سامراجی قانون کے بیجا استعمال پرسپریم کورٹ کا اظہارِ تشویش :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

سامراجی قانون کے بیجا استعمال پرسپریم کورٹ کا اظہارِ تشویش
حکومت سے سوال کرنے والے غدار ِوطن مانے جا رہے ہیں !

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد )
9885210770

جمہوریت کی آڑ میں جب آ مرانہ نظام کی جڑیں مضبوط ہو نے لگتی ہیں تو حکمرانوں کا مزاج بھی نرالا بنتا جاتا ہے۔ آج ہندوستان میں یہی کچھ دیکھا جا رہا ہے۔ ملک کے دستوری اور قانونی اداروں کی آزادی اور ان کی غیر جابنداری مشکوک ہو تی جا رہی ہے۔ شہریوں کے حقوق اور ان کی آ زادیوں پر قدغن لگانے کی پوری کوشش جا ری ہے۔ حکومت سے سوال کرنا یا کسی عوامی مسئلہ پر احتجاج کرنااب ملک سے غداری تصور کیا جا رہا ہے۔ مرکز کی بی جے پی حکومت اپنے ہی ملک کے شہریوں پر غداری کے اس قانون کو نا فذ کر رہی ہے جو بر طانوی حکمران تحریک آزادی کی جدوجہد کے دوران مجاہدین آ زادی کے خلاف استعمال کر تے رہے۔

ان سنگین حالات میں ملک کی عدلیہ نے اپنی دستوری ذ مہ داری نبھاتے ہو ئے مودی حکومت سے سوال کیا کہ کیا ملک کی آ زادی کے 75سال بعد بھی برطانوی دور کے غداری کے قانون کو دستور میں رکھنا ضروری ہے۔ 15/ جولائی 2021کو چیف جسٹس این وی رمنا کی زیر قیادت قائم ہوئی سپریم کورٹ کی بنچ نے صحافیوں کی معروف تنظیم ایڈ یٹرس گلڈ آ ف انڈیا اور ایک سابق میجر جنرل کی جانب سے داخل کی گئی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے بغاوت قانون کے بیجا استعمال پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کر تے ہوئے یہ ریمارک کیا کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے اس قانون پر نظر ثانی کے بارے میں سپریم کورٹ پوری طرح سنجیدہ ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ انگریزوں نے اس قانون کو جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ مجاہدین آزادی کی آواز کو دبانے کے لئے ایسے ظالمانہ قانون کو مدوّن کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی اس رولنگ نے ملک میں امید کی ایک کرن پیدا کر دی ہے۔ گزشتہ سات سال سے جب سے بی جے پی کے ہاتھوں میں اقتدار آ یا ہے انسانی حقوق کی کوئی پاسداری نہیں ہو رہی ہے۔ اختلافِ رائے رکھنے والوں کو ملک کا غدار کہہ کر پابندِ سلاسل کیا جارہا ہے۔ یونیورسٹی کے پروفیسرس اور طلباء، وکلاء، صحافی، اور نہ جانے کتنے سماجی جہد کار وں کو بغاوت کے اس سیاہ قانون کا سہارا لیتے ہوئے جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ گز شتہ دنوں بھیما کورے گاؤں احتجاج میں حصہ لینے والے 80سالہ سماجی جہد کار فادر اسٹین سوامی کی موت نے ہندوستانی جمہوریت کی نقاب الٹ کر رکھدی۔ اس ضعیف اور بیمار، انسانیت دوست شخص نے ضمانت کے انتظار میں پولیس حراست میں موت کو گلے لگا لیا۔ ایک جمہوری معاشرے میں کیا ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بھی جرم ہے۔ سی اے اے کے کالے قانون کے خلاف جن نوجوانوں نے صدائے احتجاج بلند کی وہ اب بھی قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب ظلم اور بربریت کے مظاہرے مودی حکومت ایک ازکارِ رفتہ قانون کی آڑ میں کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ حکومت انگریز دور کے غداری کو قانون منسوخ کیوں نہیں کر تی؟جب کہ اس کے بیجا استعمال کے کئی ثبوت عدالت کو مل چکے ہیں۔ حکومت نے اس قانون کو آزادی کا اتنا طویل عرصہ گزرجا نے کے بعد بھی اس لئے باقی رکھا کہ اس کے ذریعہ وہ اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا چاہتی ہے۔ ملک میں ہونے والے ہولناک واقعات اس بات کے گواہ ہیں مودی حکومت اس فرسودہ قانون کو اپنے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنائی ہوئی ہے۔ کسی بھی گوشہ سے ہونے والی مخالفت کو اس قانون کے ذریعہ کچلا جارہا ہے۔ ملک کے کسانوں میں بھی ڈر اور خوف پیدا کرنے کے لئے یہ قانون استعمال کیا گیا تاکہ وہ اپنے زبردست احتجاج سے دستبردارہوجائیں۔
