آن لائن تعلیم ! مجروح بچپن، معذور اکتساب
تعلیمی ادارے نہیں،معاشرت و ثقافت کے دربندہوگئے
فاروق طاہر
حیدرآباد،انڈیا
,
9700122826
معاشرت:- معاشرت و ثقافت انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت ہے۔ یہ دونوں انسانی تال میل سے تشکیل اور فروغ پاتے ہیں۔انسان کو ایک سماجی حیوان کہا جاتا ہے۔معاشرتی خصوصیت صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر جانداراجسام میں بھی یہ بدرجہ اتم نظرآتی ہے۔ چیونٹیاں،شہد کی مکھیاں، بھڑو زنبور جیسے ادنیٰ جاندار بھی معاشرتی (گروہی) زندگی کے عادی ہیں۔معاشرے سے مراد ایک جیسے افراد کا ایک ایسا گروہ جو ایک دوسرے سے باہم مل کر کام کرتا ہے۔عرف عام میں ہم اسے سوسائٹی،سماج یا معاشرہ کہتے ہیں۔
چیونٹیوں،شہد کی مکھیوں،بھڑو زنبور وغیر ہ میں سماجی(گروہی) فرائض جیسے کام کی تقسیم (مزدوری) کو صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔بنیادی طور پر یہ طرزعمل ان میں فطری نوعیت (جبلتی طرز) کا ہوتا ہے۔بہ الفاظ دیگر ان تمام میں باہمی گفت وشنیدکی صلاحیت پیدائشی طور پر پائی جاتی ہے۔ انسان اور دیگر جانداروں کی معاشرتی زندگی میں پایا جانے والاواضح امتیازی فرق ثقافت ہے۔ انسانی معاشرے کو حقیقی خوب صورتی و دلکشی بھی ثقافت ہی عطاکرتی ہے۔معاشرے کو اگر جسم تصور کیا جائے تب ثقافت کو اس کی روح کہاجائے گا۔ روح کے مظاہر کا مشاہدہ عام ہے پھر بھی اسے دیکھا نہیں جاسکتاصرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ثقافت بھی نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے مختلف طریقوں سے اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ارسطو کے مطابق”انسان فطری طور پر سماجی جانور ہے، جس کا گزارا معاشرے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی خود کو معاشرے سے بیگانہ رکھتا ہے، وہ یا تو حیوان ہے یا پھر دیوتا“۔ فرانسیسی فلسفی روسو نے فرد کی انفرادیت کو فوقیت دیتے ہوئے کہا ”فطرت نے اسے آزاد پیدا کیا لیکن معاشرے نے اسے زنجیروں میں جکڑ دیا“۔معاشرہ ثقافتی اقدار کو سمجھ کر ان کا احترام کرتے ہوئے باہمی محبت و بھائی چارے کو پروان چڑھاتا ہے۔معاشرتی زندگی باہمی میل جول کے ذریعے صبر وتحمل،احترام و محبت،اخوت و بھائی چارگی جیسے اقدار کوفروغ دیتی ہے۔
ثقافت:- ثقافت کئی عناصر سے مل کر بننے والا ایک ایسامرکب (Complex) ہے جس میں علم،اعتقاد،فنون،اخلاقیات،قوانین،رسومات اور کئی دیگر عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ان عوامل و عناصر کوانسان معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے خود میں وقتاً فوقتاً جمع کرتا رہتاہے۔بہ الفاظ دیگر ثقافت انسان کے حاصل کردہ رویوں کے مجموعے کا نام ہے۔معاشرت و ثقافت انسانی زندگی کا طرہ امتیازاوروسیلہ اظہار ہے جس کے بغیر آدمی صرف ایک حیوانی وجود بن کر رہ جاتا ہے۔معاشرت سازی کی طرح ثقافت بھی آدمی کی زندگی کو آسان اور کامیاب بنانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔ثقافت عربی زبان کے لفظ ثقف سیمشتق ہے جس کے معنی عقلمندی اور مہارت ہیں۔ کلچر انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ کلچرسے مرادکسی چیز یا ذات کی ذہنی یا جسمانی نشو و نما ہے۔ ”ثقافت اکتسابی،ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے۔“اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات، افعال، خیالات اور رسوم و اقدار شامل ہوتے ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ثقافت یا کلچر کی کوئی جامع و مانع تعریف آج تک وضع نہیں ہو ئی ہے۔ای۔ بی۔ ٹیلر ثقافت کے بارے میں کہتاہے”ثقافت سے مراد وہ علم، فن، اخلاقیات، قانون، رسوم و رواج، عادات، خصلتیں اور صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جو کوئی اس حیثیت سے حاصل کر سکتا ہے کہ وہ معاشرہ کا ایک رکن ہے۔“اسی طرح ثقافت کی تعریف میں رابرٹ ایڈفلیڈر ر قم طراز ہے””ثقافت انسانی گروہ کے علوم اور خود ساختہ فنون کا ایک ایسا متوازن نظام ہے جو باقاعدگی سے کسی معاشرہ میں جاری و ساری ہے“۔مختصراًثقافت سے مراد انفرادی اور اجتماعی طریقوں کی رہنمائی کے لئے نسل در نسل منتقل ایک معاشرتی گروہ کے مادی اور روحانی سامان کا مجموعہ ہے۔ اس میں زبان، عمل، طرز زندگی، رسم و رواج، روایات، عادات، اقدار، نمونے، اوزار اور علم شامل ہیں۔
تعلیم،معا شرت اور ثقافت کا باہمی تعلق:- معاشرت و ثقافت انسان میں یک لخت پیدا نہیں ہوتی۔یہ کیفیت اس میں وقت،عمر اور حسب ضرورت فروغ پاتی رہتی ہے۔اکتساب و تجربہ معاشرتی زندگی اور ثقافتی اقدار کے تشکیل و فروغ میں کلیدی حیثیت کاحامل ہے۔ ہم بچوں کواسکول اور مدرسوں کو صرف درسی کتب میں چھپے الفاظ و جملے پڑھنے کے لئے نہیں بھیجتے۔بچوں کو اسکول بھیجنے کا اصل مقصد ان میں معاشرتی طرز زندگی اور ثقافتی اقدار کی تشکیل و فروغ ہوتا ہے۔معاشرتی و ثقافتی اقدار کی تشکیل و فروغ میں اساتذہ،درسی کتب،ہم جماعت ساتھی و مدرسے کے دوست،ماحول،گردوپیش کے حالات،دیگر تعلیمی وسائل،گھر سے اسکول تک کا سفر،معاون حمل و نقل کے ذرائع،تفریحی سامان و مشغلے،تعلیمی سرگرمیاں،ہم نصابی سرگرمیاں،کھیل کود اور دیگر عوامل اہم کردار انجام دیتے ہیں۔ لیکن آج کل اسکولوں کی مسدودی سے ایک بے کیف اور بے روح آن لائن تعلیمی عمل جاری سہی لیکن یہ اکتسابی عمل معاشرے کی تعمیر اور طلبہ کی تعلیمی ضرورت کا ایک وقتی متبادل تو ہوسکتا ہے لیکن یہ حقیقی تعلیم، طلبہ کی ہمہ جہت نشوونما اور خوش گوار معاشرے کی تعمیر کا نعم البدل ہرگز نہیں ہے۔
زیر نظر مضمون میں دو ایسے واقعات کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایسی تعلیم جو معاشرتی اور ثقافتی اقدار سے نا بلد ہو وہ کیسے افراد کو جنم دے گئی۔معاشرت و ثقافت سے عاری آدمی ایک حیوان کی طرح برتاؤ کرنے لگتا ہے۔آدمی کو اس ترقی یافتہ معاشرتی طرز زندگی اور خوب صورت ثقافت کے گنجینہ گراں مایہ کی دریافت میں ہزاروں صدیوں کا سفرطئے کرنا پڑا۔معاشرہ اور ثقافت ہی انسان طرز زندگی کے وہ خوب صورت پہلو ہیں جو اسے حیوانوں سے ممتاز و نمایاں کرتے ہیں۔نفسیات اور سائنس میں انسانی معاشرے سے کٹ کر پروان چڑھنے والے بچوں کے لئے ایک خاص فیرل چائلڈ(Feral Child)جنگلی بچے کی اصطلاح مستعمل ہے۔
