شہریوں کی شخصی آزادی خطرے میں !
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
ملک کی آ زادی کے 74سال بعد بھی ملک اس وقت جس بحرانی دور سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ شاید ملک کو آ زاد کرانے والے رہنماؤں کو بھی نہیں تھا۔ یہ کس قدر تشویش ناک بات ہے کہ ملک کے حکمران اپنے ہی شہریوں کی جا سوسی کرنے میں لگے ہیں۔ اس کے لئے بیرونی ایجنسیوں کو آ لہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ پیگاسس جاسوسی معاملہ نے پورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ یہ مسئلہ ملک کے اقتدار اعلیٰ اور اس کی سا لمیت سے جڑا ہوا ہے۔ عام آدمی سے لے کر سیاستدانوں، صحافیوں، اور ججس کی جاسوسی کی جارہی ہے۔ اب ملک میں شہریوں کی نِجی زندگی کے سارے راز طشت ازبام ہونے لگے ہیں۔
مرکز کی بی جے پی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کسی کو اپنے ملک کے شہریوں کی جا سوسی کر نے کی اجازت نہیں دی ہے۔ وزیراعظم اور مرکزی وزیر داخلہ اس حساس مسئلہ پر کوئی واضح بیان دینے سے ہچکچارہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ اس سارے معاملہ کی غیرجانبدرانہ تحقیقا ت ہونی ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کے جاریہ اجلاس میں اس پر کافی ہنگامہ آ رائی ہو رہی ہے اور پارلیمنٹ کے ایوان کو ہر روز ملتوی کر نے کی نوبت آ رہی ہے۔بی جے پی حکومت اگر اس جاسوسی معاملہ میں ملوث نہیں ہے تو پھر اس کی پوری شفافیت کے ساتھ تحقیقات کرانے میں اسے دقتّ کیوں پیش آ رہی ہے۔ اس مسئلہ پر نہ صرف اندرونِ ملک ایک اضطرابی ماحول دیکھا جا رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی سنگینی کو دیگر ممالک بھی محسوس کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی پوری قوم جاننا چاہتی ہے کہ آ خر ایک بیرونی ملک کی ایجنسی کس طرح حکومت کی مرضی اور رضا مندی کے بغیر ملک کے سرکردہ سیاست دانوں، بیو ر و کریٹس اور تجارتی گھرانوں کے مالکین کے فون ٹیپ کر نے میں کا میاب ہوگئی۔پہلی بات تو یہ کہ ایک جمہوری ملک میں شہریوں کی جاسوسی کرنا، ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا، ان کی ٹیلی فونی گفتگو کو ریکارڈ کرنا اور ان کی پرائیوسی کا خیال نہ رکھنا، جمہوری اصولوں اور نظریوں کے خلاف عمل ہے۔ اگر کسی شہری پر حکومت کو شک آ جائے یا اس کی سرگرمیوں سے یہ اندازہ لگنے لگے کہ وہ ملک دشمن عناصر کے مقاصد کی تکمیل میں ملوث ہوتا جا رہا ہے ایسے وقت سارے ثبوت اور شواہد کو اکٹھا کر کے ملک کی تحقیقی اور تفشیشی ایجنسیوں کے ذریعہ حقائق کو جاننے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے ملک میں سی بی آئی اور آئی این اے جیسے ادارے پہلے سے موجود ہیں۔ ان ایجنسیوں کا حکومت ہر جائز اور ناجائز معا ملے میں استعمال کر تی رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین کو خاموش کر نے کے لئے سی بی آئی نے بارہا اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا ہے۔ حکومت کے اشاروں پر یہ ایجنسیاں اب تک کام کر تی رہی ہیں۔ اب آ خر ایسے کیا حالات پیدا ہو گئے کہ اسرائیل کی جاسوسی کمپنی کے سافٹ وئیر "پیگا سس اسپائی ویرPegasus Spyware))”کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ کمپنی کی معاملت حکومتوں سے ہوتی ہے اس میں خانگی طور پر کوئی فرد کسی کی جاسوسی نہیں کر سکتا ہے۔ مودی حکومت یہ کہہ کر اپنا پلّہ جھاڑ رہی ہے کہ اس سارے قضیہ میں حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے تو پھر کیسے پیگاسس کو عام لوگوں اور سرکردہ شخصیتوں کے فون نمبرس مل سکے اور وہ ان کی بات چیت کو ریکارڈ کر سکا۔ جن ممالک میں جمہوریت نہیں ہو تی ہے وہاں ڈکٹیٹر اپنے مخالفین اور ناقدین کے لئے یہ ہتھیار استعمال کر تے ہیں۔ یہاں تو جمہوریت ہے۔
