آزادی کے 74سال اور ہندوستانی مسلمان
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770
ہندوستان اپنی آ زادی کے 74سال مکمل کر نے جارہا ہے۔ 15/ اگست 2021کو ہندوستانی قوم 75واں "یوم ِ آ زادی "کا جشن منائے گی۔ یہ دن مجاہدین ِ آزادی کی قربانیوں کو یاد کرنے کے ساتھ اپنے محاسبہ کی بھی دعوت دیتا ہے۔ جدوجہدِ آ زادیِ ہند کی تاریخ مسلمانوں کے تذ کرہ کے بغیر نا مکمل ہو گی۔ سچائی تو یہ ہے کہ بر طانوی سامراج کے خلاف سب سے پہلے سینہ سپر ہونے والے کوئی اورنہیں بلکہ مسلمان تھے۔ ان کے لئے جدوجہدِ آ زادی میں حصہ لینا ایک دینی فریضہ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ تحریکِ آ زادی کے ہراول قافلے میں سب سے آ گے مسلمانوں کے علماء تھے۔ یہ وہ شہیدانِ وطن تھے جن کو پھانسی کے پھندے پر بھی لٹکایا گیا اور انڈومان و نکوبار کی جیلوں میں قید کیا گیا۔ ہندوستان کی تحریکِ آ زادی میں مسلمانوں کے رول کو بیان کر نے کا مقصد فخر و مباہات کا اظہار نہ ہو بلکہ اس کے ذ ریعہ یہ بتانا مقصود ہو کہ آزادیِ وطن کی جدوجہد میں مسلمانوں کی حیثیت میرِ کارواں کی رہی۔ آج جس گروہ کے ہاتھوں میں حکومت کی زمامِ کار ہے وہ فسطائی ذہنیت کا حامل ہے۔ اسے یہ بات گوارا نہیں ہے کہ ہندوستان کی آ زادی میں مسلمانوں نے جو قربا نیاں دی ہیں اس سے دنیا واقف ہو۔ اسی لئے تاریخ کو مسخ کر نے کا عمل جاری ہے۔ مسلمانوں کی آزادیِ وطن کے لئے کی جانے والی جد و جہد کو حرفِ غلط کی طرح مٹادیا جارہا ہے۔ آزادی کی پچاسویں سالگرہ بڑے تزک و اہتمام سے منائی گئی لیکن کہیں بھی مسلمانوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ ملک میں آ زادی کا سورج طلوع ہو تے ہی مسلمان اس ملک میں اجنبی بنا دئے گئے۔ وہ سارے خواب بکھر کر رہ گئے جو تحریکِ آ زادی کے دوران مسلمانوں نے دیکھے تھے۔ ان کی جان و مال، عزت و آ برو، ان کی شر یعت اور ان کی مساجد سب کچھ کھٹکنے لگے۔ یکے بعد دیگر بر سرِ اقتدار آ نے والی حکومتوں نے بھی ان کے ساتھ انصاف کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ ہر جگہ تعصب اور جانبداری کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ ملک کے دیگر طبقے آزادی کے بعد زندگی کی دوڑ میں مسلمانوں سے کافی آ گے نکل گئے۔ مسلمانوں کے لئے تعلیم اور روزگار کے دروازے بھی بتدریج بند ہو تے چلے گئے۔ مسلمانوں کو ایسے مسائل میں ایک سازش کے تحت الجھا کر رکھ دیا گیا کہ وہ مستقبل کی طرف دیکھ بھی نہ سکے۔ زبانِ اردو کا تحفظ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی، فرقہ وارانہ فسادات کا لا متناہی سلسلہ، یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوشش، شریعت میں مداخلت پھر بابری مسجد کی شہادت یہ وہ سنگین مسائل رہے جسے مسلمان گزشتہ ستر سال کے دوران جھیلتے رہے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ کوئی گروہ صرف اپنے تحفظ اور دفاع کے بارے میں سوچتا رہے تو وہ کیسے زمانہ کے تقاضوں کی تکمیل کر سکتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ آ زادی کے بعد مسلمانوں میں جو قیادت ابھری اس میں دوراندیشی، دور بینی اور اخلاص کا بڑی حد تک فقدان رہا۔ چند مخلص، بیباک اور مدبرّانہ سوچ رکھنے والے علماء اور قائدین بھی آزادی کے بعد مسلمانوں کی صفوں میں نظر آ ئے لیکن ان کی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ دشمن کے تابڑ توڑ حملوں اور ان کی سازشوں کا اندازہ لگانے میں مسلمان قیادت یا تو ناکام ہو گئی یا دانستہ طور پر قوم کو ان کے لئے نرم چارہ بنا دیا۔ سوچنے اور غور کر نے کا مقام ہے کہ جس فسطائی پارٹی کے 1980کے دہے میں دو ارکانِ پارلیمنٹ تھے 2014کے آ تے آ تے وہ پارٹی ملک کے سیاہ و سفید کی مالک بن جاتی ہے۔ اس کے کارندے اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے دوبارہ 2019کے پارلیمانی الیکشن میں اسے دوتہائی اکثریت سے کامیابی دلاتے ہیں۔
