ننھے حضور ﷺ ‘‘ کا تنقیدی جائزہ
صاحبزادہ منیب مسعود چشتی
Abstract
Biography of the Prophet SAW is one of the leading topics of Islamic studies, the following mentioned book is written on the particular part of the life of Prophet Muhammad SAW, one of its own kinds. Major distinct includes the fictional characteristics of this piece of work. So we can say that this work is part of both subjects Literature and Islamic studies. In this article you are going to read about different pros and cons of this type of writing, different aspects of writing like Intertextuality, faction, imagination and other styles of fictional and Islamic writings and the way how they are written and attached with each other.
Key Words: Distinct, pros and cons, Intertextuality, Faction, Imaginations.
تعارف
زیر نظر کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر لکھی گئی ایک منفرد کتاب ہے جو کہ برصغیر کی مشہور ادبی شخصیت اور بہترین افسانہ نگار احسان علی شاہ بی- اے، کی کاوش ہے ،کم و بیش تین سو ستر صفحات پر مشتمل یہ کتاب بنیادی طور پر پانچ ابواب میں تقسیم کی گئی ہے جن میں سے پہلے باب کو چھوڑ کر باقی ابواب مزید تین سے آٹھ حصوں یا فصول میں تقسیم کیے گئے ہیں جن کو نام دینے کے بجائے نمبر شمار دے دیا گیا ہے۔
اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس کو سیرت النبی کا حصہ بھی شمار کیا جاتا ہے جبکہ اردو ادب کی بھی ایک عظیم کاوش سمجھی جاسکتی ہے جیسا کہ ابتداء ذکر کیا گیا ہے کہ ناول کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت زندگی کے چند حسین لمحات کو قلم بند کیا گیا ہے۔
کتاب کی ابتداء حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے تجارتی قافلہ کی مکہ واپسی، اور آپ کی بیماری کے دنوں سےہوتی ہے،حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بچپن کے تذکرے پر کہانی کی صورت میں لکھی گئی کتاب کا اختتام حضرت آمنہ کے سفر آخرت یعنی مدینہ سے مکہ کے سفر پر ہوتا ہے جس میں آپ رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال مبارک ہوا تھا یعنی اس کتاب کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بچپن کے دو مماثلت رکھنے والے واقعات اسکا اول و آخر ہیں۔
اسلوب
پہلا باب چونکہ انتہائی مختصر اور صرف عرض مصنف پر مشتمل ہے لہذا اس کو دیگر فصول میں تقسیم نہیں کیا گیاہے۔دیگر تمام ابواب کو مواد کی مناسبت سے نام دیے گئے ہیں اور ہر باب کی ابتدا ایک خوبصورت نعتیہ شعر سے کی گئی ہے۔ اسلوب انتہائی سادہ ہے طنزومزاح کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ سلیس اردو ،پر مشتمل واقعات کو جوڑ کر ایک کہانی کی شکل دی گئی ہے جو کہ مکالمات، تخیلات اور بیانیاں گفتگو کا مجموعہ معلوم ہوتے ہیں، دیگر اصناف کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہانی کا حسن مصنف اور کرداروں کے تخیلاتی جملوں سے نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ مختلف توجیہات، واقعات کا باہم مربوط ہونا اور تمثیلات کا تذکرہ بھی معمولی حیثیت نہیں رکھتا۔
