اترپردیش اسبلی انتخابات ۔ فرقہ پرستی کا ہتھیار پھرآزمایا جاے گا
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
حیدرآباد۔ دکن
آ ئندہ سال کے اوائل میں منعقد ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ابھی سے سیاسی ماحول کو گرم کرنا شروع کردیا ہے۔ یو پی کے چیف منسٹر یوگی آ دتیہ ناتھ ریاست کے سنگھا سن پر دوبارہ قبضہ جمانے کے لئے وہی فرقہ وارانہ فضاء کو ہَوا دے رہے ہیں جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پانچ سال پہلے بی جے پی کو اسمبلی میں اکثریت دلاتے ہوئے ریاست کے چیف منسٹر بننے میں کا میاب ہو ئے تھے۔ اب جب کہ دوبارہ عوام کے درمیان جانے کا مر حلہ قریب آ گیا، بی جے پی کے حق میں ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کے لئے ریاست میں پھر سے فرقہ وارانہ کارڈ کا استعمال کیا جارہا ہے۔
ریاست بھر میں یوگی آ دتیہ ناتھ نے اپنے نا عاقبت اندیش اقدامات سے بی جے پی کا چہرہ گزشتہ پانچ سال کے دوران اس قدر مسخ کر دیا کہ کوئی بھی با شعور شہری اب بی جے پی کو دوبارہ اقتدار پر آ تے ہوئے دیکھنا نہیں چا ہتا۔ کوویڈ۔19کی قہر سامانی کا مقابلہ کر نے میں یو پی حکومت نے جس نااہلی کا ثبوت دیا اس سے ریاست کی عوام بخوبی واقف ہے۔ ہزاروں اموات کے باوجود ریاست کے چیف منسٹر کو کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ شمشان گھاٹوں میں متوفیوں کی نعشیں قطاروں میں لگی رہیں اور اسپتالوں میں کوویڈ کے مریض تڑپتے رہے لیکن یوگی آ دتیہ ناتھ دھرم کی آڑ میں سیاست کا کھیل رچاتے رہے۔ ان کی پوری پانچ سالہ کارکردگی اسی فرقہ وارانہ ایجنڈے کے اطراف گھومتی رہی جس کا محور اور مرکز ہندو جذباتی مسائل کو ابھار کر اپنا الّو سیدھا کرنا ہوتا ہے۔ حالیہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں کراری شکست کے بعد بی جے پی کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ کہیں یوپی کے رائے دہندے بھی اسے نہ دھتکار دیں۔ اسی لئے ابھی سے سیاست کے اکھاڑے میں ہندوتوا طاقتیں اپنی چیخ و پکار کے ساتھ کود پڑی ہیں۔ گزشتہ الیکشن کے دوران گؤ رکشاکی تحریک کے نام پر ہندو دہشت گردوں کوغنڈہ گردی کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ اب پھر سے یہ شرپسند عناصر اپنی شرپسندانہ سر گرمیوں کا آ غاز کر چکے ہیں۔ گز شتہ دنوں غازی آباد کے علاقہ میں ایک عمر رسیدہ مسلم شخص کو ان شر پسند عناصر نے اپنا نشانہ بناتے ہوئے ان کے ساتھ جس قسم کی بد سلوکی کا رویہ اختیار کیا وہ سب کچھ منظرِ عام پر آ چکا ہے۔ 70سالہ عبد الصمد کو آخر کس جرم میں مارا پیٹا گیا۔ ان کا قصور کیا تھا؟ اس ضعیف شخص کو نہ صرف شدیدزدو کوب کیا گیا بلکہ اشرار نے ان کی داڑھی کاٹ دی اور انہیں جئے شری رام اور وندے ماترم کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب کچھ حادثہِ اتفاقی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک بہت بڑی سازش کارفرما ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بدترین واقعہ کی ویڈیو گرافی بھی کی گئی اور اسے وائرل بھی کیا گیا تا کہ اس ملک کے مسلمانوں تک یہ پیغام جا ئے کہ جو کوئی ہندوتوا کی مخالفت کر ے گا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آئے گا۔ یہ دراصل ایک طرف مسلمانوں کو ڈرانے اور دھمکانے کی پالیسی ہے اور دوسری طرف ریاست میں فرقہ وارانہ بھٹّی کو گرما کر اپنے اقتدار کو بچانا ہے۔ بی جے پی کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ یوپی میں اس کا اقتدار ہچکو لے کھا رہا ہے۔ وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر رائے دہندوں سے ووٹ نہیں مانگ سکتی۔ پانچ سال میں اس نے کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دیا جس کی بنیاد پر عوام اسے دوبارہ ووٹ ڈالنے کے بارے میں غور و فکر سے کام لیں۔ اس لئے اشتعال انگیزی کا سہارا لیا جا رہا ہے تاکہ اقتدارکو بچا یا جا سکے۔ اس کے لئے پھر سے مسلمانوں کو تختہء مشق بنا یا جا رہا ہے۔ غنڈہ گردی کا حالیہ بد بختانہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
