مسلم لڑکیوں کی دینی تربیت کا فقدان :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share

مسلم لڑکیوں کی دینی تربیت کا فقدان
مضر اثرات اور حل

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند
E-mail:

اس وقت ہندوستان جس پر خطر دور سے گزر رہا ہے اس سے ہر باشعور شخص بخوبی واقف ہے،ہمارا ملک ہندتوا کے جس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے وہ کسی چشم بینا سے مخفی نہیں،منظم اندازمیں مسلم بچیوں کے ذریعہ اسلامی تہذیب پر شب خون مارنے کی زبردست کوشش ہورہی ہے؛ بلکہ کوشش کامیاب ہوچکی ہے، اس کے لیے مختلف تنظیمیں سرگرم عمل ہیں، اور پیسے اور دیگر وسائل کا بھر پور استعمال کیا جارہا ہے، مسلم لڑکیوں کو ارتداد کی ناپاک چادر پہنانے کے لیے غیر مسلم لڑکوں کوباضابطہ تیار کیا جارہاہے، اس کے لیے”لو جہاد“ کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جاتارہا ہے بالآخر جو کوششیں ہورہی تھیں اس کے بھیانک نتائج سامنے آنے لگے ہیں

اورجب پانی سر سے ا ونچا ہوگیا تو ہمارے مذہبی حلقوں سے اس پر مذمتی بیانات اور تحریریں آنی شروع ہوگئیں لیکن اب تک جو کچھ بھی اس کے دفاع میں کیا جارہاہے میرے خیال سے”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“ کے مترادف ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے مرض کی تشخیض ضروری ہے کہ بیماری کیا ہے؟ اور بیماری کہاں سے پیدا ہورہی ہے اور اس کا حل کیا؟ اگر اس پہلو پرسنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تو جلسے جلوس، مسجد کے ممبر سے وعظ و نصیحت کی کثرت اور تحریروں کا یہ سیلاب اس بھیانک باندھ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
سب سے پہلے اس کا جائزہ لیجیے کہ یہ بیماری کہاں سے آرہی ہے؟ مسلم بچیاں غیر مسلم کے دام فریب میں کس طرح آرہی ہیں؟، وہ کون سے طریقے اور راستے ہیں جہاں سے مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کی دوست بن رہی ہیں اور پھر یہ دوستی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ کوئی طاقت ان کوگمراہی کے راستے پر جانے سے نہیں روک سکتی ہے۔ آخر کون سا نشہ انہیں پلادیا جاتاہے کہ ماں کی ممتا اور باپ کی محبت،خاندان کی چہاردیواری،بھائی بہنوں کی محبت کی ڈوری، اسلامی تہذیب کی توانائی سب کچھ انہیں ہیچ معلوم ہوتی ہیں،اور عارضی محبت کے اس نشے میں وہ سب کچھ قربان کرکے اسلام کی اس حصارکو پار کرجاتی ہیں جس کے ذریعہ وہ نہ صرف اپنا خاندان، ماں باپ،بھائی بہن، رشتے دار سے دور ہوجا تی ہیں؛ بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کے دروازے کو اپنے اوپر بند کرلیتی ہیں اور جہنم کا مستحق بن جاتی ہیں۔
یہ سوال اہم ہے؟ کیا صرف غیر مسلم تنظیموں کی کوششوں سے یہ سب کچھ ہورہاہے، کیا یہ سب کچھ دانستہ ہورہاہے؟ میرا خیال ہے کہ مطلقا ایسا نہیں ہے، اور نہ ہی یہ چند دنوں یا چند سالوں کی محنت کا نتیجہ ہے؛ بلکہ یہ ہماری دیرپا غفلت اور حالات کی نزاکت سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے، ا س میں ہماری بچیاں جتنی قصور وار ہیں اسی قدر ہم خود بھی مجرم ہیں۔
اس مسئلے کا آغاز درحقیقت تعلیم گاہوں سے ہوتاہے، بڑی بڑی مسلم آبادی میں بھی مسلم منجمیٹ تعلیمی ادارے پر توجہ نہیں دی گئی اور اگر تعلیمی ادارے قائم بھی ہوئے تو شوق مغرب نے ہمیں کامریٹ اسکولوں سے کم پر قناعت کرنے نہ دیا، ہم نے اپنی بچیوں کو ساز و سارنگ پر تھرکتے ہوئے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا، اور فخر کا مظاہرہ کیا،اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے درمیان اس فخر کے لیے اپنی بچی کو ناچنے کی ترغیب دی۔معاملہ یہیں نہیں رکا، غیر مسلم یاعیسائی اسکولوں میں ہماری بچی پڑھنے گئی اور وہاں کی تعلیم و تربیت نے اس کی پوری زندگی کو متاثر کیا اور ہمارا طرز عمل یہ رہا کہ بچی کو اپنے ماحول میں ڈھالنے کے بجائے ہم خود اس کی تعلیم میں ڈھل گئے اور اب نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