کسی بھی قوم اور گروہ کے لئے 74سال کا عرصہ مختصر نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے ہندو ستانی مسلمانوں کو اپنا احتساب کرنا لازمی ہے کہ وہ قوم جس نے اس ملک پر آ ٹھ سو سال حکومت کی اور آزادی کی جدو جہد میں نا قابلِ فراموش رول ادا کیا آج کیوں احساسِ شکست خوردگی میں مبتلا ہے۔ وہ کیا عوامل ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جہالت، نا خواندگی، بے روزگاری اور مایوسی مسلمانوں کا مقدر کیوں بن گئی؟ جب تک مرض کی تشخیص نہ ہو علاج ممکن نہیں ہے۔ بے لاگ اور پوری غیر جانبداری کے ساتھ جب تک مسلمان اپنا محاسبہ نہیں کر یں گے اس دلدل سے نکلنا ان کے لئے ممکن نہ ہوگا۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت ہندوستانی مسلمان انتہائی دشوار ترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ ملک کی آ زادی کے بعد مسلمان بہت ساری آزمائشوں سے گزرے۔ اس کا تذکرہ مضمون کی ابتدائی سطورمیں کیا گیا۔ لیکن اس وقت مسلمان تاریخ کے ایک نازک دورمیں داخل ہو گئے ہیں۔ جن پارٹیوں کے ہاتھوں میں اقتدار ہے وہ مسلمانوں کے تشخص کو ہی ختم کر دینا چاہتی ہیں۔ 2019کے الیکشن میں کا میابی کے بعد فسطائی قوتیں بے لگام ہوگئیں ہیں۔ ان کے خفیہ عزائم اب کھل کر سامنے آ نے لگے ہیں۔ ملک کے ماحول کو زہر آلود کر کے وہ اپنے ایجنڈے کو روبہ عمل لانے کی تیاریاں کر چکی ہیں۔ مسلمانوں کو مختلف عنوانات سے بد نام کر کے انہیں الگ تھلک کر دینا ان کا منصو بہ ہے۔ملک میں ایک سیکولر دستور کے ہو تے ہوئے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کو چھیننے کی کئی بار کوشش کی گئی۔ ہجومی تشدد، لو جہاد، گھر واپسی اور دو سے زائد بچوں کی پیدائش پر پابندی یہ سب مسلمانوں کو پریشان کر نے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ حالات کی اس سختی کا شکار مسلمان، اگر صبر اور الولعزمی کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے تو ان کو صفحہ ہستی سے بھی مٹانے میں دشمن طاقتیں کوئی عار محسوس نہیں کر یں گی۔ اس وقت پورے لاؤ لشکر کے ساتھ سنگھ پریوار ملک میں ایک ایسی فضاء تیار کر رہا ہے جس کے ذ ریعہ مسلمانوں کو ان کے دستوری حقوق سے محروم کر کے انہیں دوسرے درجہ کے شہری بناکر رکھ دینا ہے۔ مذہبی آ زادی کے حق کو چھیننے کی مسلسل تگ ودو ہو رہی ہے۔ تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون بنائے جا رہے ہیں۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں۔ حالات کے اس تناظر میں مسلمانوں کو اپنی حکمت عملی خود بنانی ہو گی۔ مشکلات اور آزمائشیں قوموں کی تاریخ میں آ تی رہیں ہیں۔ جو قومیں ان سے نبرد آزماہونے کا ہُنر جا نتی ہیں وہ کا میاب اور سرخرو ہو تی ہیں۔ مسلمان تاریخ کے مختلف ادوار میں اس سے زیادہ خطرناک حالات سے دوچار ہو ئے ہیں۔ تا تاریوں نے بغداد میں مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ہندوستان میں بھی مسلمان خون آ شام تباہی کو دیکھ چکے ہیں۔ اس لئے مسائل اور مصائب سے گھبرا کر ہتھیار ڈال دینا مسلمان کا شیوہ نہیں ہے۔ ہمت شکن حالات ہی قوموں میں حو صلہ اور عزم پید کر تے ہیں۔ احساس کمتری اور شکست خوردگی زندہ درگور کر دیتی ہے۔ اس لئے حالات چاہے کتنے ہی نا سازگار ہوں ہندوستانی مسلمانوں کو اپنا سفر اپنے بَل بوتے پر طے کرنا ہے۔ خدا اعتمادی اور خود اعتمادی ہی ہندوستانی مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام اور وقار دلا سکتی ہے۔ دوسروں پر انحصار اور بیساکھیوں کے سہارے چلنے کی عادت ان کو مزید قعرِ مذلت میں ڈال دے گی۔ اسلامی حمیت اور اتحادِ ملت میں ہی ان کا کا میابی کا راز پنہاں ہے۔ ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں مسلمان آپسی سر پھٹول میں ہی مصروف رہیں گے تو زمانہ انہیں کچلتے ہوئے آ گے نکل جا ئے گا۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو قوم اپنے مسائل کے حل کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اس لئے مسلمانوں کواپنا لائحہ عمل خود سنجیدگی سے طے کر نا ہو گا۔
