مضبوط خاندانی اقدار کی بنیادوں میں بکھراؤ: اسباب و تدارک
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770
ماہرین سماجیات کا یہ متفقہ خیال ہے کہ خاندان، سماجی زندگی کی وہ پہلی اور اصل بنیاد ہے جس پر پورا سماج کھڑا ہو تاہے۔ اگر یہ بنیاد کھوکھلی ہوجائے یا کمزور پڑجائے تو سماج کی پوری عمارت میں دراڑیں پڑنا اور عمارت کا بوسیدہ ہوکر دھڑام سے گرِ جانا یقینی ہے۔ عصرِ حاضر کے اکیسویں صدی کے دور میں جہاں علوم و فنون کے دریا بہہ رہے ہیں، معلومات کا ایک اتہہ سمندر ہماری آنکھوں کے سامنے موجیں مار رہا ہے، نئی تہذیب و تمدن کے نعرے ہر سمت گونج رہے ہیں اورجدیدیت اور ماڈرنزم کی دنیا رسیا ہوتی جا رہی ہے، اس ساری چمک دمک کے باوجود مغرب ہو کہ مشرق، شمال ہو کہ جنوب ہر طرف خاندانی نظام بکھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
اخلاقی قدروں کی پامالی نے خاندانی نظام کو شکست و ریخت کے ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ خاندان کا ہر فرد حیران و پریشان ہے۔ مغرب کی نقاّلی نے مشرق کی دیرینہ روایات کا بھی قلع قمع کر دیا ہے۔ مقدس رشتوں کا پاس و لحاظ بھی اب چند مذہبی خاندانوں تک محدود ہوگیا۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ خدا کے بنائے ہوئے رشتوں کو بھی توڑنے میں کوئی عیب محسوس نہیں کر رہاہے۔ خوا تین کا استحصال اب ایک ہنر بن گیا ہے۔ دورِ جدید میں "آزادی نسواں "کا نعرہ دے کر عورت کی عزت و عفت پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔ اس دلفریب نعرے نے عورت کو مرد کے ہاتھوں کا کھلونا بنا دیا۔ ابا حیت کا بڑھتا ہوا طوفان، جنسی بے راہ روی اور سوشیل میڈیا کے بے لگام استعمال نے خاندانی انتشار کو بڑھانے میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا۔ نوجوانوں کے جذبات کو برانگخیتہ کرنے والے بے حیائی کے منا ظر ہر چوراہے پر دعوتِ نظارہ دیتے ہوئے نظر آ ئیں گے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ تعلیمی نصاب میں جنسیات کو ایک خاص مضمون کی حیثیت سے شامل کرکے پورے سماج کو تباو برباد کرنے کے سامان حکومت کی جانب سے کئے گے۔ اس طرح کے شجر ہائے خبیث کے پھلے پھولنے سے خاندانی نظام کے سارے تار و پود بکھرنے لگے۔ بقول ماہر القادری کے:
ماہر یہ جدتیں یہ ترقی پسندیاں : جتنے بھی عیب تھے وہ ہنر ہو کے رہ گئے
مضبوط خاندانی اقدار کی بنیادوں میں بکھراؤ کے نتیجہ میں جو خاندانی شکل ابھر کر سامنے آ رہی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اخلاقی قدروں کے انحطاط نے پورے ہندوستا نی سماج کے خاندانوں اور بالخصوص مسلم خاندانوں کی شناخت اور اس کی انفرادیت کو بھی ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ مسلم خاندان اور غیر مسلم خاندان میں جوامتیازی فرق پایا جاتا تھا اب وہ عُنقا ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں اور دیگر ابنائے وطن کی شادی بیاہ کی تقاریب ہوں یا کوئی سماجی تقریب دونوں میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں کیا جارہا ہے۔