قطب سرشارؔ کی غزل کا تجزیاتی مطالعہ :- محبوب خان اصغر

Share

قطب سرشارؔ کی غزل کا تجزیاتی مطالعہ

محبوب خان اصغر
7729994514

ادب کی معنویت، مقصدیت اور افادیت تینوں کی تعبیرات، کیا محل نظر ہیں؟ اگر ہیں تو کیوں ہیں؟
جبکہ ممتاز مشاہیر ادب نے اس موضوع پر طویل مباحث پر مبنی مثبت نظریات کا اظہار کردیا ہے۔ ادب عالیہ کے حوالے سے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جتنا کچھ اور جو کچھ لکھا گیا ہے وہ لسانی تربیت، تہذیب و ثقافت کا تعارف نامہ ضرور ہے۔ آگے کی بات یہ ہے کہ مصرف ادب کیا ہونا چاہیے؟ کیا ادب کو بقائے انسانیت اور بیداریئ ضمیر کو یقینی بنانے والا وسیلہ اظہار بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح مصرف ادب کی صحت مند معنویت کا شعور بیدار ہوسکتا ہے۔

اصناف ادب میں سرفہرست شاعری اور فکشن ہے، جو سب سے زیادہ موثر اور وسیع تر وسیلہ اظہار ہیں۔ جس میں براہ راست انسان کے دل و دماغ تک رسائی دینے کی توانائی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ میری دانست میں شاعری کو اظہار حکمت اور ذہنی تربیت اور فکشن کو معاشرتی زندگی کی ایسی تمثیلات کا وسیلہ بنایا جاسکتا ہے جس سے حس انسانیت کو تقویت حاصل ہوجائے، دنیا کے سرفہرست تذکرہ نگاروں نے جب کبھی دنیا کی عبقری ہستیوں کے تذکروں کا احاطہ کیا ہے تو ان میں پیغمبر اسلامؐ کا نام نمایاں رہا ہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے دانشور، حکیم اور شفاف ترین عملی زندگی کا نمونہ صرف پیغمبر اسلامؐ ہی ہوئے ہیں اور اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ انہوں نے حیات انسانی کو ایک صحت مند سمت اور منزل سے متعارف کروایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غم حیات و کائنات کا مرثیہ نہیں پڑھا بلکہ مسائل حیات کا حل اور انسانی فکر و عمل کی صحت مند تنظیم کرکے امن و سلامتی کی ایسی فضاء تشکیل دی ہے کہ زندگی میں حزن و ملال، خوف و کشمکش کے امکانات کا خاتمہ ہوگیا۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بقائے انسانیت کے استحکام کے لئے کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ لیکن ملت آدم کو یقین دلایا کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں درحقیقت وہ نہیں کہتے بلکہ خالق کائنات آپ سے کہلواتا ہے۔
اگر ہم ادب عالیہ کے اور عصر جدید کے ادب پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی نے بھی (بجز اقبال اور ابن صفی) حکمتوں کا نور پیغمبر اسلامؐ سے کشید کرکے اسے اپنے تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنایا ہو۔ معاشرتی زندگی میں افکار و نظریات کے نقائص اور محض اس کے مضر اثرات کی ترجمانی سے صحت مند ادب کا تصور نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ایسی حکمتوں کی تعبیرات جو مافوق الفطرت وسیلے (وحی) سے حاصل ہوئی ہیں ان ہی سے استفادہ مقصد اور مصرف ادب ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کی تمام تر شاعری پر ایک امعانی نظر ڈالیں تو ہماری گفتگو کی روح واضح ہوجائے گی۔ اس طویل تمہیدی کلمات کے تناظر میں ہم اردو کے نامور شاعر و نقاد ڈاکٹر قطب سرشار کی غزل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں۔ آغاز گفتگو سے قبل ان کی غزل کے چند شعر جو موضوع گفتگو ہیں ملاحظہ کریں۔
کہیں منزل نہ راستوں کا پتہ ہے
تدبر چلتے چلتے تھگ گیا ہے
……………………
کئی برسوں کا اگرچہ تجربہ ہے
شعورِ حق میں پھر بھی ایک خلا ہے
……………………
پڑی ہے روح قعرِ تیرگی میں
سڑک پر آدمی بکھرا پڑا ہے
……………………
ہر اک سو ہیں سبھی دیواریں بے در
چلے آؤ حجازی در کھلا ہے
……………………
بدن سارا کھلا رکھا ہے لیکن
رُخِ دانش پر ہی پردہ پڑا ہے
……………………
سدا نرغے میں طوفانوں کے رہ کر
توکل کشتیوں کا بڑھ گیا ہے
……………………
تمیزِ خیر و شر ہی آگہی ہے
مجرد عقل شر ہے، واہمہ ہے
……………………
اندھیرے سے ذرا سے فاصلے پر
صحیفہ روشنی پھیلا رہا ہے
