قربانی – تاریخ، فضائل اور مسائل
ڈاکٹر محمد نجیب سنبھلی قاسمی
(www.najeebqasmi.com)
قربانی کی تاریخ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام)کو ذبح کررہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو فرمانبردار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا: ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے، اسے کرڈالئے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ (سورہئ الصٰفٰت ۲۰۱)
آخرکار رضاء الہی کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے ٹکڑے کو زمین پر لٹادیا، چھری تیز کی، آنکھو ں پر پٹی باندھی اور اس وقت تک چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا نہ آگئی۔ اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا، ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ (سورہئ الصٰفٰت۴۰۱۔ ۵۰۱) چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کردیا۔ (سورہئ الصٰفٰت ۷۰۱) اس واقعہ کے بعد سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہوگیا۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ کی امت کے لئے بھی ہر سال قربانی نہ صرف مشروع کی گئی، بلکہ اس کو اسلامی شعار بنایا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں حضور اکرمﷺ کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گاان شاء اللہ۔
قربانی واجب ہے: امت مسلمہ قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہے، حضرت امام ابوحنیفہؒ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحب حیثیت پر اس کے وجوب کافیصلہ فرمایا ہے۔ قربانی کے وجوب کے دلائل کے لئے میرے مضمون (قربانی واجب ہے) کا مطالعہ کریں۔
قربانی کرنے کی فضیلت: نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا۔ (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی)۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے، لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی) صحابہئ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہئ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا اجروثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد) رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور اس عرصہئ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی)
ان مبارک ایام میں خون بہانے کی فضیلت:حضور اکرم ﷺ بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم ﷺ کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کے ان احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے جو قربانی نہیں کرسکتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر ان ہی قربانی کے ایام میں سو اونٹوں کی قربانی دی، ان میں سے ۳۶ اونٹ نبی اکرم ﷺ نے بذات خود نحر (ذبح) کئے اور باقی ۷۳ اونٹ حضرت علیؓ نے نحر (ذبح) کئے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عید الاضحی کے دن دو مینڈھے سینگوں والے،دھبے دار اور خصی ذبح کئے۔ (ابوداود) غرضیکہ ان ایام میں خون بہانا ایک اہم عبادت ہے۔
قربانی نہ کرنے پر وعید:نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد، ابن ماجہ)
قربانی کا وقت: قربانی کا وقت نماز عید الاضحی سے شروع ہوتا ہے اور ۲۱ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کی صورت میں رسول اللہﷺ نے دوسری قربانی کرنے کا حکم دیا ہے جیساکہ حدیث میں ہے، اس سے قربانی کا ابتدا ئی وقت معلوم ہوا۔قربانی کے آخری وقت کی تحدید میں فقہاء وعلماء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ (ایک روایت) نے ۲۱ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک تحریر کیا ہے۔ یہی قول احتیاط پر مبنی ہونے کے ساتھ دلائل کے اعتبار سے بھی قوی ہے کیونکہ کسی بھی حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ یا کسی صحابی نے ۳۱ ذی الحجہ کو قربانی کی ہو۔ صحابہئ کرام اور تابعین کے اقوال کتب حدیث میں مذکور ہیں کہ قربانی صرف تین دن ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر:بکرا، بکری، بھیڑ ایک سال کی ہو، بھیڑ اوردنبہ جو ہو تو چھ ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو اور گائے، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو، ایسے سب جانوروں کی قربانی کرنا جائز ہے۔
قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ قربانی میں بکرا (بکری، مینڈھا، دنبہ) ایک شخص کی طرف سے ہے۔ (اعلاء السنن)حضر ت جابر ؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے اور آپ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (مسلم) حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے۔ (مسلم)
قربانی کے جانور کا عیوب سے پاک ہونا:عیب دار جانور (جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں، اندھا جانور، ایسا کانا جانور جس کا کاناپن واضح ہو، اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو، وغیرہ وغیرہ) کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
بھینس کی قربانی کا حکم:جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ گائے واونٹ کی طرح بھینس کی بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ گائے واونٹ کی طرح بھینس کی قربانی میں بھی سات حضرات شریک ہوسکتے ہیں۔
خود قربانی کرنا افضل ہے:نبی اکرم ﷺ اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے، اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے، جیساکہ حدیث میں ہے نبی اکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قربانی پر حاضررہنے کو فرمایا۔
قربانی کا گوشت: قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھاسکتے ہیں، رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں اور غرباء ومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علماء کرام نے بعض آثار کی وجہ سے تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے کرلئے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ اپنے لئے، دوسرا حصہ رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ غرباء ومساکین کے لئے، لیکن اس طرح تین حصے کرنے ضروری نہیں ہیں۔
مرحومین کی جانب سے قربانی: جمہور علماء امت نے تحریر کیا ہے کہ مرحومین کی جانب سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ نبی اکرم ﷺ اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے، اس قربانی کو آپ ﷺ زندہ افراد کے لئے خاص نہیں کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضرت علیؓ نے دو قربانیاں کی اور فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور اسی لئے میں آپ ﷺکی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداود، ترمذی) تفصیلات کے لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر کردہ میرا مضمون (میت کی جانب سے قربانی) کامطالعہ کریں۔
قربانی کرنے والے کے لئے مستحب عمل: نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے، اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (مسلم)
ایک شبہ کا ازالہ:مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر بعض حضرات نے ایک نیا فتنہ شروع کردیا ہے کہ جانوروں کے خون بہانے کے بجائے صدقہ وخیرات کرکے لوگوں کی مدد کی جائے۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام نے زکوٰۃ کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی بہت ترغیب دی ہے مگر قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عظیم الشان کارنامہ کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹادیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلا چوں وچرا حکم الہی کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لئے اپنی گردن پیش کردی تھی۔مگر اللہ تعالی نے اپنا فضل فرماکر جنت سے دنبہ بھیج دیا، اس عظیم الشان کارنامہ پر عمل قربانی کرکے ہی ہو سکتا ہے محض صدقہ وخیرات سے اس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔ نیز ۰۰۴۱ سال قبل نبی اکرم ﷺ نے اس امر کو واضح کردیا: عید کے دن قربانی کا جانور خریدنے کے لئے پیسے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی، دار قطنی)قربانی کا مقصد محض غریبوں کی مدد کرنا نہیں ہے جو صدقہ وخیرات سے پورا ہوجائے بلکہ قربانی میں مقصود جانورکا خون بہانا ہے، یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہیں ہوگی۔ نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں غربت دورحاضر کی نسبت بہت زیادہ تھی، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام جانور ذبح کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرتے مگر تاریخ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا۔
قربانی سے کیا سبق حاصل کریں؟ (۱) جانور کی قربانی کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کو یاد کریں کہ دونوں اللہ کے حکم پر سب سے محبوب چیز کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئے، لہذا ہم بھی احکام الہی پر عمل کرنے کے لئے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی دیں۔ (۲) قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے۔ لہذا ہمیں من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہئے۔ (۳) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں بلکہ انہوں نے پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزاری،جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملا فوراً اس پر عمل کیا۔ جان،مال،ماں باپ، وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کردیا، ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم خوش وخرم عمل کریں۔ ">