زاہدہ حنا : منفرد تخلیق کی تنقیدی کہانی ۔ ایک تعارف
ڈاکٹر عبدالعزیز ملک
شعبہ اُردو،جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد
زاہد ہ حنا کا تعلق اُردو کے ان چندادیبوں میں سے ہے جنھوں نے ادب پر گہرے نقوش مرتب کیے۔زاہدہ کی ادبی شخصیت متنوع رنگوں کی حامل ہے،وہ افسانہ نگار،ناول نگار،کالم نویس، ڈراما نویس،مضمون نگار اور مترجم کی حیثیت سے اپنا خاص مقام رکھتی ہیں۔ ان کا ایک حوالہ تانیثیت پسندی بھی ہے۔ ”عورت زندگی کا زنداں“میں انھوں نے جس طرح عورت کے شعورِ ذات اور پہچان کا سوال اٹھایا ہے وہ انھیں دیگر تانیثیت پسندوں سے ممیز کرتا ہے۔
اس کی وجہ ان کا خاندانی اور تعلیمی پس منظر ہو سکتا ہے جو فکری طور پر خاصا مضبوط تھا۔ وہ خود بھی مطالعے کی شیدا رہی ہیں جس نے ان میں تنقیدی بصیرت کو پروان چڑھایا ہے اور وہ فرسودہ، پائمال اور از کار رفتہ رستوں پر محوِ سفر رہنے کے بجائے نئے رستوں کی متلاشی دکھائی دیتی ہیں۔ جدت اور بغاوت نے ان کی تحریروں میں خاص طرز کے اسلوب اور منفرد لب و لہجے کی پرداخت کی ہے جس کی وجہ سے انور سجاد، احمد ندیم قاسمی، منشا یاد اور رشید امجد جیسے نامور اور زرخیز تخیل کے حامل لکھاریوں میں،اُنھوں نے اپنی خاص پہچان بنائی۔ انھوں نے سیاسی، معاشی، سماجی،تاریخی اور تانیثی موضوعات پر بھر پور انداز میں لکھا اور اپنے قارئین کے ذہنوں پر انمٹ اثرات مرتسم کیے۔ان کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کے اعتراف میں انھیں کئی انعامات اور ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے جن میں ”پرائیڈ آف پرفارمنس“ بھی شامل ہے۔
”زاہدہ حنا:منفرد تخلیق کی تنقیدی کہانی“ آسیہ نازلی کی 2021میں سٹی پک پوائنٹ،کراچی سے شایع ہونے والی تازہ کتاب ہے جس میں انھوں نے زاہدہ حنا کے تنقیدی اور تخلیقی گوشوں کو اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کا موضوع بنایا ہے۔مذکورہ کتاب دراصل آسیہ نازلی کاڈاکٹر روبینہ ترین کی زیر نگرانی ایم فل کا مقالہ ہے جسے ترامیم کے بعد کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب پر فلیپ ڈاکٹر ضیا الحسن نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر قاضی عابد اور حمرا خلیق کی آرا بھی موجو ہیں۔ مذکورہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب”زاہدہ حنا کی فکری اور ادبی تشکیل“پر مشتمل ہے جس میں ان کے خاندانی پس منظر،عملی زندگی،صحافتی زندگی،ادبی جہات،ازدواجی زندگی اور تصانیف کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔زاہدہ حنا کا خاندان صوبہ بہار کے علاقے سہسرام سے تعلق رکھتا ہے جہاں وہ 1946میں پیدا ہوئیں۔ اس سے قبل مغل عہد میں ان کے خاندان کے کئی افراددیوان، قاضی،منصف،زمیندار اور کماندار کے عہدوں پر رہ چکے تھے اور انگریز دور میں جج، وکیل،ڈاکٹر، ڈپٹی کلکٹر،،مجسٹریٹ،ادیب اور شاعر رہے۔ سیاسی طور پر ان کے دادیہال مسلم لیگی تھے جس کی وجہ سے تقسیمِ ہندوستان کے وقت وہ پاکستان آگئے۔چوں کہ نانہال قوم پرست تھے اس لیے وہ ہندوستان میں ہی سکونت پذیر رہے۔پاکستان آکر زاہدہ حنا کو سخت محنت اور جانکاوی سے کام لینا پڑا جس کی بنیاد ی وجہ ان کے والد کی علالت تھی۔ گھر کی بڑی اولاد ہونے کے ناتے انھیں یہ ذمہ داری نبھانا تھی اس لیے انھیں مختلف جگہوں پر ملازمتیں اختیار کرنا پڑیں۔انھوں نے اشاعتی اداروں میں پروف ریڈنگ سے لے کر وائس آف امریکا اور بی بی سی لندن جیسے اہم اور قابلِ قدر اداروں میں کام کیا۔ان کی شادی معروف شاعر جون ایلیا سے 1970میں ہوئی لیکن ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث کامیاب نہ ہو سکی۔ 1988میں ان سے علاحدگی ہو گئی جو 1992میں خلع پر منتج ہوئی۔زاہدہ حنا نے صحافتی زندگی کا آغاز کم عمری سے کر دیاتھا جو آج تک قایم ہے۔ان کے کالم بے باکی اور صداقت کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے کالم تاریخ، سیاست، ادب، سائنس اورانسانی حقوق جیسے موضوعات کو محیط ہوتے ہیں۔کالم نویسی کے علاوہ انھوں نے ادبی دنیا کو تین افسانوں کے مجموعے ”قیدی سانس لیتا ہے“ِ،”راہ میں اجل ہے“اور”رقص بسمل ہے“ عطا کیے ہیں۔ان کا ناولٹ”نہ جنوں رہا نہ پری رہی“ کتابی صورت میں شایع ہو کر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ان کے مضامین کا مجموعہ ”عورت زندگی کا زنداں“اور کالموں کا مجموعہ ”امیدِ سحر کی بات سنو“کے عنوان سے شایع ہو چکے ہیں۔ انھوں نے گلین ڈی پیج کی کتاب The None Killing Political Scienceکا ترجمہ ”ہلاکت گریز عالمی سیاست“ کے نام سے اور عرب دانشور فاطمہ مرینسی کی کتاب Scheherzade Goes Westکا ترجمہ ”شہرزاد مغرب میں“ کے عنوان سے کر رکھا ہے۔
کتاب کا دوسرا باب”زاہدہ حنا کی افسانہ نگاری“ کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔ اس باب میں زاہدہ حنا کے افسانوں کے فکری اور فنی دونوں پہلووں کو موضوع بنایا گیا ہے۔آسیہ نازلی، ان کے افساانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے جو موضوعات سامنے لائی ہیں ان میں سیاسی،تاریخی سماجی،، نسائی، تانیثی،فلسفیانہ اور ہجرت کا کرب شامل ہے۔ان کے اب تک تین افسانوں کے مجموعے”قیدی سانس لیتا ہے“،”راہ میں اجل ہے“ اور”رقص بسمل ہے“ کے عنوانات سے منظر عام پر آچکے ہیں۔پہلے سے تیسرے مجموعے تک ارتقائی صورتِ حال موجود ہے۔دوسرے اور تیسرے افسانوں کے مجموعوں کے موضوعات پہلے مجموعے کی نسبت مختلف ہیں۔ان کا خیال ہے:
”دنیا کی نام نہاد ترقی جو اپنے جلو میں بے پناہ تباہی اور بربادی لیے ہوئے ہے،اس بربادی پر زاہدہ حنا کا قلم افسردہ نظر آتا ہے،لیکن یہ افسردگی کسی مخصوص خطے سے وابستہ نہیں،ان کی تحریر کی کوئی سرحد نہیں،کوئی سفارت خانہ نہیں،زبان یا تہذیب نہیں بلکہ پوری دنیا ان کے افسانوں میں سمٹ آئی ہے۔“(ص:۴۴)
زاہدہ حنا کے افسانوں کے سیاسی موضوعات کو زیرِ بحث لاتے ہوئے آسیہ نازلی نے اُنھیں معاشرے کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی جبر کے خلاف ایک باغی آواز قراردیا ہے۔وہ عام عورت سے ہٹ کر عالمی سیاسی منظر نامے اورپاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھتی ہیں۔زاہدہ حنا نے ایسے معاشرے میں جہاں لوگ ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج،بلند کرنے سے خوف زدہ ہوتے ہیں،سیاسی حقائق کی حقیقی تصویریں اپنے افسانوں میں پیش کی ہیں۔