آر ایس ایس اور مسلمان : ہیں کواکب کچھ نظر آ تے ہیں کچھ! :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
آر ایس ایس اور مسلمان
ہیں کواکب کچھ نظر آ تے ہیں کچھ۔۔۔!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770

ہندوستانی مسلمانوں کو رجھانے، سمجھانے، ورغلانے اور پھر ڈرانے کا عمل فسطائی طاقتوں کی جانب سے گزشتہ کئی دہوں سے جاری ہے۔ کبھی مسلمانوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کا بھارتیہ کرن کرلیں۔ اور کبھی ان سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ سنسکرت نام رکھیں۔ کبھی مسلمانوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ وہ ہندو قوم میں جذب ہو جائیں اور اپنی ہر شناخت کو ختم کر کے ہندوستان کی سرزمین کو مقدس مانتے ہوئے بھارت ماتا کی پوجا کریں۔ کبھی مسلمانوں کو بہلانے اور پھسلانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کو ہندستانی سماج کا حصہ مانتے ہوئے ان کے ساتھ مساویانہ سلوک روا رکھنے کا بھی تیقن دیا جاتا ہے۔

اس قسم کی شگوفہ بازی کا مظاہرہ پھر ایک بار ان دنوں دیکھنے کو ملا ہے۔ گزشتہ اتوار (4/ جولائی 2021) کوآر ایس ایس سے ملحقہ تنظیم مسلم راشٹریہ منچ کی جانب سے غازی آ باد میں "ہندوستانی فرسٹ، ہندوستان فرسٹ "کے نظریہ پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے آر ایس ایس کے سر براہ موہن بھاگوت نے کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں نہ رہنے کے لئے کہنے والا ہندو نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے آ گے بڑھ کر کہا کہ مسلمان اس خوف میں نہ رہیں کہ ہندوستان میں اسلام خطرے میں ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ سنگھ پریوار اقلیتوں کے خلاف نہیں ہے۔ آر ایس ایس سربراہ نے ہجومی تشدد کے واقعات کے پس منظر میں کہا کہ ماب لنچنگ کی کاروائیوں میں ملوث ہونے والے ہندوتوا کے مخالف ہیں۔ ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر منعقدہ اس تقریب سے خطاب کر تے ہوئے موہن بھاگوت نے یہ بات بھی کہی کہ سنگھ پریوار کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا کہ ہندوستان کی عوام کا ڈی این اے ایک ہے اور ہندو اور مسلمان کا وجود ایک ہی ہے۔ آر ایس ایس سر براہ کی اس تقریر کا ذرائع ابلاغ میں بھی کا فی چرچا ہوا۔ بعض حلقوں میں ان کے خیالات کا خیرمقدم بھی ہوا۔ اقلیتوں اور مسلمانوں کو مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ موہن بھاگوت کی اس تقریر کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آ ہنگی کو آ گے بڑھانے میں آر ایس ایس کا ساتھ دیں۔ ایسا مشورہ دینے والوں میں خود مسلمانوں کے بعض طبقے بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موہن بھاگوت کو یہ سب باتیں اس وقت کہنے کی ضرورت کیوں پیش آ ئی۔ "ہندو، ہندی، ہندوستان”کے نظریہ پر اٹوٹ ایقان رکھنے والے مسلمانوں کو اپنا دوست بنانے کی فکر میں غلطاں کیوں ہیں۔ موہن بھاگوت نے یہ طرزِ تکلم کیا اس لئے اختیار کیا کہ انہیں واقعی مسلمانوں سے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے؟ یا انہوں نے بین لاقوامی سطح پر ہندوستان کی گرتی ہوئی امیج کو سہارا دینے کے لئے یہ لہجہ اپنایا ہے۔ گزشتہ چند دہوں سے ہندوستان کی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جس ناانصافی اور تعصب کا رویہ مودی حکومت نے روا رکھا ہے اسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ کر نے والی کئی عالمی تنظیموں نے ہندوستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ساری دنیا میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ہندوستان میں اقلیتوں کے دستوری اور قانونی آ زادیوں کو جمہوریت کے ہو تے ہوئے ختم کر دیا گیا ہے۔ ان سارے سوالوں کے بیچ آر ایس ایس کی ساکھ داغدار ہوتی نظر آ ئی ہندوتوا کا گھناؤنا چہرہ دنیا کے سامنے آ نے لگا۔ ظلم اور استحصال پر مبنی اس نظام کی پرچھائیوں نے ملک میں خوف اور دہشت کا جو ماحول بنا دیا اس سے ہندوستان کی یکجہتی اور مذہبی رواداری کے لئے خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس لئے سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت مکھوٹا پہن کر سا منے آ ئے۔
