کالم : بزمِ درویش ۔ گرمی کی آمد
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
طویل موسم سرما کے بعد بالاخر مئی کے آخری دنوں میں سورج دیوتا انگڑائی لے کر بیدار ہو ا اور اہل زمین کو اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلانے کے لیے آگ کی گولہ باری شروع کردی‘دودن میں ہی موسم سرما کے ٹھٹھرے ہوئے درودیوار اور دھرتی گرم ہونا شروع ہو گئے اگر گرمی آہستہ آہستہ آتی تو پاکستان کے لوگ عاد ی ہو جاتے لیکن یہاں تو اچانک جیسے رب تعالیٰ نے دوزخ کی دیگوں کے ڈھکن اٹھا کر ان کے منہ زمین کی طر ف کر کے اہل زمین کو جھلسنا شروع کر دیا تھا۔ انسان فطری طور پر مختلف مزاج اورجسمانی درجہ حرارت کا حامل ہوتا ہے کسی کو سردی زیادہ تو کسی کو گرمی زیادہ لگتی ہے-
میں جبلی طور پر گرم مزاج انسان ہوں مزاجاًگرم مزاج نہیں میرے جسم کی حرارت نامل انسانوں کی نسبت زیادہ ہے اپنے جسم کی حرارت اعتدال سے زیادہ ہونے کی وجہ سے میں ساری زندگی ٹھنڈے پر فضا علاقوں کا شیدائی رہا جوان ہوتے ہی پہاڑی علاقوں کی یاترا شروع ہو گئی جیسے ہی موسم گرم شروع ہو تا تو میں کبھی تو وادی کشمیر کے جنت نظیرٹھنڈے ٹھار موسم میں وادی کے خیرہ کن حسن میں گم ہو جاتا کبھی گلگت سکردو، ہنزہ کی بہشت نظر وادیوں میں قدرتی مناظر ٹھنڈے موسم اور شیریں مزے دار پھلوں سے جسم و روح کو سرشار کرتا یہی خوشگوار ٹھنڈے موسم کی تلاش مجھے وادی سوات چترال یا پاکستان کے شمالی علاقوں کی طرف لے جاتی جیسے ہی موسم گرما کا آغاز ہوتا تومیری بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی کہ اِس بار کس خوشگوار پہاڑی علاقے کا رخ کرنا ہے عام لوگ دوچار دون بعد ہی اکتا کر واپس آجاتے ہیں لیکن مجھے قدرت نے ہمیشہ موقع فراہم کیا کہ میں اِن پر فضا خوشگوار صحت افزا علاقوں میں جاکر قیام اور آوارہ گردی کر تا یعنی قدرت ایسے اسباب پیدا کر تی کہ میں اِن جنت نظیر وادیوں میں جسم و روح کو سرشار کر تا کیونکہ میں پہاڑی ٹھنڈے علاقوں کا دیوانہ اور رسیا ہو چکا تھا اِسی لئے کوہ مری بھی میری پسندیدہ ترین جگہوں میں سے ایک تھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب نوکری کی سلیکشن ہوئی تو پتہ چلا کہ کوہ مری بھی سیٹ خالی ہے جہاں پر میں نوکری کر سکتا ہوں لوگ نوکری کے لیے قریب ترین اسٹیشن کا انتخاب کر تے ہیں تاکہ زندگی کے شب و روز گھرکے قریب اپنے پیاروں کے درمیان رہ کر گزارے جاسکیں لیکن مشیت الٰہی اور میرے فطری لگاؤ کے تحت میں گھر سے سینکڑوں میل دور جانے پر بضد تھا میں وہ شخص جس نے ساری زندگی اپنے گاؤں میں گزاری تھی لیکن پہاڑی علاقوں کا لگاؤ جنون مجھے کوہ مری لے گیا اور پھر کوہ مری میں گزرے بارہ سال میری زندگی کا حاصل ہیں جس کی حسین یادیں مرتے دم تک میرے باطن کے نہاں خانوں میں کلیوں کی طرح کھلی رہیں گے کوہ مری کے قیام کے دوران حسین ہو شربا مناظر صحت افزا موسم کے ساتھ جب حق تعالیٰ کو مُجھ سیاہ کار پر ترس آیا اور مجھے راہ حق کا طالب علم بنایا تو مجھے زمین پر ہی جنت مل گئی کیونکہ اگر عشق الٰہی کا دیپ میرے باطن کے بنجر ویران ریگستان میں نہ روشن ہو تا تو میں جانوروں کی زندگی گزار کر مٹی میں مل جاتا۔مری قیام کے دن بلا شبہ میری زندگی کے یادگار خوشگوار ترین دن ہیں جب میں چھبیس سال کا جوان صحت مند جوان طاقت ور جسم گریڈ سترہ کی نوکری‘سرکاری گھر جو جنت نظیر وادی میں جہاں پر وادی کا چپے چپے پر حسن پھیلا ہوا تھا بلا شبہ جوانی اور بڑھاپے میں بہت فرق ہے جوانی کا اپنا ہی نشہ اور خمار ہے جب آپ بلا وجہ ہر وقت نشے سرور میں رہتے ہیں سارے جسمانی نظام تندرست توانا کچھ بھی کھالیں نہ دوائی کا فکر نہ جسمانی ٹوٹ پھوٹ کے مسائل اوپر سے آپ کو دلکش مناظر سے بھرپور جگہ جہاں آپ نوکری بھی کرتے ہیں کیونکہ جاب گورنمنٹ کالج میں تھی جہاں پر سینکڑوں سٹوڈنٹس تعلیم حاصل کرنے کے لیے مری کے قرب و جوار سے آتے تھے اِس لیے ہمارے پاس مری کے ہر علاقے سے سٹوڈنٹس آتے تھے۔ اِس لیے ہم جس علاقے بھی جانا چاہتے ہمیں خوش آمدید کہا جاتا ان دنوں میں اور میرے ساتھ جو زیاد ہ تر کنوارے تھے لہذا ہم لوگوں نے مری کے چپے چپے کی خوب سیر کی جیسے ہی پاکستان کے علاقوں میں آتش فشانی گرمی شروع ہو تی کوہ مری میں موسم بہار اور رنگ و نور کاسیلاب آجاتا مری کی زرخیز زمین پر رنگ برنگے پھولوں کی برسات ہو جاتی۔مری کے پہاڑوں زمین پر مخملی نرم و نازک سر سبز و شاداب گھاس کا راج ہو تا یا پھر گیندے کے سفید پیلے پھولوں کے ساتھ جنگلی پھولوں کا راج ہوتا اب مری کی زمین رنگ برنگے پھولوں کی چادر اوڑھ لیتی پھر موسم برسات کا آغاز ہو تاتو آسمان سے پانی کے سچے موتیوں جیسے صاف شفاف قطرے زمین پر گرتے تو انسان پر مدہوشی طاری ہو جاتی مری کے چپے چپے پر پھل دار درخت مختلف قسم کے لذیز شیریں پھلوں سے لد جاتے اخروٹ سیب ناشپاتی آلو بخارہ انار آڑو اور بہت سارے جنگلی پھل کہ جیسے ہی آپ منہ میں رکھیں لذت چاشنی کی نہریں بہنے لگتیں خدا کی قدرت کا نظارہ پھلوں کی مٹھاس سے ہوتا کہ جب یہ پھل اتنے خوشبو دار مزے دار لذیذ شیریں ہیں تو بنانے والا خالق کیسا لازوال ہو گا مری کے قیام کے دوران ہم مختلف علاقوں میں جاتے تو اِن نادر نایاب اعلیٰ قسم کے پھلوں سے ہم خوب خوب لطف اندوز ہوتے طالب علموں سے اچھے تعلقات اور مقامی اساتذہ کی وجہ سے ہمیں مری کے اِن زرخیز ترین پھلوں کے باغات میں جانے کا کثرت سے موقع ملتا اور ہم ایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے جب ہم تازہ درختوں سے صحت مند رس سے بھری آلو بخارے آڑو سیب اتار کر انہیں پہاڑی آبشاروں کے ٹھنڈے بر فانی پانی سے دھو کر اُس آبشار کی شبنمی پھوار کے نیچے بیٹھ کر لذت و سرور کے نئے جہانوں سے آگاہ ہوتے سٹوڈنٹس اپنی عقیدت کا اظہار اس طرح کرتے کہ بہترین پھلوں کو ہمارے لیے رکھ چھوڑتے کہ ہم کب ان کے پاس آئیں گے تو ہماری اِن جنت کے پھلوں سے تواضع کریں گے پھر مری میں میرا راہ حق کا سفر شروع ہو ا تو میں باطنی سرشاری کے نئے جہانوں سے آشنا ہوا پھر راہ تصوف کے پراسرار رازوں میں اِسطرح الجھا کہ موسمی تغیرات گرمی سردی سے آزاد ہو گیا پھر بارہ سال بعد جب لاہور میں ٹرانسفر ہوائی تو یہاں پر قافلہ شب و روز چلنے لگا اب گرمی کی شدت زیادہ تنگ نہیں کرتی لیکن پھر بھی جب سورج دیوتا گرمی کی گولہ باری کرتا ہے تو کوہ مری کا ٹھنڈا خوشگوار موسم یاد آجاتا ہے جہاں پر پہاڑی جھرنوں آبشاروں اور بادلوں کے آوارہ غول در غول جہاں گرمی کا نام و نشان تک نہیں آج صبح جب طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سورج دیوتا نے اپنا موڈ دکھادیا تو میں نے ٹھنڈے ٹھار آلو بخارے اور آڑو پکڑے ساتھ میں شیشے کے جگ کو فالسے کے جوس سے بھرا اور جا کراپنے حجرے یا لائبریری میں پناہ لی کہ اب شام تک یہاں سے نہیں نکلنا آراہ دہ اے سی آن کیا اور فالسے کے جوس کو گھونٹ در گھونٹ حلق سے اتار کر جسم و جاں کو فرحت بخشنے لگا کہ عین دوپہر کے وقت کسی نے ڈوربیل بجانا شروع کر دی میں دھوپ میں جانے کو بلکل تیار نہیں تھا نہ ہی میری کسی سے کمٹمنٹ تھی لیکن آنے والا بہت بے چین جلدی میں تھا وہ مسلسل بیل بجائے جا رہا تھا آخر کار گھر کے کسی فرد نے جا کر مذاکرات کئے بہت سمجھایا لیکن آنے والا بضد تھا کہ آپ پروفیسر صاحب کو میرا یہ رقعہ دیں وہ مجھے فوری بلا لیں گے خادمہ رقعہ لے کر میرے پاس آئی جس پر لکھا تھا ”رانی بیٹی“ میں یہ نام دیکھ کر چونک گیااور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا جہاں رانی بیٹی میری منتظر تھی۔