ڈاکٹر راحت اندوری : برصغیر کا ممتاز شاعر
شبیر احمد ڈار
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
برصغیر پاک و ہند کا ممتاز شاعر ، مصنف ، نغمہ نگار ، مصور ، مشاعروں کی جان، پرکشش لہجہ ، ترکھا اسلوب اور ایسی بہت سی باکمال صلاحیتیں رکھنی والی شخصیت ” ڈاکٹر راحت اندوری” کی ہے ۔ آپ یکم جنوری 1950ء کو بھارت کے تاریخی شہر اندور میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اندور ہی سے حاصل کی اور 1973ء میں گریجویشن کی تعلیم اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے اور 1975ء میں ایم ۔ اے اردو کی ڈگری برکت اللہ یونی ورسٹی بھوپال سے حاصل کی ۔
1985ء میں مدھیہ پردیش اوپن یونی ورسٹی سے اردو ادب میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی مقالہ بہ عنوان ” اردو مشاعروں کی تہذیبی روایت ” زیر نگرانی ممتاز ادیب ” پروفیسر آفاق احمد ” لکھ کر ڈگری حاصل کی ۔ آپ اندور اسلامیہ کریمیہ کالج میں تدریسی فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ۔ اردو ادب سے ان کا لگاؤ بچپن سے ہی تھا اور اٹھارہ برس کی عمر میں صنف نظم میں پہلی بار طبع آزمائی کی ۔ آپ کے بہت سے شعری مجموعے منظر عام پر آ کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں جن میں ” دھوپ ،دھوپ ، میرے بعد ، رت بدل گئ ، پانچوان درویش ، ناراض اور موجود” قابل ذکر ہے ۔ آپ مصور بھی تھے اور بالی ووڈ فلموں میں نغمے بھی لکھتے رہے جسے سامعین کی جانب سے خوب پسند کیا گیا۔
ڈاکٹر راحت اندوری نے اپنے شعر گوئی اور انداز پیش کش سے نہ صرف بھارت میں بل کہ دنیا اردو میں آپ کے کلام کو خوب داد ملی ۔ شعرا کی بڑی تعداد آپ کے انداز پیش کش سے متاثر ہوئی ۔ شاعر کا کلام اس کے انداز پیش کش ہی منفرد بناتا ہے اور ڈاکٹر صاحب کے شعر خوانی کے انداز نے سرحدوں کے پار بسنے والوں لوگوں کو بھی متاثر کیا آپ کا ایک شعر ملاحظہ کریں :
میں نور بن کے زمانے میں پھیل جاوں گا
تم آفتاب میں کیڑے نکالتے رہنا
یقینا آپ کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ایک بہترین کلام میں موجود ہونی چاہیے ۔ آپ کی شاعری میں سماج میں موجود ناہمواریوں کے لیے ایک درد پایا جاتا ہے ۔ جیسا آپ محسوس کرتے اس کو شاعرانہ انداز میں پیش کر دیتے ۔ آپ ایک پختہ شعور کے حامل قادر الکلام اور فلک رسا تخیل کے مالک شاعر تھے ۔ آپ کی شاعری میں رومانیت ، نغمگی ، معاشرب کا کرب ، سماج میں بڑھتی ناہمواریوں کا تذکرہ ، آمریت کے خلاف آواز نمایاں ہے ۔
آپ کی شاعری میں قنوطیت کی بجائے یاس و امید پائی جاتی ہے ۔ مشکل حالات کا مقابلہ بھی آپ نے ڈٹ کر کیا ۔ جہاں بھی ظلم و ستم دیکھتے بول پڑتے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے جارحانہ اقدام پر خاموش نہ رہے اور کہ دیا :
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہ دے کہ اوقات میں رہے
ایک اور کلام ملاحظہ کریں :
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
ہم سب ہی اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ ادیب معاشرے کا ایک حساس طبقہ ہے وہ جیسا محسوس کرتا اوردیکھتا سپوت قلم کر دیتا ہے اور یہی خصوصیت ہمیں ڈاکٹر راحت اندوری کی شخصیت میں ملتی ہے جو بھارت میں فرقہ پرست عناصر کے مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ظلم پر خاموش نہ رہے کیوں کہ انہی فرقہ پرست عناصر کی وجہ سے بڑی تعداد میں مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوۓ آپ نے اپنی شاعری سے ان کو واضح پیغام دیا :
سبھی کا خون شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ایک اور جگہ لکھتے ہیں
اب کے جو فیصلہ ہو گا وہ یہیں پر ہو گا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
اس کے ساتھ آپ کی شاعری میں اور شخصیت میں ہندوستانی مٹی سے محبت کی گہری چھاپ محسوس ہوتی ہے اور اس محبت کا اظہار ان کے کلام میں بھی ملتا ہے ملاحظہ کریں :
میں جب مر جاوں تو میری الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا
یقینا آپ کی شاعری میں طنزومزاح کے نشتر ، انقلابی لہجہ ، منفرد و تیکھے اسلوب اور حقیقت پرستی کی گہری جھلک نظر آتی ہے ۔ آپ کی شاعری کی طرح آپ کی شخصیت بھی نمایاں تھی۔ 11 اگست 2020ء کی شام کو مدھیہ پردیش کے ” آر ہندو ہسپتال ” میں کورونا وائرس کا مزید مقابلہ نہ کر سکتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گے اور خالق حقیقی سے جا ملے ۔ یوں اردو ادب کا ایک سنہرا دور اختتام ہوا اور ان کی وفات سے یقینا اردو ادب کی فضا بھی متاثر ہوئی اگرچہ ان کا جسد ہمارے درمیان نہیں رہا مگر ان کا کلام ہمیشہ اردو ادب میں زندہ رہے گا اور آپ کا نام ہمیشہ ہمارے کانوں میں گونجتا رہے گا ۔ آپ کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
بھلا سکے گا نہ مجھ کو زمانہ صدیوں تک
مرے وفا کے مرے فکر و فن کے افسانے
—–