فیرل بچہ (Feral Child):- فیرل بچہ جسے جنگلی بچہ بھی کہا جاتا ہے ایک انسانی بچہ ہی ہوتا ہے جو بہت ہی چھوٹی عمر سے انسانی رابطے سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے۔ انھیں عام طور پر جانور پالتے پوستے ہیں۔اس وجہ سے انھیں انسانی نگہداشت، سلوک یا انسانی زبان کا بہت کم تجربہ ہوتا ہے۔فیرل بچوں میں بنیادی معاشرتی صلاحیتوں کا فقدان پایاجاتا ہے جو معاشرتی طرززندگی میں سکھائے جاتے ہیں جیسے بیت الخلا کے استعمال سے عدم واقفیت، صفائی ستھرائی کے انسانی اصولوں سے لاعلمی،ساری زندگی چار پاؤں پر چلنے کے بعد دوپاؤں یعنی سیدھا چلنا سیکھنے میں دشواری یا اپنے گرد و پیش کی انسانی سرگرمیوں سے عدم دلچسپی و لاتعلقی وغیرہ۔ یہ اکثر ذہنی معذور معلوم ہوتے ہیں۔ ایک انسانی زبان سیکھنے میں بھی انھیں ناقابل بیان پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زبان سیکھنے میں معذوری کی بنیادی وجہ کئی سالوں سے انسانی معاشرے سے ان کے الگ تھلگ،کٹے رہنے کو قرار دیاگیاہے۔ ایسے بچوں کے متعلق متعدد تصدیق شدہ معاملات اور مختلف قسم کی قیاس آرائیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ یہ باتیں بعض اوقات لوک داستانوں اور اساطیری داستانوں کا حصہ معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ سچ ہے۔
1600 سے پہلے فیرل (جنگلی)بچوں کی کہانیاں عام طور پر افسانوں اور داستانوں تک ہی محدود تھیں۔ ان کہانیوں میں فیرل(جنگلی) بچوں کوغذا کا شکار کرنا،سیدھا چلنایعنی دو کے بجائے چار پاؤں پر چلنا،دوڑنا اور زبان سے لاعلمی وغیرہ شامل ہیں۔ فلسفی اور سائنس دان ایسے بچوں کے بارے میں جب متجسس ہوئے تو ان کے متعلق حقائق اکٹھاکرنے میں دلچسپی لینے لگے۔سائنسدانوں و سائنسی علوم کے ماہرین نے سوال اٹھایا کہ کیا ان بچوں کا تعلق انسانی خاندان کی کسی الگ نوع سے ہے؟۔اس سوال کو18 ویں اور 19 ویں صدی میں اس وقت سنجیدگی سے لیا گیا جب سائنسدانوں نے انسانوں کی نشوونما کی درجہ بندی اور فطری دنیا کی تفہیم کی کوشش کی۔20ویں صدی کے آس پاس،ماہرین نفسیات جو حیاتیاتی طرز عمل اور ثقافت کے مابین فرق کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے،فیرل (جنگلی)بچے جو تنہائی میں یا جانوروں کے ساتھ رہتے تھے) اس مخمصے کو حل کرنے میں مثال کے طور پران کے سامنے ابھر کر آئے۔فیرل بچوں کے بارے میں سائنسی معلومات بہت کم دستیاب ہیں۔ دستیاب دستاویزات میں سے ایک امالہ اور کمالہ کا واقع بھی ہے جو بھیڑیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ انھیں جے اے ایل سنگھ نے 1926 میں ہندوستان کے ایک جنگل سے اٹھایا تھابلکہ بچایاتھا۔ تاہم، فرانسیسی سرجن سارج اروز، نے اسے جے ایل سنگھ کو اپنے یتیم خانے کے لئے رقم اکٹھاکرنے کاایک حربہ ود ھوکہ قرار دیا۔ لیکن فیرل (جنگلی) بچوں کا وجود ایک حقیقت ہے اس کے متعلق سائنسی اور دیگر تحقیقاتی حقائق موجود ہیں جیسے جینی اور دیگر بچوں کی داستانیں وغیرہ۔