آر ایس ایس کے سر سنچالک کی ان باتوں کو اگر حقیقت کے آ ئینہ میں دیکھا جائے تو بہت ساری تلخ حقیقتیں سامنے آ تی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ہندوراشٹرا کا خواب دیکھنے والوں کی نظروں میں ہندوستان کی پوری قوم ہندو ہے۔ "ہندوتوا”کی اصطلاح کو عام کر نے والے ساورکر نے ہندو کی تعریف کر تے ہوئے بر سوں پہلے کہا تھا کہ وہ لوگ جو ہندوستان میں جنم لیتے ہیں، وہ لوگ جو ہندوستانی نسل میں جنم لیتے ہیں اور تیسرے وہ جو ہندوستانی تہذیب کو اختیار کرتے ہیں وہ ہندو ہیں۔ آر ایس ایس کے موجودہ سر براہ موہن بھاگوت نے خود بھی اس بات کو کئی بار کہا کہ آر ایس ایس اس ملک کے تمام 130کروڑ باشندوں کو ہندو سمجھتی ہے۔ اب ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو ہندو کہلانا پسند نہیں کر تا ہے تو وہ اپنے آ پ کو بھارتی کہلائے، اس پر آر ایس ایس کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سنگھ پریوار کا شروع سے یہ ادعا رہا ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے سارے لوگ ہندو ہیں۔ آر ایس ایس کے بانی کے۔ بی۔ ہیڈ گوار، آر ایس ایس کے دو سرے سر براہ گولوالکر اور پھر ہندتوا کے علمبردار ساورکر، ان سب نے ہندوراشٹرا کا خواب دیکھتے ہوئے اس ملک کے اکثریتی طبقہ کو ہندتوا سے جوڑ نے کی پوری کوشش کر لی۔ گولوالکر کی دو مشہورِ زمانہ کتابوں 1.Bunch of Thoughts اور 2. We or Our Nationhood Definedکا مطالعہ کر نے سے 27/ ستمبر 1925کو ناگپور میں قائم ہوئی آر ایس ایس کے مقاصد کا اچھی طرح سے علم ہو جاتا ہے۔ یہ وہ تنظیم ہے جس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک ہندو روایات اور اس کے فلسفے کو خوشنما الفاظ کا پیرہن دے کر ہندوستان میں ایک خاص مذہب، تہذیب اور زبان کو فروغ دینے کے لئے انتہک محنت کی۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے آر ایس ایس نے سیاسی میدان کو بھی اپنایا۔ پہلے جن سنگھ قائم ہوئی اور اب اسی کی بدلی ہوئی شکل بی جے پی ہے۔ آر ایس ایس کے نظریات کو عملی شکل دینا بی جے پی کا کام ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کوئی الگ الگ پارٹیاں ہیں۔ بی جے پی، آر ایس ایس خاندان کا ہی حصہ ہے۔ یہ اس کا سیاسی بازو ہے۔ اس "پریوار”کے کئی اداکار ہیں۔ کوئی سماجی اسٹیج پر نظر آ تا ہے کوئی سیاسی رول ادا کرتا ہے۔ لیکن پورے پریوار کا مرکزی ایجنڈا جارحانہ ہندو قوم پر ستی ہے۔ پورے پریوار کی اٹھان ہی اسلام اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ ایسے میں اگر موہن بھاگوت یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں نہ رہنے کے لئے کہنے ولا ہندو نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر موہن بھاگوت یہ بات دل سے کہہ رہے ہیں تو پھر ان لوگوں کی زبان پر لگام کیوں نہیں دی جاتی جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے صرف ” دو استھان۔ پاکستان یا قبرستان "آر ایس ایس کے سربراہ فضاء میں گونجنے والی ان آوازوں کو بھی سنتے ہوں گے جو وقفے وقفے سے سنگھ پریوار سے وابستہ عناصر کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف اٹھتی رہتی ہیں۔ جان بوجھ کر جو زہر نام نہاد قوم پر ستی کے نام پر ملک میں گھولا جا رہا ہے کیا یہ فسطائی طاقتوں کی جانب سے کی جانے والی کاروائیاں نہیں ہیں۔ اس پر روک لگانے کے بارے میں آرایس ایس کے سر براہ کے پاس کیا نسخہ ہے۔ جب ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے تو پھر آر ایس ایس مسلمانوں کو ہندوؤں کے دشمن کے طور پر کیوں پیش کرتی ہے۔ ان کے خلاف نفرت انگیز پروپگنڈا کیوں کی جاتا ہے۔ سنگھ پریوار مسلم دشمنی میں اس قدر آ گے بڑھ کر ہندوستانی سماج کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کیوں کر تا چلا جا رہا ہے۔ اقتدار پر قبضہ کے لئے مسلمانوں کو بدنام کر نے کی سازش سنگھ پریوار کیوں رچاتا ہے۔ موہن بھاگوت مسلمانوں کو نصیحت کر رہے ہیں کہ وہ خوف میں مبتلا نہ ہوں اور نہ یہ سمجھیں کہ ہندوستان میں اسلام خطرے میں ہے۔ جب کہ ہر دن مسلمانوں کو مارنے کاٹنے کا عمل جاری ہے۔