مسلم قیادت کی ذ مہ داری ہے کہ وہ ایسی حکمتِ عملی تیار کر ے جس کے ذریعہ مسلمان سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی میدان میں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس وقت فسطائیت کا بھوت سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ نفرت کے سوداگر ملکی سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر کے اپنے حقیر مفادات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ کوویڈ۔19کی پہلی اور دوسری لہر میں ہزاروں انسانوں کی موت کے بعد بھی انسانیت دشمن عناصر نے اس سے کوئی عبرت حا صل نہیں کی۔ منفی بنیادوں پر سنگھ پریوار اپنی عمارت تعمیر کر کے ایک جمہوری اور سیکولر ملک کو ہندو راشٹرا میں بدلنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ فسطائیت کے اس سیلاب کو مسلمان اکیلے نہیں روک سکتے۔ اس کے لئے ملک کے صاف ذہن، حق پسند، بیباک، مخلص اور انسانیت پسند افراد کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس ملک کی اکثریت کا ابھی ضمیر زندہ ہے۔ وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتے ہیں۔ ایسے با ضمیر لوگ ہی اس ملک میں جمہوریت کو بحال رکھنے اور فاشزم کو روکنے میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ملک گیر سطح پر جو احتجاج ہوا اس سے اندازہ ہو گیا کہ ہندوتوا کا راگ الاپنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس ملک کی اکثریت انسانی قدروں، جمہوری روایات اور سیکولر نظریات کی حامل ہے۔ مذہبی روداری اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے ساتھ تمام مذاہب کا احترام کرنا بھی ہندوستانیوں کی روایت رہی ہے۔ سنگھ پریوار ملک میں خوف اور دہشت کا ماحول تیار کر رہا ہے اور ایک انجانے دشمن کی تلاش میں ہے۔ اس کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنے کے لئے ملک کے سیلم الفطرت افراد کے ساتھ مسلمانوں کا میل میلاپ ضروری ہے۔ فسطائی طاقتوں کو سیاسی طور پر شکست دینے کے لئے ملک کے محروم اور مظلوم طبقات کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی حکمتِ عملی مسلمانوں کووضع کر نی ہوگی۔ منوواد اور برہمن واد سیاست سے ملک کے یہ طبقے بیزار ہیں۔ ہندتوا طاقتوں نے دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو ہر قسم کے حقوق سے محروم رکھا ہے۔ سیاسی شعبہ میں ریزویشن کے نام پر کچھ خیرات ان کو دے دی جاتی ہے لیکن ان کی سماجی حیثیت کو آج بھی تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ کسی اعلیٰ ذات کی مندر میں کوئی ادنی ذات کا شخص پوجا نہیں کر سکتا۔ دلت عورتوں کے ساتھ جس قسم کا بے رحمانہ سلوک اب بھی جاری ہے اسے دیکھتے ہوئے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان طبقوں کے ساتھ مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی ساجھیداری ملک میں ایک نئے سماجی اور سیاسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ اس کے لئے مسلمانوں کو ان طبقوں کے ساتھ اپنے روابط بڑھانے ہوں گے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس ملک کی 80فیصد آ بادی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صحیح معلومات نہیں رکھتی۔سنگھ پریوار اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ مسلمان ہی اس ملک کے اصل دشمن ہیں۔ مسلمانوں کی غفلت کے نتیجہ میں فسطائی عناصر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے میں اب تک کا میاب ہو تے رہے ہیں۔اس ملک کی اکثریت اسلام یا مسلم دشمن نہیں ہے۔ لیکن اب بھی مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوں گے تو سنگھی عناصر کو ان کے عزائم سے روکنا ممکن نہ ہوگا۔ آزادی کے 75ویں سال میں قدم رکھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو مختلف محاذوں پر پوری دیانت داری، اخلاص اور للہیت کے ساتھ آ گے بڑھناہوگا۔ ورنہ تساہل پسندی، غفلت شعاری، حالات سے بے خبری، آپسی چپقلش، تعلیمی پسماندگی، معاشی درماندگی اور سیاسی بے وزنی آنے والے 25سال میں ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک ایسی تاریخ رقم کر ے گی جو دنیا کی دیگر اقوام کے لئے نشانِ عبرت ہو گی۔ اور آ نے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اٹھو وگر نہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی : دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
۔۔۔۔۔