بی جے پی کسی بھی قیمت پر اتر پردیش اسمبلی کا الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ اس الیکشن کی اہمیت اس لئے ہے کہ 2024میں لوک سبھا کے الیکشن ہو نے والے ہیں۔ یوپی کا الیکشن ہی مرکزی حکومت کی تقدیر کا فیصلہ کر ے گا۔ اتر پردیش نہ صرف ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے بلکہ سیاسی طور پر یہ ایک اہم ریاست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یوپی میں جس کی حکومت ہو گی دلّی کی گدّی اس کی ہو گی۔ اگر یوپی کا قلعہ بی جے پی کے ہاتھوں سے نکل جا تا ہے تو دہلی میں مودی کی حکومت بھی ڈنواڈول ہو جا ئے گی۔ دہلی کی سلطنت کو سنبھالنا ہے تو یوپی کو بچانا لازمی ہے۔ اسی لئے بی جے پی کے ساتھ پورا سنگھ پریوار اس فکر میں غلطاں ہے کہ یوپی میں بی جے پی کے اکھڑتے قدموں کو کیسے پھر سے جمایا جائے۔ اسی لئے حّساس مو ضوعات کو چھیڑ کر ماحول میں فر قہ وارانہ زہر گھولا جا رہا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی دیگر تنظیموں کی یہ پوری پوری کوشش ہے کہ فرقہ وارانہ کشید گی کی ایسی فضاء تیار کر دی جا ئے کہ رائے دہندے فرقہ وارانہ جنون کا شکار ہو کر بی جے پی کو اپنا مسیحا سمجھ کر پھر ایک بار اقتدار اس کے ہاتھوں سونپ دیں۔ چناچہ ابھی سے یوپی حکومت کے ایسے اقدامات سامنے آ رہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی مثبت ایجنڈے پر الیکشن لڑنے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ فرقہ وارانہ بنیاد پر فضاء تشکیل دے کر وہ الیکشن میں سر خرو ہونا چاہتی ہے۔ ہجومی تشدد کے ساتھ ساتھ ریاست کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر نے کے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ یوپی کے ضلع بارہ بنکی میں دن دہاڑے ایک مسجد کو شہید کر دیا گیا۔ اسی طرح ایک اور مسجد کو شہید کر کے وہاں پارک کی تعمیر کی جارہی ہے۔ اوقاف کی اراضی کو سرکاری ملکیت قرار دیتے ہوئے حکومت اس کو اپنے قبضہ میں لے رہی ہے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے۔ ان غیر قانونی اقدامات کو انجام دے کر یوگی حکومت ریاست کے سیاسی ماحول کو گرما نا چاہتی ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک نا قابلِ عبور خلیج پیدا کرکے اس سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ہجومی تشدد کا واقعہ ہو یا پھر مساجد کی شہادت کی بات ہو، مسلمان اس پر احتجاج کر سکتے ہیں اور جب وہ احتجاج کر یں گے تو حالات خود بخود فرقہ وارانہ رخ اختیار کرلیں گے جس سے بی جے پی، ہندوؤں میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے میں کا میاب ہو سکتی ہے۔ اپنی پارٹی کے امیج کو بہتر بنانے کے لئے بی جے پی کے قائدین کچھ تعمیری کام بھی کرسکتے تھے۔ ریاست کی عوام کو بہتر سہولتیں پہنچا کر وہ لوگوں کا دل جیت سکتے ہیں۔کورنا بحران کے وقت جس نااہلی کا یوگی حکومت نے ثبوت دیا اس کی تلافی اب بھی کی جا سکتی ہے۔ عوام جن مصائب اور مشکلات سے دوچار ہیں انہیں ان سے چھٹکارا دلانے میں یوگی حکومت پہل کر سکتی ہے۔ لیکن ان سارے کاموں کو چھوڑ کر بی جے پی نے آ نے والے الیکشن میں کا میابی کے لئے فرقہ وارانہ منافرت کا کھیل شروع کر دی ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے، نوجوانوں کو روزگار دینے، تعلیم پر توجہ دینے اور خواتین کے تحفظ کے بارے میں سنجیدہ اقدامات کرنے کے بجائے سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر نا بی جے پی کا شروع سے وطیرہ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ ملک ایک شدید بحران سے گذر رہا ہے۔ کوویڈ۔19زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے منفی اثرات ڈال چکا ہے۔ ملک کو ترقی کی ڈَگر پر لانے کے لئے نہیں معلوم کتنے دہے لگ جا ئیں گے۔ پورا تعلیمی نظام بکھر چکا ہے۔ روزگار کے مواقع ختم ہو گئے ہیں۔ ایسے نازک وقت یوگی آ دتیہ ناتھ جیسے سیاستدان اپنی تنگ نظری اور زہریلی فطرت کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہو تے ہیں تو رائے دہندوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ انسانیت کی بقاء اور ملک کی جمہو ریت کے تحفظ کے لئے ایسے سیاستدانوں کو کبھی اقتدار پر آ نے نہ دیں جو ملک کے دستور اور قانون کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔
2024کی مہا بھارت کو جیتنے کے لئے بی جے پی نے 2021سے تیاری کر لی ہے۔ بی جے پی اپنی بگڑی ہوئی صورت کو پُر کشش اور جاذبِ نظر بنا نے کے لئے اپنے منصوبے کے مطابق آ گے بڑھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی کی اس یلغار کاجواب دینے کی طاقت ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں میں ہے؟ بی جے پی اپنے ووٹ بنک کو رجھانے اور ورغلانے کے سارے حربے اختیار کر رہی ہے۔ یوپی الیکشن سے پہلے ہی اس نے 2024میں ہو نے والے لوک سبھا الیکشن پر اپنی نظریں گاڑ دی ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ یو پی میں بی جے پی کو دوبارہ اکثریت نہیں ملتی ہے تو ایسی صورت میں ملک میں ایسا طوفان اٹھے گا کہ جس میں مرکز کی مودی حکومت خس و خاشاک کے مانند بہہ جا ئے گی اور پھر دوبارہ مرکز میں بی جے پی کے ہاتھوں میں کبھی بھی حکومت کی باگ ڈور نہیں آ ئے گی جس سے سنگھ پریوار کا "ہندوتوا "کا دیرینہ خواب ادھورا رہ جا ئے گا۔ اس لئے بی جے پی، یوپی کے 2022کے اسمبلی الیکشن کو 2024کا ریہرسل ما نتے ہوئے پورے دم خم کے ساتھ آ گے بڑہ رہی ہے۔ اس کی یہ تیاری صرف آنے والے سال کے الیکشن کے لئے نہیں ہے بلکہ آئندہ مزید پانچ سال مرکز کی زمام ِ کار اپنے ہاتھوں میں رکھنے کے لئے ہے تا کہ "ہندوتوا "کا خواب پورا ہو سکے۔ اس لئے یوپی اسمبلی کا الیکشن بی جے پی کے لئے موت و حیات کا معاملہ بن گیا ہے۔ یہ وہ زینہ ہے جس پر چڑھ کر بی جے پی دہلی پر راج کر ے گی اور اپنے دیرینہ خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر نے میں پوری قوت لگا دے گی۔ بی جے پی کو اگر یوپی میں دھچکہ لگتا ہے تو مرکز میں بی جے پی کے قلعہ کو مسمار کر نا مشکل نہ ہوگا۔ اس وقت یوپی میں بی جے پی کی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ یوپی کی عوام یوگی کی پانچ سالہ حکومت کی عدم کارکردگی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ چکی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کی ساکھ اور گِرے گی۔ مغربی بنگال، تامل ناڈو اور کیرالہ کے حالیہ انتخابی نتائج سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک گیر سطح پر بھی بی جے پی کا ریکارڈ خراب ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نر یندرمودی نے 2019کے لوک سبھا الیکشن میں جو وعدے کئے تھے وہ اس پر قائم نہیں رہ سکے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواش کا نعرہ فضاء میں بکھر کر رہ گیا۔ اب عوام کو مودی حکومت سے کوئی امید باقی نہیں رہی۔ ان کے سات سالہ دورِ حکمرانی میں ملک کی عوام نے مصیبتیں ہی جھیلیں ہیں۔ نوٹ بندی سے لے کر کورونا تک ان پر کیا کچھ گذری اس سے ہر شخص واقف ہے۔ ہر طرف بی جے پی بدنامی کا ٹو کرا اپنے سَر پر لے کر گھوم رہی ہے۔ وقت کا تقا ضا ہے کہ سیکولر پارٹیاں ملک کے مفاد میں ایک جُٹ ہو کر بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ تین ریاستوں میں رائے دہندوں کے پیروں تَلے روندی گئی پارٹی کو یوپی میں بھی دھول چاٹنے کی نوبت آ جائے تو اس سے ملک میں جمہوریت اور سیکولرازم کے فروغ کے لئے نئی راہیں کھلیں گی۔ یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب سیاسی پارٹیاں اپنے حقیر سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں گی۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور دیگر سیکولر پارٹیاں ایک سیکولر محاذ بنانے میں کا میا ب ہوتی ہیں تو یوپی میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار پر آ نے سے روکا جا سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ سیکولر پارٹیاں متحد ہو کر الیکشن میں حصہ لیں اور انتخابی مفاہمت کر تے ہوئے ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں تو بی جے پی کے خواب چکنا چور ہو سکتے ہیں اور 2022کے یوپی اسمبلی کے نتائج 2024میں ہو نے والے لوک سبھا الیکشن کے لئے ایک مہمیز ثابت ہوں گے۔ یوپی الیکشن میں جہاں بی جے پی کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے وہیں سیکولر پارٹیوں کو نو شتہ دیوار پڑھتے ہوئے جمہوریت کے تحفظ اور سیکولرازم کی بقا کے لئے آگے آ ناہوگا ورنہ ہندوستان کو ہندو راشٹرا بننے میں دیر نہیں لگے گی۔