اس حوالے سے ”جاگے ہیں خواب میں“،”پانیوں پہ بہتی پناہ“،”بود و نبود کا آشوب“وغیرہ جیسے افسانوں کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔وہ اپنے افسانوں میں ٹاچر سیلوں،بندی خانوں،اذیت گاہوں اور عقوبت سراؤں کی فضا کو اتنی تفصیل اور بارک بینی سے پیش کرتی ہیں کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ہندوستانی مصنفہ ارون دھتی رائے کی طرح وہ قوم اور مذہب پرستی کو ناپسند کرتی ہیں اور اقلیتوں کے حق میں آواز بلند کرتی دکھائی دیتی ہیں۔زاہدہ حنا کے افسانوں میں جہاں سیاسی شعور نقطہئ عروج پر دکھائی دیتا ہے،وہیں ان کے افسانے تاریخ کو بھی اپنا موضوع بناتے ہیں۔وہ حکمرانوں کی لکھی ہوئی تاریخ سے اتفاق نہیں کرتی بلکہ وہ اسے مسخ شدہ خیال کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک تاریخ کا صحیح مطالعہ،ادب کا مطالعہ ہے اسی لیے وہ تاریخ کو ادب کے ادوار میں منقسم کرتی ہیں جیسے غالب کا دور، سر سید کا دور اورترقی پسند ادب کا دور وغیرہ۔ تاریخ کے حوالے سے زاہدہ حنا کا مطالعہ بہت وسیع ہے وہ قدیم حکایات،آسمانی صحائف،اساطیر،قدیم داستانوں،مذہبی حکایتوں اورتاریخی شخصیات کو خوش اسلوبی سے علامت کے طور پر استعمال کر جاتی ہیں۔زاہدہ حنا معاشرتی مسائل کا نہ صرف گہرا ادراک رکھتی ہیں بلکہ اس کے پس پردہ محرکات کا کھوج لگانے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کی دنیا معاشرتی مسائل کی آئینہ دار ہے۔انھوں نے تخلیقی ادب کو ہمیشہ سماجی عمل کا حصہ خیال کیا ہے اور ہر طرح کے ظلم اور جبر کو سماجی ناانصافی گردانا ہے۔”منزل ہے کہاں تیری“،”تقدیر کے زندانی“ اور”رنگ تمام خون شد“ جیسے افسانوں میں ان کا سماجی شعور اپنے جملہ لوازمات اور پوری شد و مد کے ساتھ موجود ہے۔عورت اور مرد کی شراکت کا دوسرا نام طرزِ زیست ہے جس میں عورت اور مردکے لیے علاحدہ علاحدہ دائرہ کار متعین کر دیے گئے ہیں۔ماضی میں عورت کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنے وجود کی شناخت کے لیے آواز بلند کر سکے۔پاکستان میں ایسی کئی خواتین موجود رہی ہیں جنھوں نے عورت کی توجہ اس کے شعورِ ذات کی جانب دلائی۔ان میں کشور ناہید، فہمیدہ ریاض،خالدہ حسین،عطیہ داود اور زاہدہ حنا کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ زاہدہ حنا نے اپنے افسانوں ”صر صر بے اماں“،”شیریں چشموں کی تلاش“،”زرد ہوائیں“،اور”زرد آوازیں“ میں عورت کی ذات کو موضوع بنایا ہے۔زاہدہ حنا نے مذہب کی آڑ میں عورت پر ہونے والے جبر کے خلاف آواز بلند کی ہے۔وہ کھلی آنکھ سے حقائق کانہ صرف تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ اسے بیان کرنے کا ہنر بھی جانتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آج کے دور میں وہ عورت جو ہمیشہ حاشیے پر رہی ہے اب اپنے قلم سے ذات پر پڑے ہوئے پردے آشکار کر رہی ہے،اب عورت کا حقیقی روپ سامنے آ رہا ہے۔