خاندان کی بنیادی قدورں میں تبدیلی کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ قدروں میں بدلاؤ کا آنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ خاندان یا سماج میں تبدیلی حالات و ظروف کے مطابق ہو سکتی ہے۔لیکن وہ اقدار جو خاندانی نظام کے استحکام میں سّم قاتل ثابت ہوتے ہیں اس سے خاندانی ڈھانچہ کو بچانا ضروری ہے۔ ورنہ خاندان خس و خاشاک کی طرح فضاء میں بکھر جا تا ہے۔ مشرقی خاندانوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا اہم سبب یہی رہا ہے کہ مغربی تہذیب کی ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر بلا چوں و چرا قبول و منظور کرلیا گیا۔ اس نام نہاد ترقی یا فتہ تہذیب کا جب خونخوار چہرہ بے نقاب ہوا تو تب معلوم ہوا کہ اس تہذیب نے انسانیت کو کس خطرناک موڑ پر لا کھڑا کر دیا ہے جس سے پوری انسانیت سسک رہی ہے اور خاندان بکھر رہے ہیں۔
مضبوط خاندانی اقدار کی بنیادوں میں بکھراؤ کے اسباب میں عالمیانہ کے عامل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ بدلتی دنیا کے اس Globlisationکے دور میں کوئی سماج یا خاندان اپنا ایک مخصوص جزیرہ بنا کر رہ نہیں سکتا۔ دنیا میں ہونے والی اچھی یا برُی تبدیلی کا اثر ساری دنیا محسوس کر تی ہے۔ مغربی تہذیب کے علمبردار پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ دوسو سال پہلے جس طرح اپنے سامراجی اور نو آبادیاتی نظام کے ذریعہ پوری دنیا کو غلام بنانے کا جو خواب دنیا کی ان طا قتوں نے دیکھا تھا اور ایک منصوبہ بند انداز میں ایشیائی اور افریقی اقوام کو اپنا زیر دست بنانے میں وہ کامیاب بھی ہوئے تھے اسی طرح بیسویں صدی کے اواخر سے وہ اپنے مذموم عزائم میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اب کسی ملک پر قبضہ کر کے ان کے وسائل کا استحصال کرنے کے بجائے ان کے فکر و عمل کے زوایئے کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مغربی دنیا اس کے لئے خاندانی نظام کو اپنا نشانہ بنائی ہوئی ہے۔ مغرب جس طرح خاندانی نظام کے بکھرنے سے زوال کے تحت الثریٰ کو پہنچ گیا اور خاندانی بگاڑ کے نتیجہ میں جس تباہی کا شکار ہوا ہے، وہ چاہتا ہے کہ مشرقی سماج بھی اس دلدل کا شکار ہوکر اس کا خمیازہ بھگتے۔ خاندانی نظام کے بکھراؤ نے مغرب میں شادی کے تصور کو ختم کر دیا۔ شادی کے بعد بچوں کی پیدائش اور ان کی تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام کرنا اب وہاں والدین کی ذ مہ داری نہیں رہی۔ عورت محض ایک بازارِ جنس بن کر رہ گئی۔ بغیر شادی کے بچوں کا ہونا مغرب میں اب معیوب نہیں رہا۔ یہ ساری خباثتوں کو عام کرنے کی جدوجہد اب وہ ساری طاقتیں کر رہی ہیں جو اس نظریہ پر ایقان رکھتی ہیں کہ ” Man can Stand Alone” یعنی انسان دنیا میں اکیلا کھڑا رہ سکتا ہے۔ اسے کسی اور کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ ایک ملحدانہ نظریہ ہے جو انسان کو یہ سبق بھی سکھاتا ہے اب اسے خدا کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اسی فکر کی بنیاد پر ایک ایسے خاندانی نظام کو پروان چڑھانے کی سعی اس نظریہ کے حامیوں نے کی جس میں بظاہر ہر شخص آزاد ہو۔ اس پر کوئی پابندی یا بندش نہ ہو۔ انسان بس ایک حیوان کی طرح زندگی گزارے۔ اس مریضانہ اور مجہول نظریہ نے خاندانی نظام کی بر قراری اور اس کے تحفظ میں کئی قسم کے روڑے اٹکائے اور مشرق کے معصوم لوگ اس جال میں پھنستے چلے گئے۔ آج ہندوستانی سماج اور خاص طور پر اس کے خاندانی نظام پر جو داغ اور دھبے دیکھے جا رہے ہیں وہ دراصل اسی مغربی تہذیب کی دین ہیں۔ اس نے پورے خاندانی نظام کی شکل بگاڑ کر رکھدی۔ خاندانی بنیادوں کی قدروں میں بکھراؤ کا ایک اہم سبب مشترکہ خاندانی نظام کا ختم ہوجانا ہے۔ مادی ضرورتوں کے بڑھنے اور وسائل کے کم ہونے سے یہ نظام مسلم خاندانوں میں بھی پنپ نہیں رہا ہے۔ مشترکہ خاندان میں بزرگوں کی موجودگی، خاندان کے اتحاد کو باقی رکھنے اور نوجوانوں کی تربیت میں تیرِ بہدف کا کام کر تی ہے۔ بزرگوں کا تجربہ سنگین سے سنگین تر مسئلہ کو با آسانی حل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ لیکن آج کل "ہم اور ہمارے بچے "کے محدود تصور نے خاندان کی اعلیٰ اور پاکیزہ روایات سے نئی نسل کو محروم کر دیا۔ خاندان وہ تر بیت گاہ ہوتی ہے جہاں بچہ کی بہترین انداز میں تربیت ہو سکتی ہے۔ اس مشینی دور میں جہاں باپ اور ماں بھی مصروف ہوں وہاں بچوں کی تربیت انفرادی خاندان میں کیسے ممکن ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی خاندان کے افراد بھی بِلا ضرورت انفرادی خاندان کو ترجیح دیتے ہیں اور چاہتے ہیں ان کی بیٹی صرف اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گذارے۔ سسرالی رشتہ داروں کی خدمت کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ اس کے لئے قرآن و حدیث سے اپنے مطلب کی باتیں بھی نکال لی جاتی ہیں۔ یہ بھی مسلم خاندان کے انتشار کا ایک سبب ہے۔
مضبوط خاندانی اقدار کی بنیادوں میں بکھراؤ کا ایک اور سبب خاندانوں میں وراثت کی غیر مساویانہ تقسیم ہے۔ مسلم خاندانوں میں عام طور اب یہ دیکھا جا رہا ہے دین کے پابند لوگ بھی تقسیمِ وراثت کے معا ملے میں دیانت داری سے کام نہیں لیتے۔ قرآن و حدیث میں جو احکامات بیان کر دئے گئے ہیں اس پر عمل کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے۔ والدین کے انتقال کے بعد، جنازے بھی نہیں اٹھتے کہ جائیداد کے جھگڑے اولاد کے درمیان میں شروع ہوجاتے ہیں۔ شریعت اسلامی نے ہر ایک کا حق متعین کر دیا ہے، اس کے باوجود آپس میں سر پھٹول کا ہونا اور بعض مرتبہ عدالتوں میں مقدمہ بازی اب مسلمانوں میں عام ہوتی جا رہی ہے، اس سے خاندان بکھرتے جا رہے ہیں۔ مسلم خاندانوں میں جب تک اس معاملے میں عدل و قسط کے پیمانے طے نہیں کئے جائیں گے، خاندانوں میں رنجش، بغض و عداوت کے جراثیم بڑھتے جا ئیں گے۔ میراث کے معاملے میں کوئی چھوٹ نہیں ہے۔ خاص طور پر خواتین کے معاملے میں مسلم خاندانوں میں یہ شکایت عام ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کا حصہ دینے میں والدین اور بھائی فراخدلی سے کام نہیں لیتے۔ طلاق اور خلع کے موقع پر تو یہ معاملہ بڑا سنگین رخ اختیار کر لیتا ہے۔ جب کہ اس معا ملے میں عدل کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خاندانی اقدار میں انتشار کی وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ خاندان میں غریبوں، کمزوروں، یتیموں ِ بیواؤں اور ضیعفوں کا خیال اب کم ہی رکھا جارہا ہے۔ ایک خاندان کو اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو وہ اپنے نزدیکی رشتہ داروں سے بھی بیگانگی کا اظہار کرتا ہے۔ ان آ نکھوں نے ایسے دلخراش منظر بھی دیکھے کہ شادی بیاہ کے موقع پرکوئی غریب قریبی رشتہ دار آ جائے تو اس کا تعارف ایک اجنبی کے طور پر کرایا جا تا ہے۔ دولت، شہرت اور منصب کے زعم نے رشتہ داریوں کو ختم کر دیا اور ہر شخص اپنی دنیا میں مگن رہنے کا عادی ہو گیا۔ ابھی کورونا وائرس کے دوران، سماجی دوری کے نام پر خاندانوں کے درمیان کتنے سماجی فاصلے بڑھ گئے ا س کا اندازہ بھی اچھی طرح ہوا۔ قرآن مجید میں ذوی القرباء کا حکم دیا گیا لیکن مسلم خاندانوں میں محض رسمی رشتے باقی رہ گئے۔ رشتوں کی جو عظمت تھی وہ بتدریج غائب ہو تی جا رہی ہے۔خوشی اور مسرت کے مو قع پر خاندانوں کا جمع ہونا تقریب کی رونق کو دوبالا کر دیتاہے۔ غم اور پریشانی کے وقت رشتہ داروں کی موجودگی غم کو کم کر دیتی ہے۔ خاندانی نظام کو کھو کھلا کر دینے میں ایک اہم عنصر بدگمانیوں اور غلط فہمیوں کا پایا جانا ہے۔ اس سے اچھے خا صے خاندان ٹوٹ جا تے ہیں۔ بسا اوقات بلا وجہ کے شکوک و شبہات ذہنوں میں جنم لیتے ہیں۔ اگر خاندان کے سمجھدار اور فریس افراد ان گتھیوں کو نہ سلجھائیں تو یہ چنگاری ایک ایسی آ گ بن جاتی ہے جو پورے خاندان کو خاکستر کر دیتی ہے۔
مشترکہ خاندانوں میں اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ کسی بات کو رائی کا پہاڑ بنا دیا جائے۔ اس کے لئے بہتر اور مناسب طریقہ یہی ہے کہ بات کو پھیلانے سے پہلے اس کی تحقیق کی جائے۔ جس کے سر الزام جا رہا ہو اس سے راست مسئلہ کو رجوع کیا جائے، اس سے خاندان ٹو ٹنے سے بچ سکتے ہیں۔ مسلم خاندانوں میں بھی یہ بیماری عام ہو رہی ہے لوگ آگ کو بجھانے کے بجائے اس میں تیل ڈالنے کا کام کر تے ہیں۔ بعض لوگوں کی فطرت ہی ہوتی ہے کہ وہ خاندانوں میں لڑائی جھگڑا ہوتے دیکھ کر خوش ہو تے ہیں۔ ایسے افراد کا سماجی بائیکاٹ کرتے ہوئے انہیں دور رکھنا چاہئے۔اسلام نے فتنہ و فساد کو قتل سے زیادہ معیوب قرار دیا ہے۔ خاندانوں میں بکھراؤ کی ایک وجہ نوجوانوں پر ہمیشہ تنقید کے تیر چلانا ہے۔ نوجوانوں کو محض شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ ان کی سر گرمیوں کو مثبت رُخ دیا جائے۔ ان کی صلا حیتوں کا اعتراف کر تے ہوئے انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں آ گے بڑھنے کی ترغیب دی جائے۔
مضبوط خاندانی اقدار کی بنیادوں میں آئے بکھراؤ کا سدّ باب کیسے ہو یہ ایک ہمالیائی سوال ہے۔ یہ اس لئے کہ انسانوں کی بہتری کے لئے خالقِ کائنات نے جونظام عطا کیا تھا اور جس کے ذریعہ انسانیت کو شرافت و کرامت کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا تھا۔انسان نے اس ضا بطہ حیات کو چھوڑ کر اپنے لئے ان پگڈنڈیوں کا انتخاب کیا جس پر چلتے ہوئے وہ کبھی اپنی منزل ِ مقصود کو پا نہیں سکتا۔ اسلام نے ایک مضبوط اور مستحکم خاندانی نظام کی بنیاد ڈالی۔ یہ خاندانی نظام فرد کی شخصیت کی ارتقاء کے ساتھ پرامن و متوازن خاندان کی تشکیل و تعمیر کے لئے چند رہنمایانہ اصول بھی مرتب کیا۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اس خاندانی نظام کو دنیا میں قائم بھی کیا۔ یہ کوئی افسانہ یا کہانی نہیں ہے کہ اسلامی احکامات کی بدولت جو خاندانی نظام دنیا میں بر پا ہوا تھا اس نے انسانی زندگی کی کا یا پلٹ کر رکھ دی۔ یہ وہ خاندانی نظام تھا، جو چو دہ سو سال پہلے ایک ایسے معاشرہ میں قائم ہوا جہاں تہذیب و تمدن نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ پورے جزیرۃ العرب میں انسانی اقدار کی پامالی ہو رہی تھی۔ انسانی جان کا احترام مفقود ہو گیا تھا۔ عورتوں اور خاص طور پر بچیوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا تھا اس کے تعلق سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایسے نا گفتبہ حالات میں اللہ کے رسول ﷺ نے جس پاکیزہ خاندانی نظام کی بنیاد ڈالی اور اس سے اس دور کے انسانوں کو دل کا جو سکون ملا اسے بھی تاریخ نے سنہرے الفاظ سے لکھ کر محفوظ رکھا ہے۔ آپﷺ نے خاندانی نظام کے استحکام کے لئے نہ صرف اصول بنائے بلکہ آپﷺ نے خود اس پر عمل کر کے بتا دیا کہ خاندان کو امن کا گہواراہ اور سکون و اطمینان کی آ ما جگاہ بنانے میں کن کن عوامل کی ضرورت ہوتی ہے۔خاندان کی مضبوطی میں شادی بیاہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ نکاح، خاندان کی پہلی سیڑھی ہے۔ آپﷺ نے بتا دیا کہ نکاح کر تے وقت کن امور پر تو جہ دی جائے۔ پھر آپﷺ نے خاندان میں محبت، ایثار و قربانی، حسن سلوک، اور رشتوں کا پاس و لحاظ رکھنے کے بارے میں واضح ہدایات جاری فرمائیں۔ حجتہ الوداع کے موقع پر آپﷺ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا بڑا حصہ خاندانی نظام کو استوار کر نے کے بارے میں ہے۔ حضور اکرمﷺ کے اس اہم خطبہ کے نکات کو بار بار امت کے درمیان بیان کر نے کی ضرورت ہے۔خاندانی نظام میں در آئی خرابیوں کے سدّ باب کے لئے یہ ضروری ہے کہ شریعت اسلامی کے اصولوں پر خاندانی نظام کو چلانے کا یہ امت تہیہ کرلے۔ یہ ایک مکمل اور مفصل شر یعت ہے۔ اس کو چھوڑ کر امت اسلامیہ بیجا رسوم و روایات کو اپنے خاندانی نظام کا حصہ بنائے گی تو کبھی بھی مسلم خاندان کی شناخت اسلامی خاندان کی حیثیت سے نہیں ہوگی۔ اسلامی عائلی قوانین ایک متوازن اور معتدل نظام کے حامل ہیں۔ خاندانی اقدار کو ان ہی قوانین کی روشنی میں مدوّن کرنے کی ضرورت ہے۔ مضبوط خاندانی اقدار کی بحالی ایک آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے پوری امت کو آمادہِ پیکار کر نا ہوگا۔ ملت کی تمام دینی، ملی اور سماجی تحریکوں کے علاوہ برداران وطن کو اس مشن کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ خاندانی نظام اس وقت باردو کی ڈھیر پر کھڑا ہوا ہے۔ مغربی تہذیب کی یلغار اسے پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں سماجی زندگی جس بھیانک صورت حال سے دوچار ہے اسے دیکھتے ہوئے علامہ اقبال کے یہ اشعار یاد آ تے ہیں: ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذرگاہوں کا : اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا : آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتا ر کیا : زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا