فلسطین – جنگ بندی امن کا پیش خیمہ ثابت ہوگی؟ :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

Share

فلسطین۔۔جنگ بندی امن کا پیش خیمہ ثابت ہوگی؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770

فلسطین میں گیارہ دن کی خوں ریز تباہی کے بعد گزشتہ جمعہ کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی ہو گئی ہے۔اسرائیلی دہشت گردی سے 250سے زائد فلسطینیوں کی جانیں گئی ان میں ایک تہائی تعداد معصوم فلسطینی بچوں کی تھی۔ ہزاروں فلسطینی زخمی ہوئے اور اسرائیل کی بمباری سے فلسطینیوں کے رہائشی علاقے ملبے میں تبدیل ہوگئے۔ خاص طور پر غزہ میں لگاتار حملے کر کے اسرائیل نے پورے شہر کو خاکستر کر دیا۔

اسرائیل کی اس سفاکانہ کارستانیوں کے باوجود فلسطینیوں کے حو صلے پست نہیں ہوئے اور انہوں نے بھی پوری جرات و ہمت کے ساتھ دشمن کا مقا بلہ کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ اسرائیل کے لئے اب فلسطینی نرم چارہ بننے والے نہیں ہیں۔ چنانچہ جب حماس نے اسرائیل کے خلاف زبردست جوابی حملے شروع کر دئے تو اسرائیل کے لئے جنگ بندی کے سوا اور کوئی راستہ باقی نہ رہا۔ فلسطینیوں کی اس کا میابی پر مسرت کا اظہار کر تے ہوئے حماس کے قائد اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ فلسطینی قوم نے جس بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا ہے اس سے پوری فلسطینی قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔ اور اس سے القدس اور الاقصیٰ کی آزادی کا مر حلہ ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل کی حالیہ جارحیت کا جس طاقت کے ساتھ فلسطینیوں نے دندان شکن جواب دیا اس کا اندازہ صہیونی قوتوں کو نہیں تھا۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ مسجدِ اقصیٰ کی بیحرمتی کر تے ہوئے اس کے اطراف کے علاقوں پر آسانی کے ساتھ قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اسی منصوبہ کے مطابق رمضان میں جمعتہ الوداع کے مو قع پر اسرائیلی پولس اور فوج مسجد اقصیٰ میں داخل ہو گئی اور نہتے فلسطینی مصلیوں پر حملہ کر دیا۔ فلسطینیوں کو اپنی مزاحمت کے لئے اسرائیل سے مقا بلہ کے لئے میدان میں آ نا پڑا۔ 11دن تک اسرائیل کی بر بریت جا ری رہی لیکن اس دوران فلسطینیوں کے جذ بہِ شہادت کے آ گے وہ اپنے مذموم عزائم میں ناکام ہو گیا۔ حماس کی منہ توڑ جوابی کاروائیوں کی وہ تاب نہ لا سکا اور اسے جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔جنگ بندی سے اس وقت فلسطین میں ایک اضطراب آ میز ماحول دیکھا جا رہا ہے۔ امن کی بات کرتے ہوئے اسرائیل اب بھی کچھ نہ کچھ شرارت بر ابر کر رہا ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اسرائیل فلسطین میں پائیدار امن کے قیام میں فلسطینیوں کا ساتھ دے گا۔ اس نے وقتی طور پر اپنے آپ کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے فلسطینیوں کی طرف شاخِ زیتون بڑھا دی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس وقت فلسطین میں جن کے ہاتھوں میں قیادت آئی ہے وہ اسرائیل کے کسی بھی منصوبے کو کا میاب ہونے نہیں دیں گے۔ فلسطینیوں کا اس وقت حماس پر پور ا اعتماد ہے۔ یہ وہ تنظیم ہے جس کو امریکہ سمیت دیگر ممالک نے ایک دہشت گر د تنظیم سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن آج وقت کا پہیہ پلٹ گیا ہے۔ حماس آج فلسطینیوں کی حقیقی ترجمان بن کر دنیا کے سامنے آ ئی ہے۔ اس کی قیادت نے اپنی بے مثال قربانیوں کے ذریعہ فلسطینیوں کے دل موہ لئے ہیں۔ اب فلسطین کا مسئلہ بغیر حماس کی شرکت کی حل نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دوراندیش اور مخلص قیادت نے فلسطینیوں میں عزم و ہمت کا وہ جذ بہ پیدا کر دیا ہے کہ اب وہ اسرائیل سے ڈرنے اور گھبرانے والے نہیں ہیں۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبوں کو اب روبہ عمل لانا ممکن نہ رہا۔ حماس کی سیاسی حکمتِ عملی نے عربوں کو بھی باورکر ا دیاکہ اب فلسطینی ان کی اخلاقی حمایت اور مالی مددکے بغیر بھی فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کی حفا ظت کر سکتے ہیں۔