……………………
سماعت کو اگر بیدار کرلیں
اذانوں کا مسلسل داعیہ ہے
……………………
قلم ناآشنا ہے حکمتوں سے
ادب بس حظِ جاں میں کھو گیا ہے
……………………
اب آئیے منتخب اشعار کے معنوی تناظر کی کھوج کرتے ہیں۔
کہیں منزل نہ راستوں کا پتہ ہے
تدبر چلتے چلتے تھگ گیا ہے
دنیا کے سارے مدبرین کا فکری سفر طویل ترین ہونے کے باوجود انہیں بقائے انسانیت کی سمتوں اور منزل کا سراغ نہ مل سکا۔ یہاں تک کہ لاکھوں کتابوں میں فکر و تدبر کی مسافت بے فیض ثابت ہوتی ہے۔ یعنی بہت کچھ لکھا گیا لیکن ہاتھ کچھ نہیں لگا۔ اسی معنویت کا تسلسل دوسرا شعر بھی ہے۔
کئی برسوں کا اگرچہ تجربہ ہے
شعور حق میں پھر بھی ایک خلا ہے
یعنی برسوں کے تدبر اور تجربوں کے باوجود آگہی میں ایک وسیع تر خلا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ محدود فکر انسانی ایک ادھوری فکری مشقت ہے۔
پڑی ہے روح قعر تیرگی میں
سڑک پر آدمی بکھرا پڑا ہے
روح کا قعر تیرگی میں پڑے رہنے کا یہ مفہوم نکالا جاسکتا ہے کہ ضمیر انسانی کی تربیت کے لئے کوئی مستحکم علم، عقیدہ اور طرز عمل دستیاب نہیں ہے، چنانچہ آدمی مختلف مسائل میں اس قدر منقسم ہوگیا ہے کہ وہ رسوائی کی سڑک پر ایک پراگندہ وجود کی طرح نظر آتا ہے۔ تیرگی سے روح کا ایسا موقف مراد ہے جو صراط مستقیم سے نابلد ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ حیات انسانی شکست و ریخت کا شکار ہوجائے۔
ہر اک سو ہیں سبھی دیواریں بے در
چلے آؤ حجازی در کھلا ہے
شاعر ایک ایسی جہت کی نشاندہی کر رہا ہے جو ضمیر انسانی کو ایک کھلی فضاء میں سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہاں ”بے در دیواریں“ بے سمت زندگی کے استعارے ہیں۔ ایک ایسی فضاء جس میں چاروں طرف ایک قفس اور ایک حبس جیسا ماحول نظر آتا ہے اور ضمیر انسانی جس کی فطرت میں حریت ہے۔ قفس سے اور حبس سے باہر نکلنے کے لئے اسے ایک ایسے دروازے کی تلاش ہے جس سے نکل کر وہ سکون اور راحت محسوس کرسکے۔ شفاف اور کھلی فضا اس کا نصیب بن جائے۔ ”چلے آؤ حجازی در کھلا ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ صراط مستقیم ہی ایک ایسا کھلا دروازہ ہے جس میں انسانیت آزادانہ سانس لیتی ہے۔
بدن سارا کھلا رکھا ہے لیکن
رُخ دانش پر ہی پردہ پڑا ہے
بے راہ روی ایک عریاں طرز زندگی کے ساتھ ایک غیر دانشمندانہ روش بھی ہے۔ بے راہ روی کے عالم میں انسانی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے تو بالواسطہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ صراط مستقیم اسے آواز دے رہا ہے۔
سدا نرغے میں طوفانوں کے رہ کر
توکل کشتیوں کا بڑھ گیا ہے
اقبال نے کہا تھا کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
اقبال کے اس شعر کا معنوی تناظر یہ ہے کہ جب تک انسان حیات کی تلخیوں کا سامنا نہیں کرتا وہ کسی انقلاب سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ یہاں قطب سرشار یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو صراط مستقیم سے آشنا ہیں زندگی کے طوفانوں کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے رب پر توکل ان کے اندر رجائیت کی توانائی پیدا کرتا ہے۔
تمیز خیر و شر ہی آگہی ہے
مجرد عقل شر ہے، واہمہ ہے
اس شعر کا موضوع بہت ہی اہم اور عہد عتیق کے پس منظر کی طرف ذہن کو لے جاتا ہے۔ جب صراط مستقیم کا تعارف نامہ (قرآن) پیش کیا گیا تو ان ہی لوگوں نے اسے قبول کیا جن کے اندر فطرتاً خیر و شر کی تمیز موجود تھی اور وہ لوگ جو مجرد عقل کی رہبری میں جی رہے تھے صراط مستقیم سے انحراف کرگئے اور شرور و فتن کے شکار ہوگئے۔
اندھیرے سے ذرا سے فاصلے پر
صحیفہ روشنی پھیلا رہا ہے
اس شعر میں بالواسطہ شاعر نہایت شائستہ لہجے میں اہل دانش اور صاحب نظر افراد جو غیر صحت مند آگہی کے اندھیرے میں الجھے ہوئے ہیں نشاندہی کرتا ہے کہ آفاق میں صحیفہ کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔
سماعت کو اگر بیدار کرلیں
اذانوں کا مسلسل داعیہ ہے

یہ شعر بھی اگلے شعر سے معنوی رشتہ رکھتا ہے۔ اذان کے جو الفاظ ہیں وہ صاحب فکر افراد کو دعوت دے رہے ہیں کہ خالق کائنات اور پیغمبر اسلامؐ دنووں برحق اور اطاعت کے لائق ہیں۔ اسی میں فلاح ہے۔ اسی میں منظم زندگی کی آگہی ہے۔ کیونکہ منظم زندگی کی آگہی اس ہستی کی ہے جو کائنات کا خالق ہے اور جس کی عظمت اور کبریائی بے مثل ہے۔ یعنی کہ اذان ایک صحت مند عقیدے کا تعارف نامہ اور امن و سلامتی کی ضامن ہے۔
قلم ناآشنا ہے حکمتوں سے
ادب بس حظ جاں میں کھو گیا ہے
اس شعر میں شاعر ایسے ادب کی نفی کرتا ہے جو محض حظ جاں یا ذہنی تفریح کی فضاؤں میں مقید ہے،جبکہ پیغمبر اسلامؐ کا ارشاد ہے کہ شعر حکمتوں سے ماخوذ ہوتا ہے اور تقریر و تحریر جادوئی اثر رکھتے ہیں جس سے نہ صرف انسانی ذہن کی تربیت ہوتی ہے بلکہ اثر پذیری کے امکانات بھی یقینی ہوجاتے ہیں۔ میں نے جن اشعار کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ قطب سرشار کے اس نظریے کے حوالے سے گفتگو کی جائے جو پیغام سروش کی معنویت سے متعلق ہے۔ قطب سرشار اپنے اشعار میں کہیں نہ کہیں بلکہ عموماً ردو قبول کے مرحلے میں صراط مستقیم کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھتے ہیں۔ انہوں نے اکثر اپنی تحریروں میں اسلام کے حوالے سے جو تعبیرات دی ہیں وہ یہ ہیں کہ اسلام ساری انسانیت کے لئے ایسا لازم ہے جو حیات کو امن و سلامتی اور توازن سے ہمکنار کرتا ہے۔ دنیا کی مختلف روایات، طرز حیات، حقائق اور نظریات کا اسلام دفع کرتا ہے اور انسانیت کی بقاء کی ضمانت دیتا ہے۔ مذہب ایک ایسی اصطلاح ہے جو انسان سے منسوب کردی جاتی ہے تو اس سے اسلام کی آفاقیت کھل نہیں پاتی۔
الغرض قطب سرشار کی جس غزل کے منتخب اشعار کو میں نے اپنی گفتگو کا محور بنایا ہے وہ بظاہر سہل ممتنع لگتے ہیں مگر یہ تمام ہی اشعار پرت در پرت ہیں اور فہمیدگاہی کے اذہان پر دستک دیتے ہیں۔ کھلا کہ جس طرح مشتاق احمد یوسفی کی تمام تر تحریریں خواص کے لئے ہیں اسی طرح قطب سرشار کی شاعری بھی عوام الناس کے لئے نہیں ہے۔ فہم و ذکا کے حامل اصحاب پر ان کے کلام کے اسرار و رموز کھلتے ہیں۔ شعر کی تخلیق میں جو ذکاوت کارفرما ہوتی ہے وہ وہبی ہے کسبی نہیں۔ سیاسی کشمکش ہو کہ انسانی زندگی کے نظام اقدار کا گرتا ہوا معیار، بے راہ روی ہو کہ قدروں کی زوال پذیری، رشتوں کی بے حرمتی ہو کہ ابتر تدریسی نظام، ان کے اظہار کے لئے جس شائستہ لہجے کو وہ اختیار کرتے وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں لسانی آگہی اور بصیرت حاصل ہے۔