زاہدہ حنا کے افسانوں کا ایک اور اہم موضوع ان کے متصوفانہ اور فلسفیانہ افکار ہیں جن کو مختلف کرداروں کی صورت میں انھوں نے اپنی تخلیقی نثر میں پیش کیا ہے۔انھوں نے کوشش کی ہے کہ تصوف کی قدیم روایات کو عصرِ حاضر کی صورت ِ حال سے ہم آہنگ کر کے قاری کے سامنے لایا جائے۔مذکورہ صورتِ حال ان کے افسانوں ”شیریں چشموں کی تلاش“،”ناکجاآباد“اور”آنکھوں کے دیدبان“ میں نمایاں طور پر ملتی ہے۔فلسفیانہ ذہن،انسان کو منطق اور استدلال کی جانب راغب کرتا ہے،یہی وجہ ہے کہ زاہدہ حنا خدا،مذہب اور کائنات کے بارے میں منطقی سوالات اٹھاتی ہیں اور تفکر و تعمق سے ان کے جوابات تلاشنے کی متمنی دکھائی دیتی ہیں۔ان کے افسانوں میں وقت اور فنا کے موضوعات بھی عمدگی سے پیش کیے گئے ہیں۔ان کے نزدیک وقت کائنات کا تسلسل ہے جو زندگی کی روانی کا باعث ہے۔انسانوں کے تخلیق کیے ہوئے دورانیوں کے بجائے وہ کائنات کے تسلسل میں انسان کے فنا ہونے کو موضوع بناتی ہیں۔زاہدہ حنا کے افسانوں ”ہوا پھر سے حکم صادر“،”منزل ہے کہاں تیری“،”جاگے ہیں خواب میں“،”پانیوں پر بہتی پناہ“ اور”تتلیاں ڈھونڈنے والی“ میں وقت کے تسلسل اور فنا کے موضوعات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
بیسوی صدی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہجرت کی صدی ہے، پہلی عالمی جنگ، دوسری عالمی جنگ، تقسیمِ ہندوستان اورپھر بنگلہ دیش کی علاحدگی، یہ ایسے واقعات ہیں جنھوں نے اس خطے کے مکینوں کو بار بار ہجرت پر مجبور کیا۔تقسیمِ ہندوستان میں جہاں لاکھوں لوگ ہجرت کے کرب کا شکار ہوئے ان میں زاہدہ حنا اور اس کا خاندان بھی شامل ہے۔ان کو اپنے آبائی علاقے سے ہجرت کیے کئی دہائیاں بیت گئیں مگر ان کا دل اور روح آج بھی سہسرام کے علاقے سے محبت کرتے ہیں۔زاہدہ حنا کے نزدیک تقسیم کا عمل اقدار کی شکست و ریخت، قتل و غارت، فسادات اور انتشار ساتھ لایا ہے جس نے قدیم ہند اسلامی تہذیب کا خاتمہ کردیا۔ان کے افسانوں میں مذکورہ صورتِ حال کو شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
تیسرا باب”زاہدہ حنا کی افسانہ نگاری(فنی جائزہ)“ کے عنوان سے کتا ب میں شامل ہے جس میں ان کے اسلوب، کرداروں اور تکنیکوں کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ناقدین کے نزدیک شخصیت اور اُسلوب ایک شے سمجھے جاتے ہیں۔جس طرح شخصیت مائل بہ ارتقا رہتی ہے ویسے ہی کسی تخلیق کار کا اسلوب بھی وقت کے ساتھ تغیر پذیر رہتا ہے۔آسیہ نازلی کے بقول زاہدہ حنا کے اسلوب میں بھی ارتقا نظر آتا ہے۔ان کے پہلے افسانوں کے مجموعے ”قیدی سانس لیتا ہے“میں رومانی قنوطیت پائی جاتی ہے۔دوسرے افسانوں کے مجموعے”راہ میں اجل ہے“رومانیت کی جگہ تلخ حقائق نے لے لی ہے اور اسلوب حقیقت پسندی کی جانب مائل ہے۔تیسرے مجموعے ”رقص بسمل ہے“میں فکری سنجیدگی نقطہئ عروج پر ہے، جنگ اور اس کی تباہ کاریوں کے انسانی زندگیوں پر اثرات،خاص موضوع بنے ہیں۔ان کو بیان کرنے کے لیے انھوں نے سنجیدہ اور علمی اسلوب کا سہارا لیا ہے۔ان کے اسلوب میں کہیں رمزیہ انداز ہے اور کہیں اساطیر سے گہری معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس حوالے سے ان کے افسانے ”ٓنکھوں کے دید بان“،”صرصر بے اماں کے ساتھ“،”زیتون کی شاخ“اور”یکے بود یکے نہ بود“نمایاں افسانے ہیں۔اردو ادب کے ساتھ ساتھ زاہدہ حنا کے فارسی ادب کا مطالعہ وسیع ہے،اسی لیے فارسی اشعار اور لفظیات کا استعمال،زاہدہ حنا کے ہاں وافر طور پر ملتا ہے جو عام قاری کے بجائے انھیں تعلیم یافتہ قارئین کے حلقے میں پذیرائی بخشتا ہے۔زاہدہ حنا نے اپنا نقطہئ نظر اور فلسفہئ حیات متنوع کرداروں کے ذریعے قارئین تک منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے افسانوں کے کردار عموماً تعلیم یافتہ، باشعور اور تجزیاتی ذہن کے حامل ہیں۔