کالم : بزمِ درویش – بابا جی
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
شہزادی بیٹی ہمیشہ کی طرح آج بھی آئی اور میرے سامنے جھک کر اپنا سرجھکا کر کھڑی ہو گئی اور عاجز لہجے میں بولی باباجی اسلام علیکم میں نے شہزادی کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا اور کرسی پر بیٹھ گیا شہزادی اپنے دو بچوں کے ساتھ آئی تھی ایک اٹھایا ہوا دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا میں نے اشارہ کیا تو وہ بھی سامنے کرسی پر بیٹھ گئی ہاتھ میں پکڑا شاپر جس میں ایک خربوزہ تھا میری طرف بڑھایا عقیدت سے سرشارلہجے میں بولی باباجی قبول فرمائیں میں نے شاپر پکڑا اکلوتا خربوزہ نکالا اُس کوگھما کر دیکھا اور ستائشی نظروں سے شہزادی بیٹی کو دیکھا واہ بیٹی اتنا اچھا خربوزہ کہاں سے لائی ہو۔ میں ہر بار تم کو منع کرتا ہوں لیکن تم پھر بھی باز نہیں آتی تم نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ خالی ہاتھ نہیں جانا تو شہزادی محبت بھرے لہجے میں بولی باباجی آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں خالی ہاتھ نہیں آسکتی اور آپ وجہ بھی خوب جانتے ہیں
شہزادی نے یہ بات کہی تومجھے وہ ملاقات یادآگئی جب شہزادی نے خالی ہاتھ نہ آنے کہ وجہ بتائی تھی شہزادی میرے پاس شاید دس سال پہلے اپنے والد کے ساتھ آئی تھی جب یہ شدید ڈپریشن میں مبتلا تھی کھانا پینا چھوڑ چکی تھی شہزادی کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے تھا رکشہ ڈرائیور کی بیٹی جو تین مرلے کے گھر میں رہتا تھا نسل در نسل غربت کے رنگ شہزادی کے چہرے سے بھی نظر آتے تھے سانولا رنگ کمزور جسم نارمل شکل و صورت کی عام سی لڑکی پہلی بار جب میرے پاس آئی تو اِس کی شادی نہیں ہوئی تھی با پ نے بتایا کہ اِس کو آسیب جن وغیرہ کا مسئلہ ہے یہ دن بدن کمزور ہو تی جارہی ہے چیخیں مارتی ہے خود کو مارنا شروع کر دیتی ہے دیواروں کو ٹکریں مار کر خود کو لہو لہان کر لیتی ہے میں بہت سارے بابوں کے پاس جا کر اِس کا علاج کروا چکا ہوں بابوں ملنگوں نے اِس کے دورے ختم کرنے جنات نکالنے کی بہت کو ششیں کیں اور بہت مارا پیٹا بھی لیکن شہزادی کی حالت نہ سدھری بلکہ دن رات خراب ہی ہوتی گئی میں غریب آدمی ہوں بڑی مشکل سے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھاتا ہوں بابوں ملنگوں کو دینے کے لیے میرے پا س اب پیسے نہیں ہیں اِن بابوں ملنگوں کے ہاتھوں میں لٹ چکا ہوں رشتہ داروں سے ادھار مانگ مانگ کر علاج کروایا اب تو رشتہ دار میری شکل دیکھتے ہی دروازہ بند کر دیتے ہیں پھر مجبوری میں قریبی امام مسجد جو پیسے نہیں لیتے اُن سے بہت دم وغیرہ کروائے لیکن میری بیٹی کی حالت نہ سدھری اب کسی نے آپ کے بارے میں بتایا کہ آپ فی سبیل اللہ لوگوں کا مفت روحانی علاج کرتے ہیں تو آپ کے پاس آگیا ہو ں خدا کے لیے میری مدد کریں اب باپ ہاتھ جوڑ کر زاروقطار روتے ہوئے منت سماجت پر اتر آیا تو میں نے بیچارے غربت مجبوری کے چلتے پھرتے اشتہار کو چپ کرایا کہ اللہ تعالی تمہاری بیٹی کو ضرور تندرست کرے گا۔ اب میں نے شہزادی کو بغور دیکھا تو یہی لگا کہ اِس بیچاری کو کوئی غم اندر ہی اندر کھا رہا ہے پہلے تو لگا کسی عشق وغیرہ کے چکر میں تو نہیں لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہواعشق کے مریض اِس طرح نہیں ہوتی یہ بیچاری زندہ لاش کی طرح میرے سامنے بیٹھی تھی اب میں نے ماضی کے متعلق پوچھا تو باپ نے بتایا اِس کی ماں بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی یہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے گھر میں کوئی سنبھالنے والا نہیں تھا تومیں اِس بیچاری کو اپنے مرشد خانے چھوڑ آیا جہاں میرے بابا مرشد تھے انہوں نے اِس کو اپنی بیٹی بنا کر گھر رکھ لیا اُنہوں نے ہی اِس کو شہزادی کانام دیا باباجی اِس سے بہت پیار کر تے تھے