ظفر احمد صدیقی – رشید حسن خان کے حوالے سے :- ڈاکٹر رؤف خیر

Share

ظفر احمد صدیقی – رشید حسن خان کے حوالے سے

ڈاکٹر رؤف خیر
حیدرآباد۔ دکن

ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی سے علمی دنیا تو واقف ہے ہی مگر ادبی دنیا کم کم ہی واقف ہے۔ انھوں نے اپنے آپ کو منوانے کے وہ جتن بھی نہیں کیے جو ان کے معاصرین کرتے رہے ہیں۔اللہ میاں نے بھی اپنے آپ کو منوانے کے ایک لاکھ چوبیس ہزار جتن کیے ہیں اس کے باوجود اس کی وہ قدر نہیں کی جاتی ہے جیسا کہ اس کا حق ہے وما قدر اللہ حق قدرہ۔
ظفر احمد صدیقی کی علمیت اپنی جگہ مسلمہ رہی ہے۔ بعض عربی محاورات اور ان کے صَرف سے متعلق بعض نقاد بھی اُن سے رجوع ہوا کرتے تھے اور ظفر احمد صدیقی کھلے دل سے اس عربی لفظ یا محاورے کے استعمال پر مدلل معلومات بہم پہنچا دیا کرتے تھے۔ان کی فراخ دلی اور کشادہ ذ ہنی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اردو کے لکچرر کی ایک اسامی کا اعلان ہوا۔ اس وقت وہ بنارس ہی میں تھے اور اُس جائیداد کے امیدوار تھے۔ ان کے قریبی دوست قاضی جمال حسین اُن دنوں گورکھ پور میں تھے۔ظفر صاحب نے نہ صرف اُن سے بھی اس اکلوتے پوسٹ کے لیے درخواست دینے کی گزارش کی بلکہ اپلی کیشن فارم Application Formانھیں بھجوایا اور وہ منگواکر یونیورسٹی میں داخل بھی کروایا۔ ڈاکٹر حکم چند نیر صدر شعبہء اردو بنارس ہندو یونیورسٹی نے قاضی جمال سے کہا کہ قاضی صاحب نے اپنے لیے خود مسئلہ پیدا کرلیا ہے۔ حالانکہ مسئلہ تو خود ظفر احمد صدیقی نے پیدا کرلیا تھا مگر جسے اللہ کی ذات پر اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہوتا ہے وہی سرخ روہوتا ہے چنانچہ لکچرر کی اس واحد پوسٹ پر ظفر احمد صدیقی کا تقرر عمل میں آیا۔ یہ ساری تفصیلات خود قاضی جمال حسین صاحب نے جناب ظفر احمد صدیقی کے تعزیتی جلسے میں بیان کیں جو انجمن ترقی اردو ہند دہلی کے زیر اہتمام آن لائن دو جنوری 2021کو منعقد ہوا جس کی نظامت برادرم تالیف حیدر نے کی اور جس میں پروفیسر قمر الھدیٰ، پروفیسر سراج اجملی، ڈاکٹر شمس بدایونی اور ڈاکٹر عمیر منظر نے اپنے تاثرات بیان کیے اور ناچیز رؤف خیر نے ظفر احمد صدیقی کے لیے قطعہ تاریخ وفات پیش کیا تھا یہ تمام تفصیلات فیس بک یوٹیوب پر دستیاب ہیں۔
قصبہء گھوسی، مؤ یو پی میں 10اگست 1955کو پیدا ہونے والے ظفر احمد صدیقی کی ابتدائی تعلیم مذہبی نوعیت کی رہی۔1972میں انھوں نے مظاہر العلوم سہارن پور سے فاضل حدیث کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے بنارس ہند و یونیورسٹی سے بی۔اے (عربی) 1976میں،ایم۔اے(اردو)1978میں کیا پھر ڈاکٹر حکم چند نیر کی زیر نگرانی ”شبلی نعمانی حیات و خدمات“ مقالہ لکھ کر 1981میں پی۔ ایچ۔ڈی کی ڈگری کے مستحق ٹھیرے۔
ظفر احمد صدیقی کا تین اپریل 1979کو بہ حیثیت لکچرر اردوبنارس ہندو یونیورسٹی میں تقرر ہوا۔ (جس اکلوتی اسامی کے لیے قاضی جمال حسین کو بھی ظفر احمد صدیقی نے درخواست دینے کی دعوت دے کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا تھا جس کا اعتراف خود قاضی صاحب نے فرمایا)۔ تقریبا ً اٹھارہ سال تک ظفر صاحب بنارس ہندو یونیورسٹی میں اردو لکچرر کی حیثیت ہی سے خدمات انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر حنیف نقوی صدر شعبہء اردو تھے۔ حکم چند نیر کو وظیفہء حسنِ خدمت پر علاحدہ ہو کر عرصہ گزر چکا اس کے باوجود نہ حنیف نقوی کو پروفیسر ہونے کا موقع مل رہا تھا نہ ظفر احمد صدیقی کو ریڈر بننے کی سعادت نصیب ہو رہی تھی چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریڈر کے پوسٹ پر تقرر ہوا تو ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو 19دسمبر 1997کو خیر باد کہہ کر دوسرے ہی دن 20دسمبر 1997کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریڈر کا عہدہ قبول کرلیا۔ اس موقع پر رشید حسن خان صاحب کا خط بنام پروفیسر حنیف نقوی پیش ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ظفر احمد صدیقی کی علمی صلاحیتوں کے کس قدر قائل تھے:

بہ نام پروفیسر حنیف نقوی
بہ مقام: ۷۶۱۔باڑوزئی۔دوم۔ شاہ جہاں پور
یکم جنوری ۸۹۹۱ء
نقوی صاحب!
