا ہوں اور تب لکھتا ہوں“
اگر غور کریں تو یہ بات سر فلپ سڈنی پر ہی نہیں ادب تخلیق کرنے والے تمام فن کاروں پر صاد آتی ہے۔اس بیان میں شاعرہو یا ادیب کسی کی تخصیص نہیں ہے۔ اردو ادب میں پریم چند،راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اورغلام عباس سے لے کر انتظار حسین، پروین شاکر، زاہدہ حنا،فہمیدہ ریاض اور کشور
ناہید تک سبھی شاعر و ادیب اسی اصول کے تحت ادب تخلیق کرتے چلے آئے ہیں۔
اگر کشور ناہید کی تحریروں کا غا ئر مطالعہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ”قلم دل میں ڈبونا اور تب لکھنا“،کایہ عمل جس طورسے کشور ناہید کی لکھتوں میں آشکار ہوتاہے وہ دیگر فن کاروں کی نسبت نہ صرف الگ تھلگ ہے بلکہ اس کی مخصوص شناخت کا حامل بھی ہے۔ کشور ناہید ادب اپنے جذبات و احساسات میں ڈوب کر اس طرح تخلیق کرتی ہے کہ ایک عورت کی جذباتیت بر ملاسامنے آ جاتی ہے جو اس کے تانیثی رویے کی واضح دلیل ہے اور اس طرح اس کی تحریر میں ایسی کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ قاری کشور ناہید کی تحریروں کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔اس سلسلے میں کشور ناہید کی کتاب ”سوختہ سامانی ئ دِل“ اور ”لبِ گویا“سے چند اشعار ملا حظہ ہوں۔
ٌٌئؐؔ میں ایک ہاتھ سے دیوار کیسے تھاموں گی
لہو میں غرق ہے دستِ دعا نیام تلک (سوختہ سامانیئ دل)
ہم نے آنکھوں میں بہت سرمہ کیا یادوں کو
دلِ آشفتہ نے یہ بات زبانی کہ لی (سوختہ سامانیئ دل)
کھلونا ٹوٹتے دیکھوں تو آنکھ بھر آ ئے
ابھی تک نہیں بھو لی ہے زندگی بچپن (لبِ گویا)
یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری کا پہلا ہی مجموعہ”لبِ گویا“ جب۸۶۹۱ء میں منظرِ عام پر آیا تووہ عوام میں مقبولیت کی مسند پرفائز ہوااور اسے حکومت نے آدم جی ادبی انعام سے نوازا،اور مزید براں کولمبیا یونی ورسٹی نے ”بہترین شاعری“ کے عنوان سے کشورکی شاعری پر ۲۸۹۱ء میں بیدار بخت کو "The Best Poetry Translation Award” عطا کیا۔وہ شاعری کے تخلیقی کرب کی اس کیفیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ۷۹۹۱ء میں شائع ہونے والی اپنی آب بیتی ’’بری عورت کی کتھا“ میں ایک جگہ لکھتی ہے۔
”ہر نظم کی تخلیق میرے لیے بیک وقت سکون کا لمحہ اور عذاب کی دہلیز ہوتی تھی۔ مجھے نظم لکھتے ہوئے اتنے امتحان اور اذیت سے گزرنا
پڑتا تھا کہ ہر لفظ میرے وجود کا خراج لے کرخود کو منکشف کرتا تھا۔ نظم لکھنے کے بعد جیسے نہائی ہوئی،ترو تازہ ہلکی پھلکی، کئی راتوں کی نیند
جیسے پوری ہو گئی۔ کئی دنوں کی بھوک جیسے مٹ گئی۔ ہر کتاب کو مرتب کرنا، بچے کی پیدائش جیسا مرحلہ لگتا رہا ہے“ (۱)
کشور ناہید کی تحریروں میں نسائی جذبات و احساسات کی دلکشی کے متوازی سیا سی عمل اور سیاسی نقطہ نظر بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروان چڑھا ہے۔ اس کا با عث یقینا وہ عہد ہے جس میں کشور نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزارے ہیں۔تقسیمِ ہندوستان،نہر سویز پر حملہ، ویت نام کی جنگ، چین کا ثقافتی انقلاب اور ان سب سے بڑھ کر سقوط مشرقی پاکستان اور …… بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد کوڑے،پھانسیاں،سزائیں، پابندیاں اورادیبوں کی تحریروں پر سنسر شپ۔یہ ساری صورتِ حال کشور کے لہو میں زہر بن کر تیری،جس کے خلاف کشور نے جا بجا اپنی صدا بلند کی۔