کالم : بزمِ درویش – جھوٹ :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share

کالم : بزمِ درویش – جھوٹ

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

وہ میرے سامنے کھڑا میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کمال جرات اور ڈھٹائی سے پورے اعتماد سے کھلا جھوٹ بو ل رہا تھا لیکن میں اُس کی تربیت و اصلاح کے لیے اُس کے جھوٹ کو سچ مان رہا تھا انسان کا مطا لعہ میرا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے بلکہ اب تو میری یہ عادت بن چکی ہے کہ میں خدا ئے لازوال کے زمین پر خلیفہ حضرت انسان کو جب اچھائی برائی جھوٹ فراڈ نقطہ عروج پر دیکھتا ہوں تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اچھائی پر آتاہے تو ہسپتالوں کے ہسپتال خیراتی ادارے لنگر خانے اپنی ساری جائداد بیچ کر بنا ڈالتا ہے

جبکہ اِس کو وحشت قتل و غارت کا دورہ پڑتا ہے تو ہٹلر چنگیز خان ہلاکوخان امیرتیمور جیسے پاگل خونی درندے جو خونخوار فوجوں کے لشکر لے کر اپنے شہروں سے نکلے اور معصوم نہتے بچوں عورتوں بوڑھوں اور جوانو ں کے ساتھ بے قصور لوگوں کا قیمہ بنا کر شہروں کو راکھ کے ڈھیروں میں بدل کر دہشت کی خوفناک داستانیں رقم کر گئے آپ بھی اگر اِس مٹی کے پتلے کا مشاہدہ یا اِس کے کارنامے دیکھیں تو حیرتوں کے سمندر میں گم ہو تے چلے جائیں گے ایسا ہی ایک نمونہ یہ مزدور میرے سامنے کھڑا تھا جس کو ایک سال پہلے کسی کام کے سلسلے میں اپنے گھر لایا تو اِس نے ضرورت سے زیادہ پھرتی کا مظاہرہ کیا جو کام اِس کا نہیں تھا وہ بھی نہایت پھرتی اور تابعداری سے کیا ساتھ اپنی دوسری خوبیوں کا بھی تعارف کر ایا کہ آپ کو گھر میں کوئی بھی کام ہو تو آپ نے مجھے کال کر نی ہے میں ہر قسم کا کام کر لیتا ہوں اُس کی پھرتی تعاون سے بہت متاثر ہواکیونکہ کوچہ تصوف کا طالب عمل ہونے کے ناطے میں بھی انسان دوستی کا قائل ہو ں جب اِس مزدور کی انسان دوستی تعاون خلوص کو دیکھا تو متاثر ہو گیا کیونکہ نماز کے وقت پر اِس نے نہایت خشوع خضوع سے نماز ادا کی شام کو اس نے اپنے وقت سے زیادہ کام کیا کہ جو وقت نمازوں میں لگا وہ زیادہ وقت لگا کر پورا کررہا ہوں دوپہر کو ہم نے اِس کو کھانا دیا تو مزدوری لیتے وقت ا ِ س نے کہا آپ کھانے کے پیسے کاٹ لیں وہ میرے لیے رزق حلال نہیں ہے میں اپنے بچوں کو شروع سے ہی رزق حلال دیتا ہوں میں نے آج تک خود کو اور اپنے خاندان کو حرام کا ایک لقمہ بھی نہیں دیا میری زندگی کا مقصد صرف اور صرف رزق حلال ہے دوران کام مسلسل آنکھیں جھکا کر کام کرتا رہتا نظر اٹھا کر اہل خانہ کی طرف دیکھا تک نہیں اِس طرح یہ اپنے کردار کی گہری چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہو گیا اِس کے بعد دو تین بار جب گھر میں کوئی مسئلہ ہوتا اِس کو بلایاجاتا یہ نہایت تابعداری اور احسن طریقے سے کام کر کے جاتا جو پیسے دیتے یہ رکھ لیتا اِس طرح چند ملاقاتوں میں ہی یہ خود کو با کردار متوکل نیک انسان کے طور پر منوا چکا تھا لیکن میرے دماغ میں کہیں نہ کہیں اِس کے بارے میں شک تھا کہ اِس کے عمل میں خلوص اور گہرائی نہیں ہے پھر اُس نے پہلی بار مُجھ سے ادھار مانگا تو میں فوری طور پر اُس کو دے دیا اور ساتھ یہ بھی کہا تم یہ پیسے واپس نہ کرنا لیکن اِس نے پھر نیکی پارسائی کا دعوی کیا کہ میں ہر حال میں واپس کروں گا اب میں خاموشی سے اُس تاریخ کا انتظار کر نے لگا جب اِس نے پیسے واپس کرنے تھے جب وہ تاریخ آئی تو اِس نے آکر کہا کہ میرے والد صاحب