ایک ذریعے سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی آپ کا شعبہ چھوڑ کر علی گڑھ چلے گئے۔ کیا یہ سچ ہے؟ اور اس لیے گئے کہ ان کو ریڈر شپ نہیں ملی اور ملنے کی توقع بھی نہیں رہی۔ کیا یہ بھی درست ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کے لیے،آپ کے شعبے کے لیے اور سب سے بڑھ کر آپ کی یونیورسٹی کے لیے شرم کی بات ہے۔اس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔صدیقی صاحب جیسا لائق، پڑھا لکھا اور کلاسیکی ادب سے واقف شخص اب آپ کو کہاں ملے گا۔ پورے ہندوستان میں ایسے شاید ایک دو ہی شخص ہوں گے۔ مجھے آپ پر افسوس ہوتا ہے کہ برسوں کے بعد بھی نہ آپ خود پروفیسر بن سکے اور نہ مولانا(ظفر احمد) کو ریڈر بنوا سکے۔ یہ مانتا ہوں کہ آپ بہت پڑھے لکھے شخص ہیں۔ ادبی تحقیق میں آپ کا بڑا مرتبہ ہے۔کلاسکی ادب پر آپ کی نظر قابل ِ رشک ہے۔آپ نے اب تک تحقیق کا نہایت عمدہ کام کیا ہے، ایسا کام جیسا دوسرے نہیں کرسکے۔مگر ایسے علم، لیاقت اور ایسی کار کردگی کا حاصل کیا جو خود بھی ترقی نہ کر سکے اور دوسروں کو ترقی نہ دلا سکے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے آپ کی یونیورسٹی پر،کس قدر مجرمانہ طرز عمل ہے وہاں کے اربابِ کارکا۔ نیر صاحب کے انتقال کو کئی برس ہوگئے آج تک پروفیسر شپ کا تقرر نہیں ہو سکا۔ اب یہ تازہ حادثہ،یعنی صدیقی صاحب کا جانا تو ایسا واقعہ نہیں، بل کہ حادثہ ہے کہ اس پر آپ کو اور آپ کی یونیورسٹی کو جس قدر بُرا کہا جائے وہ کم ہوگا۔ کیسے لائق شخص کو آپ نے چلے جانے دیا۔ اب ایسا دوسرا استاد ملے گا ہی نہیں۔ آپ کے سبب اردو کے طلبہ کا اور خود اردو ادب کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ آپ وہاں کرتے کیا ہیں۔ وائس چانسلر صاحب سے آپ نے بات نہیں کی؟ وائس چانسلر اس قدر غیر معقول تو ہوں گے نہیں کہ اتنے بڑے نقصان کو بہ خوشی گوارا کرلیں۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ کے علم و فضل کا میں کیا کروں گا جب آپ ایک لائق شخص کو ریڈر نہیں بنواسکے اور اپنی پروفیسری کے لیے بھی کچھ نہیں کرسکے۔آپ پروفیسر بنتے تب مولانا ریڈر بنتے۔کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجھے آپ سے اس کی توقع نہیں تھی کہ آپ اپنے شعبے کا اور اپنے طلبہ کا اتنا بڑا نقصان گوارا کرلیں گے اور کچھ نہیں کرسکیں گے۔ توبہ توبہ!! مجھے بہت تکلیف پہنچی ہے اور مجھے آپ سے بہت شکایت ہے۔ رشید حسن خان
(ملاحظہ ہو رشید حسن خان کے خطوط جلد دوم۔مرتبہ ڈاکٹر ٹی آر رینا صفحہ 182۔سنہ اشاعت جنوری 2016دوسرا ایڈشن)
ظفر احمد صدیقی صاحب سے رشید حسن خان صاحب چونکہ بہت متاثر تھے اس لیے ان کے بنارس ہندو یونیورسٹی سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے جانے پر وہ پروفیسر حنیف نقوی سے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔بے چارے حنیف نقوی صدر شعبہء اردو ہو گئے تھے یہی غنیمت تھا وہ کوئی حکم چند، گیان چند، گوپی چند تو نہ تھے کہ سرکاری سطح پر کچھ اثر و رسوخ رکھتے۔ اُن سے خان صاحب کو کچھ زیادہ ہی توقعات تھیں۔ یہ دراصل ظفر احمد صدیقی سے ان کی محبت تھی جو بول رہی تھی۔
