آہ ! سردر اثرؔ
روئیے کس کے لئے کس کس کا ماتم کیجئے
محبوب خان اصغر
7729994514
آج دنیا ایک ان دیکھے جرثومے کی لپیٹ میں ہے۔
ماضی میں بھی وبائیں آئیں، اموات ہوئیں، بزرگوں سے سنا ہے کہ طاعون یورپ میں پھیلنے والا ایک ایسا خوفناک مرض تھا جس نے وہاں کی آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو ختم کردیا۔ اور بھی وائرس فوقتاً فوقتاً دنیا میں وارد ہوتے رہے جو ایک مقررہ وقت کے بعد ختم ہوتے رہے۔ مثلاً چیچک، خسرہ، انفلوئنزا، ملیریا، ڈیپتھیریا، ٹائیفائیڈ اور ہیضہ وغیرہ۔
کرونا کی نوعیت مختلف ہے، یہ وائرس بہ یک وقت ساری دنیا پر راج کر رہا ہے جس کی زد میں آکر سیکڑوں جانیں تلف ہوچکی ہیں۔ ہنوز یہ وائرس معمہ ہے جس کے بارے میں مختلف مکاتیب فکر کے لوگوں کی جداگانہ رائے ہے۔
خوف نے ہمارے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے۔ سماجی رابطے اور تعلقات تقریباً منقطع ہوگئے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں تا کہ وائرس کے پھیلنے کی رفتار کچھ سست پڑسکے۔ تیسری لہر کی آمد کی اطلاعات آرہی ہیں تو اکثر لوگوں میں موت کے خوفناک سائے تلے جینے کا احساس بھی شدید ہوگیا ہے۔ رونقیں، دلفریبیاں اور مسرتیں یکلخت پھیکی پڑچکی ہیں۔ گلی کوچوں سے جنازے اٹھ رہے ہیں، انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ ایسے منظر پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ جنازوں کو کندھا دینے والا کوئی نہیں ہے۔ میتوں کو قبول کرنے سے وارثین انکار کر رہے ہیں۔ پڑوسیوں کے احوال سے بے خبری اور بے تعلقی کا ماحول بنا ہوا ہے۔ دواخانے جو کبھی انسانیت کے مراکز ہوا کرتے تھے آج وہاں موت رقص کر رہی ہے۔ ڈاکٹر اپنے پیشے کے تئیں دیانتدار نہیں ہیں بلکہ موت کے سوداگر بن گئے ہیں۔ وقفہ وقفہ سے عزیز واقاریب اور دوست احباب کی موت کی خبریں آرہی ہیں اور ہمارا موقف یہ ہے کہ کندھا دینا تو دور دیدار تک نہیں کرسکتے۔
اگر ہم صرف حیدرآباد کی بات کریں تو سالِ گذشتہ اور چند ماہ قبل ہم نے مجتبیٰ حسین، یوسف سرمست، لئیق صلاح، تراب الحسن، شیام سندر، بی نرسنگ راؤ، انجم شافعی، باقر تحسین، رحمن جامی، خان اطہر، اسریٰ منظور، رکن الدین، محمد ظفر الدین (مانو)، صادق نوید، نور النساء نسرین، مظہر رضی، رضی اللہ حسینی، اعجاز احمد خان اعجاز، اور سردار اثرؔ کو کھودیا ہے۔ ملک اور بیرون ملک مرنے والے ادیب وشاعروں کی فہرست تو اور بھی طویل ہے۔ میں یہاں سب کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہوئے سردار اثرؔ سے متعلق چند یادوں اور چند باتوں کو آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
سردار محمد خاں المعروف سردار اثرؔ ۰۱/جون ۶۶۹۱ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام نیاز محمد خان تھا۔ سردار اثرؔ نے انگریزی سے ایم اے کیا تھا وہ عثمانین تھے۔ شاداں کالج کے علاوہ دوسرے کالجوں میں جزوقتی لکچرار رہے۔ اثر کے افرادِ خاندان تعلیمیافتہ تھے۔ جب وہ تولد ہوئے ہندوستان میں فارسی کا طوطی بولتا تھا۔ ان کے والد بزرگوار بھی فارسی داں تھے اثرؔ کو بھی اس زبان میں کچھ شدبد حاصل تھی مگر ان کا ذریعہ تعلیم انگریزی تھا اور شعر اردو میں کہتے تھے۔ کئی انجمنوں بالخصوص زندہ دلانِ حیدرآباد کے شریک معتمد رہے۔ ضلعی سطحوں پر کئی مشاعرے پڑھے۔ دومرتبہ انڈین ایمبسی کی دعوت پر میڈلسٹ بھی گئے۔ دوسال قبل امریکہ میں کسی ادبی انجمن نے بھی انہیں مدعو کیا تھا جو کہ ایک بین الاقوامی مشاعرہ تھا۔
شاعر کے علاوہ ان کی شناخت ایک ناظم مشاعرہ کے طور پر بھی تھی۔ انہیں اساتذہئ سخن کے علاوہ اپنے عصر کے معیاری شعراء کا کلام ازبر تھا اور لطائف کے ذریعہ وہ مشاعروں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی حتی الامکان سعی کرتے تھے۔ سنجیدہ اور مزاحیہ کلام کہتے تھے اور دونوں طرح کے مشاعروں کی خوبصورت نظامت کرتے تھے۔
حیدرآباد میں طالب خوند میری، رؤف رحیم، اور حمایت اللہ کے بعد دکنی طرز پر شعر کہنے کی روایت کو اثرؔ نے زندہ رکھا تھا۔ اگرچیکہ ہمارے شہر میں طنز ومزاح کے بہت اچھے شعراء ہیں لیکن وہ روایت جو سلیمان خطیب نے ڈالی تھی لگتا ہے کہ اثر کے ساتھ ختم ہوئی۔ مگر کہتے ہیں کہ ادب میں خلاء دیر تک نہیں رہتا۔ امید ہے کہ دکنی طرز پر جلد ہی کوئی آواز ابھرے گی۔
سردار اثرؔ نے زمانہ طالبعلمی ہی سے شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ مگر ناپختہ کار ذہن کی تخلیق خود انہیں مطمئن نہیں کرتی تھی۔ مگر مشقِ سخن انہوں نے جاری رکھی۔ مطالعہ سے زیادہ وہ شعراء کو سننے کے عادی تھے۔ سوشیل میڈیا پر مشاعرے سننا ان کا مشغلہ تھا۔
پاکستان میں نئی نسل کے شعری لہجے سے وہ بہت متاثر تھے۔ تہذیب حافی، عمار اقبال، عامر امیر، عمیر نظمی ان کے پسندیدہ شعرا تھے۔
اثر کے اسی مشغلے کے پیش نظر انہیں رشتہئ ازدواج سے باندھا گیا۔ شاعری اور میکشی کا نشہ بھی عجیب شئے ہے۔ آخر الذکر لعنت سے تو وہ دور رہے لیکن اول الذکر نشہ سے دامن بچا نہیں پائے۔ ان کی ہمسفر نے بھی ان کے اس تخلیقی عمل کی پذیرائی کی اور ہر لمحہ حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہیں۔
اردو شعر وادب کے منظر نامے میں سردار اثرؔ کے نام کو اعتبار حاصل تھا ادبی سفر کا آغاز شاعری یعنی غزلوں سے کیا۔ ان کی تمام غزلیں ان کے گداز احساس کا پرتو ہیں۔ انہوں نے سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کا بار گراں اٹھا رکھا تھا۔ ان کے اندر دونوں قسم کی شعری کیفیات اور احساسات کا ادراک دیکھا گیا۔ اثرؔ کی فکر کا اشاراتی اور بلیغ اظہار ان کے کئی اشعار سے ہوتا ہے۔
ان کے اشاروں کنایوں اور ان کی بلاغت کی سوچ کو اس سطح پر جا کر محسوس کرنے کی ضرورت ہے جس سطح پر ان کی فکر ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے صرف لفظوں کے تانے بانے میں خود کو نہیں الجھایا بلکہ معنوی اعتبار سے شعر کے مفاہیم پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھا۔ اور اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے سخن کو تخلیقی آب وتاب دی۔