اس گھمبیر عصری صورتِ حال کے ا ثرات اس کی تحریروں میں جا بجا تلاشے جا سکتے ہیں۔ ادب کے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ادیب آندرے ژید نے ۹۲ مارچ ۰۰۹۱ء کو”ادب میں متاثر ہونے سے کیا مراد ہے“ کے عنوان پر لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ اثرات کا قبول کرنا ایک فطری عمل ہے،جو دو مختلف سطحوں پراپنا کام کر تا ہے، پہلی عمومی اور اجتماعی سطح اور دوسری خصوصی اور ذاتی سطح۔ اول الذکر اثرات فرد میں عمومیت پیدا کرتے ہیں جب کہ ثانی الذکر فرد میں انفرادیت پیداکر تے ہیں۔اگرآ ندرے ژید کی اس بات کا اطلاق کشور کی تحریروں پر کریں تو کشور ناہید ان دونوں اثرات سے اپنا دامن نہ بچا سکی اوراس کی تحریریں انفرادیت اور اجتماعیت، دونوں خصوصیات کی آئینہ دار ٹھہریں۔جس کی بدولت اس کی تحریروں میں عصری صورتِ حال اور ذاتی واردات دونوں وا ضح طور پر منکشف ہوتی دکھائی پڑتی ہیں۔ثبوت کے لیے نظم ”راہ گیر سے مکالمہ“ کا اقتباس ملا حظہ ہو۔
جب تک تم فلسطین نہیں آؤ گے
بے زمینی کی اذیت کو
محسوس نہیں کر سکو گے
جب تک تم افغانستان نہیں آؤ گے
کلاشنکوف کی گولی میں چھپی
نفرت کو پہچان نہیں سکو گے
جب تک تم افریقہ نہیں آؤ گے
اپنے ہی وطن میں غلامی کی ذات کو
گرفت میں نہیں لا سکو گے
جب تک تم امریکہ نہیں آؤ گے
گلی گلی پھیلی فرعونیت کی
دبیز تہہ کو پہچان نہیں سکو گے
جب تک تم ہندوستان نہیں آؤ گے
گنگا کو میلی کرتی عصبیت کا
چہرہ نہیں دیکھ سکو گے
۔۔۔۔۔ (۲)
اس حوالے سے ان کی نظمیں ”چاغی کے چرواہے کی گفتگو“،”لاہور ۰۰۰۲“،”ریفرنڈم۰۰۰۲“،”نوحہئ قندھار“،”فلسطینی جوانوں کے نام“،”اور بمباری ہو رہی ہے“اور”سیلاب کے بعد کی دعا“ وغیرہ کو بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ مزید براں ایسے موضوعات کاان کی کتاب ”وحشت اور بارود میں لپٹی شاعری“بھی احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔کشور ناہید کا سیاسی شعور اپنے عہد کی سفاکیوں کو بڑی آب و تاب سے پیش کرتا ہے، اور ایک عورت جب”زبان بندی“ کی کیفیت میں ہو تو کس طرح اس کی سر گوشی دل دہلا دینے والی چیخ میں بدل جا تی ہے۔”ملامتوں کے درمیاں“ میں وہ ایک جگہ اپنے احساسات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے۔
بولنے والے ہمارے شہرمیں کتنے رہ گئے ہیں
ان کے سر کاٹ کر واقعی سجا لینے چاہیں
کہ پھر دیکھنے کو بھی ایسے لوگ نہیں ملیں گے
خدا کی قسم۔۔۔ میری آنکھوں کی جگہ آبلے بھی لے لیں
تو بھی میں گریہ کروں گی (تیسرے درجے والوں کی پہلی ضرورت، مشمولہ ملامتوں کے درمیان)
بھارت کی ریاست اتر پردیش کے بلند شہر میں سید مولوی گھرانے میں پیدا ہونے والی کشور ناہید نے مشکل حالات کے باوجود اپنی ذات کو وقت کی لہروں کے سپرد نہیں کیا۔بلکہ وقت کے تیز دھارے کے سامنے بند باندھ کر اسے اپنی خواہش کے موافق چلا یا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ نسائیت اور انسانیت کے دونوں محاذوں پر چو مکھی لڑائی لڑتی ہو ئی وسیع تر تہذیبی زندگی کی شیرازہ بندی اور ثروت مندی کے تقاضوں کی امین ٹھہری ہے۔کشور ناہید کا شمار گنتی کی ان شاعرات میں ہوتا ہے جن کی تفہیم و توضیح کے لیے ہمیں اس احساس سے آگے بھی سفر کرنا پڑتا ہے کہ یہ ایک عورت کی شاعری ہے۔جب ہم اس کی شاعری کا اس طرح مطالعہ کرتے ہیں توکشور ناہید ایک نئی عورت کا روشن پیکر بن کر سامنے آتی ہے۔