ایک قول بعض لکھنے والوں کی تحریروں میں در آتا ہے۔رشید حسن خان جناب ظفر احمد صدیقی کے نام ایک خط مورخہ 9اپریل 1987کے ذریعے اس کی حقیقت معلوم کرنا چاہتے ہیں:خط کا ضروری اقتباس یہاں پیش ہے:
”…اب ایک زحمت: یہ مشہور قول ”ماعرفناک حق معرفتک“کچھ معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کس کا قول ہے؟ میرا من نے باغ و بہار میں اسے حدیث بنا کر پیش کیا ہے۔خیر، حدیث تو یہ نہیں۔ سعدیؔنے گلستاں کے دیبا چے میں اس کو درج کیا ہے مگر اس طرح کہ اس کا مقولہ ہونا واضح ہو جاتا ہے۔ چوں کہ مجھے باغ و بہار میں اس مقام پر یہ صراحت ضرور کرنا ہے کہ یہ ہے کیا؟ حدیث یا قول، یوں آپ کو زحمت دے رہا ہوں اور آپ ہی کے حوالے سے آپ کی تحریر درج کی جائے گی۔ اس طرف توجہ فرمایے مگر یہ درخواست ہے کہ التفات ِ توجہ جلد تر ہو اس لیے کہ حواشی کی کتابت شروع ہو گئی ہے۔ آپ کے خط کا مجھے ابھی سے انتظار ہے۔ نقوی صاحب کو بھی آج ہی خط لکھا ہے“۔ رشید حسن خان (رشید حسن خان کے خطوط۔ جلد دوم مرتبہ ڈاکٹر ٹی آر ریناصفحہ 391سنہ اشاعت 2016)
پتہ نہیں ظفر احمد صدیقی نے انھیں کیا جواب دیا کیوں کہ وہ خطوط منظر ِ عام پر نہیں آئے جو رشید حسن خان کو لکھے گئے تھے۔ البتہ ہم اپنے مطالعے کی روشنی میں یہ عرض کریں گے کہ یہ ایک موضوع روایت ہے:”ماعبد ناک حق عبادتک و ما عرفناک حق معرفتک“ (بحوالہ بحارالانوار جلد ۸۶ترجمہ موسوی ہمدانی جلد ۲ صفحہ ۹۲۔انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے)یا پھر دیکھ لیجئے مرآۃ العقول فی شرح اخبار آل الرسول علامہ مجلسی جلد 8صفحہ 146) یہ حوالہ ہی اس کے غیر مصدقہ ہونے کے لیے کافی ہے۔ صحیح احادیث کے کسی بھی ذخیرے میں یہ روایت نہیں ملے گی۔
ظفر احمد صدیقی کے نام اگلے ہی خط مورخہ 26اپریل 1987کو رشید حسن خان لکھتے ہیں:
برادرم۔خط مل گیا۔ شکریہ۔ ایک پہلو یہ ہے کہ زیر بحث ٹکڑا ممکن ہے کہ کسی حدیث کا درمیانی جز ہو۔ یہ محض احتمال ہے، مگر ہو سکتا ہے۔ہزاروں جعلی حدیثوں میں سے ایک یہ بھی ہو سکتی ہے…“ (رشید حسن خان کے خطوط جلد دوم صفحہ 392)
ایک محترمہ کا داخلہ جامعہ (ملیہ دہلی) میں ہو چکا تھا مگر وہ ہوسٹل کی سہولت کی خاطر دہلی یونیورسٹی میں داخلے کی امیدوار تھیں اس کے لیے وہ ظفر احمد صدیقی کی سفارش کے ساتھ رشید حسن خان صاحب کے پاس اس وقت پہنچیں جب کہ سب داخلے بند ہو چکے تھے خان صاحب نے ظفر احمد صدیقی کی سفارش پر بڑا دل چسپ خط مورخہ 3اکتوبر 1988انھیں لکھا (اقتباس)

”اُن خاتون کا کہنا یہ تھا کہ ہوسٹل اصل چیز ہے۔ وہ نہ ہو تو پھر سب بے کار ہے…ویسے اُن خاتون کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کرمحسوس یہی ہوا کہ
وہ جامعہ کے لیے مناسب تر ہیں۔ اس خاک کا خمیر وہیں کا معلوم ہوتا ہے…“ رشید حسن خان (رشید حسن خان کے خطوط جلد دوم صفحہ 394)
بڑے آدمی اپنی غلطی مان لینے میں دیر نہیں کرتے یہی ان کی بڑائی ہے۔ بعض تسامحات کے سلسلے میں ظفر احمد صدیقی نے جناب رشید حسن خان صاحب کو توجہ دلائی تھی۔ 8ستمبر 1992کے خط میں خان صاحب لکھتے ہیں:
عزیز مکرم صدیقی صاحب! سلام مسنون
لفافہ ملا۔ بھائی آپ کی تحریر پڑھ کر جی خوش ہوا اور بہت۔خدا آپ کو خوش و خرم رکھے۔ جن امور کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے ان کو میں نے بہ طورِ خاص دیکھا۔ اس میں ایک دو فرو گذاشتیں ہیں جیسے ایک جگہ بُشرے (پیش کے ساتھ)۔بشریت شاید اسی کو کہتے ہیں یا فاش غلطی جیسے الرسول ان سب کو میں نے یاد داشت کے صفحے پر لکھ لیا ہے۔ اگر میری زندگی میں اس کتاب کا دوسرا اڈیشن نکلا تو آپ کے حوالے سے ان کی تصحیح کردی جائے گی۔ آیندہ بھی اس سلسلے میں جو غلطیاں یا فرو گذاشتیں نظر آئیں، اُن سے مطلع کرتے رہیئے گا یہ دراصل کارِ ثواب ہے۔ میں مخلصین کی رائے کو بہت اہمیت دیتا ہوں خاص کر جب وہ اہلِ نظر بھی ہوں…
(رشید حسن خان کے خطوط۔جلد دوم صفحہ 397)
پتہ چلا کہ رشید حسن خان جیسے صاحب نظر نقاد جناب ظفر احمد صدیقی کو ”اہلِ نظر“ شمار کرتے ہیں اور اپنی کتابیں ظفر احمد صدیقی کے نام بھیجتے ہی رہتے ہیں۔ اپنے ایک خط میں مورخہ 4نومبر 1996کو فرماتے ہیں:
”…میری کتاب آپ کے پاس نہ ہو، یہ بات آپ کے لیے اس قدر باعثِ تاسف نہیں جس قدر میرے لیے باعث ِ شرم ہے۔
اپنی اس کو تاہی پر ”معذرت طلب“ ہوں۔ رجسٹری سے ایک جلد بھی بھیج رہا ہوں۔ اس کی رسید سے بھی مطلع کیجئے…“
یہاں ہم رشید حسن خان صاحب کی ”معذرت طلبی“ پر کچھ جسارتِ خیری سے کام لیتے ہوئے عرض کرنا چاہتے ہیں: ڈاکٹر ٹی آر رینا نے رشید حسن خان کے سیکڑوں خطوط تین جلدوں میں بہ نام مشاہیر حروفِ تہجی کے اعتبار سے جمع و مرتب کیے ہیں اور جو فروغ اردو NCPULکے مالی تعاون سے شائع ہو ئے ہیں۔ اپنے پچاسوں خطوط میں رشید حسن خان صاحب ”میں معذرت چاہتا ہوں“ کی جگہ ہمیشہ ”میں معذرت طلب ہوں“ لکھا کرتے تھے۔ ہم کسی سے کسی معاملے میں کچھ دریافت طلب ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ سامنے والا جواب دے اسی طرح تشریح طلب اُمور کا بھی مطلب ہوگا کہ ہمارا مخاطَب اُن اُمور کی صراحت و تشریح کرے۔ اسی طرح ”معذرت طلب“ کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ ہمارا مخاطب یا ہمارا مکتوب الیہ ہم سے معذرت چاہے کہ ہم اس سے معذرت طلب ہیں۔ رشید حسن خان صاحب کے گزر جانے کے بعد ہی ان کے غالی معتقد ڈاکٹر ٹی آر رینا (جموں کشمیر) نے تین ضخیم جلدوں میں رشید حسن خان کے خطوط اور تین ضخیم جلدوں میں ان کے مقالات جمع کرکے شائع کیے۔ اگر وہ حیات ہوتے تو ہم بڑے ادب سے اُن سے دریافت طلب ہوتے کہ میں معذرت چاہتا ہوں کی جگہ میں ”معذرت طلب ہوں“ کہنا کہاں تک درست ہوگا۔ یعنی آپ خود معذرت چاہتے ہیں یا سامنے والے سے معذرت کے متقاضی ہیں۔ معاف کرنا چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔ مگر برسبیل تذکرہ یہ بات آگئی ہے۔کوئی صاحب رشید حسن خان صاحب کی طرف سے فرض ِ کفایہ ادا کرسکتے ہیں۔خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ آیے پھر ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔
رشید حسن خان صاحب ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی کی خوش ذوقی اور صاحب نظر ی کے اس درجہ معترف تھے کہ اپنی کسی کتاب کا ظفر صاحب کے پاس موجود نہ ہونا اپنے لیے باعث ِ شرم سمجھتے تھے۔ یہ بھی ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں کہ رشید حسن خاں جیسا قلندر مزاج بے نیاز و بے باک نقاد ظفر صاحب سے حُسنِ نظر کا طالب رہا ہے۔ بے شمار مشاہیر کے نام سیکڑوں خطوط پر مشتمل تین ضخیم جلدیں گواہ ہیں کہ اتنا بڑا اعزاز خان صاحب نے کسی اور کو نہیں دیا۔
لکھنو اسکول سے متعلق ابواللیث جاوید کے تحقیقی مقالے کا خان صاحب نے سخت محاکمہ کیا تھا اسی طری ”علی گڑھ تاریخ ادبِ اردو“1963میں جب چھپ کر مارکیٹ میں آئی تو رشید حسن حان صاحب نے اس کی اس قدر خامیاں اور کوتاہیاں گناتے ہوئے ایک سخت تبصرہ ماہ نامہ ”تحریک“ میں 1963ہی میں چھپوا دیا کہ وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے حکم سے وہ کتاب ہی مارکیٹ سے اٹھالی گئی۔ خان صاحب جامعات میں ہونے والے تحقیقی کام سے خوش نہیں تھے۔ جامعات سے باہر کے لکھنے والوں کی کتابوں پر بھی خان صاحب سخت تنقید کرنے سے چوکتے نہیں تھے۔ ماہر ِ زبان و بیان سمجھے جانے والے شاعر جعفر علی خان اثر کے ”نغمہء جاوید“ کو بے سرا ثابت کردیا۔ حالانکہ یہ بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ تھا۔ فیض احمد فیض کے ”دستِ صبا“ کو تہہ سنگ کردیا۔ مجروح کی انانیت کو گھائل کر کے چھوڑا مقالات ِ رشید حسن خان چار ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ ایسے سخت ناقد ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی کی شاہ مبارک آبرو پر تحقیقی کام کی داد دیتے ہیں۔ یکم اکتوبر 1997کے اپنے خط میں خان صاحب لکھتے ہیں:
”آبروؔ کا انتخاب مل گیا۔ اس کے لیے خاص کر شکر گزار ہوں۔ قسطوں میں مطالعہ کررہا ہوں اور کروں گا۔ بعض اشعار پر کچھ لکھنا بھی چاہتا ہوں۔
مکمل ہونے پر اُسی نسخے کو آپ کے پاس بھیج دوں گا۔ شاید ایک آدھ بات درخورِ توجہ ٹھہرے۔ یہ کام آپ نے بہت اچھا کیاہے۔ دیکھ کر جی بہت خوش ہوا۔
مگر دوسرے کام کرنے والوں کے لیے آپ نے مشکلیں بھی پیدا کردی ہیں۔اب اس طرح کون کا م کرے گا…“
(رشید حسن خان صاحب کے خطوط جلد دوم صفحہ 408)
جس طرح خان صاحب نے ظفر احمد صدیقی کی دادِ تحقیق کو کھلے دل سے سراہا وہ بجائے خود قابل ِ داد ہے۔ اللہ کرے آبروؔ پر ظفرصاحب کا حقیقی کام جلد سے جلد اربابِ نظر تک پہنچے اور ظفر صاحب کی آبرو ے تحقیق قائم رہے۔ جس کام کی داد رشید حسن خان جیسا باریک بین مدون دے اس کے وقیع ہونے میں کلام ہی کیا رہ جاتا ہے۔
رشید حسن خان کے خطوط جلددوم کے صفحہ 400پر ظفر احمد صدیقی کے نام ایک بڑا دل چسپ خط ہے جس سے رشید حسن خان صاحب کی حِس مزاح بھی کھل کر سامنے آتی ہے بلکہ طنز و مزاح دونوں کا پتہ چلتا ہے۔