کہا جاتا ہے کہ شاعر اپنی تخلیق میں محاسن شعری اس وقت پیدا کرسکتا ہے جب وہ اپنی عمر عزیز کا بڑا حصہ مشق ومزاولت میں لگاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے اندر بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
ملک اور معاشرے کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بدلتا ہوا منظر نامہ ان کے پیش نگاہ رہتا تھا۔ حیات وکائنات سے جڑے خارجی اور داخلی مسائل کو تخلیقی بصیرت سے دیکھتے تھے اور اس کے اظہار کے لئے جن لفظیات کا وہ استعمال کرتے تھے۔ ان سے سامع خود کو وابستہ کرلیتا تھا آگے چل کر وہی اشعار فہم وادراک کی وادیوں سے گذر کر روح میں اتر جاتے تھے۔
سردار اثرؔ صاحب کتاب نہیں تھے۔ مگر وافر مقدار میں ان کے ہاں غزلیں تھیں۔ اپنی تخلیقات کو کتابی صورت دینے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ اور ان کا تخلیقی سفر راہِ ادب پر تیزگامی کے ساتھ رواں دواں تھا۔ اثر کے بعض اشعار ان کی تخلیقی قوت وبصیرت کے ساتھ جدیدیت کے مظہر ہیں۔ وہ ایک مقبول شاعر ہونے کے ساتھ میرے عزیز ترین دوست تھے۔ انگریزی کے استاد ہونے کے باوجود انہیں شعری صنعتوں اور شاعری کے رموز پر دستگاہ تھی۔ انھیں طالب خوند میری اور رؤف رحیم (مرحومین) سے خاص عقیدت تھی۔ جس کا اظہار وہ دورانِ گفتگو اکثر وبیشتر کیا کرتے تھے ان کی غزلوں میں زندگی کے مسائل کی تلخ حقیقتیں ہیں جن کو الفاظ کا جامہ پہنا کر سادہ مگر پر اثر انداز میں پیش کیا کرتے تھے۔ ان کی شخصیت اور کلام کی خاص خوبی سادگی اور اثر تھی۔ ہمیشہ انہوں نے ثقیل اور غیر مروجہ الفاظ کے استعمال سے اجتناب کرتے ہوئے روزم مرہ کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ حیات وکائنات کے تلخ حقائق کو سادہ الفاظ میں بیان کرنا اور ادبی اصطلاح میں مشاعرے پر چھا جانا اثرؔ کا وتیرہ تھا۔ فکر ونظر کی گیرائی اور اظہار میں برجستہ پن کے سبب انھیں عوام اور خواص میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ دوستی نبھانا جانتے تھے۔ کسی سے کد نہیں رکھتے تھے۔ گفتگو میں شگفتگی کے سبب ان کی شخصیت میں مقناطیسی کیفیت در آئی تھی۔
اثرؔ انتقال سے قبل لگ بھگ بیس روز ایک خانگی دواخانہ میں زیر علاج رہے۔ اسی دوران ان کی والدہ بھی اللہ کو پیاری ہوگئیں جس کا لازماً اثر بیٹے پر پڑا پھر کچھ ہی دنوں بعد سردار اثرؔ بھی ۲۲/مئی بروز اتوار صبح کی اولین ساعتوں میں مالک حقیقی سے جاملے۔
بعد نماز ظہر مسجد گل بانو نزد درگاہ یوسفین میں ادا کی گئی اور متصل قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
اور اس طرح احباب میں خوشیاں بانٹنے والا حلقہئ احباب کو دائمی غم دے گیا۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لئے کس کس کا ماتم کیجئے (آتش)