علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا نظام تعلیم
شبیر احمد ڈار
بلاشبہ تعلیم سےبڑی کوئی دولت نہیں ہے ۔ پاکستان اور آزادکشمیر میں بہت سے ایسے ادارے ہیں جو طالب علم کو گھر پر تعلیم و تدریس کی خدمات مہیا کر رہے ہیں ۔ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنے کے نظام کو” فاصلاتی نظام تعلیم ” کہا جاتا ہے ۔ پاکستان اور آزادکشمیر میں جو ادارا گھر بیٹھے لاکھوں طلبہ کو تعلیم مہیا کر رہا وہ ” علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ” ہے ۔ یہ پاکستان کا ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے جو 250سے زائد مضامین کی تعلیم دے رہا ۔
علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا قیام 1974ء کو عمل میں آیا اور جس کا آغاز عربی زبان کے عملی نصاب سے شروع ہوا ۔ اس تعلیمی ادارے کی تمام تر سرٹیفکیٹ ڈپلوما ، ڈگری اور تمام تر تعلیمی اسناد ملک کی تمام جامعات میں منظور شدہ ہیں ۔ اس کا صدر دفتر اسلام آباد ایچ ۔ 8 سیکٹر میں ہے ۔
یہ تعلیمی ادارہ عمومی تعلیم کےساتھ عملی و فنی تعلیم سے بھی طلبہ کو آراستہ کر رہا اور اس ادارہ میں تربیت یافتہ اساتذہ کی زیر نگرانی طلبہ کو تعلیم دی جاتی ہے ۔ جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ادارہ تو بڑی خدمات پیش کر رہا وہیں پر طلبہ کو بھی اس ادارے سے تحفظات ہیں ۔ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں سب سے اہم مسلہ فیسز کا ہے جو اتنی بھاری مقدار میں لی جاتی ہیں کہ غریب کے لیے ادا کرنا مشکل ہوتا اور اگر وقت پر ادا نہ کی جائیں تو نتائج اور برے ہوتے ۔ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر ادارے نے آن لائن نظام تعلیم کا آغاز کیا مگر یہ نظام تو پاکستان میں چل سکتا مگر ترقی یافتہ دور میں ریاست آزادکشمیر جو بہت پیچھے ہے جہاں کال کے لیے بھی گھر سے باہر نکلنا پڑتا 2G سروس بھی گھر کی چھت پر آتی ایسے میں یہاں آن لائن کلاسز کا آغاز کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ۔ اس تعلیمی ادارے کے زیر اہتمام جو تحقیقی کام ہو رہا اکثر طلبہ ان کے نتائج سے بھی مطمئن نہیں ان کے مطابق نمبرات دینے میں جلدی بازی کی جارہی اور پیپر چیکنگ میں بھی کوتاہی برتی جا رہی نیز ری چیکنگ کا پروسس بھی قابل اعتماد و آسان نہیں ۔
بلاشبہ ادارے کی علمی خدمات ناقابل فراموش ہیں مگر طلبہ کے مسائل کی جانب توجہ دینا بھی ان کی ذمہ داری ہے ۔ فیسز کی مقدار میں کمی کی جائے تاکہ عام عوام بھی تعلیم حاصل کر سکے نیز فیس وصولی کے ایام میں اضافہ کیا جائے ۔ آن لائن نظام تعلیم کی بجائے ورک شاپ کا انعقاد کیا جائے جس سے کچھ فائدہ بھی ہو ۔ پیپر چیکنگ میں طلبہ کے تحفظات دور کیے جائیں اور ری چیکنگ کا پروسس آسان اور قابل اعتماد رکھا جائے ۔ امید ہے یہ کالم اگر ادارے کی نظر سے گزرا تو وہ طلبہ کے مسائل کی جانب توجہ دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