سن 1920کے اوائل میں بنگال کی دو بھیڑیا لڑکیاں امالہ اور کمالہ کے بارے میں شائع شدہ اطلاعات نے سارے ملک کو حیران کرکے رکھ دیا۔ان دونوں کی پرورش بھیڑیوں کے درمیان ہوئی بلکہ بھیڑیوں نے ہی انجام دی۔ اس طرح یہ دونوں ہندوستان میں پائے جانے والے فیرل چائلڈ(Feral Child) سے مشہور ہوئیں۔فیرل چائلڈ سے مراد ایک ایسا انسانی بچہ جو بہت چھوٹی عمر سے ہی انسانی رابطے سے الگ تھلگ رہا ہو اور انسانی نگہداشت،سلوک اور انسانی زبان کے علم و تجربے سے وہ ناواقف ہو۔جب ان دونوں لڑکیوں کو بھیڑیوں سے بچایا گیا اور ان کو بھیڑیوں کے غاروں سے نکالا گیا تودیکھنے میں آیاکہ وہ بھی بھیڑ یوں کی طرح ہی برتاؤ کررہی تھیں۔ وہ کپڑے پہنے تیار نہیں تھیں۔جو بھی انھیں کھلانے کی کوشش کرتا وہ انھیں نوچ کھروچ اور کتر دیتیں۔وہ پکا ہوا کھانا نہیں کھا تی تھیں۔جانوروں کی طرح چار پیروں پر چلتی اوردیواروں پر چڑھنے کی کوشش کرتیں۔ان میں شب بیدار جانوروں (Nocturnal)کی خصوصیات نمایاں تھیں۔شب بیدار ی (Nocturnality) جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایسا طرزعمل ہے جس کی وجہ سے وہ رات کے وقت متحرک رہتے ہیں اور دن کے وقت سوتے رہتے ہیں۔ ان میں قوت سامعہ اور شامہ (سننے اور سنگھنے) کی بہتر صلاحیتیں پائی گئیں جس طرح جانوروں میں دیکھی جاتی ہیں۔وہ کچے گوشت سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔ برتنوں میں کھانے کے بجائے انھیں الٹاکر اور زمین پر گراکر کھاتی۔رات کو بھیڑیوں کی طرح چیختیں جیسے اپنے خاندان کے لوگوں کو صدا دے رہی ہو۔وہ کچھ بولنے (بات کرنے)سے قاصرتھیں۔ان میں ایک گردے کی بیماری میں مبتلا ہوکر مرگئی جب کہ دوسری جزوی گھریلو تربیت کے نتیجے میں انسانوں کی صحبت میں رہنے لگی۔سالوں کی محنت و مشقت کے بعد وہ کسی قدر سیدھا یعنی دو پیروں پر چلنے کے قابل ہوئی۔سیدھا چلنے میں وہ مہارت تو حاصل نہیں کر پائی جس کی وجہ سے وہ اکثرجانوروں کی طرح چار پاؤں پر چلنے لگتی تھی۔ چند الفاظ بولنا ضرور سکھ گئیلیکنچند سالوں بعد ہی دق کے مرض میں گرفتار ہوکر وہ فوت ہوگئی۔
(2)ٹارزن دی ایپ میان(بندرنما آدمی):- یہ افریقی جنگل میں رہنے والے ایک لڑکے پر(غیر حقیقی کردار پر مبنی) بنی فلم ہے۔یہ ایک فیرل(جنگلی) بچہ ہے جس کی افریقہ کی جنگل میں جانوروں نے پرورش کی ہے۔ایک عرصے بعد انسانی تہذیب سے جب اس کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اسے مسترد کردیتا ہے۔ انسانی تہذیب سے عدم مانوسیت کی بناء جنگل واپس جاکر ایک بہادر مہم جو کی زندگی گزارتا ہے۔ان دونوں واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی معاشرے اور ثقافت سے کٹ جاتا ہے تو وہ ایک حیوان کی طرح زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ معاشرت اور ثقافت انسانوں کو مہذب بناتی ہے۔اس عمل میں خاندان،دوست احباب،ہم سر ساتھیوں اور ماحول کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔
سماج کاری،معاشرت سازی کا بنیادی عامل خاندان؛۔تین سال کی عمر تک بچے اپنے افرادخاندان کے ساتھ رہتے ہوئے مادری زبان کے علاوہ دیگر بنیادی باتیں سیکھتے ہیں۔صدیوں پرانے ہندوستانی معاشرے میں جہاں ذات پات کا نظام موجود تھااور آدمی جس ذات میں پیدا ہوتا اسی ذات سے منسوب پیشہ اس کا اپنا پیشہ قرار پاتا۔آدمی میں طرزمعاشرت و سماج سازی و شعور بیداری میں اس کا مشترکہ خاندانی نظام ا ور دیگر رشتے ایک بنیادی کارگر عامل کا کام انجام دیتے تھے۔ چار سو سال قبل،دورجدید کے آغاز سے اسکولوں،ہم جماعت ساتھیوں کے گروہ(Peer Groups) اور دیگر غیر رسمی سماجی گروہوں نے ثانوی سطح پر معاشرت سازی کے عوامل کا کام انجام دیا۔
گزشتہ 15مہینوں سے بچے گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں۔ اسکولوں سے ان کا تعلق ٹوٹ چکا ہے۔اسکول جاکر بچے صرف درسی کتب کے اسباق ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ وہ زندگی کے گر سیکھتے ہیں۔بچے 100فیصد جو معلومات وعلم حاصل کرتے ہیں ان میں 50فیصد معلومات و علم، اساتذہ اور درسی کتب سے حاصل کرتے ہیں ماباقی 50فیصد علم وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول کے جائزے، مشاہدے اورادراک سے حاصل کرتے ہیں اور ان تجربات کے بل پر اپنے علم و شعور کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔گہرے مشاہدے،سننے،بات چیت کرنے،باہمی گفت و شنید،افہام و تفہیم اور اپنے طورپر قائم کردہ مفروضات،تجربات و اندازوں سے بہت سارا علم و شعور حاصل کرتے ہیں۔وہ اپنے گردو نواح کے بارے میں خاطر خواہ معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بچے رول ماڈل کی تلاش میں رہتے ہیں۔وہ اپنے بڑوں اور دوستوں کے سلوک و برتاؤ کا مشاہدہ کرتے ہیں اور جو برتاؤ انھیں اچھا لگتا ہے وہ اسے اپنا لیتے ہیں۔جب کوئی خاص برتاؤ یا سلوک انھیں اچھا لگتا یا اپیل کرتا ہے تو وہ اس طرز عمل کی تقلید شروع کردیتے ہیں اور اسے اپنی ذات میں اتارنے لگتے ہیں۔اگر کوئی خاص برتاؤ جو ان کے لیے قابل قبول نہ اسے غلط سمجھ کرکترانے لگتے ہیں۔بچے اسکولوں میں اساتذہ،ہم جماعت ساتھیوں و دیگر عوامل کے اشتراک سے اچھے اخلاق،اشارات(Gestures)،لہجے،باڈی لینگویج اور مختلف زبانوں میں بات چیت کرنے کی صلاحیت حاصل کرتے ہیں۔ بچے سماجی روابط کے ذریعے ایک دوسرے کا احترام،تعاون،ا ومرو نواہی (Dos and Don’ts)،ممنوع(proscribed)و مشروع(prescribed)کو سیکھنے کے علاوہ معاشرے سے نظریات،خیالات،معلومات،مہارتوں اور تکنیک کا علم بھی حاصل کرتے ہیں۔
گزشتہ15ماہ کا عجیب و غریب عرصہ؛۔بچوں کی زندگی کے پندرہ ماہ کا موازنہ کسی بالغ فرد کی زندگی کے پندرہ مہینوں سے ہرگزممکن نہیں۔تعلیمی نفسیات کے مطابق کسی بچے کے اکتساب(Learning Curve)کی توضیحی نشوونما(Exponential Growth) ا س کے ابتدائی دس سالوں میں نمایاں فروغ پاتی ہے۔یہ بچوں کی زندگی کا سب سے زیادہ فعال اور اہم مرحلہ ہوتا ہے۔