اس ذہنی اور سماجی معاشرے میں جہان مرد کی بالا دستی عورت سے اس کا وجود چھین لیتی ہے، کشور کی شخصیت حرفِ انکار کی مانند ابھر کر سامنے آئی ہے۔اسے اپنی قوت کا واضح شعور ہے۔ وہ اس ظلمت اور فنا کی وادی میں جینے اور جیتے رہنے کا حق مانگتی ہے۔کشور ناہیدکی تخلیقات اس بات کی گواہ ہیں کہ اس نے ہمیشہ ایسی عورت کی تصویر کشی کی ہے جس کے اندر نفرت اور غصے کا لاوہ کھول رہا ہے۔یہ سارا غصہ مرد سماج کی بالا دستی کے خلاف ہے۔لیکن اس کی تخلیقات کا دائرہ نسوانی سر کشی تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ استحصال پر مبنی پورے معاشرے کو تبدیل کرنے کی حامی ہے۔ ۹۸۹۱ء میں تحریر کردہ مضمون ”کشور ناہید -ایک چیلنج“ میں ڈاکٹر رشید امجد اس بات کی تائید ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ملاحظہ ہو۔
”عورت اس کے ہاں استحصال زدگی کا ایک علامتی پیکر ہے جس کے ذریعے وہ بیک وقت مرد کی روایتی بالا دستی اور پورے طبقاتی نظام کی
جڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے، اور یہ جو کسی نے کہا ہے کہ جدید سامراج اس وقت تک آرٹ اور لٹریچر کو کچھ نہیں کہتا جب تک وہ اس کی جڑوں
پر حملہ آور نہ ہو، اور چونکہ کشور کی شاعری براہِ راست ان جڑوں پر حملہ کرتی ہے اس لیے دائیں اور بائیں بازو کے وہ تمام دانشور جو طبقاتی
نظام کے خلاف بھی ہیں اور آزادیئ نسواں کی باتیں بھی کرتے ہیں، اس کے خلاف ہیں“(۳)
کشور ناہید کے نسوانی عصری منظر نامے میں احتجاجِ زیر لب کا ہلکا سا زہر رچا ہوا ہے، لیکن بقول ڈاکٹر شاہین مفتی ”کشور نے اپنی شا عری کی جوازیت”نا گفتنی“ کی لا یعنیت میں تلاش کی ہے“وہ شاعری اور زندگی کو مسلسل خود کشی کہتی ہے۔اور اسی خود کشی کے لیے وہ معاشرے کی گناہ گاری کا علم لے کر زندگی کی کربلا میں ننگے پاؤں چلنے کے تجربے سے گزری ہے۔اسی آدرش کی خاطرکشور ناہید نے مرد کے گھٹن زدہ معاشرے میں عورت کی ”شعورِذات“ کی صدا کو بڑی جرأت اور ہمت سے بلند کیا ہے۔وہ شعورِ ذات جو عورت نے مرحلہ وار سیاسی اور فکری جدو جہد کے بعد حا صل کیا۔ جسے ماہرین ”نسوانی تحریک“ یا "Feminism” سے موسوم کرتے ہیں۔ تا نیثیت پسندوں کے نزدیک عورت کو ہمیشہ پدری نظام اور مردانہ تصورات و اقدار کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔اوراگر کہیں عورت کو سمجھنے کی سعی بھی کی گئی تو وہ مرد کے نقطہئ نظر سے۔ مرد نے عورت کو نسوانی وجود کا جو شعور دان کیا وہ مرد کے ساتھ اس کے رشتے کی غمازی کرتا ہے۔ اسی بات کی طرف اشارہ ”میری این فرگساں“(Mary Ann Furgusan) نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں
"Man has been defined by his relationship to the outside world… to nature, to society, indeed to God… Wher as women has been defined in relationship to man” (۴)
مرد نے اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے عورت کو کبھی اپنے برابر جگہ نہیں دی۔ اگرچہ قدیم تہذیبوں میں،جیسا کہ بابلی تہذیب میں عشتار، مصری تہذیب میں آئسس، ہندی تہذیب میں لکشمی کی شکل میں اسے دیوی کا درجہ ملا ہے لیکن یہ مرد کی تشکیل کردہ دنیا سے باہر ہیں۔ اس بارے میں ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں۔
”……عورت کو چڑیل، ناگن،ڈائن،جادو گرنی،ٹونہائی عائنہ وغیرہ کہا گیا اور ان ناموں میں اس نفرت کو مجسم کیا گیا، جو مرد نے عورت
کے لیے اپنے دل میں محسوس کی۔ انسانی پیمانے پر عورت کا درجہ مرد سے نیچے ہے یا اوپر۔ یعنی اسے مرد کی ہمسری سے محروم رکھا گیا ہے
عورت اس محرومی پر سراپا احتجاج اس لیے بنی کہ مردانگی کو زندگی کی ایک بڑی قدر قرار دیا گیا ہے“ (۵)
مرد نے اسے اپنے زیرِ سایہ رکھ کر اس کی اخلاقی تربیت اپنے احساسات و جذبات کے تابع کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی مثال ہمارے ہاں ”بہشتی زیور“ اور ”مراۃ العروس“ سے دی جا سکتی ہے۔ان کتب میں عورت کو اس اندازسے تربیت دی گئی کہ وہ ہمیشہ مرد اورپدری نظام کی وفادار بن کر رہے۔ ان تحریروں میں مرد نے خود عورت کی ذات کو اجاگر کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔تا ریخ میں پہلی مرتبہ جب ۲۹۷۱ء میں ”میری ولسٹن کرافٹ“(Mary Wollstone Craft)نے”A Vindication of The Rights of the Woman” کے عنوان سے کتاب تحریر کی تو اس وقت عورت کو احساس ہوا کہ اسے بھی مردوں کی طرح چیزوں کی ماہیت جاننے کاحق حاصل ہونا چاہیے۔ اس کتاب کے کچھ عرصے بعد”جان اسٹورٹ مِل”(Jhon Stuart Mill) کی”The Subjugation of Woman”اور ”مارگریٹ فلر“ (Margret Fullar) کی ” woman In 19th Century” نے ان خیالات کو مزید بڑھاوا دیا۔لیکن بیسویں صدی میں ہونے والی برق رفتار تبدیلیوں کی وجہ سے فکری اور عملی میدانوں میں بھی پیش رفت ہو ئی۔جس کے باعث مغرب میں عورت کو۰۲۹۱ء میں ووٹ دینے کا حق حاصل ہو گیا۔لیکن اس سے قبل عورت کی جسمانی مشقت، ذہنی غلامی، معاشی استبداداور مذہبی مناکحات عورت کی انفرادی اور اجتماعی سطح پر منظم تحریکوں کا باعث بنے۔ سال ۰۳۸۱ء میں عورتوں کو منظم کرکے ان کے اجتماعات سے خطاب کرنے کے حوالے سے ساؤتھ کیرولینا کی دو بہنیں انجلینا گرمکے اور سارہ گرمکے قابلِ ذکر ہیں، اس کے تقریباً ایک عشرے بعدعورتوں کی غلامی کے خلاف کام کرنے والی لکریٹیایاٹ اور الزبتھ کیڈیسٹن کو بھی اسی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
اسی دور میں خواتین مصنفین نے بھی پدری نظام کی غیر مساویانہ روشوں کو نئے طریقے سے اجاگر کرنا شروع کر دیا۔اس سلسلے میں ”ریبیکا ویسٹ“(Rebecca West)اور ”ورجینیا وولف“(Virginia Wolf)کے نام خاصے اہم ہیں۔ سال ۹۲۹۱ء میں شائع ہونے والی کتاب "A Room of One’s Own”کو جے۔اے کڈن نے ادبی اصطلاحات کی لغت میں تانیثت کی کلاسیکی دستاویز قرار دیا ہے۔”ڈورتھی رچرڈ سن“(Dorthy Richardson)کا ناول "Pilgrimage” اور”سیمون دی بوا“ (Simone The Beauver)کی۹۴۹۱ء میں چھپنے والی "The Second sex” نے تانیثیت کو نئی سمت سے روشناس کروایا۔ سیمون دی بوا نے اس کتاب میں عورت کی ثقافتی شناخت،معاشرتی کرداراور عورت کی اس حقیقت و اصلیت کی بازیافت کی کامیاب سعی کی ہے جو مرد معاشرے میں گم ہو چکی ہے۔
اردو ادب میں اگر نظر دوڑائی جائے تو اس ”نسوانی تحریک“ یا فیمانزم کے منظر نامے پر زہرہ نگاہ،ادا جعفری اورزاہدہ حنا سے لے کر فہمیدہ ریاض اور کشور ناہیدتک کئی اہم نام موجود ہیں۔ جنھوں نے انسانی مظلومیت، تاریخی جبر، جنسی دہشت، قانون، لا قانونیت،جذباتی زناکاری اور عورت کے وجود کی کہانی کواپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔مغرب میں پروان چڑھنے والی آزادی ئ نسواں کی تحریک کی اگر کہیں اردو میں مثال دی جا سکتی ہے تو وہ کشور ناہید کی شاعری ہے۔کشور ناہیدکے اس احساس کے محرک کا کھوج لگاتے ہوئے باقر مہدی لکھتے ہیں۔