حقسانہ (Faction)
فیکشن یعنی حقسانہ، دو الفاظ حقیقت (Fact) اور افسانہFiction) (کا مجموعہ ہے جس سے مراد ایسا ناول یا افسانہ ہے جس میں حقیقی واقعات اور کرداروں کو افسانوی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔شرط یہ ہے کہ بیانیاں حقائق سے قریب تر ہو۔اس کی اہم مثال ٹرومین کپوٹے کی کتاب In Cold Bloodہے۔[i]
یقینا سیرت النبی کے موضوع کو اس سے پہلے فیکشن کی طرز میں ذکر نہیں کیا گیا، ہمیں کچھ شواہد تو ملتے ہیں کہ اسلامی کتب میں سیرت مبارکہ کے تذکرے کہیں واقعات کی صورت میں بھی بیان ہوئے ہیں لیکن ان کو ناول کی شکل نہیں دی گئی اور اگر کہانی کی شکل دی گئی ہے تو پھر وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ نہیں بلکہ دیگر مشہور شخصیات کے حالات زندگی ہوا کرتے ہیں جن کو اس شکل میں لکھا گیا ہے مثال کے طور پر محمد بن قاسم وغیرھم پر لکھے گئے ناول، خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ کتاب اس نوعیت کی لکھی گئی واحد کتاب ہے۔
حقسانہ ِ نبوی
مندرجہ بالا بحث سے استدلال کرتے ہوئے اس کتاب کی صنف حقسانہ نبوی تجویز کی جاتی ہے یعنی ایسا ناول جو کہ سیرت کے حقیقی واقعات سے منسوب ہو۔
اگر بات سیرت کے موضوع کی جائے تو مصنف کا اس موضوع پر کافی مطالعہ معلوم ہوتا ہے کیوں کہ مصنف کی لکھی گئی چند دیگر کتب جن میں "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جہاد میں” اور” تلخیص سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم” احسان بی- اے کا علامہ شبلی نعمانی کی سیرت النبی پر لکھا گیا خلاصہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں ۔جبکہ مصنف کے افسانوں کے مجموعات جو کہ اس وقت بھی برصغیر کی مشہور ادبی ویب سائٹ ریختہ پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں ان کی ادبی صلاحیتوں کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصنف نے سیرت النبی کے مبارک موضوع کو ناول کا رنگ کیسے دیا تو اسکا جواب خود ہی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
” میں نے برکہ بن کر محمد کو اپنے سینے سے لگایا ہے۔ میں نے مائی حلیمہ کا سایہ بن کر محمد کو پاؤں پاؤں چلتے دیکھا۔ ان توتلی باتوں کو سن کر گھنٹوں جھوما ہوں جو بادیہ بنو سعد کے خیموں میں گونجی ہوں گی۔[ii]
کتاب میں ہم اس پہلو کو تو بعد میں دیکھیں گے کہ کس حد تک گستاخی کا عنصر موجود ہے ،مگر یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ ان سیرت کے واقعات کو افسانہ نگاری کے رنگ میں رنگنے کے لئے کس طرح مصنف نے معلومات کوتصوراتی سانچہ میں ڈھالا ہے۔اسی بات کو خود آغاز میں ہی ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں کہ:
” مجھے خدائے لا یزال کے اس عظیم احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے جس نے مجھے ایک ناول نویس کی قوت متخیلہ بخشی ،میں اس قوت کے سہارے دربار نبوت میں باریاب ہونے کی سعادت حاصل کرسکا ہوں ۔”[iii]
لیکن ساتھ ہی ساتھ مصنف اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے اس مجموعہ الفاظ میں کوئی بات تخیلاتی یا غیرمدلل موجود نہیں ہے، لہذا لکھتے ہیں کہ :
"اوراق کا یہ مجموعہ جو آپ کے ہاتھوں میں ہے ناول نہیں ہے گو اس کا انداز اور واقعات کو بیان کرنے کی تکنیک ناول ہی کی ہے باایں ہمہ یہ ناول نہیں ان اوراق میں میں نے اپنے ان واردات کو قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ محمد کا لفظ میرے قلب و دماغ پر طاری کرتا ہے۔ "[iv]
یہاں ایک بات عرض کر دی جائے آئے کہ افسانہ نویسی کے متعلق مصنف کے اپنے ہی الفاظ میں ہمیں اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے جیسا کہ مصنف کے مجموعہ افسانہ میں ہمیں یہ جملے لکھے نظر آتے ہیں۔
"جھوٹ بولنے کی عادت نے بھی چولہ بدلہ اور میں اپنے احباب کے حلقے میں افسانہ نویس بن بیٹھا، اس سے خدانخواستہ میرا یہ مطلب نہیں کہ میں افسانہ نویسی کو جھوٹ کے ہم معنیٰ سمجھتا ہوں یا اپنے ملک کے مایہ ناز افسانہ نگاروں کو سب سے بڑا جھوٹا تصور کرتا ہوں یہ ہرگز نہیں "[v]
"بالخصوص افسانہ نویسی کے متعلق تو میرا ایمان یہ ہے کہ افسانہ نویسی اور دروغ گوئی دو ایسی ندیاں ہیں جن کا مخرج ایک ہے جو شروع شروع میں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ایک سمت کو بہتی ہیں البتہ کچھ آگے چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور ان میں سے جو غلاظت اور کیچڑ سے ہو کر نکلتی ہے اسے دروغ گوئی کہا جاتا ہے اور جو صاف شفاف چٹانوں میں سے موتی اچھالتی ہوئی گزر جاتی ہے اسے افسانہ نویسی کہتے ہیں یہ میرا ذاتی خیال ہے ۔”[vi]
"میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری افسانہ نویسی اسی جھوٹ کی ایک شاخ ہے، یا بالفاظ دیگر جو کچھ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اسی قسم کی گپیں ہیں جو میں سکول کے گراؤنڈ میں بیٹھ کر ہا نکا کرتا تھا۔ البتہ گزرے ہوئے دنوں اور موجودہ ایام میں ایک لطیف نفسیاتی فرق پیدا ہو چکا ہے فرق کیسا یوں کہیے کہ انقلاب آ چکا ہے ۔ "[vii]
افسانہ نگاری کرتے ہوئے انہوں نے اگر معاشرتی مسائل کو ذکر کیا ہے تو اس کے متعلق واضح کہہ دیا ہے کہ یہ وہ افکار ہیں جو ان کے تخیلات میں ہمیشہ سے بھٹکتے رہے ہیں یعنی ان باتوں سے مصنف کے افکار واضح ہو جاتے ہیں کہ وہ افسانہ نویسی کو ایک تخلیق ہی تصور کرتے ہیں مگر وہ تخلیق جو کہ صراط مستقیم کی صفات رکھتی ہے۔ پھر دوسری توجیہ بھی ہے کہ مصنف نے خود ہی اپنے الفاظ میں اپنے ذہنی انقلاب کا ذکر کیا ہے یعنی بچپن میں مزاح کرنے والے، جوانی میں افسانہ نگاربن بیٹھے تو اب کہا جا سکتا ہے کہ وہ انقلاب جب ان کے خیالات کو مزید پاکیزہ کرتا ہے تو وہی افسانہ نگاری ننھے حضور کی شکل میں ہمارے سامنےہمارے سامنے آ جاتی ہے۔
ننھے حضور اور تخیلاتی عنصر
"کعبے کے خدا۔۔۔۔تو نے میرے عبداللہ کو مجھ سے چھین لیا۔میرے عبداللہ کو۔۔۔۔میں تجھ سے اس کی نشانی مانگ رہا ہوں ہوں،کعبے کے دیوتاؤ۔۔۔۔! اگر تم صرف پتھر نہیں ہو تم میرے عبداللہ کی نشانی مجھے دو۔۔۔۔”[viii]
"مالکن حضور برکہ کے جانے کے بعد دیوار کی طرف کروٹ کرکے لیٹ گئی تھیں۔گویا اپنے آپ کو دیوار کے آغو ش میں بکھرے ہوئے سایوں میں چھپا دینا چاہتی ہیں۔
کیا یہ سب عبداللہ کی موت۔۔۔۔؟
نہیں۔۔۔۔!
آمنہ بنت وھب نے بے چینی سے کروٹ لی۔ دیوار کی آغوش میں سمٹے ہوئے سائے کمرے میں پھیلے ہوئے سر مئی دھند لکوں سے زیادہ پریشان کن ثابت ہو رہے تھے۔وہ ان دھندلکوں سے پلٹ آئیں۔۔۔۔! وہ ذہن پر سے ان یادوں کو کھرچ دینا چاہتی تھیں۔
توڑ کر پھینک دینا چاہتی تھیں۔۔۔۔!”[ix]
"عجیب کنیز تھی یہ برکہ۔۔۔۔! اسے اتنا بھی احساس نہیں کہ اسے دام دے کر خریدا گیا تھا۔اس کی اس بے حسی پر مالکن کو پیار آ گیا اور وہ کھل کھلا کر ہنس پڑیں۔ "برکہ۔۔۔۔!” سردار قریش کی آواز سیڑھیوں کے محرابوں سے ٹکرائی۔ "ارے جا پگلی۔۔۔۔” مالکن نے ہنستے ہوئے کہا۔”سردار آقا ناراض ہوں گے۔”[x]
شروع میں ذکر ہوا کہ کسی واقعے کو اگر فکشن کا رنگ دینا ہو تو ایسا کرنا تخلیق و تخیلات کے بغیر نا ممکن ہیں، مندرجہ بالا امثال سے وضاحت ہوتی ہے کہ کس طرح مصنف سیرہ کے واقعات کو افسانوی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ مندرجہ ذیل مثال میں واضح ہوتا ہے کہ معلومات کو کہانی کا اسلوب دینے کیلئے کیسے الفاظ کے ہیر پھیر اور تخیلات کی مدد سے حسن دیا گیا ہے۔
"ابولہب بھی آج صبح ہی صبح اپنے والد عبدالمطلب کے گھر آ گیا تھا ۔ارادہ یہ تھا کہ پورے کا پورا کنبہ عکاظ کے میلے میں جائے گا بچے اور عورتیں بھی سیر کرلیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ابولہب کچھ تجارت بھی کر لے گا ،اس کے علاوہ محمد کی پیدائش کی خوشی میں ابولہب نے جو لونڈی آزاد کر دی تھی اس کی وجہ سے گھر اورکاروبار میں دقت ہو رہی تھی "۔[xi]
بین المتونیت (Intertextuality)
اس کتاب کے چوتھے باب مکہ کی ساتویں فصل جو کہ کتاب کے ڈھائی سو صفات مکمل ہونے پر شروع ہوتی ہے اور پونے تین سو صفحات تک جاری رہتی ہے، یہ مکمل فصل چونکہ حضرت عبدالمطلب کے زمانے کے ایک عیسائی راہب سے متعلق ہے لہذا اس میں نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پیدائش سے متعلق جابجا دیگر الہامی کتب کے حوالہ جات دیئے گئے ہیں اور انہیں کتب کے متون سے استدلال کرتے ہوئے، اس راحب کا اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آنا دکھایا گیا ہے بظاہر تو ایک عیسائی راہب اپنی کتب سے استفادہ حاصل کر رہا ہے مگر واضح یہ ہوتا ہے کہ مصنف حسب و نسب محمد رسول اللہ کا ڈنکا غیر مسلموں کے سامنے انہیں کی کتب سے بجانا چاہتے ہیں مثال کے طور پے حضرت موسی علیہ السلام کی کتاب استثنا کے 18 ویں باب کی یہ آیت اسی باب میں ہے:
"میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گااور جو کوئی میری باتوں کو جنھیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔”[xii]
مصنف یہاں راہب کی شکل میں ثابت کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ آیات یسوع مسیح کے لئے نہیں بلکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازل ہوئی تھیں ۔
عقیدہ توحید کی تخیلاتی منظر کشی
"اگر فرض کر لو کہ اللہ کے نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی۔”
پھر وہی۔۔
تم سنو تو۔۔
اچھا کر لیا فرض ۔۔
تو پھر یہ کاہن لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔۔؟
میرے دل کی بات پوچھتی ہو۔۔؟
ہاں۔۔
ناراض تو نہ ہوگی۔۔؟
نہیں۔۔
ہوا وعدہ۔۔؟
ہاں ہوا۔۔
جس طرح ہماری بکریاں ہیں نہ ۔۔
ہاں۔۔
بھئی دودھ دیتی ہیں ہم پیتے ہیں گوشت کھاتے ہیں پنیر کھاتے ہیں ۔۔
ہاں۔۔
اسی طرح کاھنوں کے لئے خدا کی بیٹیاں ہیں ۔۔