اس پورے قضیے کو آسان انداز میں اس طرح سمجھئے کہ ہماری بچی جب پڑھنے کے قابل ہوئی تو کامریٹ اسکول یا غیر مسلموں کے اسکولوں میں ہم نے اس کا داخلہ کرادیا پانچ سال کی عمر میں اس کے جو دوست اور کلاس ساتھی تھے ان کے نام ہیں شیام، دیال،رام پرساد، ونود،گنیش وغیرہ انہی ناموں سے ہماری بچی کی دوستی ہوئی، انہی کے ساتھ اس نے کھیلنا سیکھا، کلاس میں جب اس کو مدد کی ضرورت پیش آئی تو اس نے انہی سے مدد طلب کی، ان اسکولوں کے نصاب تعلیم کے ذریعہ لاشعوری طورپر جس تہذیب سے ان کو قریب کیا گیا وہ غیر اسلامی تہذیب تھی، جس ماحول سے اس کو آشنا کیا وہ دین بیزاری کا ماحول تھا، جس پگنڈنڈی پر اس کو چلنا سکھایا گیا وہ بے حیائی اور بے پردگی کا راستہ تھا،اسکول کی تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ہی و ہ شعور کی عمر کو پہنچ گئی، دوستی، انسیت او رمحبت جو انسان کی فطرت میں ودیعت ہے اور انسان جن کے ساتھ اور جن کے درمیان رہتاہے ان سے غیر فطری طورپر محبت کرنے لگتاہے نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری بچیاں بھی اسی گنیش کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔پھر اس کی تعلیم اسکول سے کالج تک پہونچی اور انسیت و الفت کا یہ رشتہ دراز ہوکر محبت و مودت میں تبدیل ہو گیا اور اس سے آگے تعلیم کے بعد یہ دونوں ملازمت میں بھی ساتھ رہے اور اس طرح یہ رشتہ مضبوط ہوتا رہا اور بالآخر دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے کبھی ایسا ہواکہ لڑکی کی محبت غالب ہوئی اور غیر مسلم لڑکے نے اسلام قبول کرلیا اور کبھی ایسا کہ لڑکی نے اسلام کی چوکھٹ کو پھلاندکر ہندو ریتی رواج کے مطابق شادی کرلی۔یہ سب کچھ ایک طویل زمانے سے ہورہاہے ا ب اس میں ہندو انتہاپسند تنظیموں کی طرف سے شدت آئی ہے اور منظم انداز پر مسلم لڑکیوں کو ٹارگیٹ کیا جارہاہے اور اس میں ہمارا یہ تعلیمی نظام سب سے زیادہ معاون بن رہاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تعلیم کے نام پر کیا اسلامی تہذیب کا جنازہ نکالنے کا یہ عمل ہمارے ہاتھوں سے اسی طرح جاری رہے گا یا اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا؟ بسا اوقات بیانات، جلسے جلوس اور قلمی جولانی کے ذریعہ اپنے درد و غم کا اظہار کردیا جاتا ہے اور کوئی مضبوط اور دیر پا لائحہ عمل طے نہیں کیا جاتا ہے اس لیے کہ اس طرح کے واقعات میں کمی آنے کے بجائے اور اضافہ ہوتاجارہے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس فکر ی و ذہنی ارتداد میں سب سے بڑا کردار ہمارے تعلیمی نظام کا ہے، اس لیے کہ اس تعلیمی نظام میں ایک بچی غیروں کے حوالے کردی جاتی ہے اور اس کی دینی تربیت، اسلامی تہذیب سے ان کی واقفیت ایک مسلمان عورت کے فرائض و حقوق، عقیدہ توحید،رسالت اور آخرت کی اہمیت، اسلام کے ابدی و آفاقی نظام کی عظمت، اسلامی تعلیمات کی معقولیت،عقیدہ شرک کی قباحت، اس کی غیر معقولیت،جیسے موضوعات سے واقف نہیں کرایا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلم لڑکی مندر کے نظام سے جس قدر واقف اور ما نوس ہوتی ہے مسجد کے نظام سے اس قدر مانوس نہیں ہوتی۔
آج اگر ہم اس نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں، اور مسلم بچیوں کے ایمان و اعمال کی بقا اور اسلامی تہذیب پر اپنے ہاتھوں ہوتے یلغار کو روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں سنجیدہ اور دیر پا محنت کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ اپنی بچیوں کی تعلیم کے ذریعہ کچھ حاصل کرنے کے ساتھ بہت کچھ کھو رہے ہیں جب تک یہ احساس نہیں ہوگا اس وقت تک ہم کھوئے ہوئے احوال کا تدارک نہیں کرپائیں گے۔