11دن تک جاری رہی اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف کہیں سے کوئی آواز اٹھتی ہوئی نظر نہیں آ ئی۔ بے گناہ فلسطینی اور ان کے معصوم بچے ہر روز اسرائیل کی بر بریت کا شکار ہوتے رہے۔ اسرائیل کی ان ظالمانہ کارستانیوں کو دینا صرف دیکھتی رہی۔اسرائیل کو لگام دینے کے لئے کوئی آ گے نہیں بڑھا۔ خود فلسطینیوں کو اپنے نو نہالوں، اپنے بوڑھوں اور اپنی عورتوں کو اسرائیل کی سفاکیت سے بچانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ ان کی یہ قربا نیاں رائیگاں نہیں گئیں اور اسرائیل کو فلسطینیوں کے آ گے گھٹنے ٹیکنا پڑا۔دنیا کے بڑے حکمرانوں اور خاص طور پر 57مسلم ممالک کو اب کم از کم اپنی ذ مہ داری محسوس کر تے ہوئے فلسطین میں دیر پا امن کے قیام کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کر دینا چا ہیے۔ اس وقت جنگ بندی کے ذریعہ فلسطین میں ہونے والی خون آ شام تباہی کو روکا گیا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے اسرائیل کو اس کی وحشیانہ حرکتوں سے روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کر نے ہوں گے۔ سابق میں بھی اسرائیل کئی مر تبہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتا رہا۔ ایسے بیسیوں واقعات تاریخ میں درج ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ معصوم فلسطینیوں کا قتل عام ایک تاریخی حقیقت ہے۔ فلسطینیوں کے رفیوجی کیمپ صابرا اور شتیلا میں اسرائیل نے جس بربریت کا ثبوت دیا تھا اسے یاد کر تے ہوئے دنیا شرمسار ہوجا تی ہے۔ بے قصور فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کے ہوش ربا واقعات سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ خلافت عثما نیہ کے خا تمہ کے بعد فلسطین میں ایک آزاد یہودی ریاست کے قیام کے صہیونی منصوبہ کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر نے کی سازشیں شروع کر دیں یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنس کو قائم کر نے کا مقصد یہی تھا کہ ایک عالمی صہیو نی مرکز قائم کیا جا ئے اور یہ خواب اس وقت شرمندہ تعبیر ہو گیا جب اقوام متحدہ کی قرارداد کا سہارا لیتے ہوئے فلسطین کو ناجائز طور پر دو حصوں میں تقسیم کر کے فلسطین کے اصلی اور حقیقی با شندوں یعنی عربوں کا 52فیصد علاقہ زبردستی یہودیوں کو دے دیا گیا۔ انہیں یوروپ اور دیگر ممالک سے لالا کر فلسطین میں بسایا گیا۔ اس طرح ایک اجنبی قوم کے لئے اسرائیل کی مملکت قائم کردی گئی۔ آج یہی قوم فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکالنے کے لئے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ یہ دنیا کی عجیب و غریب کہانی ہے کہ ایک غا صب قوم، اپنی محسن قوم کو اس کے وطن سے نکالنے کے درپہ ہے۔ 14/ مئی 1948کو فلسطین میں اسرائیلی مملکت کے قیام کے بعد سے یہودیوں کی شرمناک حرکتیں اور بڑھتی ہی چلی گئیں۔ یہودی، فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر تے چلے جا رہے ہیں اور اب فلسطین کے 87 فیصدعلاقہ پر اسرائیل اپنا قبضہ جما چکا ہے۔ جب اسرائیلی مملکت کا قیام جب عمل میں آیا تھا وہ صرف 50 فیصد اراضی کا مالک تھا۔ اسرائیل بزورِ طاقت پورے فلسطین پر اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے۔ صلح اور امن، اسرائیل کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کر کے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کر نا چاہتا ہے۔ امن کا وہ خوگرنہیں ہے۔ وہ تشدد اور خونریزی کے ذریعہ اپنے منصوبوں کو روبہ عمل لانا چا ہتا ہے۔ اسرائیل کو شکست دینے کے لئے فلسطینیوں کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور یہ راستہ مزاحمت اور مقا بلہ کا راستہ ہے۔ آج فلسطینی اسی راستے پر چل کر فتح یاب ہو ئے ہیں اور اسرائیل کو عبرتناک شکست سے دوچار کئے ہیں۔ حماس کے شہید قائد شیخ احمد یا سین کہا کرتے تھے کہ "ہمارا وجود مقابلہ و مزا حمت کا مرہونِ منت ہے "شیخ کی یہ بات آج صد فیصد صحیح ثابت ہو چکی ہے۔ اسرائیل کو جس شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ دراصل فلسطینیوں کی اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔اگر فلسطینی مقا بلہ اور مزاحمت کی پالیسی اختیار نہ کرتے تو اسرائیل کو شکست ِ فاش دینا مشکل تھا۔