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ملک میں تواتر کے ساتھ ہو نے والے ماب لنچنگ کے واقعات پر اپنے تردّد کا اظہار کر تے ہوئے دعویٰ کیا کہ گائے کے تحفظ کے نام پر انسانوں کا قتل کرنے والے ہندتوا کے مخالف ہیں۔ مو ہن بھاگوت کی نظر میں اگر یہ مجرم ہیں تو پھر ان کو قانون کے مطابق سزا کیوں نہیں دی جا رہی ہے۔ 2015میں محمد اخلاق کے بیف کے نام پر بے رحمانہ قتل کے بعد سے یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔ حافظ جنید، پہلو خان، رکبر، اور علیم الدین جیسے بے گناہ لوگ ماب لنچنگ کا شکار ہوئے۔ جن غندہ عناصر نے ان مسلمانوں کا قتل کیا وہ آج بھی نہ صرف آ زاد گھوم رہے ہیں بلکہ ان قاتلوں کی فسطائی طاقتیں حو صلہ افزائی کر رہی ہیں۔ ایسے انسانیت کے دشمنوں کی مرکزی وزراء شال پو شی اور گلپوشی کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کارستانیاں حکومت کے اشاروں پر ہی کی جا تی ہیں۔ اب اگر موہن بھاگوت ہجومی تشدد پر تاسف ظاہر کرتے ہیں تو پھر مودی حکومت پر آر ایس ایس کیوں دباؤ نہیں ڈالتی کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کر تے ہوئے خاطیوں کو کڑی سے کڑی سزا دے۔ موہن بھاگوت، وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کر تے کہ بے قصور مسلمانوں پر ظلم کر نے والوں کرنے والے سرکاری عہدیداروں کے خلاف بھی تادینی کاروائی کی جائے۔ آر ایس ایس کے سربراہ خود سنگھ کے ذ مہ داروں کو اس جانب توجہ دلانے میں کیا واقعی دلچسپی رکھتے ہیں؟ اگر وہ یہ کام کر نے میں ناکام ہو جا تے ہیں تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف دکھاوا کر رہے ہیں۔ چناچہ باخبر حلقوں نے موہن بھاگوت کی تقریر کو ایک ڈپلو میٹک بیان کہہ کر مسترد کر دیا۔ موہن بھاگوت نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے یہ باور کرایا کہ ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ یہاں شہریوں کے درمیان کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاتا۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے ہندوستان کی جو ساکھ متاثر ہو رہی ہے اس کی انہیں بڑی فکر لگی ہوئی ہے۔ اس لئے میل ملاپ کی منطق کا آ موختہ پڑھا گیا۔ دوسری طرف بی جے پی کی زمین کھسکتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر کوویڈ۔۹۱ کے دوران مودی اور یوگی حکومت کی نا اہلی پوری طرح سے عوام کے سامنے آ چکی ہے۔ یوپی میں اسمبلی الیکشن آ ئندہ سال کے اوائل میں ہو نے والے ہیں۔ یوپی کے رائے دہندے یوگی حکومت سے حد درجہ ناراض ہیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ایسے نازک حالات میں جب کہ یوپی میں بی جے پی کی نیّا ڈوبنے کے امکانات بڑ ھتے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کو اگر کہیں سے آ کسیجن مل سکتی ہے تو وہ ہندتوا کے نعرہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ لیکن اس مرتبہ زہر کو شکر میں گھول کر دینے کا کام آر ایس ایس کر رہی ہے۔ بات تو ہندتوا کی بالادستی کی جا رہی ہے لیکن کہا یہ جا رہا ہے کہ سارے ہندوستانی ایک ہیں کیوں کہ سب کا ڈی این اے ایک ہے۔ موہن بھاگوت اگر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سب کے آ باء واجداد ایک تھے تو پھر دلتوں کے ساتھ کیوں غیر انسانی سلوک اب بھی کیا جاتا ہے۔ جن طبقوں کو ہندوتوا طاقتیں ہندو مانتی ہیں ان کے ساتھ صدیوں سے انصاف نہیں ہو رہا ہے تو پھر کس طرح ملک کی 130کروڑ عوام کو گمراہ کر کے سنگھ پریوار اپنے عزائم میں کا میاب ہو سکتا ہے۔ ان بیان بازیوں کے پس پردہ سیاسی مقاصد پوشیدہ ہیں۔ آرایس ایس کے سربراہ کی اتوار کو مسلم راشٹریہ منچ کے پلیٹ فارم سے کی گئی تقریر کو آ نے والے چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کو مسلمانوں سے مُکت کر نے کی باتیں کر نے والے اور بی جے پی کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے کہنے والوں کو اب کیوں مسلما نوں کی یاد ستا رہی ہے۔ شاعر نے سچ کہا کہ : ہیں کواکب کچھ نظر آ تے ہیں کچھ : دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔

Share
Share
Share