سب سے پہلے ہمیں اپنا تعلیمی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے، جہاں کہیں بھی بڑی مسلم آبادی ہو اور مسلمان معیشت میں مضبوط ہوں ان کو اپنے معیاری اسکول قائم کرنے چاہیے اور اسکولوں میں بھی گرل اسکول اور گرل کالج قائم کرنے پر سب سے زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے اس کے ذریعہ ہم بہت آسانی سے اس طرح کے واقعات پر قابو پاسکتے ہیں، مسلم منجمینٹ اسکولوں میں ایک کلاس اسلامی معلومات کا رکھاجاسکتاہے، اور اس طرح کے اسکول سے ہم اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کا بڑا کام کرسکتے ہیں۔
دوسرا کام یہ ہے کہ جہاں مسلمان اپنے اسکول قائم نہیں کرسکتے ہیں وہاں اسکو ل کے ٹائم ٹیبل کو سامنے رکھ کر دو گھنٹے کے لیے اسلامی کورس مرتب کرکے اسلامک اسکول قائم کیاجائے،جس میں لازمی طورپر اسکول میں پڑھنے والی بچیوں کوداخلہ دلایا جائے، بعض لوگ اپنے گھروں میں کسی حافظ یا عالم کو ٹیوشن کے لیے رکھتے ہیں اور اس ذریعہ اپنی بچی کو دینی تعلیم دلانے کی کوشش کرتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ متبادل نہیں ہوسکتا ہے، ماحول کا مقابلہ ماحول کے ذریعہ ہوسکتا ہے جس طرح اہتمام کے ساتھ لڑکیاں اسکول میں جاتی ہیں اسی طرح اہتمام کے ساتھ اسلامک مکتب یا اسلامک اسکول میں بھی جائیں تاکہ اسکول کی تعلیم کے ذریعہ ان کے دل و دماغ پرجو بے دینی کاغبار چھاگیا ہے اسلامک اسکول کے ماحول سے اس غبارکو کم کیا جاسکے۔
ایک مسئلہ یہ بھی اہل علم کے لیے غور وفکر کا طالب ہے کہ آج مسلم بچیوں کی جو بے دینی اور فکری ارتدادہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں اس میں ایک اہم عنصر یہ ہے کہ ہماری مسلم بچیاں اسلامی تعلیمات، اسلامی احکامات سے غیر مانوس ہیں، تجربہ یہ ہیں یہ بچیاں مندروں میں جاتی ہیں لیکن مسجد کے ماحول سے مانوس نہیں ہیں، دینی مزاج سے مانوس نہ ہونے میں ایک چیز یہ بھی حائل ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے کی ممانعت ہے،مسجد میں جو دینی پروگرام ہوتے ہیں اس میں شرکت کی اجازت نہیں ہے، عورتیں اپنی کسی ضرورت سے باہر ہوں اور ان کی نماز قضاء ہوجائے تو ہو جائے لیکن وہ مسجد میں نماز کے لیے نہیں آتی ہیں،حضرات فقہاء نے قرآن وحدیث کو سامنے رکھ کر عورتوں کومسجد میں نماز کے لیے آنے کو مکروہ تحریمی قرار دیا ہے،اس میں بنیادی عنصریہ تھا کہ عورتوں کا گھر سے نکلنا فتنہ سے خالی نہیں ہے اس لیے عورتوں کو گھر سے نہیں نکلناچاہیے اور نماز جیسے اہم فریضے کو بھی گھر میں ادا کرناچاہیے۔ آج جب کہ بہت سے اہل علم عورتوں کے تبلیغی جماعت میں جانے کی دینی ضرورت کی بناپر جائز قرار دیتے ہیں، لڑکیوں کے لیے پردہ کے نظام کے ساتھ اسکول و کالج کی تعلیم حاصل کر نے کی اجازت دی ہے، اسی طرح مختلف مواقع پر عورتیں گھر سے باہر نکلتی ہیں، اس لیے آج کے ماحول میں اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے عورتوں کے لیے گھر میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے اس لیے گھر سے نماز کے لیے نکلنادرست نہیں ہے لیکن جو لڑکیاں ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں، یا تعلیم کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں، یا اس کے علاوہ کسی دوسری ضرورت سے باہر نکلتی ہیں اور آس پاس کی مساجد میں پردے کے ساتھ عورتوں کی نماز کا نظم بھی ہے تو وہاں نماز پڑھ لیا کریں تاکہ ہماری مسلم بچیاں مسجد کے ماحول سے کسی حد تک مانوس ہوسکیں۔اسی طرح اگر جمعہ وہ خواتین جو اپنی ضرورت سے گھر سے باہر ہیں وہ مسجد میں آکر نماز پڑھیں اور دینی بیانات کو سنیں تو امید ہے کہ دینی باتوں کو سن کر اسلام کے تعلق سے ان کی غلط فہمیاں دور ہوں گی، شرک و کفر سے ان کی انسیت بعد اور نفرت میں تبدیل ہوگی۔یہ ایک علمی مسئلہ ہے اس پر اہل علم کو غور کرنا چاہیے اور اگر کوئی ممکن نظام بن سکتاہو تو ضرور بناناچاہیے۔
——

مفتی امانت علی قاسمی

Share
Share
Share