2019کے پارلیمانی انتخابات میں جب بی جے پی کو دوسری مر تبہ مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملا اس کے حکمرانی کے انداز بدل گئے۔ یہ تصور کیا جانے لگا کہ ملک کے رائے دہندوں نے حکومت کرنے کا دائمی حق کو بی جے پی کو دے دیا ہے۔ چناچہ گزشتہ دو سالوں کے دوران جس قسم سے اپوزیشن پارٹیوں، عوامی جہد کاروں، صحافیوں اور یونیورسیٹیوں کے پروفیسرس اورطلباء کو قانونی شکنجہ میں کسنے کی مودی حکومت نے جو مذموم کوشش کی ہے اس سے یہ بات پائے یقین کو پہنچتی ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کر نے والوں کواس اسرائیلی جاسوسی ایجنسی کے ذریعہ پریشان کر نے کا بھی مودی حکومت نے منصوبہ بنایا تھا۔ کانگریس قائد راہل گاندھی کا نام پیگاسس کی طرف سے اس وقت آ تا ہے جب وہ رافیل کے معاملے کو اٹھاتے ہیں، اسی طرح سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گو گوئی بھی اس جاسوسی جال میں اس وقت پھنستے ہیں جب سپریم کورٹ کی ایک خاتون ملازم ان پر جنسی ہراسانی کا الزام لگاتی ہے۔ اس طرح اپنے مخالفین کو خاموش کر نے کے لئے بادی النظر میں ڈرانے اور دھمکانے کی یہ سیاسی چال مودی حکومت نے چلی ہے۔ فرانس کی حکومت نے اس معاملے کو لے کر اسرائیلی حکومت سے بات چیت کی ہے۔ اگر ہندوستانی حکومت کو یہ دعویٰ ہے کہ اس کی منظوری کے بغیر ایک بیرونی ملک کی خفیہ ایجنسی نے یہ شرانگیز حرکت کی ہے تو بی جے پی حکومت اسرائیلی حکومت سے دو بدو دو ٹوک انداز میں بات کر کے ملک کی عوام کو حقائق سے واقف کر انے میں کوئی جھجک محسوس کر رہی ہے۔ مرکزی وزراء کے جو بیانات آ رہے ہیں اہ انتہائی بچکانہ اور غیر ذ مہ دارانہ ہیں۔ امید کی جارہی تھی مودی حکومت، جو اپنی شفافیت اور غیرجانبداری کے دعوے کر تے ہوئے نہیں تھکتی ہے اپوزیشن کے مطالبہ سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے بر سر خدمت جج کے ذریعہ سارے معاملہ کی تحقیقات کا اعلان کر دیتی۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی نے تین دن پہلے وزیر اعظم نریندر مودی سے دہلی میں ملاقات کر تے ہوئے اس بات کا مطالبہ کیا کہ پیگاسس جاسوسی معاملہ کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں تحقیقات کرائی جائے۔ انہوں نے اس معا ملے میں کل جماعتی اجلاس بھی طلب کر نے کا مطا لبہ کیا۔ اسی دوران ملک کی سات اہم اپوزیشن پارٹیوں نے صدر جمہوریہ ہند سے مداخلت کی خواہش کر تے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کو ہدایت دیں کہ پارلیمنٹ میں پیگا سس جاسوسی اسکینڈل پر مباحث کی اجازت دی جائے۔ ملک کے نامور صحافی این رام سابق اڈیٹر دی ہندو، اور ششی کمار اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع ہو چکے ہیں۔ این رام نے اپنی درخواست میں کہا کہ فونس کی جاسوسی اور غیر قانونی ہیکنگ اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کے مترادف ہے۔ درخواست میں مرکز کو اس بات کا انکشاف کر نے کی بھی ہدایت دینے کی خواہش کی گئی کہ آیا حکومت یا اس کی ایجنسیوں نے پیگا سس اسپائی وئیر کے لئے لا ئسنس حا صل کیا ہے اور اسے استعمال کیا ہے اور آیا اس نے کسی بھی طرح سے راست یا بالواسطہ طور پر جا سوسی کی ہے؟ درخواست گذاروں نے ادعا کیا کہ پوری دنیا کے کئی موقر اخبارات اور میڈیا اداروں کی تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ 142سے زائد ہندوستانیوں کی پیگاسس سافٹ وئیر کے ذریعہ جا سوسی کے لئے شناخت کی گئی ہے۔ ان میں صحافی، وکلاء، وزراء، اپوزیشن قائدین، دستوری عہددار اور سیول سو سا ئٹی کے کارکن شامل ہیں۔ جب ہندوستانیوں کی اتنی بڑی تعداد پر ایک بیرونی ایجنسی نظر رکھی ہوئی ہے تو پھر اس کی جانچ سے حکومت کا کترانا کئی شبہات کو جنم دیتا ہے۔ بعض ذرائع سے اس بات کا انکشاف ہورہا ہے کہ 300سے زائد افراد کی جاسوسی کی گئی ہے اور ہر روز اس فہرست میں ناموں کااضافہ ہوتا جار ہا ہے۔ آئندہ اور نام بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