مطلب۔۔؟
اگر یہ خدا کی بیٹیاں اور بیٹے نہ ہو تو کانوں کو کھانا کہاں سے ملے ۔” [xiii]
اس مکالمے کے ذریعے مصنف کا وجدان کسی طور نسبت محمدی رکھنے والی شخصیات کے ملت ابرھیمی پر قائم ہونے کی توجیہ پیش کرتا ہے۔اسی طرح کی ایک مثال حضرت عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ کے واقعات سے بھی ہمیں ملتی ہے کہ جہاں حضرت عبد المطلب کا حضرت عبداللہ کی افزائشِ نسل کے متعلق پریشانی کے اظہار میں مصنف مبالغے کے ساتھ برہنہ طواف کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں وہاں پیدائشِ پیغمبر کی خوشی میں دعوت کے دوران شراب نوشی پر پابندی لگا دینے سے ان کی شخصیت کے مثبت پہلو کو بھی اجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔
بیان حسن مصطفیٰ
سیرت النبی کے موضوع پر قلم اٹھانے والوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ کبھی بھی سیرت کی کوئی کتاب ذکر ِحسنِ مصطفی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ،سید الانبیاء اور افضل البشر ہمارے نبی ظاہری و باطنی ہر لحاظ سےبلند درجہ رکھتے ہیں ۔چاہے روحانی اخلاق و صفات کی بات ہو ، چاہے جسمانی حسن و جمال کا ذکر ہو آپ کا کوئی ثانی نہیں اسی وجہ سے آپ کے حسن و جمال کا تذکرہ آپ کی سیرت مبارکہ کا ایک اہم جزو ہے۔
زیر نظر کتاب میں بھی اس پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔ہاں مگر ایک فرق ضرور ہے کتب سیرہ میں عموما شمائل و خصائل پر ایک علیحدہ باب یا فصل درج ہوتی ہے مگر یہاں افسانوی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے کردار سے متعارف کرواتے ہوئے حسن و جمال کا ذکر کیا گیا ہے ۔
"سردار قریش نے دیکھا ننھی ننھی سرخ مٹھیاں فضا سے لڑ رہی تھیں۔ننھی آنکھیں بند تھیں اور چھوٹا سا سرخ دہانہ زندگی کے فوارے اچھال رہا تھا۔ چھوٹی سی ناک اونچی پیشانی گیلے گیلے ریشم جیسے بال نہ کہ اوپر ملی ہوئی بھنوؤں کی پتلی سے لکیر اور چھوٹی چھوٹی سرخ رگوں کا جال جو زرد زرد کھڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے رونگٹوں کی تہہ میں بنا ہوا تھا ۔” [xiv]
نازیبا الفاظ کا استعمال
اولا تو یہ کہ اس جسارت کی کوشش آج تک کسی نے نہ کی اسی لئے ہمیں اس صنف کی یہ واحد کتاب ملتی ہے۔ پھرعصر حاضر میں یہ بحث عروج پر ہے کہ انبیاء اور صحابہ کی شبیہ دیکھنا خطا و گستاخی ہے، اگر مجموعی طور پر ادبی لفظ "آرٹس” کا استعمال کیا جائے تو سکرین پر بنائی گئی فلم، اسی افسانہ و ناول میں کئے گئے نقش و نگار کی ہی ایک تصویری شکل ہے۔[xv] جس کی بنا پر افسانہ نگاری کو اس منزہ موضوع سے دور رکھنا ہی مناسب لگتا ہے مگر آج تک الفاظات کے ذریعے کھینچے گئے نقش و نگار پر کبھی فتوی نہیں لگا کیونکہ کچھ اسناد سے ہمیں سیرت کے مختلف اجزاء کا ثبوت ملتا ہے کہ کس طرح لسانیت کے ماہر عرب، شمائل و خصائل ِ مصطفےٰکی تصویر کھنچتے ہیں۔ بلکہ موجودہ دور میں آنے والی فلموں پر بھی جو فتوی لگائے گئے ہیں اس کی بنیاد یہ ہے کہ فلاں کام عزت گھٹانے، گستاخی کرنے اور بے ادبی ہی کی نیت سے کیا گیا ہے ،جس میں نا زیبا منظرکشی بغض و عناد پر دلالت کرتی ہے اور اس بنیاد پر زیر نظر کتاب خطرے سے بچ جاتی ہے کیونکہ بہرحال کتاب کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کے مصنف کا مقصد فقط بارگاہ رسالت سے فیض حاصل کرنا اور اپنے تخیلات کے مطابق عشق و محبت کا اظہار کرنا ہے، رہی بات کچھ گستاخانہ جملوں یا پھر اختلافی موضوعات کی تو ان سے بچا کر کتاب لکھنے سے کتاب کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ ممکن تھا ۔