150سال پہلے انگریزوں کی جانب سے بنائے بغاوت کے قانون کے خلاف ملک کی آ زادی کے بعد مختلف حلقوں سے آوازیں اٹھتی رہیں لیکن ہر حکومت نے اپنے مفاد کے خاطر اسے باقی اور بر قرار رکھا۔ 1860میں نافذ ہوئے اس قانون کی دفعہ 124Aکے تحت ایسی کسی بھی تقریر یا اظہارخیال کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا جس کے ذریعہ نفرت پھیلائی جاتی ہویا کسی کی تحقیر ہوتی ہو یا پھر حکومت کے خلاف اُ کسایا جاتا ہو۔ اس دفعہ کے تحت ایسا کرنے والوں کو عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ سامراجی طاقتوں نے یہ بہیمانہ قانون اپنے نوآ بادیاتی نظام کو مضبوط رکھنے کے لئے بنایا تھا۔اس قانون کا اطلاق کر تے ہوئے ملک کے نامور مجاہدین آ زادی کو انگریزوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا تھا۔ گاندھی جی، گوکھلے، تلک کے علاوہ کئی مسلم قائدین اور علماء بھی اس قانون کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن المیہ اس بات کا ہے کہ موجودہ حکومت اس غلط قانون کو اپنے ہی شہریوں کے خلاف استعمال کر تے ہوئے فخر محسوس کر رہی ہے۔ حکومت کے اس رویہ پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا اظہارِ تشویش کر نا جمہوری نظام کی ایک خوش آ ئند علامت ہے۔ اگر حکومت کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو جمہوریت کی بر قراری اور شہریوں کی آ زادی نا قابلِ بیان اندیشوں میں گھِر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے آزادی کے 75سال بعد بھی دستور میں اس فرسودہ قانون کی موجودگی پر سوال اٹھا کر حکمرانوں کو ایک ایسی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے کہ وہ اس کا صیحح جواب دینے کے موقف میں نہیں ہیں۔ اگر حکومت اس قانون کی اہمیت اور افادیت پر اصرار کر تی ہے تو اس کا یہ موقف سارے جمہوری اصولوں کے خلاف ہوگا۔ جمہوریت میں حکومت سے سوال کر نے اور حکومت کے کسی قانون کے خلاف احتجاج کرنے کا شہریوں کو پورا حق حاصل ہے۔ اس کے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیاجا سکتا۔ انگریزوں کے دور میں ہندوستان ایک غلام ملک تھا۔ لیکن اب یہ ایک آزاد ملک ہے۔ ایک آ زاد اور جمہوری ملک میں ایسے قوانین کی کوئی گجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خود بر طانیہ نے بغاوت کے قانون کو 2009میں اپنے ملک میں ختم کر دیا۔لیکن ہندوستانی 150 سال بعد بھی اس قانون کو اپنے گلے کا ہار بنائے ہوئے ہیں۔ انگریزوں کو ہندوستان سے گئے ہوئے 75سال ہوگئے۔ اب ان سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کیا یہ انگریزوں سے وفاداری کا مظہر ہے کہ ہم ان کے بنائے ہوئے قوانین کو اپنی قانون کی کتابوں میں اب بھی سجائے رکھے ہیں۔ اب جب کہ ساری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے تحریکیں چل رہی ہیں۔ حکومت پرتنقید کر نے کا شہریوں کو دستوری اور قانونی حق ہے۔ وہاں غداری کے قانون کو ہتھیار بنا کر حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں پر ملک سے غداری کا الزام لگا کر انہیں ہراساں کرنا جمہوریت کا کونسا پیمانہ ہے؟ غلامی کی اس بدترین یادگار کو آزادی کے فوری بعد ختم کر دینا چاہئے تھا۔ لیکن یکے بعد آ نے والی حکومتوں نے اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے اور بسا اوقات کچلنے کے لئے نہ صرف اس سیاہ قانون کو قانونی درجہ دے کر باقی رکھا بلکہ اسے اپنے ہی شہریوں کے خلاف استعمال کر نے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی۔ ملک کی عدالتوں نے اس متنازعہ قانون پر اپنی رائے کئی مرتبہ دی ہے۔ 1962میں سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ صرف جمہوری طور پر منتخب حکومت کو تشدد کے ذریعہ گرانے کی کوشش پر اس قانون کا اطلاق ہوگا۔ 1951میں پنجاب ہائی کورٹ نے بھی اس قانون کو غیر دستوری قرار دیا تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی رولنگ بھی اس قانون کو غیر دستوری قرار دیتی ہے۔ ساٹھ سال پہلے کے کیدر ناتھ کیس میں اس قانون کے متعلق بہت ساری باتیں آ چکی ہیں۔ عدالتوں کے ان تما م اندیشوں کے باوجود اس قانون کی موجودگی ایک بڑا سوال ہے۔جس کا جواب آ نا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این۔وی۔ رمنا نے مقد مہ کی سماعت کے دوران سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے تحت دیئے گئے بے پناہ اختیارات اور اس کے غلط استعمال کو دیکھتے ہوئے اس قانون کا موازنہ کسی بڑھئی کو دی گئی کلہاڑی یا آری سے کیا جا سکتا ہے، جسے ایک درخت کاٹ کر فرنیچر بنانے کو کہا گیا تھا لیکن اس نے پورے جنگل کو کاٹ ڈالا۔آج ملک میں بعینہ یہی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ غداری قانون کے تحت ہزاروں لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا اور انہیں غلط پر پھنسانے میں پولیس کا غیر معمولی رول ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں صورت حال اور بد تر ہے۔ انتہا یہ کہ جو شہری پولیس کی زیادتیوں پر احتجاج کر تا ہے تو اس پر اس قانون کا بیجا استعمال کر تے ہوئے پولیس حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ تین رکنی بنچ جو جسٹس این وی رمنا، جسٹس اے ایس بو پنا اور جسٹس رشی کیش پر مشتمل ہے اپنی رولنگ میں یہ بھی کہا کہ حکومت کی ایجنسیاں غداری کے قانون کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔ اس سے شہریوں کے حقوق پر کاری ضرب لگ رہی ہے۔ فاضل ججوں نے گزشتہ 75سال سے قانون کی کتابوں میں غداری قانون کی برقراری پر تعجب کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کیوں حکومت اس فرسودہ قانون کو ختم کر نے کے بارے کوئی فیصلہ نہیں کر رہی ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج صاحبان کے ان خیالات کو عام شہری کے نظریات قرار دے کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔حالیہ عر صہ میں اس قانون کا جس بیجا انداز میں استعمال ہوا اس کی مثال سابق میں نہیں ملتی۔ ہریانہ کی بی جے پی حکومت نے پرامن انداز میں احتجاج کر نے والے کسانوں کے خلاف غداری اور بغاوت کے مقدمات درج کر لئے۔ سماجی مسائل پر آواز اٹھانے والوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ کوویڈ۔19سے نمٹنے میں ناکام ہونے والی حکومت پر تنقید کر نے والوں کو ملک کے غدار قرار دیتے ہوئے جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ غداری کے ان سارے مقدمات میں 99%افراد معصوم اور بے گناہ ہو تے ہیں۔ پولیس ان پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کر لیتی ہے۔ لیکن عدالت میں اس کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کر نے میں پولیس ناکام ہو جاتی ہے۔ بے گناہ افراد کو ایسے ظالمانہ قانون کے تحت پھانس کر انہیں برسوں جیلوں میں جسمانی اور ذہنی اذیت دیتے ہوئے رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ حالات کے اس تناظر میں سپریم کورٹ نے بغاوت کے قانون کو ملک سے ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ملک میں جمہوری فکر رکھنے والوں کا یہی خیال ہے کہ ایک فرسودہ قانون جو انگریزوں کا بنایا ہوا ہے اس کو اب بھی ملک میں جاری رکھنا جمہوریت کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق پر مضر اثرات پڑ تے ہیں۔ انگریزی سامراج کی اس نشانی کو مٹانے کے لئے ملک کے ان تمام طبقات کو بھی آ گے آ نا ہوگا جو اس ملک میں آزادیِ رائے کو باقی رکھناچاہتے ہیں۔ موجودہ حکومت اس قانون کا استعمال کر تے ہوئے شہریوں کے دستوری اور جمہوری کو ختم کر نا چاہتی ہے۔ تا کہ کوئی شہری حکومت سے نہ کوئی سوال کر سکے اور نہ اس سے کوئی مطالبہ کر سکے۔ جمہوریت برائے نام ہو کر رہ جائے۔ ملک سے ان سیاہ قوانین کو ختم کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے اپنا دستوری فریضہ انجام دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے یہ احساسات مودی حکومت کو وارننگ دیتے ہیں کہ وہ اس قانون کو ختم کر نے میں حتمی فیصلہ کر ے ورنہ سپریم کورٹ کو پھر حکومت کی سرزنش کر نی پڑے گی۔ جسٹس این وی رمنا کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد عدلیہ کی فعالیت کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ اس سے ملک میں جمہوریت مستحکم ہوگی اور شہریوں کی آزادی بھی محفوظ رہے گی۔ اب جب کہ عوام حکومت سے مایوس ہو چکی ہے ملک کی عدلیہ ہی سے انصاف کی توقع ہے۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share
Share
Share