ملک کے انتخابات میں جب سے فسطائی قوتوں کو کا میابی ملنی شروع ہوئی، ہندوستانی جمہوریت کاایک ایسا دور شروع ہو گیا جہاں جمہوریت کی آڑ میں ڈکٹیٹر شپ کے پنجے ملک میں مضبوط ہونے لگے۔ اپوزیشن پارٹیوں اور حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کر نے والوں کو نت نئے انداز سے پریشان کر نے کا راستہ حکومت نے اختیار کرلیا۔ ملک کی تحقیقی ایجنسیوں پر دباؤ بڑھتا گیا جس کے نتیجہ میں سی بی آئی جیسی ایجنسیاں ان افراد کے پیچھے پڑ گئی جو حکومت سے سوال کر رہے تھے۔پیگاسس جا سوسی اسکینڈل کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضررورت ہے۔ اب جب کہ اپوزیشن پارٹیوں اور ملک کے ممتاز شہریوں کی جانب سے اس سارے معاملے کی تحقیقات کا مطا لبہ کیا جارہا ہے حکومت کیوں فرار کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر اور ترنمول کانگریس کی سر براہ ممتا بنرجی نے جہاں وزیراعظم سے اپنی ملاقات کے دوران پیگاسس معاملہ کی جانچ سپریم کورٹ کے جج کے ذریعہ کرانے کی مانگ کی وہیں انہوں نے خود مغربی بنگال میں اس کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر ممتا بنرجی نے مرکزی حکومت کو بالواسطہ اپنی ذ مہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کہا کہ ” ہمیں ان لوگوں کو جگانے کی ضرورت ہے جو لمبی تان کر سورہے ہیں۔” ایک خاتون چیف منسٹر نے اس حساس مسئلہ پر ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر نے کا اعلان کر دیا۔ نریندر مودی جو 56انچ کا سینہ رکھتے ہیں انہیں کس بات کا خوف ہے کہ وہ پیگاسس جاسوسی کے معاملے کی کھلی اورغیرجانبدارانہ انداز میں تحقیقات کرانے سے گھبرا رہے ہیں۔ ملک کی اپوزیشن پارٹیاں، دانشور اور صحافی جب کہ اس بات کا مطا لبہ کر رہے ہیں اس سارے معاملے کی سپریم کورٹ کے بر سر خدمت جج کی نگرانی میں تحقیقات ضروری ہے۔ پانچ دن سے لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹیاں اس مسئلہ کو لے کر ایوان سے واک اوٹ کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود مودی حکومت تحقیقات کے لئے تیار نہیں ہورہی ہے۔ حکومت کا جب یہ دعویٰ ہے کہ وہ کسی کے فون خفیہ طور پر ٹیپ نہیں کر رہی ہے اور نہ حکومت نے کسی بیرونی ایجنسی کو یہ کام تفویض کیا ہے تو پھر حکومت آ گے آ کر مسئلہ کو سلجھانے میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہی ہے۔ حکومت اکثریت کے زعم میں اپوزیشن کے مطالبہ کو پارلیمنٹ میں مسترد کر سکتی ہے لیکن ملک کی عوام کو وہ کیسے مطمئن کر ے گی۔ جمہوریت میں عوام مقتدرِ اعلیٰ ہو تے ہیں۔ پار لیمنٹ عوام کے جذبات کی عکاسی کر تی ہے۔ یہ ایوان عوام کی ترجمانی کر تا ہے۔ اگر حکومت عوامی نمائندوں کے مطالبہ کو درخور اعتناء نہیں سمجھتی ہے تو پھر اسے عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملک کی عوام کو اب اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے کہ جس پارٹی کو عوام نے اپنی بھر پور تائید دے کر حکومت بنانے کا دوبارہ موقع دیا ہے، اگر یہ پارٹی کی حکو مت اپنے ہی رائے دہندوں کی شخصی آزادی سے کھلواڑ کر تی ہے اور اس کی مصروفیات اور مشغولیات کا نہ صرف خود ریکارڈ رکھتی ہے بلکہ کسی بیرونی ملک کی
خفیہ ایجنسی کے حوالے یہ سارے معاملات کر تی ہے تو ملک کے شہریوں کو سوچنا چاہئے کہ ایسی پارٹی کیا حکومت کر نے کا حق رکھتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ ملک کے وزیر داخلہ اس جاسوسی اسکینڈل کے منظرِ عام پر آ تے ہی اپنی اخلاقی ذ مہ داری کو محسوس کر تے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دے دیتے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کھلے عام جھوٹ پر جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ عوام کو مختلف انداز سے گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب سیاست میں اخلاقی اقدار باقی نہیں رہے اس لئے کوئی عہدہ سے استعفیٰ نہیں دے گا لیکن ملک کی عوام کو اس سنگین مسئلہ پرخاموش نہیں بیٹھنا چاہئے اس کے خلاف حکومت سے سوال کرنا لازمی ہے تاکہ شہریوں کی شخصی آ زادی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