جیسے کہ حضرت عبدالمطلب سے متعلق یہ جملے موجود ہیں :
"عرب کے دیوتاؤں۔۔۔۔میرا انعام دو۔۔۔۔میرے عبداللہ کی نشانی مجھے دو۔ اور عبدالمطلب کعبے کی اوٹ سے نکلے اور کعبے کے اردگرد طواف کرنے لگے۔وہ سر تا پا برہنہ تھے۔ان کے کپڑے ایک طرف پڑے تھے اور وہ تیزی سے کعبہ کے گرد طواف کر رہے تھے ۔ ان کے چہرے سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ دعا نہیں کعبہ کے دیوتاؤں سے اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ "[xvi]
علماء کی اکثریت اس بات پر بھی غور کر سکتی ہے کہ وہ جملے یا حرکات جن کی سند موجود نہیں ان کو ذات بابرکات سے منسوب کرنا بارگاہ رسالت میں بے ادبی و گستاخی ہے جیسے یہ مکالمہ:
"دادا کے پاس جاؤ بیٹا ۔۔
بیمار تو آپ ہیں امی ۔۔؟
میں اب اچھی ہو جاؤں گی۔۔
اس وقت میں بھی دادا کے پاس چلا جاؤں گا۔۔”[xvii]
"محمد۔۔۔۔
امی۔۔۔۔
ادھر آؤ۔۔۔۔اور محمد بھاگ کر ماں کی گود میں آ گئے۔
محمد۔۔۔۔تم جانتے ہو۔۔۔۔تم یتیم پیدا ہوئے تھے ؟”[xviii]
عین ممکن ہے کہ ایسا وقوع پذیر ہوا ہو، یہی باتیں بھی ہوئی ہوں گی مگر صحابہ و تابعین کے دور تک تو کسی غیر منسوب بات کو ذکر کرنا وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا یہی وجہ ہے کہ کئی سال تفسیر و احادیث کا علم صرف روایات تک ہی محدود رہا اور فلسفہ و قیاس کی ملاوٹ نہ ہوئی۔ مگر بعد میں آنے والے مفسرین نے یہ کوشش صرف کتاب و سنہ کی حدود میں رہ کر کی۔
اگر اس کتاب کے نظریات و فلسفے کے متعلق بات کی جائے تو مصنف آغاز میں ہی ان الفاظ میں معافی کے طلبگار اور جواز کی توجیہ پیش کرتے ہیں:
"علمائے تاریخ کو ان اوراق میں ایک نہیں ہزاروں غلطیاں دکھائی دیں گی ۔میں ان کی پیشانی پر غصے کی سلوٹیں ابھرتی اور بے قرار ہوتی دیکھ رہا ہوں لیکن میں پھر وہی بات دہراؤں گا کہ مجھ گناہگار کے پاس لے دے کر ایک ہی سرمایہ ہے اور وہ محمد کی ذات قدسی سے محبت ہے۔میں نے اس محبت کو ناول نگار کی قوت متخیلہ کی کمک پہنچائی ہے ۔”
"مجھ سے بھی ممکن ہے محبت کی بے شعوری میں کچھ حماقتیں سرزد ہوگئی ہوں ۔میں تہ دل سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتا اور سرکار مدینہ سے ان کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہوں۔میں دیکھ رہا ہوں کہ دنیا کے لیے رحمت بن کر آنے والے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے اور میری ہر کوتاہی پر تقصیر معاف کر دی گئی ہے۔اس کے بعد میں کسی کے سامنے اپنی تنگ دامانی کے اعتراف یا اعتبار کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔”[xix]
کتاب کے روحانی اثرات
ایک تو کتاب ادبی حسن سے لبریز ہے ، مصنف کے محبت بھرے خیالات کی عکاسی کرتی ہے اور دوسرا تذکرہ محبوب اور پھر اس تذکرے کو پڑھ کر قاری کے تخیلات کا زمانہ پیغمبری میں پہنچ کر ہر منظر کا لطف اٹھانا ،ادب و محبت اور اطاعت کا بڑھ جانا کسی صورت مبہم نہیں رکھا جا سکتا ، اگر کہیں الفاظ کی جسارت بہت پریشان کرتی ہے تو دوسری جگہ الفاظ و خیالات کی منظم منظر کشی دل موہ لیتی ہے۔
کتابت و طباعت