دس سے بیس سال کی عمر میں بھی اکتسابی نشوونما انجام پذیر رہتی ہے لیکن ابتدائی دس سالوں کے دوران جو اکتسابی نشوونما انجام پاتی ہے اس کے مقابل اس کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔ بیس سال کی عمر کے بعد بھی اگر کوئی فردبمشکل اگر کچھ نہ کچھ سیکھ رہا ہو تب اس کے اکتسابی مقدار(Quantum) بہت کم ہوگی۔ معروف نفسیاتی و تعلیمی حقائق کی روشنی میں بچوں کی اپنے گردو پیش (ماحول) کی اشیاء سے سیکھنے کی صلاحیت، گردونواح کی چیزوں سے اخذوانجذاب اور مشاہدے کی صلاحیت عمر کے ابتدائی دس سالوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کی اکتسابی نشوونما و ترقی بعد کے دس سالوں یعنی گیارہ سے بیس سال کی عمر میں تقریباًناممکن ہے۔موجودہ صورت حال میں گزشتہ پندرہ مہینوں کا مطلب بہت کچھ ہے۔بچوں کے زندگی کے اس بڑے نقصان کو بالغ افراد کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھا جاسکتا۔بچے گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے ہیں وہ بھی دباؤ و تناؤ کے زیر اثرحالات میں۔شہروں میں بیشتر ایسے خاندان ہیں جہاں ماں اور باپ دونوں کام کرتے ہیں (ایسے بھی گھرانے ہیں جہاں والدین میں سے کوئی ایک کام کررہا ہے)۔والدین اور دیگر افراد خاندان کو، کوویڈ پروٹوکول کی پابندیوں میں گھرا دیکھ کر اور دیگر معاملات کی وجہ سے بچے شدید خوف،اضطراب،تناؤ اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔وہ باہر نکل کر کھیل نہیں سکتے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی جسمانی نشوونما متاثر ہورہی ہے بلکہ علمی و ذہنی نشوونما بھی مجروح ہوکر رہ گئی ہے۔
مذکورہ بالا حالات،اسباب و علل کے نتیجے میں میں بچوں کی سننے،بولنے،پڑھنے،لکھنے،غورکرنے،توجہ مرکوز کرنے،روزمرہ کے معمولات،ذہنی و جسمانی صحت میں تنزول ہوا ہے۔اس کے برخلاف ان کے چڑچڑے پن،سرکشی،اسکرین ٹائم،الکٹرانک آلات کی لت(Gadgets)وغیر ہ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔مذکورہ بالاحقائق ایک معذور یا مجروح نسل کے مسائل کی ترجمانی کرتے ہیں۔اسکولوں کی حقیقی کشادگی سے قبل ان مسائل پر غور وفکر کرتے ہوئے اختراعی پروگرامس کو وضع کرنا ضروری ہے تاکہ بچو ں کے بچپن اور ان کی اکتسابی صلاحیتوں کا تحفظ ممکن ہو۔ان تمام مسائل کا جادوئی حل اسکولوں کی حقیقی کشادگی اور کمرۂ جماعت کی تدریس میں پوشیدہ ہے۔ والدین اگر بچو ں کو اسکول بھیجنے میں تذبذب کا شکار ہیں تب ا ولیائے طلبہ کے خوف کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمہ جہتی تعلیم گھر کے دروازے تک (Holistic Education at Doorstep) کے عنوان سے ایک نظرثانی شدہ آن لائن پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی مذکورہ بالا دشواریوں کا سدباب ہو اور وہ ایسے نامساعد حالات میں بھی تعلیم و اکتساب کے سفر کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رکھا جا سکے۔اساتذہ،ماہرین تعلیم،تعلیم سے وابستہ افراد و ادارے اپنی قابلیت تعلیمی تجربات اور وسائل کا موثر استعمال کرتے ہوئے موجودہ دشوار تعلیمی حالات و مستقبل کے اندیشوں و خطرات کا سامنا کرنے میں اپنا تعاون پیش کریں۔