موجودہ حالات کے تنا ظر میں یہ سوال بڑی اہمیت کا ہے کہ آیا اسرائیل جنگ بندی کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے فلسطین میں آ ئندہ کشُت وخون کا بازار گرم کر نے سے گریز کر ے گا؟ اسرائیل کی جنگجویانہ حرکتوں سے دنیا اچھی طر ح واقف ہے۔ اس سے پہلے بھی اسرائیل نے کئی مرتبہ امن کی ساری کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے اپنی جارحانہ کاروائی جاری رکھی۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف یواین او نے تین سو کے قریب قراردادیں منظورکیں لیکن اقوام متحدہ اسرائیلی بر بریت کو روکنے میں ناکام ہو گیا۔ بے قصور فلسطینی عوام پر اسرائیل کے مظالم کی ایک تاریخ رہی ہے۔ اور اب بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ اسرائیل جنگ بندی کے وعدے پر قائم رہے گا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس کی پشت پناہی کرتا رہا۔ اقوام متحدہ میں جب کبھی اسرائیل کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی بات آئی، امریکہ نے ویٹو کے ذریعہ اس پر روک لگا دی۔اقوام متحدہ کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ اس عالمی انجمن کا ریموٹ کنٹرول یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا کہ "فِرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے”۔ آج بھی اس حقیقت سے انکار نہیں ہے۔ عالمی نقشہ پر ابھرنے والے دلخراش واقعات اس حقیقت کو بے نقاب کر تے ہیں۔ اسرائیل کے توسیعی اور جارحانہ عزائم کو اسی لئے کا میابی مل رہی ہے کہ ہر جگہ پر یہودی اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے مجبور اور مقہور وعوام صہیو نی ایجنڈے کو سمجھنے سے قا صر ہیں اور جو سمجھ رہے ہیں اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ دنیا کی ان قاہر اور ظالم طاقتوں سے مقا بلہ کر سکیں۔ رہے مسلم حکمران تو اب ان کا کوئی شمار نہیں رہا۔ کہنے کو تو یہ 57اسلامی یا مسلم ممالک ہیں۔ لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ ان حکمرانوں کی اکثریت اسی نسل سے تعلق رکھتی ہے جسے مغرب نے پالا پوسا ہے۔ وہ فلسطینیوں سے ہمدرددی رکھنے اور بیت المقدس کی حرمت پر جان نچھاور کرنے کے بجائے امریکہ کے تئیں اپنی وفاداری کو ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنے مخصوص اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی ہی عوام کو کسی قسم کی مذہبی یا سیاسی آزادی بھی دینے میں یہ مسلم حکمران اپنے لئے خطرہ محسوس کر تے ہیں۔ اپنی عوام کے عتاب سے خوف زدہ ہو کر وہ اسلام دشمن طاقتوں کو اپنا حلیف بنانے سے بھی گریز نہیں کر تے۔ ایک ایسے وقت جب کہ فلسطینی اپنے وجود و بقاء اوراپنے اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لئے اسرائیل سے نبرد آزما ہیں ایسے وقت بہت کم مسلم ممالک نے اپنی دینی ذ مہ داری کو محسوس کر تے ہوئے فلسطینیوں کا کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ دیا۔ زبانی جمع و خرچ تو بہت ہوا۔ فلسطینیوں کی حمایت میں قراردادیں منظورکی گئیں لیکن دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو سبق سکھانے کا داعیہ مسلم حکمرانوں میں پیدا نہ ہو سکا۔ ضرورت تھی کہ سارے مسلم حکمران سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے۔ ستم رسیدہ فلسطینیوں کی مدد کے لئے یہ حکمران اپنے خزانے کے منہ کھول دیتے۔ یہ بات بار بار دہرائی جا تی ہے کہ یہ مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں ہے اور نہ صرف عربوں کا ہے بلکہ یہ تمام مسلمانانِ عالم کا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف فلسطینی، اسرائیل سے مقا بلہ کر رہے ہیں اور دنیا کے سارے مسلمان خاموش تماشائی بن کر اسرائیل کی دہشت گردی کو دیکھ رہے ہیں یا پھر چند مذ متی کلمات ادا کرکے بری الذ مہ ہو رہے ہیں سرزمینِ فلسطین سے امتِ مسلمہ کا روحانی رشتہ ہے۔ اس رشتے کا تقاضا ہے کہ ہم انبیاء اور پیغمبروں کی زمین پر غاصبوں کو آباد ہونے کا موقعہ نہ دیں۔ مسجدِ اقصیٰ، جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، اس کی حفا ظت کے لئے ہم تیار ہو جائیں اور دنیا کے تمام انصاف پسندوں کو آواز دیں کہ وہ فلسطینیوں کا ساتھ دیں کیوں کہ وہ حق پر ہیں ورنہ پھر ایک بار فلسطین میں انسانیت کا خون ہو گا اور جنگ بندی ایک سراب ثابت ہو گی!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share