وہ معاشرے کے جبر، ناانصافی اور ظلم کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے نظر آتے ہیں اور بدلے میں تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ متحرک،بے خوف اور بے باک ہیں اور عمل پر یقین رکھتے ہیں۔زاحدہ حنا کا زیادہ وقت صحافت میں گزرا ہے اس لیے ان کے ہاں صحافیوں کے کردار زیادہ نمایاں اوراثر انگیز ہیں۔لالہ دانیال،نجیب،عرفان،عذرا اور ثمینہ جیسے کرداروں کو اس حوالے سے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔افسانوں کا فنی جائزہ لیتے ہوئے مصنفہ نے افسانوں میں مستعمل تکنیکوں کا ذکر بھی کیا ہے جس میں شعور کی رو، فلیش بیک،خود کلامی اور داخلی خود کلامی کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
کتاب کا چوتھا باب”زاہدہ حنا کی ناولٹ نگاری“کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے۔اس باب کے آغاز میں ناولٹ نگاری کے فن اور اردو کے ناولٹ نگاروں کے مختصر بیان کے بعد زاہدہ حنا کے ناولٹ ”نہ جنوں رہا،نہ پری رہی“کا فکری وفنی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ناولٹ میں خود غرضی کے نتیجے میں انسانی رشتوں سے بے اعتنائی،وقت اور حالات بدلنے سے انسانی رویوں میں آنے والی تبدیلیوں اور تقسیمِ ہندوستان کی صورتِ حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تقسیم ِ ہندوستان نے مہاجرین کے احساسات و جذبات میں کیا ہلچل پیدا کی اور وہ کن جذباتی صدموں اور نفسیاتی عارضوں سے گزرے،اس کا اثر انگیز بیان ناولٹ میں موجود ہے۔ناولٹ میں وقت کی جبریت کا تصور بھی ابھرا ہے۔اردو کی خواتین فکشن نگاروں میں قرۃالعین حیدر کے بعد زاہدہ حنا وقت کی جبریت کو خوب صورتی اور خوش اسلوبی سے اپنی تخلیقات کا حصہ بناتی ہیں۔ناولٹ کے کرداروں میں برجیس مرکزی کردار ہے۔اس کے علاوہ کاؤس جی،مسز کاؤس جی،منوچہر،زبین چچی،حسنوچچا،قمر بھائی،شمع اور ثریا وغیرہ جیسے کردار موجود ہیں جن سے ناولٹ کا بیانیہ آگے بڑھتا ہے۔زاہدہ حنا کے اس ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے آسیہ نازلی لکھتی ہیں:
”بلاشبہ ہم اس ناولٹ کو اردو کے چند بڑے ناولٹوں میں شمار کر سکتے ہیں ’نہ جنوں رہا،نہ پری رہی‘اسی فہرست میں شامل ہے جس میں راجندر سنگھ بیدی کا ’ایک چادر میلی سی‘سجاد ظہیر کا’لندن کی ایک رات‘قرۃالعین حیدرکے’دلربا‘،’چائے کے باغ‘،’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘،’ہاؤسنگ سوسائٹی‘انتظار حسین کا ’دن اور داستان‘ اور عبداللہ حسین کا ’قید‘ شامل ہیں۔“(ص:159)
زاہدہ حنا کے اس ناولٹ کو حیات افروزخیال کیا گیا ہے جس میں زبان و بیان،پلاٹ،کرداروں کے داخلی اور نفسیاتی ارتقا اور متنوع تکنیکوں کے استعمال نے اس کو لازوال بنا دیا ہے۔