چند دن پہلے وفات پا گئے ہیں اُن کے علاج پر پیسے لگ گئے جس کی وجہ سے میں واپس نہیں کرسکا اِس لیے میں بہت شرمندہ ہوں اب اِس نے کہا ادھار بہت چڑھ گیا ہے دعا کریں اللہ کو ئی سبب بنا دے غیبی رزق عطا ہو جائے تاکہ میں ادھار اتار سکوں میں نے اِس کو اور پیسے دئیے تو یہ واپسی کا وعدہ کر کے چلا گیا اگلے تین ماہ تک بھی اِس نے ادھار واپس نہ کیا بلکہ جب بھی آتا کسی کی وفات بیماری کا حادثے کا ذکر کر تا اب میں نے اِس کو چیک کرنا شروع کیا یہ کہاں رہتا ہے کونسا خاندان ہے عمل و کردار کا کیسا ہے تو حیران کن انکشافا ت ہوئے کہ جن کو یہ مختلف وقتوں میں مار چکا ہے حادثوں میں ان کے اعضا توڑ چکا ہے وہ سب تو سلامت ہیں اب جب میں نے اِس کو تنقیدی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ یہ شرافت نیکی کردار کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کولوٹتا ہے حیران کن بات یہ تھی کہ جھوٹ پر جھوٹ اِس ڈھڑلے اور ڈھٹائی سے بولتا کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے جھوٹ کا لیول یہ کہ اپنے والدین خاندان والون کو وقتی فائدے کے لیے مار دیتا اب یہ مُجھ سے جھوٹ بول رہا تھا میں اِس کے جھوٹ کو نظر انداز کر کے اِس کی اصلاح محبت پیار سے کرنا چاہ رہا تھااِس طرح ایک سال گزر گیا اب میرے سامنے اِس کا فریبی جھوٹا چہرہ کھل کر آگیا تھا میں اِس کے اصل روپ سے واقف ہو چکا تھا جبکہ اِ س کو میں شرمندہ نہیں کر نا چاہ رہا تھا میں اچھائی محبت سے اِس کو راہ راست پر لانا چاہ رہا تھا لیکن یہ جھوٹ فراڈ مکاری سے باز نہیں آرہا تھا آج یہ پھر میرے سامنے کھڑا تھا کہ میری بیوی زندگی موت کی کشمکش میں ہے مجھے زیادہ پیسے چاہئیں تو میں نے اِس سے کہا وہ کس ہسپتال میں ہے تو اِس نے ہسپتال کا نام بتایا میں نے کہا آؤ میں جا کر فری علاج کر اتا ہوں تو یہ پریشان ہو گیا بولا میں گھرسے کھانا لے کر آتا ہوں پھر آپ کو لے کر جاتا ہوں تھوڑی دیر بعد اِس کا فون آیا میری بیوی وفات پا گئی ہے اب لاش گاؤں لے کر جانی ہے مجھے پیسے دیں تو مجھے پہلی بار غصہ آگیا میں اِس کے کرایے کے گھر جس کا میں پہلے ہی پتہ کر چکا تھا پہنچ گیا جہاں پر اِس کے والدین اور بیوی زندہ جاوید موجود تھے تھوڑی دیر میں یہ بھی یہاں آگیا تو میں نے اِس کو بتایا تم جو کتنے مہینوں سے میرے ساتھ جھوٹ بول رہے تھے یہ سب لوگ تو زندہ ہیں تم کو خدا کا خوف نہیں آتا یہ بہت شرمندہ ہوا پھر میں واپس آکر زندگی کے ہنگاموں میں مصروف ہو گیا لیکن اِس کا جھوٹ پر جھوٹ اکثر یاد آتا ہے اور خدا سے دعا کر تا کہ اِس کی اصلاح کر دے اس کو تو بہ کا موقع نصیب کردے پھر چھ ماہ بعد اِس کی بیوی میرے گھر آئی اور بولی آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں بہت رو کر مجھے ساتھ لے گئی تو وہاں پر ڈھانچہ نما زندہ لاش بستر پر پڑی تھی بیوی نے بتایا یہ ساری زندگی جھوٹ بولتا رہا چند ماہ حادثے کا شکار ہوا دونوں ٹانگیں اور ایک بازو کاٹ دیا گیا اب یہ گوشت کا لوتھڑا بن کے بستر پر پڑا ہے مجھے بار بار کہتا تھا پروفیسر صاحب کو بلاؤ میں نے اُن سے معافی مانگنی ہے آپ اِس کو معاف کردیں میں اِس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا پیسے نکال کر اُس کے سرھانے رکھ دئیے اور نکل آیا یہ سوچ کر کہ انسان طاقت جوانی میں خدا کو بھول جاتا ہے لیکن اُس کی لاٹھی حرکت میں ضرور آتی ہے اِس کو جھوٹوں کی سزا مل چکی تھی۔

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
Share
Share
Share