کالم : بزمِ درویش ۔ عید کے بکرے
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
آج بہت دنوں بعد امریکہ سے چوہدری جمیل صاحب کا فون آیا۔وہی زندگی سے بھر پور جوش آواز ایسی آواز جس سے مخلوق خدا کا درد اور مدد کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا حال احوال کے بعد کرونا کی تباہ کاریوں پر بات چیت کہ کس طرح سر زمین چین سے پھوٹنے والی پراسرار وبا کرونا نے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اکلوتی سپر پاور کو اُدھیڑ کر رکھ دیا کرونا کے خوفناک اثرات جب امریکہ میں پھیلے تو اپنی ہی ذات میں گم رہنے والی امریکی جو احساس تفاخر کے کے ٹو پر ہمہ وقت سوار خود کو دنیا کا خدا سمجھتے تھے کرونا کے ہاتھوں جب بے بس ہو کر زمین پر رینگتے کیڑے مکوڑوں کی طرح بے بسی سے ہاتھ مارنے لگے
امریکی زیادہ تر ملحد لادین ہوچکے جو چرچ کا رخ صرف شادی موت پر ہی کرتے ہیں کرونا کے خو ف سے خدائے لازوال سے معافیاں مانگتے نظر آئے۔کرونا وبا نے سپر پاور کے طاقت اور غرور کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی وہ امریکہ جو ساری دنیا کا مالک بنا بیٹھا تھا بے بسی کا مجسمہ بنا نظر آیا جبکہ متاثرین کی تعداد لاکھوں اور مرنے والوں کی تعدا روزانہ ہزاروں میں پہنچی تو امریکیوں کو بھی ان کی اوقات یا دآگئی کہ اِس کائنات کا مالک امریکہ نہیں بلکہ سارے جہانوں کا مالک خدائے لازوال ہے زمینی خداؤں کے حکمرانی نہیں بلکہ بنانے والے خدا ئے ذوالجلال والاکرام کی ہے کرونا کی تباہ کاریوں اور امریکیوں کی بے بسی پر بات چیت کے بعد چوہدری صاحب اصل بات کی طرف آئے پروفیسر صاحب جس طرح اللہ تعالی کی توفیق سے پچھلے کئی سالوں سے میں غریبوں میں قربانی کا گوشت اور سالم بکرے تقسیم کرتا ہوں وہ نیک عمل اِس سال کرونا کی وجہ سے بند نہیں ہو گا بلکہ ماضی کی طرح اُسی طرح مستحق لوگوں تک قربانی کی خوشیاں پہنچیں گی میں تو کرونا اور قرنطینہ کی وجہ سے پاکستان نہیں آپاؤں گا لیکن میں نے بھانجے کی ڈیوٹی لگائی ہے وہ ماضی کی طرح اُسی طرح قربانی کا گوشت تقسیم کر ے گا میں چوہدری صاحب کے ایمانی جذبے سے سرشار سا ہوگیا چوہدری صاحب کی یہ انسان دوستی بہت بھاتی ہے ان کی خدمت خلق کے جذبے کہ وجہ سے میرے دل میں اُن کا بہت احترام ہے کہ موجودہ دور کے مادیت پرستی کے طلسم ہوشربا کے زمانے میں جب موجودہ مادی انسان مادیت پرستی کی کبھی نہ ختم ہونے والی شاہراہ پر اندھا دھند دوڑے چلے جا رہے ہیں اِس پر فتن دور میں بھی چوہدری صاحب جیسے درد دل رکھنے والے انسان مغرب کے دیس میں خدمت خلق کی شمع جلائے ہوئے ہیں جہاں پر انسان خدا اور مذہب سے ناطہ توڑ کر لادینی کے اندھیروں میں گم ہو چکا ہے چوہدری صاحب جیسے لوگوں کو دیکھ کر ہی تو سر ماؤں سے شفیق خدا یاد آتا ہے جو معاشرے کے توازن اور غریبوں تک اپنے انعامات پہنچانے کے لیے انسانوں کے دلوں میں سخاوت اور خدمت خلق کا جذبہ ڈالتا ہے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو حق تعالی ایسے نیک کاموں کے لیے چُن لیتا ہے چوہدری صاحب سے میری پہلی ملاقات چند سال پہلے اُس وقت ہوئی جب امریکہ میں ان کی بہن نے اُن کو میرانام پتہ دیا رابعہ بہن اپنے خاندانی مسائل کے لیے چند سال پہلے میرے پاس آئی تھیں اللہ نے جب ان پر کرم خاص کر دیا تو عقیدت بھرا رشتہ قائم ہو گیا چوہدری صاحب اپنے بیٹے کے حوالے سے پریشان تھے پاکستان آئے تو مُجھ سے بھی ملے دو چار ملاقاتوں میں تعارف شناسائی میں ڈھل گیا پہلی باقاعد ہ تفصیلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب چند سال پہلے بقرہ عید پر