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی کے مصداق قطب سرشار نے ایک دردمند دل، روشن دماغ اور حساس طبیعت پائی ہے اور اس کا انکشاف ان کے تخلیقی سرمائے کے ہر لفظ سے عیاں ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری لگتا ہے کہ ان کی انتقادی قوت اور تجزیاتی صلاحیت جہاں ان کی شخصیت کی ہمہ گیری کو ظاہر کرتی ہے وہیں یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مذہبی حیثیت کے انسان ہیں۔ ان کی تحریروں کا آہنگ ان کے تخلیقی مزاج سے ہم آہنگ ہے۔
سرشارؔ، غالب اور اقبال کی شاعری کے رنگ و آہنگ سے متاثر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہوگا جو ان دو عظیم شعراء سے متاثر نہیں ہوا ہے، لیکن یہاں بھی فرق ہے۔ اکثر شعراء ان دو بڑے شعراء کے فکری ماخذ یا ان کے شعور کو پہنچے بغیر ہی واہ واہ کرتے ہیں لیکن سرشار صاحب نے اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی کتاب ”امعان“ میں ایسے مضامین شامل کردئیے ہیں جن میں انہوں نے غالب اور اقبال کے بعض اہم اشعار کا خوبصورت تجزیہ کردیا ہے، جو غالب و اقبال فہمی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
الغرض ان کی نثری اور شعری تحریروں میں ان کے تجربے سانس لیتے ہیں۔ گہری اور پختہ معنویت میں ڈوبی ان کی تحریروں میں تہذیبی کشمکش، تمدن اور ثقافت کا عروج و زوال، زندگی کی کڑی سچائیاں، سائنسی ارتقاء کے نام پر بربریت ان تمام عوامل اور ترقی سے جو تحریکات جنم لیتی ہیں اس کا تخلیقی اظہار سرشار صاحب کی پہچان ہے۔ برسوں سے ریاء میں مقید شعراء کی بھیڑ میں انہوں نے اپنی انفرادیت اور پہچان یوں بنائی کہ اپنا مخصوص ڈکشن اور اسلوب خود ایجاد کیا اور ایک جرأت مندانہ انداز میں اپنے شعری سفر کو جاری رکھا۔ جس میں مذہبی میلان، عقلی رجحان اور معیاری و افادی طرز بیان کو اختیار کرتے ہوئے مبہم اسلوب کے مقابل سادہ اور شگفتہ اسلوب کو روا رکھا اور بامعنی اور مفید تحریروں سے دامن ادب کو متمول کیا۔ ہماری دعا ہے کہ ان کا تخلیقی سفر بلا تکان جاری رہے اور ان کی فکر و آگہی سے روشنی ملتی رہے۔
٭٭٭

Address:
Mahboob Khan Asghar
H.No. 10-2-302, Shah Apartment
4th Floor, Flat No 404, Bazar ghat,
Vijay nagar Colony, Hyderabad – 500057
Telangana State (INDIA)
Mobile No. 9246272721
Email:

محبوب خان اصغر
ڈاکٹرقطب سرشار
Share
Share
Share