”ہاں صاحب!آپ نے لکھا ہے کہ عنیزہ اس کی ”اوٹنی“ کا نام تھا۔ ضرور ہوگا، عرب یوں بھی اونٹ کو لڑکیوں سے بہتر سمجھتے تھے۔اونٹ تو ان کے لیے کثیر المقاصد تھا اور لڑکی بس ایک کام کی، مگر یہاں اصل بات یہ نہیں تھی۔ لکھنا یہ تھا کہ آپ اس غریب کی اونٹنی سے کیوں ناراض ہیں کہ اس کے حصے کا ایک نون کاٹ لیا۔ اصل ”اونٹ“ اس سے اونٹنی بنے گا۔ دونون کے ساتھ ”اونٹنی“ میں واو غیر ملفوظ رہے گا مگر لکھا جائے گا۔ پہلا نون غنہ ہے اور دوسرا علامتِ تانیث کا جز ہے۔ آپ نے پہلا نون جو اونٹ سے نسبت کا تھا غائب کردیا اس طرح اس بے چاری کی حق تلفی کی کہ اس کی نسبت کی اصلی کڑی غائب ہوگئی۔ خیر، یہ تو مزاح المونین کے قبیل کی باتیں تھیں۔اصل مقصد تھا اس لفظ کے املا کی طرف توجہ مبذول کرانا۔ اور ہاں کم سے کم میرے خط میں تو ”پتا“ لکھیے۔”پتہ“ لکھ کر آپ نے اس کو معّرب بنالیا“ (جلد دوم)
یہاں عنیزہ پر یاد آیا کہ جاں نثار اختر کی دوسری بیوی سے پیدا ہونے والی لڑکی کا نام جاں نثار نے ”عنیزہ“ پتہ نہیں کیا سوچ کر رکھا تھا۔
14دسمبر 1997کو شاہ جہاں پور سے رشید حسن خان صاحب نے ظفر احمد صدیقی کے نام ایک بڑا دل چسپ خط لکھا ہے: (اقتباس)
”…تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بعض مقامات پر اعترافِ عجز کرنا ضروری ہوتا ہے اور میں اس کے لیے بہ خوشی آمادہ ہوں اور رہتا ہوں۔
اس لیے اگر بات یا باتیں واضح نہ ہو سکیں تو اس میں تکلف یا تامل کی مطلق ضرورت نہیں مگر خط تو لکھیں۔ چشم براہ ہوں…
ہاں ایک بات اور: گھوڑے کی تعریف میں میرؔ حسن نے کہا ہے کہ تیزی میں روح القدس سے دو چند تھا مثنوی (سحرالبیان کے)بعض نسخوں میں روح الفرس ہے۔ میں نے لغات چھان مارے یہ روح الفرس نہیں ملا۔ کیا آپ کی نظر سے کہیں گزر ا ہے؟ ویسے گھوڑے کو روح القدس سے دو چند کہنا ہے غضب کی بات، ہے نا! یہ بات میرؔ صاحب ہی کہہ سکتے تھے۔ خیر مجھے کیا۔ وہ بزر گوار خود اُن سے حساب لے لیں گے بروزِ حشر۔ اللہ میاں کے اندر بھی تو بعض صفات پٹھانوں والی ہیں۔ یوں حساب ضرور ہوگا۔ بچیں گے نہیں۔ وہاں آصف الدولہ کا دربار تو ہوگا نہیں کہ جو کہہ دیں چل جائے۔ ہاں بھائی مولانا! یہ بات آپ کو معلوم ہے کہ آصف الدولہ مفعول تھے۔ مفعول من یراد نہ سہی۔ اُن کے باپ خدا کے فضل سے فاعل تھے۔ (اس کے حوالے کتابوں میں موجود ہیں۔ صاحب زادے مجہول ثابت ہوئے۔ ہنسی آتی ہے اِن اودھ والوں پر۔ شجاع الدولہ ہمہ جنسی کردار (بائی سکسول) تھے بیٹے کے حصے میں صرف ایک پہلو آسکا اور ہاں نصیر الدین حیدر بھی رجو لیت سے محروم تھے۔ ویسے وہ کچی پیندی والے نہیں تھے۔اُن کے ولی عہد کے سلسلے میں یہ قضیہ اٹھاتھا۔ ”تاریخ اودھ“ میں تفصیل موجود ہے۔ مسعود حسن رضوی (ادیب) نجم الغنی صاحب کو ”تخم الغبی“ کہا کرتے تھے یوں کہ اس پٹھان نے چھپا یا کچھ نہیں سب لکھ دیا ہے۔ وہ تقیہ کرنا کیا جانے۔ میرے ایک بزرگِ خاندان کا قول تھا کہ جس پٹھان میں کھراپن، ضِد اور جہالت نہیں اس کے نطفے میں فرق ضرور ہے۔ خیر یہ دوسری باتیں چھڑ گئیں…“ (جلد دوم صفحہ 410)
جہاں تک رشید حسن خان صاحب کا معاملہ ہے ہم نہیں مان سکتے کہ ان میں جہالت کا ر فرما تھی البتہ ان کے کھرے پن اور ضِد کا ایک زمانہ قائل رہا ہے۔