”مگر لڑکیاں ہمارے ماحول میں کم سنی ہی سے اپنے ماحول کی جبریت سے واقف ہو جاتی ہیں، اسی لیے ان کی شاعری میں
اس لڑکی کی تصویر ملتی ہے جسے بار ہا ”نصیبوں جلی“ کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ خود اس کا نشانہ بنی ہو گی، مگر اس
کی تیر نظروں نے معاشرے میں عورت کی ازلی و ابدی مجبوریوں کو شروع ہی سے محسوس ضرور کیا تھا یہی نہیں انھیں شروع ہی سے
رشتوں کی ناپائیداری کا بھی تجربہ تھا۔“ (۶)
اگر غور کریں توکشور ناہید جس معاشرے کی فضا میں سانس لے رہی ہے اس معاشرے میں مرد نے ہمیشہ عورت کو دو اشکال میں پیش کیا گیا ہے اور یہ شکلیں ہیں چڑیلیں، بد روح مائیں، دیویاں، مسیحا صفت پیکر،انصاف دہندہ خواتین،یعنی سیاہ اور سفید دونوں رنگوں میں عورت کوپیش کیا گیا ہے۔ہندوستان کے پسماندہ معاشرے کو ترقی پسند تحریک اور جدید رحجانات، دقیا نوسی اور روایتی سوچ سے متزلزل نہیں کر سکے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں کوئی ایملی ڈکنسن، سلویا پلیتھ یا اس درجے کی اہم شاعرہ سامنے نہیں آسکی۔ہندوستانی سماج کی عورت جانِ غزل تو بن گئی مگر اسے غزل گو نہیں بننے دیا گیا۔ کشور ناہید نے اس ساری صورتِ حال کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا ہے بلکہ اس مرد کے گھٹن زدہ معاشرے میں اپنی ذات کو منوانے کے لیے سخت ریاض بھی کیا ہے، اس کا مطالعہ اور مشاہدہ اتنا وسیع اور عمیق ہے کہ وہ نئی سے نئی بات بھی بڑی خوش اسلوبی سے بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔جس کا اظہار ان کی تخلیقی کتب میں بار ہا ہوتا ہے۔
اگر دیکھیں تومنفرد اور اہم شاعر بننے کے لیے صرف مداحوں کا حلقہ تخلیق کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اپنی ذات کو نئے خطرات سے دوچار کرنا بھی از حد ضروری ہو تا ہے اور کشور ناہیدنے اپنے اظہار کی وسعت کی بدولت ایسا کر دکھایا ہے۔اس کے لہجے میں للکار ہے، عورت کی جسمانی مشقت کے خلاف، ذہنی غلامی کے خلاف، معاشی استبداد کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ کشور ناہید آج کے اس صنعتی عہد سے سخت نالاں ہے جس میں صنعتی گماشتوں نے محبت کو صنعت میں ڈھالنے کی کوشش میں نسوانیت کو خوب استعمال کیا ہے۔اس صنعتی اور سرمایہ دار معاشرے میں تکنیکی،عمرانی، ذہنی اور جذباتی منقولات کو مشتہر کر کے عورتوں کو اشتہار بازی کا لازمی جزو بنا دیا گیاہے اور دیکھتے ہی دیکھتے عورت کی نسوانیت اشتہاراتی میدان میں پیداوار کا درجہ اختیا رکر گئی ہے، کشور ناہید کی جوتے بیچتی، شیونگ بلیڈ بیچتی اشتہاری عورت منحرف ہو کر جسمانی اور نسوانی استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آتی ہے۔پاکستان میں ادا جعفری نے جہاں ازدواجی نظام کو مسلسل منافقانہ عمل قرار دیا، زہرہ نگاہ نے سماجی رشتوں کی سرد مہری کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا، وہاں کشور ناہید استقلال،جرأت اور مثبت انداز سے اس سلسلے کو آگے بڑھا رہی ہے۔
زنا سے لے کر آدھی گواہی تک
سب دشنام میرے نام
اور یہ انعام میرے نام
کہ میں شہر میں داخل ہونے والی
پہلی عورت ہوں
کہ جس کے سر پر تاج رکھا گیا ہے
میں آزاد ہوں کہ قید
زنا سے لے کر آدھی گواہی تک
میری چارج شیٹ بہت لمبی ہے (۷)
کشور ناہید کی معاشرتی مزاحمت کی وجہ اس کی ماحول اور اپنی ذات سے با خبری اور غیر معمولی ذہانت ہے۔وہ ایک ایسی عورت ہے جو روایت اور جدت دونوں کی پر زور حامی ہے۔ روایت ہمارا صدیوں کا تخلیقی تجربہ ہے لیکن جب انسان کی سوچ زندہ حقیقت کی مانند قومی شخصیت کا تجربہ نہ بن سکے تو پھر وہ رسوم و قیود کا مردہ جسم بن کر رہ جا تی ہے، اسی کے خلاف کشور اپنی صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آتی ہے جس وجہ سے اسے باغی اور آزاد منش عورت سمجھا جاتا ہے۔ کشور ناہید پر خالدہ حسین تبصرہ کرتے ہو ئے اپنے مضمون ”ملامتوں کے درمیان۔۔۔ کیوں؟“میں لکھتی ہے۔
”شاید بہت سوں کو کشور کی آواز ایک باغی، آزاد منش عورت کی آواز بن کر محظوظ کرتی ہو۔ مگر کشور ناہید کبھی اپنے تجربات کے ساتھ غیر سنجیدہ
نہیں ہوئی۔ نہ ہی اس نے کبھی چونکانے کی خاطر لکھا۔ اس کی شاعری میں conviction ہے اور یہ کنوکشن ہماری زندگیوں میں بہت
کم یاب ہے“ (۸)
کشور ناہید نے ”بری عورت کی کتھا میں“ ایک جگہ اپنے آپ کوبا اثر اور توانا عورت کے طور پر متعارف کرواتے ہوئے اپنے لیے”ہنٹر والی“ کی ترکیب کا استعمال کیا ہے۔یہ ہنٹر والی کا سمو پولیٹن نظریات اور بیورو کریٹک رویوں والے مرد حضرات کے لیے ایک مستقل خطرہ اور رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ایسی سوچ کے حامل مرد خواتین سے خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے،یہ کَہ کر خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ عورت کا دماغ مرد کی نسبت حجم میں کم ہوتا ہے اس لیے اس کی ذہنی صلا حیت بھی مرد کے مقابلے میں کم ہوگی۔ ایسے مرد عورت کی نسوانیت کو”فیما نزم“ او ر”وویمن ہڈ“ کے معانی میں محدود کر کے ایک انجانی خوشی کا لطف محسوس کرتے ہیں۔ یہیں سے عورت کو دوسرے درجے پر رکھنے کی چالاکیاں شروع ہوتی ہیں۔ تا کہ اسے باور کر وایا جا سکے کہ عورت کو جذباتی اور اخلاقی طور پر مرد کے سہارے کی اشد ضرورت ہے۔اور جب وہ ان سہاروں سے آزاد ہونے کی تگ و دوکرتی ہے تو مرد اسے شعوری طور پر خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر غور کریں تو ہمیشہ مذہب سماج کے طاقت ور ادارے کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا آیاہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مذہبی طبقہ حوا اور آدم کی کہانی کی شرمندگی کا سارا بارعورت پر ڈالتا چلا آیا ہے۔ لیکن کشور ناہید نے خود کو نہ صرف اس شرمندگی سے آزاد ی دلائی ہے بلکہ مرد کے بے معنی سہاروں سے بھی خود کو آزاد کیا ہے۔بقول کشور ”میں بڑی ڈرپوک عورت ہوں، صرف اپنے اعتماد کے سائے میں چل سکتی ہوں“یہی وجہ ہے کہ کشور،سلویا پلاتھ، سیمون دی بوا اور بیٹی فرائیڈن کی طرح اپنے فیصلوں کا بار خود اٹھا نے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ کشور ناہید نے اس نے معاشرے میں ہمیشہ دو محاذوں پر جنگ کی ہے، ایک بحیثیت عورت کے مرد کی بر تری سے اور دوسرا معاشرے کے استحصالی طبقے سے۔ وہ در حقیقت یہ احساس دلانا چاہتی ہے کہ معاشرہ اُس وقت استحصال سے پاک ہو گا جب عورت کو اس کا درست مقام میسر آئے گا۔ جس طرح پدرانہ نظام نے عورت کی شخصیت کچل کر، اسے ذلیل و خوار کر کے،معاشرے میں انتہائی پست مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور ساتھ ہی مذہب میں عورت کوگناہ کی علامت اور کم تر درجے کی مخلوق بنا کر پیش کیا گیا ہے، کشور ناہید نے ہمیشہ اس پر سخت احتجاج کیا ہے۔ اس حوالے سے کشور ناہید کی نظم”ہم گناہ گار عورتیں“ مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔
ہم گناہ گار عورتیں ہیں
کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگ
وہ سر فراز ٹھہریں
وہ داورِ اہلِ ساز ٹھہریں
نیابتِ امتیاز ٹھہریں
یہ ہم گناہ گار عورتیں ہیں
کہ سچ کا پرچم اٹھا کے نکلیں
تو جھوٹ سے شاہراہیں اٹی ملیں ہیں
ہر ایک دہلیز پہ سزاؤں کی داستانیں رکھی ملیں ہیں
جو بول سکتی تھیں،وہ زبانیں کٹی ملی ہیں (ہم گناہ گار عورتیں)
اسی طرح کے خیالا ت کو اس کی نظموں ”سانپ کینچلی“، ”ساحل سے آگے صحرا“، ”خواب پہ جاگنے کا الزام“،ایک نظم آؤٹ آف فوکس“اور ”خوابوں کی البم“ میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔آ ج جب عورت کی آواز کو غور سے سنا جا رہا ہے تو مرداسے مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی ہتھ کنڈوں سے روکنے کی کوشش میں مگن ہے۔اور اسے چار دیواری کے حصار میں قید رکھ کر اس پر من مانی کرنا چاہتا ہے۔ مرد کے اس رویے پر کشور کچھ اس طرح نوحہ کناں ہے۔
یہ ہم گناہ گار عورتیں ہیں
جو اہلِ حبّہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں
نہ سر جھکائیں
نہ ہاتھ جوڑیں (ہم گناہ گار عورتیں)
کشور ناہید اپنے کندھووں پر اپنے ہم نفسوں کا بوجھ اٹھائے عہدِ حاضر کی عورتوں کا نیا عہد نامہ تخلیق کر رہی ہے جو آنے والے عہد میں یادگا ررہے گا۔ کیوں کہ وہ نہیں چاہتی کہ عورت جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ معاشرے میں اگر بیوی بن کر اپنی ذات کا اثبات نہیں کر پاتی تو وہ محلات کی لونڈی یابازارِ حسن کی زینت بن کر زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہو۔ اسی لیے اس نے خود کو ریشم کے کیڑے کی طرح اپنی نرگسیت کے خول میں قید نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی نظموں سے اپنی ذات کی کچھ اس انداز سے توسیع کی،کہ وہ بقول ڈاکٹر سلیم ا خترعام عورت کی فرسٹریشن، نا آسودگی اور پیاس کی علامت بن گئی۔ کشور ناہید نے اپنی شاعری کو آ ج کی آزادی طلب عورت، اپنے وجود کا اثبات چاہنے والی عورت، اپنی شخصیت کا اظہار چاہنے والی عورت اور اپنی نسوانیت سے نہ شرمانے والی عورت کا منشور بھی بنا دیا ہے۔ سیمون دی بوا نے فلسفیانہ سطح پرجس مسئلے کو اپنی کتاب ”Second Sex“میں موضوعِ بحت بنایا ہے کشور ناہید تخلیقی سطح پر اس سے نبرد آزما ہے۔کشور ان دیواروں کی سخت دشمن ہے جن میں باہر کی طرف کوئی کھڑکی نہیں کھلتی، اور اس کا یہ رویہ اسے مشرقی عورت کی روایتی صف سے الگ تھلگ کر دیتا ہے لیکن اسے اس بات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں،وہ سینہ سپر رہنے اور زندگی کو مجاہدانہ بسر کرنے کی خوگر ہے۔ کشو ر کا یہ مزاحمتی رویہ محض جذباتی کیفیت کا حامل نہیں بلکہ تجزیاتی عمل سے گزر کر سچائی تک پہنچنے کی جستجو سے عبارت ہے، جس میں بولنا اور دوسروں کو بولنے پر اکسانااس لیے اہم ہے کی احتجاج کرنا زندگی کی علامت بن جاتا ہے
بولنا ہماری ضرورت ہے
چاہے زمین میں منہ دے کر ہی کیوں نہ بولنا پڑے
میری بے گہنی زمیں میں منہ دے کر
اپنی صفائی پیش کر رہی ہے
کہ زندگی کے سارے راستوں پر
قاضیئ شہر کے فیصلے کے مطابق
خوف بچھا یا جا چکا ہے (تیسرے درجے والوں کہ پہلی ضرورت،مشمولہ ملامتوں کے درمیان)
وہ جبر و تشدد کی اس فضا میں اپنی نظم ”اعتراف“ میں کچھ اس انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی نظر آتی ہے۔
سہمی ہوئی دبکی چڑیو
یہ تم ان سہمے لرزتے ہاتھوں سے کیوں خوف زدہ ہو
تم تو پھر بھی انجانے میں جال میں پھنس کر
آزادی کی لذت سے محروم ہوئی ہو
ہم تو خود ہی اپنی زبانیں کاٹ کر
سرخ روئی کے احراموں میں لپٹے
سجدہ گزار ہیں، محو ثنا ہیں (اعترف۔۔ گلیاں،دھوپ،دروازے)
کشور نا ہید نے مرد معاشرے میں عورت کے حقوق کے لیے جس طرح جنگ کی ہے ہمارے ہاں اُسے عورت کا ضرورت سے زیادہ خود مختار اور فحش ہونا سمجھا جاتا ہے۔حالاں کہ اس کا مقصد انتخاب،تو ل پر کھ اور عملی توجیہات کے سب مواقعوں پر مردو زن کو ایک ہی سطح پر رکھنا مقصود ہے، جو شائد مرد کو قابلِ قبول نہیں۔ کشور ناہید کا یہ مؤقف ہے کہ مرد کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عورت کی نفسیاتی اورجسمانی موجودگی کو سرے سے کسی درجہ بندی کے قابل ہی نہ سمجھے۔اس نسوانی مظلومیت کو کشور ناہید نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ہے اور اپنی لکھتوں کے وسیلے سے ان لوگوں کی اخلاق کی نقاب کشائی کی جو مخصوص مفادات کے تحت مخصوص فضا اور مخصوص قانون وضع کر لیتے ہیں۔ وہ نظام جہاں محکومی، غربت،مردانہ تشدد،طوائفیت، بچوں کی تعداد،اسقاطِ حمل،محبت کے یک زوجی نظام کی زنانہ جبریت،عصمت و عفت کی تفتیش اور جنسی کج رویاں عورت کی راہ دیکھ رہے ہیں۔اس نظام کو ختم کر کے مساوات پر مبنی معاشرہ جہاں مرد و زن ایک ہی سطح پر موجود ہو ں، کے قیام کی کوشش کرنا، کشورناہید کا آدرش ہے اور اس کے لیے اس نے تمام عمر کو شش کی ہے۔ اس سلسلے میں عورتوں کی مستقبل آفرینی کے ضمن میں بین الاقوامی سطح پر منعقد کی گئی کانفرنسوں میں کشور نے بار ہا کی۔ کشور نے سماج سدھار اور خاتون سدھار کالم لکھنے کا شوق بھی پال رکھا ہے اور وہ یہ کام تسلسل سے کیے جا رہی ہے۔اس نے عورت کے مظالم پر لکھا، اس نے لیلیٰ خالد کی زندگی پر قلم اٹھا یا، اس نے ”عورت زبانِ خلق سے زبانِ حال تک“ جیسی کتاب کے موضوعات کے تراجم جمع کر کے جدید نسوانی بوطیقا تشکیل دینے کی کوشش کی۔ تاکہ عورت کے حقوق کے حصول کے لیے مضبوط صورتِ حال پیدا کی جاسکے کیوں کہ سیمون دی بوا کی طرح کشور ناہید بھی یہ سمجھتی ہے کہ سماجی انصاف کے خواب کو پورا کرنے کے لیے عورت کی مضبوط صورتِ حال نہایت ضروری ہے۔ اور اس سلسلے میں کشور ناہید نے سخت جنگ کی ہے جس پرمعروف کالم نگار اور افسانہ نگار انتظار حسین نے کشور ناہید کو ”جھانسی کی رانی“ کے خطاب سے نوازا ہے۔
——–
حوالہ جات
۱۔کشور ناہید،بری عورت کی کتھا،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص۹۶
۲۔کشور ناہید، سوختہ سامانیئ دِ ل، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۲ء ص۴۹
۳۔رشید امجد،کشور ناہید۔ایک چیلنج، مشمولہ نئے زمانے کی برہن از مرتب اصغر ندیم سید۔افضال احمد،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۰ء، ص۲۰۶
۴۔Mary Ann Fergusan, Images of women in litrature, boston,Mifflin Company,1981,p5
۵۔ ناصر عباس نیّر، جدید اور مابعد جدید تنقید،انجمنِ ترقی ئاردو پاکستان، کراچی،دسمبر ۲۰۰۴ء،ص۲۷۴
۶۔باقر مہدی، نسائی بوطیقا، مشمولہ، نئے زمانے کی برہن، محولہ بالا، ص۵۷
۷۔ کشور ناہید،چارج شیٹ۰۹۹۱ء، خیالی شخص سے مقابلہ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۲ء ص ۱۱۲
۸۔خالدہ حسین،”ملامتوں کے درمیان۔۔۔ کیوں؟“ مشمولہ نئے زمانے کی برہن، محولہ بالا، ص۱۱۱
——-