سلی فار سیل – ایپ کی حقیقت‎‎ :- محمد نیاز احمد

Share

سلی فار سیل – ایپ کی حقیقت‎‎

محمد نیاز احمد
شمشیر پور کما، ضلع سیتا مڑھی، بہار۔

آزاد بھارت کی تاریخ میں موجود دور مسلم امہ کے لئے تاریخ کا سب سے سیاہ ترین دور چل رہا ہے۔ فرقہ پرست عناصر اور تنظمیں مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کرنے کےلیے ہر وہ آلہ کار استعمال کر رہی ہے جس سے مسلم اقوام شرم شار اور پریشان ہو ں۔ انہیں سازشوں میں سے ایک گھر واپسی بھی ہے۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ مسلم لڑکیاں شعوری یا غیر شعوری طور پر غیر مسلم لڑکوں کے چنگل میں پھنس کر تبدیلی ء مذہب کے ساتھ فتنہ ءارتداد کا شکار ہو رہی ہیں۔

یہ کوئی محض اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے فرقہ پرست عناصر کی ایک بہت بڑی ٹولی کار فرما ہے جو بہت ہی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے نہایت ہوشیاری کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اور عوام کو گمراہ کرنے کیلئے لو جہاد جیسا شوشہ انہوں نے عوام کے بیچ چھوڑ دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آر۔ ایس۔ ایس کے لاکھوں اسکول اس ملک میں "ودیا مندر” کے نام سے چل رہے ہیں جہاں پڑھائی کے علاوہ لڑکوں کو یہ تربیت بھی دی جاتی ہے کہ مسلم لڑکیوں کو کس طرح اپنے دام فریب میں پھسانا ہے یہی نہیں انھیں یہ اعتماد بھی دلایا جاتا ہے کہ بعد میں جو کچھ بھی پولیس کیس اور عدالتی کاروائی ہوگی وہ ہم دیکھ لیں گے۔ فرقہ پرست عناصر کی اس ٹولی میں بڑی بڑی شدت پسند ہندو تنظیمیں جیسے وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو یوا واہنی ، کرنی سینا، ہندو راشٹریہ منچ کے لوگ شامل ہیں۔ مورخہ 9 جولائی سنہ 2021 کو انقلاب میں شائع ایک خبر کے مطابق، حالیہ دنوں میں ہوۓ ہریانہ کی ایک مہا پنچایت میں مسلم لڑکیوں کو اغوا کرنے کی دھمکی کے بعد مسلم خواتین کی ذاتی تصاویر اور معلومات کو عام کرنے کے لئے دائیں بازو کے شرپسندوں کی جانب سے ایک "سلی فار سیل ” ایپ تیار کیا گیا ہے۔
اس ایپ میں استعمال ہونے والی مسلم خواتین کی معلومات ٹوئٹر سے اکٹھا کی گئی ہیں۔
اس ایپ میں تقریبا ۸۰ سے زیادہ مسلم خواتین کی ذاتی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ اس پر کلک کرنے سے سارا بایو ڈاٹا سامنے آ جاتا ہے۔
اور اس طرح مسلم خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے کچھ سال پہلے بنگال میں "بیٹی بچاؤ بہو لاوء” کے نام سے انہیں شدت پسند ہندو تنظیموں کی طرف سے ایک مہم چھیڑی گئی تھی جس میں تقریبا ۵۰۰ مسلم اور عیسائی مذہب کی لڑکیوں کو ہندو بنایا گیا تھا۔ اور آج بھی بڑے پیمانے پر پورے ملک میں یہ گھناؤنا کھیل جاری ہے۔ افسوس کہ اس حساس مسلہ پر ملی قاءیدن کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی ہے اور وہ خاموش بیٹھے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

جہاں تک میرا خیال ہے پہلی بات تو یہ کہ اس سب کے پیچھے فرقہ پرست عناصر کار فرما ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم لڑکیاں بہت حد تک دینی تعلیم سے ناآشنا ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام جیسےآفاقی اورمقدس مذہب کو چھوڑ کر مرتدہ ہو رہی ہیں۔ تیسری بات مسلم اقوام کی معاشی پسماندگی بھی ہے جو انھیں غیروں سے رشتہ جوڑنے پڑ مجبور کرتی ہے انھیں لگتا ہے کہ اس کا مستقبل معاشی حالات سے مستحکم غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ روشن اور تابناک ہے۔ چوتھی بات مسلم اقوام کی خانگی مسائل بھی ہیں مشاہدہ سے یہ بات پتہ چلتا ہے کہ مسلم معاشرے میں بیشتر گھروں میں لڑکیوں کو وہ عزت اور پیار نہیں دیا جاتا جتنی کی وہ حقدار ہیں بسا اوقات ان کے ساتھ مار پیٹ اور گالی گلوچ بھی کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ تنہائی محسوس کرنے لگتی ہیں اور دوسری طرف سماج کے وہ دشمن جو گھات لگا کر بیٹھے رہتے ہیں جھوٹے پیار کا خواب دکھا کر آسانی سے اپنے دامن فریب میں لے لیتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم معاشرے میں اس حساس مسلہء کے تیں بیداری پیدا کی جاے اور مذکورہ بالا تمام مسائل کا حل نہایت سنجیدگی اور خاموشی سے ڈھونڈا جائے۔
—–

محمد نیاز احمد

Share
Share
Share