رشید حسن خان صاحب کو ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی نے ”بنارس کا ادبی ورثہ“ کے موضوع پر منعقد ہونے والے ایک سیمینار کا دعوت نامہ بھیجا جس کے جواب میں خان صاحب نے شاہ جہاں پور سے 17مارچ 1996کو جو خط لکھا وہ بہت دل چسپ ہے۔ (ضروری اقتباس پیش ہے)

”…مگر میرے بھائی یہ آپ نے کیسے فرض کرلیا کہ میرے پاس الہ دین کا چراغ ہے کہ جس سے جو کام چاہوں فوراً ہوجائے۔
یا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غلام احمد قادیانی کی طرح مجھ پر بھی حسبِ دل خواہ وحی اترتی ہے۔دس دن میں مضمون لکھنا اور
پھر دونوں طرف کا رزرویشن حاصل کرنا مجھ جیسے کہولت زدہ کے لیے دوسری شادی کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔
جی تو میر ا بھی چاہتا ہے کہ آپ سب سے ملاقات ہو مگر کیسے ہو۔ آپ نے تو یہ اہتمام پہلے سے کرلیا کہ وقت اس قدر کم دیا جائے کہ
آدمی خود ہی اعترافِ عجز کے لیے مجبور ہوجائے۔ اس لیے آپ حضرات کی خواہش اور اہتمام کے مطابق اعترافِ عجز پیش کرتا ہوں۔ قبول فرمائیے…“
(رشید حسن خان صاحب کے خطوط۔جلد اول مرتبہ ڈاکٹر ٹی آر رینا سنہ اشاعت فروری 2011بہ تعاون فروغ اردو NCPULبہ اہتمام اردو بک ریویو دہلی 110002)
ظفر احمد صدیقی بہ ذاتِ خود دیندار آدمی تھے اور رشید حسن خان صاحب خدا ہی کے وجود کے منکر تھے۔ یہاں تک کہ جنت، حور و غلمان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ شاید یہی سب محسوس کرکے ظفر احمد صدیقی نے اپنے ایک خط میں اُن سے درخواست کی کہ ”اب آپ عمر کی آخری منز ل میں ہیں۔کچھ فکرِ آخرت بھی کیجئے“۔اسی کا محبت بھرا جواب دیتے ہوئے 11مارچ 1998کے خط میں لکھا:
”ہاں صاحب! آپ کی نصیحت میں نے گرہ میں باندھ لی ہے۔ گنٹھی مضبوط لگ گئی ہے۔ اب اُسے کھولنے کی کوشش کروں گا۔ جب بھی کھل جائے۔ بہ ہر طور میرا سدھار ہو نہ ہو آپ ضرورثواب کے حق دار ہوگئے اور ایک مسلمان کے لیے حصولِ ثواب کا واسطہ پیدا کرنا بھی شاید عمل نیک کے ذیل میں آئے گا۔ تو اس طرح مجھے بھی ثواب مل جائے گا۔ اِسے کہتے ہیں بیک کرشمہ دو کار۔جیتے رہئیے اور خوش رہیے اور مجھ جیسے واماندگانِ صراطِ مستقیم کے لیے روشنی فراہم کرتے رہیے۔ میں ممنون ہوں گا اور آپ ماجور۔ دونوں کا بھلا ہوتا رہے گا۔ شاید ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے الھم زد فزد۔ اب سلسلہء مراسلت منقطع نہیں ہونا چاہیے۔ خدا کرے آپ بہ ہمہ وجود بہ عافیت ہوں۔ (رشید حسن خان کے خطوط جلد اول فروری 2011صفحہ 698)
خواجہ الطاف حسین حالی ؔ نے اپنے استاد مرزا غالب ؔکو بھی دین اسلام کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی تھی۔فارسی میں وہ مراسلت بھی پڑھنے کے لائق ہے۔
”نقد و نظر“ میں ظفر احمد صدیقی کے دو تنقیدی مضامین شائع ہوئے تھے۔ غالب کی ایک فارسی غزل کا تجزیہ (نقد و نظر جلد 19۔شمارہ 2) اور تجزیہء غزلِ مومن (نقد و نظر جلد 21شمارہ 2) ان پر رشید حسن خان کی تحریر نہ صرف یہ کہ ظفر احمد صدیقی سے دلی لگاؤ کا بیّن ثبوت ہے بلکہ عام لکھنے والوں کے لیے بھی ان میں رہنمایانہ اصول دیے گئے ہیں:
شاہ جہاں پور
۶۱۔فروری ۹۹۹۱ء
بھائی مولانا!