زیرنظر نسخہ ۲۰۰۱ عیسویں میں نگارشات لاہور کا طبع ہوا۔ ٹائٹل پیج پر سبز گنبد کا حسین منظر ٹائٹل کی کتاب کے ساتھ عمدہ نسبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس دور کی مناسب قیمت کے ساتھ بہترین صفحات کا یہ مجموعہ کتاب کی طباعت کا خود ذمہ دار ہے ۔
اس کے علاوہ یہ کتاب نہ صرف پی ڈی ایف فائل کی صورت میں انٹرنیٹ سے با آسانی مل جاتی ہے بلکہ سن ۱۹۸۰ میں آئنہ ادب لاہور سے بار دوم، ۲۰۰۶ اور ۲۰۱۲ میں نگارشات سے جبکہ ۲۰۱۳ میں اسلام بک ڈپو لاہور سے بھی طبع ہو چکی ہے۔ یہ وہ ریکارڈ ہے جو کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی مرکزی لائبریری میں موجود ہے ، بہر حال طباعت کی کثرت مصنف کی اس کاوش کے مقبول ہونے کا دعوی کرتی ہے ۔
حرف ِ آخر
مندرجہ بالا بحث سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ یہ کتاب پڑھے جانے کے قابل ہے، کیونکہ انسان سے خطا ممکن ہے، جب بڑے آئمہ اس کا اعتراف کرتے ہیں،مشہور سیرت نگار بھی ایسی کاوش میں خطا کو ممکن جانتے ہیں،[xx] تو فقظ کچھ قابل غور الفاظات کی بنا پر کتاب کو غیر معیاری قرار دینا انصاف نہیں ہے۔
عموما آخری سطریں مقالے کا نچوڑ ہوا کرتی ہیں مگر خلاف معمول میں اپنے محترم و مکرم اساتذہ و طلباء قارئین و محققین سے مؤدبانہ عرض کرونگا کہ بارگاہ رسالت میں بے ادبی اور گستاخی کا موجودہ پیمانہ مزید تحقیق طلب ہے اور کوئی بھی انسانی تخلیق چاہے تصویری ہو یا الفاظ کی شکل میں بہرصورت آداب و بے ادبی کے درمیان ایک واضح تقسیم کی متمنی ہے ۔ لہذا اس قابل غور موضوع پر تحقیق کرکے وضاحت کے ساتھ اصول و ضوابط تشکیل دیے جائیں تاکہ مجھ جیسے کم علم قارئین ادب کا پہلو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بارگاہ
[i] ڈاکٹر سہیل احمد خان،محمد سلیم الرحمان،منتخب ادبی اصطلاحات،سویرا آرٹ پریس،لاہور،۲۰۰۵ عیسوی،ص ۸۳
[ii] احسان علی شاہ، بی -اے ،ننھے حضور ، نگارشات پبلشرز،لاہور۲۰۰۱ عیسوی،ص ۵
[iii] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۶
[iv] ایضا
[v] احسان بی- اے ،بے غیرت مہر و ماہ، پنجاب پبلیشر ز چوک فتح پوری، دہلی، ص ۴
[vi] ایضا
[vii] ایضا
[viii] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۲۳
[ix] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۳۳
[x] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۳۷
[xi] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۱۷۴
[xii] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۲۷۱
[xiii] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۱۲۲
[xiv] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۲۷
[xv] https://www.oxfordlearnersdictionaries.com/definition/english/art_1?q=Art “Oxford Dictionaries” accessed July 14, 2020, 04:38 PM
[xvi] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۲۳
[xvii] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۲۸۹
[xviii] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۳۶۷
[xix] احسان، بی -اے ،ننھے حضور ،ص ۶
[xx] محمد شکیل صدیقی، ڈاکٹر، "برصغیر پاک و ہند میں سیرت نگاری کے رجحانات"، تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علوم اسلامیہ، جامعہ کراچی، ۲۰۰۵، ص ۲۳
——-
صاحبزادہ منیب مسعود چشتی
ایم فل سکالر، شعبہ اسلامی فکر و تہذیب، یو ایم ٹی، لاہور