اسلام میں قید یوں کے حقوق
مولانا ڈاکٹر محمدجہان یعقوب
اسلام نے اپنی تعلیمات میں قیدیوں کے ساتھ عام انسانی احترام میں کوئی کمی نہیں کی۔ اسلامی نقطہئ نظر سے ہر انسان ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے، اس لیے اس کو اپنے حقوق کے معاملے میں پوری آزادی ملنی چاہیے، البتہ انسان کی فطرت میں خیر کے ساتھ ساتھ شر کا پہلو بھی موجود ہے،جس کی وجہ سے انسان کا ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجانا جو عام انسانی اجتماع کے لیے ضرر رساں ثابت ہوتی ہیں، بعیدنہیں۔ایسے مواقع پر عام انسانی مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ اُس شخص کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے یا اس پر مکمل بندش عائد کردی جائے،اس کے لیے قید کی ضرورت پڑتی ہے۔
جب ہم اسلامی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ:
نبی کریم ﷺ اورخلیفہ اولحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں باقاعدہ قید خانے اور جیل کا نظام نہیں تھا اور کبھی باضابطہ حضور اکرم ﷺ نے کسی کے لیے جیل کی سزا تجویزنہیں فرمائی۔ (اقضیۃ رسول اللہ ﷺ لابن فرح: صفحہ 11)البتہ صرف تحقیقِ حال کے لیے بعض ملزموں کو وقتی طور پر قید کرنے کا حکم فرمایا، مثلاً:ایک مرتبہ قبیلہ بنو غفار کے دو شخص حضور ﷺ کے سامنے پیش کیے گئے، ان پر دو اونٹوں کی چوری کا الزام تھا، حضور ﷺ نے ایک کو روک لیا اور دوسرے کو اونٹ تلاش کرنے کا حکم دیا، بالآخر وہ دوسرا شخص دونوں اونٹ لے کر دربارِ نبوت میں واپس ہواجس کے نتیجے میں اُن کی رہائی عمل میں آئی۔ (مصنف عبد الرزاق: جلد 10 صفحہ 216)
خلیفہ دوم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے قیدخانے کے نظام کا آغاز ہوا اور ضرورت کے تحت قید خانے بنائے گئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے حکم پر مکہ کے گورنر نافع بن عبد الحارث نے اس غرض سے چار ہزار درہم میں صفوان بن امیہ کا مکان خریدا، اوروہاں قید خانہ تعمیر کیا۔
اسی طرح خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں باقاعدہ قید خانہ قائم کیا۔ (المبسوط: جلد 20 صفحہ 89، الطریق الحکمیہ: صفحہ 103)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے بطورِ گورنر، کوفہ میں اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے مکہ مکرمہ میں بطورِخلیفہ قید خانہ قائم فرمایا۔ (زاد المعاد: جلد 2 صفحہ 74)
بعد کے ادوار میں تمام مسلم حکمرانوں نے اس نظام کو باقی رکھا، اور اسلامی قاضیوں نے مختلف جرائم میں قید کی سزائیں تجویز فرمائیں، لیکن یہ سب محض وقتی اور ناگزیر ضرورت کے تحت گوارا کیا گیا، اس لیے قید کے کسی بھی مرحلے پر انسانی احترام کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اسلام نے قیدیوں کے ساتھ مراعات اور حسنِ سلوک کی تعلیم دی، اور ہر حال میں اس پہلو پرتوجہ دلائی کہ یہ قیدی بھی تمہاری طرح انسان ہیں، کل وہ بھی تمہاری طرح آزاد تھے، حالات زمانہ نے ان کو اس حال تک پہنچایا، ان کی بھی ضروریات اور تقاضے ہیں اور یہ بھی جذبات و واحساسات رکھتے ہیں، اس لیے ان کے ساتھ ہم دردانہ سلوک کرو۔ذیل میں اسلامی تاریخ کے صفحات سے قیدیوں کے حوالے سے اسلامی ہدایات کا ذکرکیاجاتاہے:
قرآنِ کریم میں قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کو ابرار اور مقربین یعنی اللہ تعالیٰ کے انتہائی نیک بندوں کی صفت قرار دیا گیاہے۔(دیکھیے:سورہئ دھر: آیت 8)
غزوہ بدر میں فتح کے بعد جنگی قیدی حضوراکرم ﷺ کے سامنے پیش کیے گئے تو زبانِ نبوت سے جو جملہ صادر ہوا وہ قیدیوں اور کمزور طبقے کے لیے نبوت کا سب سے بڑا عطیہ ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اے لوگو! اللہ نے آج تم کو ان پر قدرت دی ہے اور کل یہ تمہارے بھائی تھے“۔ (مجمع الزوائد: جلد 1 صفحہ 87)
حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا:”قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت قبول کرو“۔(طبرانی کبیر بحوالہ سیرۃ المصطفیٰ: جلد 1 صفحہ 579)
دستور یہ تھا کہ کفار کے جو افراد جنگی قیدی بن کرآتے تھے،انھیں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا جاتے تھا،یعنی وہ مسلمانوں کے غلام اور باندی بن جاتے تھے۔باوجوداس کے کہ مسلمان اُن کے مالک بن جاتے تھے،نبی اکرم ﷺ نے غلاموں اور باندیوں کے حقوق کی طرف باربار اور مختلف انداز میں توجہ دلائی۔اُن کی عزت نفس کا لحاظ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:انھیں غلام اور باندی کہہ کر مت پکارو،بلکہ اے میرے بیٹے اور اے میری بیٹی کہہ کر آواز دو“۔
ایک حدیث میں فرمایا: ”جو خود کھاتے ہو ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنتے ہو ان کو پہناؤ“۔ (مشکوٰۃ المصابیح: صفحہ 292)
انہی تعلیمات کا اثر تھا کہ عہد اول میں جن مسلمانوں کے پاس قیدی تھے وہ پہلے کھانا قیدیوں کو کھلاتے اور بعد میں خود کھاتے اور اگر کھانا نہ بچتا تو خود کھجور وں پر گزارا کرلیتے تھے۔حضرت مصعب بن عمیرؓ کے حقیقی بھائی ابو عزیز بن عمر بھی ایک مرتبہ قید ہوکر آئے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کے جس گھر میں تھا، ان کی حالت یہ تھی کہ صبح شام جو تھوڑی بہت روٹی بنتی، وہ مجھے کھلادیتے اور خود کھجوروں پر گزارا کرتے تھے۔ میں شرماتا اور اصرار کرتا کہ روٹی آپ لوگ کھائیں۔لیکن وہ نہیں مانتے اور یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ (مجمع الزوائد: جلد 6 صفحہ 86)
——-
سینئر ریسرچ اسکالر،ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ سینٹر،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی
ای میل:
فون:03062752177