اُنہوں نے اِس کوماں باپ دونوں کا پیار دے کر پالا وہ بہت نیک بزرگ تھے باباجی کا نام سن کر میں الرٹ ہو گیا اور باباجی کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا اب میں نے نوٹ کیا کہ باباجی کے ذکر پر شہزادی کی آنکھوں میں زندگی کا رنگ لہرانے لگا وہ شوق اور دل چسپی سے باتیں سننے لگی اِسی دوران باپ نے باباجی کی تصویر نکال کر میرے ہاتھ میں دے دی میں شہزادی میں باباجی کے حوالے سے دل چسپی دیکھ چکا تھا باباجی کی خوب تعریفیں شروع کر دیں تو باپ بولا اِس مرد درویش کے جانے کے بعد ہی تو شہزادی کی طبیعت خراب ہو ئی ہے جب تک وہ زندہ تھے یہ ٹھیک تھی جب وہ چلے گئے تو جنات نے میری بیٹی پر حملہ کر دیا اور بیمار کردیا جبکہ سچ یہ تھا کہ شہزادی اپنے بابا مرشد کی جدائی میں ڈپریشن کا شکار ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی میں کافی دیر تک باباجی کی باتیں کرتا رہا آخرمیں شہزادی سے کہا بیٹی کیامیں تم کو بیٹی کہہ سکتا ہوں آج سے تم میری بیٹی ہو اورمیں تمہارا باباجی ہوں شہزادی میری بات سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور ساتھ میں اپنے باپ سے ضد کرنے لگی مجھے باباجی کی قبر مبارک پر جانا ہے میں نے باپ سے کہا ضرور لے کر جاؤ ساتھ ہی کہا جا کر میرا بھی سلام کہنا یہ میری شہزادی بیٹی سے پہلی ملاقات تھی اب باپ بیٹی میرے پاس آنا شروع کر دیا میں نے شہزادی بیٹی پر پوری توجہ دینی شروع کر دی چند ملاقاتوں کے بعد ہی شہزادی کی حالت سنبھلنے لگی ایک دن بولی میں آپ کو باباجی کہہ سکتی ہوں تو میں نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور شفیق لہجے میں کہا یہ میری خوش قسمتی ہو گی اگر تم مجھے باباجی کہو گی اُس دن کے بعد چند دنوں میں ہی شہزادی کی طبیعت ٹھیک ہو تی گئی کیونکہ باباجی کی جگہ میں نے لے لی تھی اب وہ ساری دل کی باتیں میرے ساتھ شئیر کرتی اِسی دوران ایک مناسب رشتہ آیا تو شہزادی نے کہا جو باباجی کہیں گے اب میں جو باباجی بن چکا تھا میں نے ہاں کر دی تو سادگی سے شہزادی کی شادی کر دی گئی پھر اللہ تعالی نے شہزادی کو اوپر تلے چار بیٹوں سے نوازا اِن سالوں میں جب بھی کر تا مُجھ سے ملنے آجاتی میں اِس کو ہر بار روکتا کہ تم ہر بار کوئی نہ کوئی چیز لاتی ہو تم بیٹی ہو خالی ہاتھ آیا کرو ایک تو چینی کی چھوٹی سی پڑیا کے ساتھ آکر بولی باباجی آج میرے پاس کچھ نہیں تھا اِس لیے گھر سے چینی لے آئی ہوں تو میں نے بٹھا لیا اور پوچھا یہ تم کو کس نے سبق دیا ہے کہ خالی ہاتھ نہیں جانا تو بولی جب میرا باپ مجھے باباجی کے گھر چھوڑ آیا تو وہ اپنے مریدوں سے کہا کرتے تھے مرشد سے جب بھی ملنے جاؤ کچھ لے کر جانا ہے چاہے ایک امرود سیب کیلا یا مٹھا ئی کا ایک لڈو برفی کا ایک ٹکڑا ساتھ میں ہو۔وہ کہا کرتے تھے غم مصیبت پر پریشان نہیں ہو نا اللہ کا شکر کرنا ہے مصیبت کا وقت ٹل جائے گا اللہ کا ہر حال میں شکر کرنا چاہیے میں حیران تھا کہ شہزادی کی باباجی نے کس طرح تربیت کی تھی کہ باباجی کے جانے کے بعد غریب ہونے کے باوجود اپنے باباجی کی تربیت پر عمل کر رہی تھی یہ روحانی بابے درویش فقیر لوگ کیا پارس لوگ ہوتے ہیں کتنی خاموشی سے زنگ اتار کر انسا ن کو سونے میں تبدیل کر دیتے ہیں شہزادی کو میں نے بہت سمجھایا کہ کوئی درویش آستانہ چلا رہا ہو مریدوں کو چائے پانی کھانا پیش کرنا ہو تو وہاں واقعی خالی ہاتھ تو نہیں جانا چاہیے لیکن میں یہ سب کچھ پسند نہیں کرتا تم خداکے لیے یہ نہ کیا کرو کیونکہ میں کوئی آستانہ نہیں چلا رہا لیکن شہزادی ضد کی پکی ہے میں حیرت سے اُس کو دیکھتا ہوں کہ ایک درویش کامل درویش فقیر لوگ انسانوں کی کردار سازی کی فیکٹریاں ہیں جہاں پر انسانوں کے زنگ دھو کر نفرت غرور تکبر لالچ قتل و غارت جھوٹ بخل فراڈ سے پاک کر ے صالح پر امن معاشرے بنتے ہیں یہ بابے بھی تو اللہ کا خاص انعام ہو تے ہیں۔
—–