آپ کس دیس چلے گئے ہیں۔کیاوہاں رسم پیام و سلام جاری نہیں۔ مجھے تو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ آپ کم از کم میرے ہاتھ سے تو گئے کہ آپ نے خبر لینا اور خط لکھنا چھوڑ دیا۔ایسا تو نہیں ہونا چاہیے۔ یا آپ کسی بات پر خفا ہیں؟ مگر ایسی تو کوئی بات ہوئی نہیں البتہ عالم خیال کی مجھے خبر نہیں۔
نقد و نظر میں آپ کی دو تحریر یں پڑھیں۔ آپ سامنے ہوتے تو داد دیتا۔ چوں کہ سامنے نہیں اس لیے یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بیان کی غیر ضروری طوالت نے ارتکاز کو ختم کردیا۔ آپ کی عمدہ باتیں بہت سی غیر اہم باتوں میں دب کر رہ گئیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ آیندہ اس کا لحاظ رکھیں اور ”بہ قدر ضرورت“ کا اصول سامنے رہے۔غزل کے تجزیے والی تحریر بہت طویل ہوگئی ہے اور اس طوالت نے آپ کی نکتہ سنجی کو ابھرنے سے روک دیا ہے۔ کاش یہ تحریر طویل نہ ہوتی کہ اس میں آپ کی طبع نکتہ سنج نے دادِ سخن فہمی دی ہے اور عمدہ باتیں کہی ہیں۔ بے اختیار میرا جی چاہا کہ آپ کو خط لکھوں اور توجہ دلاؤں اِن باتوں کی طرف یوں کہ میں آپ کا قدر داں ہوں اور آپ کی طبع نکتہ سنج کا قائل ہوں۔ اگر مصروفیت زیادہ نہ ہو تو خط لکھیے۔ مخلص رشید حسن خا ن (رشید حسن خان کے خطوط۔مرتبہ ٹی آر رینا فروری 2011صفحہ 700-701)
25فروری 1999کے ایک اور خط میں طول کلامی سے بچنے کی تلقین دل چسپ انداز میں کی ہے۔ (اقتباس دیکھیے)
…دیکھیے بھائی!۔ طول نگاری ارتکاز کی دشمن ہے اور اس سے بعض اور خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ میں نشان دہی کیا کروں۔
بطخ کے بچے کو تیر نا کس نے سکھایا ہے۔ آپ خود غور کرنے پر سمجھ لیں گے…ایک بات اور یاد رکھیے: ہم لوگ سب کے لیے نہیں لکھتے
ایک خاص حلقے کے لیے لکھتے ہیں وہی ہمارا اصلی مخاطَب ہے۔ اس لیے ایسی تمہیدیں یا زوائد قطعاً غیر ضروری ہیں ہاں کلاس روم میں
جب لکچر دیں تب یہ سب کہا جاسکتا ہے۔…جو کچھ معلوم ہے یا جو کچھ ذہن میں ہو سب کو شاملِ تحریر کرلینا اچھی تحریر کے منافی ہے۔
ہر جگہ صرف بہ قدر ضرورت لکھا جائے۔ تنقید اور تجزیے میں لفظی کفایت شعاری کی اہمیت بہت ہے اور تحقیق میں تو ہئی…
آپ نے محمد علی جو ہر کا وہ مشہور قول تو سنا ہوگا (وہ لمبے لمبے خط لکھا کرتے تھے) کہ مختصر لکھنے کا وقت میرے پاس نہیں۔
بڑی بلیغ بات کہی ہے انھوں نے۔ مختصر لکھنے کے لیے بہت غور کرنا پڑے گا۔ ذہن میں باتوں کو مرتب کرنا ہوگا۔
تجزیہ و تحلیل سے کام لینا ہوگا،تب اچھی مختصر تحریر وجود میں آئے گی۔ تحریر کو عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریر نہیں بننا چاہیے۔
(اسی نسبت سے اُن کا نام یاروں نے بخار اللہ شاہ عطائی رکھ دیا تھا)۔علی گڑھ میں رواں دواں اور قلم برداشتہ لکھنے کی روایت
پرانی ہے اور اب مزید اضافے اس میں ہو رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ پر اس کی پر چھائیں نہ پڑے…“
(رشید حسن خان کے خطوط پہلی جلد فروری 2011صفحات 702-703)
رشید حسن خان صاحب کے ان خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں وہ ظفر احمد صدیقی کی علمیت کے قائل تھے وہیں چاہتے تھے کہ ان کی تحریر وں میں کوئی کور کسر کوئی جھول رہنے نہ پائے۔
ہم بھی اپنی تحریر یہیں ختم کرتے ہیں کہ خان صاحب کی زد کہیں ہم پر بھی نہ پڑے۔

Dr. Raoof Khair
Moti Mahal, Golconda Hyderabad 500008.
cell: 9440945645
email:

رشید حسن خاں
پروفیسر ظفر احمد صدیقی
ڈاکٹر روف خیر
Share
Share
Share