چوہدری صاحب میرے پاس آئے اور بولے میں صرف قربانی کر نے پاکستان آیا ہوں اللہ تعالی نے مجھے بہت ساری دولت سے نواز رکھا ہے بلکہ رب تعالی نے مجھے میری اوقات سے زیادہ نواز رکھا ہے اتنی میری اوقات نہیں تھی میں بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا بچپن جوانی غریت کی کڑی دھوپ میں گزری پھر یورپ سے امریکہ چلا گیا تو اللہ تعالی نے میرے اوپر رزق کی بارش کر دی دولت مند ہونے کے بعد بھی میں اپنی غربت اوقات نہیں بھولا جہاں تک ممکن ہو تا ہے غریبوں تک پہنچنے کی کو شش کرتا ہوں میں ہر سال اپنے والدین اور شہنشاہ دو عالم محبوب خداﷺ کے نام کے بہت سار ے جانور ذبح کر کے گوشت غریبوں میں تقسیم کرتا ہوں وہ جانور میں نے لے لئے ہیں کل آپ میرے ساتھ چل کر اُن جانوروں کو دیکھیں گے ساتھ میں چند حق دار غریب خاندانوں کا پتہ بھی دے دیں تاکہ ان تک قربانی کا گوشت پہنچا یا جا سکے چوہدری صاحب کا قابل تحسین جذبہ اور انسانوں سے پیار مجھے ان کے ساتھ دریا ئے راوی کے اُس پار لے گیا جہاں پر حیرتوں کا سمندر میرا منتظر تھا ایک فارم ہاؤس پر بہت سارے صاف ستھرے بکرے ادھر اُدھر گھوم رہے تھے یہاں پر قربانی کے تمام قسم کے جانور چارہ کھاتے نظر آرہے تھے چوہدری صاحب نے جانوروں کی دیکھ بھال کا خوب انتظام کیا ہوا تھا صحت مند تازہ چارے کے ساتھ مختلف قسم کے پھل جو جانور شوق سے کھاتے ہیں وہ بھی جانوروں کو کھلائے جا رہے تھے سفید بکروں کو صابن سے خوب نہلا کر اُن پر مہندی کے پھول بوٹے اور گلوں میں گانیاں ہار ڈالے ہوئے تھے جانوروں کے لیے تازہ چارے کے ساتھ ٹھنڈا پانی بھی خوب میسر تھا اس طرح جانوروں کی بھوک کے ساتھ ساتھ گرمی کا توڑ بھی کیا گیا تھا اب میں اور چوہدری صاحب بہت سارے جانوروں کے ساتھ گھوم رہے تھے چوہدری صاحب جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے تو وہاں پر موجود کام کرنے والا بندہ میرے پاس آگیامیری متجسس فطرت اُس سے چوہدری صاحب کے بارے میں سوال کرنے لگی تو اُس بندے نے بتایا چوہدری صاحب انسان نہیں فرشتہ ہے جو انسانوں سے پیار کرنے کے لیے اللہ نے زمین پر بھیجا ہے چوہدری صاحب نے ایک لسٹ بنا رکھی ہے جس کے مطابق وہ عید کے تین دن گوشت تقسیم کر تے ہیں سب سے خوشگوار حیرت مجھے اُس وقت جب پتہ چلا کہ ایسے خاندان جن کے افراد زیادہ ہیں چوہدری صاحب ان کو عید سے پہلے سالم بکرہ دے دیتے ہیں یا چند خاندانوں کو بڑا جانور دے دیتے ہیں میں نے لوگوں کو عید کا گوشت تقسیم کرتے تو بہت سنا یہ پہلا شخص تھا جو عید سے پہلے مستحق لوگوں کے گھروں میں سالم جانور دیتا ہو جب چوہدری صاحب میرے قریب آئے تو میں نے ممنون ستائشی نظروں سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا اور پوچھا چوہدری صاحب سنا ہے آپ قربانی پر گوشت نہیں سالم بکرے لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں تو وہ بولے ایسے گھر جہاں غربت نے ڈھیرے ڈالے ہوں اور چھوٹے بچے ہوں جب محلے والے اپنے جانوروں کی گلی میں نمائش کریں گے تو وہ چھوٹے بچے حسرت بھری نظروں سے ان جانوروں کو دیکھیں گے اُن کی خوشی کے لیے میں ایسے گھروں میں سالم جانور دے دیتا ہوں تاکہ وہ غریب یتیم بچے بھی خوشی سے اپنے جانور کو دیکھ اور محسوس کر سکے میں چوہدری صاحب کے جذبہ انسانیت سے متاثر اور سر شار ہو چکاتھا چوہدری صاحب بولے پروفیسر صاحب دعا کریں اللہ مجھے معاف اور جنت عطا کرے تو میں آسمان کی طرف اشارہ کر کے بولا چوہدری صاحب وہ اب آپ کو معاف بھی کرے گا اور روز محشر یقینا آپ کے لیے جنت کے سارے دروازے کھول دیے جائیں گے آپ جہاں سے مرضی داخل ہو جائیں۔
—-