کتاب کا پانچواں باب”زاہدہ حنا بحیثیت مترجم“ کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔اس باب میں گلین ڈی پیچ اور فاطمہ مرنیسی کی کتب کے تراجم کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔گلین ڈی پیج(Glean D Paig)یونی ورسٹی آف ہوائی میں پروفیسر آف ایمرٹیس ہیں۔انھوں نے عدم تشدد اور ہلاکت گریزی کے موضوع پر متعدد مقالات قلم بند کیے ہیں۔Non killing Global Political Scienceاُن کے وسیع تحقیقی و تدریسی تجربے کا نتیجہ ہے۔اس کتاب کو 2002ء میں Center For Global Non Killingنے شایع کیا۔گلین ڈی پیج انسانی ہلاکتوں کے سخت خلاف ہیں اور پوری دنیا میں اس حوالے سے خاص شہرت رکھتے ہیں۔زاہدہ حنا اور گلین ڈی پیج میں یہی قدر مشترک ہے جو اس کتاب کے ترجمے کا باعث بنی ہے۔انھوں نے گلین ڈی پیج کے خیالات کو اردو میں ”ہلاکت گریز عالمی سیاست“کے عنوان سے ترجمہ کر کے عدم تشدد اور ہلاکت گریزی کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار ہے۔
اسی باب میں فاطمہ مرنیسی کی کتاب Schehrzad Goes West کے اردو ترجمے کا تعارف بھی موجود ہے جسے زاہدہ حنا نے ”شہر زاد مغرب میں“ کے عنوان سے اردو قالب عطا کیا ہے۔تانیثیت پسند، مؤرخ اورمسلم دانشور فاطمہ مرنیسی کا تعلق مراکش سے ہے۔انھوں نے فرانسوی اور انگریزی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا اور جلد ہی عرب دنیا میں شہرت حاصل کر لی۔اس کتاب میں فاطمہ مرنیسی نے مشرق و مغربے کے دوہرے معیارات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔مشرق و مغرب کے نظریاتی تصادم کو فاطمہ مرنیسی نے تہذیبی اور ثقافتی مکالمے کے توسط سے ظاہر کیا ہے۔زاہدہ حنا نے اس کتاب کو بڑی عمدگی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔انھوں نے ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ تخلیقی فنکاری کو بھی نظروں کے سامنے رکھا ہے جس سے مذکورہ متن تخلیق کے قریب تر چلا گیا ہے۔
کتاب کا چھٹا باب”زاہدہ حنا کی افسانوی تخلیقات(نتائج و محاکمہ)“ کے عنوان سے تحریر کیا گیا ہے۔اس باب میں آسیہ نازلی نے گزشتہ ابواب میں ہونے والی بحثوں سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔بیسویں صدی کی ستر کی دہائی میں کئی معتبر نام اردو ادب میں موجود تھے جن کی موجودگی میں زاہدہ حنا نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے محنت اور جانفشانی سے خاص مقام و مرتبہ حاصل کیا۔انھوں نے قومی اور عالمی سیاسی منظر نامے کو تخلیقی بیانیہ کا حصہ بنایا۔وہ سنجیدہ، باحوصلہ، جرأتِ اظہار سے مملو اور باغی آواز ہیں۔ ان کی تخلیقات کا مطالعہ عیاں کرتا ہے کہ ان کا فکشن،تاریخ، تصوف،امن کی خواہش،تانیثی رویوں اوربغاوت کے عناصرسے نمو پذیر ہوتا ہے۔وہ فارسی اور اردو زبانوں کے کلاسیکی ادب سے بطورِ خاص دلچسپی رکھتی ہیں اس لیے ان کی تحریریں کلاسیکیت کا تسلسل محسوس ہوتی ہیں۔
”زاہدہ حنا:منفرد تخلیق کی تنقیدی کہانی“ایک ایسی کتاب ہے جو زاہدہ حنا کے فکشن کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ایم فل کی سطح پر اس طرح کا کام شاذ ہی ہوتا ہے۔ یونی ورسٹیوں میں جس طرح کی تحقیق و تنقید ہو رہی ہے اس سے کون واقف نہیں۔علمی اور فکری بانجھ پن کے اس دور میں مذکورہ طرز کے مقالے امید کی کرن ہیں۔ آسیہ نازلی اور ان کی نگرانِ مقالہ ڈاکٹر روبینہ ترین دونوں کی محنت اس مقالے میں خود کو آشکار کر رہی ہے جس سے کتاب کی وقعت اور وسعت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرز کے محنت اور جانکاوی سے تحریر کردہ، دیگر مقالہ جات کو بھی اشاعت پذیر ہونا چاہیے تاکہ عام قارئین اس سے استفادہ کر سکیں۔