اسرائیلی دہشت گردی – کب جاگے گا دنیا کا ضمیر ؟
ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
9885210770
اسرائیل کی دہشت گردی گز شتہ دس، بارہ دن سے اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ رمضان المبارک کے آ خری جمعہ سے اسرائیلی فوج جس وحشیانہ انداز میں فلسطینیوں کی نسل کُشی پر اُ تر آئی ہے اسے ساری دنیا کھلی آ نکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ اسرائیل مسلسل فضائی حملے کرتے ہوئے پورے فلسطین میں تباہی مچا رہا ہے۔ اب تک 200سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک تہائی تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ اسرائیل کی اس بر بریت کے خلاف دنیا کاکوئی ملک ڈٹ کر سامنے نہیں آ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے صہیونی قو توں کو حو صلہ ملتا جا رہا ہے اور وہ نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بناتے جا رہے ہیں۔
امریکہ نے اقوام متحدہ کی صیانتی کونسل کی جانب سے اسرائیلی بر بریت کے خلاف جاری کئے جانے والے مذمتی مشترکہ بیان کو تیسری بار بھی رکوادیا ہے۔ تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کا اجلاس بھی صرف اسرائیل کی اس جارحانہ کارستانیوں کے خلاف مذمت کے الفاظ ادا کرنے تک محدود رہا۔ امید کی جارہی تھی کہ اب کم از کم 57اسلامی ممالک کی غیرتِ ایمانی جاگے گی لیکن ہمیشہ کی طرح اب بھی عالمِ اسلام اپنی بے حسی کا بد ترین مظاہرہ کر رہا ہے۔ یہ وقت کانفرنس کر کے اسرائیل کے خلاف محض قرارداد منظور کر نے کا نہیں ہے بلکہ دنیا کی انصاف طاقتوں کو ساتھ لے کر اسرائیل کو سبق سکھانے کا ہے۔ لیکن یہ مسلم ممالک ایک ایسی نیند سوئے ہوئے ہیں کہ اب صور اسرافیل ہی شاید ان کو جگا سکے۔ اسرائیل طاقت کا بے دریغ استعمال کر تے ہوئے فلسطینی بستیوں پر بمباری کرکے فلسطینیوں کو خون میں نہلا رہا ہے۔ وہ جنگی جرائم کا ہر روز ارتکاب کر رہا ہے۔ اس کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں مقد مہ کیوں نہیں دائر کیا جاسکتا ہے۔ نہتے فلسطینیوں کا خون گزشتہ 70سال سے فلسطین کی سر زمین میں بے آواز بہایا جا رہا ہے۔ دنیا میں امن کے قیام کے ٹھکیدار وقتی طور پر ان اسرائیلی مظالم پر مگر مچھ کے آ نسو بہا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ حالیہ حملوں کے دوران اسرائیل نے انٹر نیشنل میڈیا کے دفاتر پر حملہ کر کے اسے بھی تباہ و برباد کر دیا۔ اب صحیح اور حقیقی صورتِ حال کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ بین الاقوامی میڈیا ہمیشہ اسرائیل کی غنڈہ گردی کی پشت پناہی کر تا رہا ہے۔ اب بھی اس کی یہی روش بر قرار ہے۔ یہودیوں کے زیرِ کنٹرول یہ میڈیا فلسطینی جو مظلوم ہیں انہیں ظالموں کی صف میں کھڑا کر تا رہا اور اسرائیل جس کی دہشت گردی سے ساری بخوبی واقف ہے اسے یہ میڈیا مظلوم ثابت کر تا رہا۔ اب میڈیا ہاوس پر حملہ کے بعد بھی وہ عقل سے کام نہیں لیں گے اور اپنے ضمیر کو زندہ رکھ کر اپنا صحافتی فرض انجام نہیں دیں گے تو ایک دن یہ زر خرید میڈیا کے لوگ بھی اسرائیلی دہشت گردی کا شکار ہوں گے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والی نام نہاد تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی کا بھی کوئی جواب نہیں ہے۔ کہاں گئی ایمنسٹی انٹر نیشنل، جو دنیا میں ہونے والے ہر انسانی حقوق سے متعلق مسئلہ پر پوری دنیا میں کہرام مچا دیتی ہے۔ آج اس تنظیم کے کسی کارندہ کی جانب سے کھل کر اسرائیلی بربریت کے خلاف کوئی احتجاج ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ دنیا بھر کی دیگر انسانی حقوق کی تنظمیوں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے، کہیں سے کوئی فلسطینیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔ انصاف کی دہائی دینے والے بھی لا پتہ ہیں۔ وہ فلسطینیوں کو انصاف دلانے کے لئے کیوں آ گے آ نے کی ہمت نہیں رکھتے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے علمبردار ہوں یا انصاف کے دعویدار ان کے پیمانے ہر ایک کے لئے الگ ہیں۔ اس لئے وہ فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔
فلسطینیوں پر اسرائیل کی جاریہ جارحیت یہ ثابت کرتی ہے اسرائیل منصوبہ بند انداز میں اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر کاربند ہے۔ وہ فلسطینیوں کا قتلِ عام کر تے ہوئے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے اس نے مسجدِ اقصیٰ کے اطراف موجود فلسطینی آبادی کو نشانہ بنایا اور وہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کر نے کی پوری کوشش کی۔ شیخ جرّاح کے علاقہ میں فلسطینی آٹھ صدیوں سے رہتے ہیں۔یہ علاقہ زمانہ دراز سے فلسطینیوں سے آ باد ہے۔ لیکن اسرائیل سارے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُ ڑاتے ہوئے اچانک اس علاقہ پر حملہ کر تے ہوئے فلسطینیوں کو بے گھر کرکے ان کی اراضیات پر ناجائز قبضہ کرنے کے لئے قتل و خون کا یہ بازار گرم کیا ہے۔ بین الاقوامی ادارے اسرائیل کو اس کی اس غیر انسانی حرکت پر سزا دینے کے بجائے اس کی پیٹھ تھپک رہے ہیں۔ اسرائیل کی یہ دہشت گردانہ حرکت کوئی نئی ہے۔ جب سے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کی ناجائز مملکت قائم ہوئی اسی وقت سے فلسطینیوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اب معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ مسجدِ اقصیٰ کی حرمت کا بھی اسرائیل کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ فلسطینی جمعہ کی نماز ادا کر رہے تھے، اسرائیلی فوج اور پولیس بے تحا شہ اپنی بربریت کا مظاہرہ کر تے ہوئے نہتے فلسطینی مصلیوں پر حملہ کر دیتی ہے تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ اسرائیل منصو بہ بند انداز میں اپنے مذموم عزائم میں لگا ہوا ہے۔ اس نے ہمیشہ بغیر کسی وجہ کے ظلم و تشدد کا ماحول پیدا کر کے فلسطینیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ اس کی پوری تاریخ جرائم سے بھری پڑی ہے۔ عرب۔ اسرائیل تنازعہ کے حل کے لئے مختلف معاہدے بھی ہوئے لیکن اسرائیل نے معاہدہ کی سیاہی سوکھنے سے پہلے ہی اس کی خلاف ورزی کر دی۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف بے شمار قرادادیں منظور کی گئیں لیکن ایک بھی قراداد پر عمل آ وری نہیں ہوئی۔ اب بھی یو این او کی جانب سے اسرائیل کی جا ر حیت کے خلاف بہت کچھ زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے لیکن اس کو لگام دینے کا کام اب اس ادارے کے بس میں نہیں رہا۔ ادارہ اقوامِ متحدہ اب صہیونی طاقتوں کے ہاتھوں ایک ایسا کھلونا بن چکا ہے جسے یہ طاقتیں جیسے چاہیں نچا سکتی ہیں۔ اس عالمی ادارہ کا قیام دنیا میں امن کے قیام اور انصاف کی فراہمی کے ہوا تھا۔ لیکن آج اسرائیل جس طریقہ سے امن کے لئے خطرہ بن چکا ہے اور اس کی درندگی نے انصاف کے سارے اصولوں کو ختم کر کے رکھ دیا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کا ضمیر نہیں جاگا ہے۔ یہ افسوسناک صورتِ حال ہے اور دنیا کے طاقتور ممالک کی خاموشی سے اندیشہ ہو رہا ہے اسرائیل کی دہشت گردی دنیا کو تیسری جنگ کے دہانے پر لاکھڑی کر دے گی۔ جب ظلم اور جبر اپنی انتہا پر پہنچ جا تا ہے تو مظلوموں کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک جا تا ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کی اب کوئی حد باقی نہیں رہی۔ یہ کوئی جنگ نہیں ہے بلکہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی پر اتر آیا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانیوں کی اگر عربوں کے پاس کوئی اہمیت نہیں تو کم از کم وہ قبلہ اول کی حرمت کی بحالی کے لئے آ گے بڑ ھتے تو اسرائیل آج اس قدر دندناتاہوا نظر نہ آ تا۔ وہ مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہو کر اس کے تقدس کو پامال نہ کرتا۔ عربوں کی دینی حمیت کہاں گئی کہ وہ اسرائیل کی ان ظالمانہ کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے بھی اس سے اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات بنائے ہوئے ہیں۔ کیا یہ وقت نہیں ہے کہ وہ سارے مسلم ممالک جنہوں نے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کئے ہیں، ان جارحانہ حملوں کے بعد ان تعلقات کو ختم کر دیں۔ مسلم ممالک اقوام متحدہ سے مطالبہ کر تے کہ اسرائیل کے خلاف فوج کشی کی جا ئے تا کہ وہ اپنی جارحیت سے باز آجائے اور فلسطین میں نہ صرف امن قائم ہو جائے بلکہ فلسطینیوں کو بھی سکون واطمینان کے ساتھ اپنے وطن میں رہنے کا بھر پور موقع ملے۔
اسرائیل اپنی جاریہ دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعہ فلسطین کی جغرافیہ کو بدل دینا چاہتا ہے۔ وہ اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ جلد از جلد”عظیم تر اسرائیل”کا خواب پورا ہوجائے۔ صہیو نی طا قتیں یہ دیرینہ خواب صدیوں سے اپنے دل و دماغ میں بسائی ہوئی ہیں۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کی عمارت پر یہ نمایاں عبارت آج بھی موجود ہے کہ ” اے اسرائیل تری سر حدیں نیل سے فرات تک ہیں ” اسرائیل کی ان ساری وحشیانہ کارستانیوں کو اس پورے تناظر میں جانچنے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا کہ اسرائیلی دہشت گردی کسی واقعہ کا ٖمحض ایک ردّ عمل ہے یا وہ یہ حرکتیں فلسطینیوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کے لئے کر تا ہے۔ ایسا سوچنا ایک خام خیالی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جو جارحانہ رویہ دنیا کے سامنے آ رہا ہے اس کے پسِ پردہ اس کے یہی مذموم ارادے ہیں۔ ایک عظیم تر اسرائیل کے قیام کے ذریعہ وہ فلسطین ہی نہیں بلکہ عرب کے بہت بڑے علاقے پر اپنے پنجے گاڑنا چاہتا ہے۔ عرب حکمران، اسرائیل کی اس سازش کو نہیں سمجھے ہیں اور فلسطینیوں کی مدد کے تیار نہیں ہیں تو ایک دن ان کی زمینوں پر بھی یہودی آ باد ہو جائیں گے۔ اس وقت سوائے ماتم کر نے کے عربوں کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ ایک سو سال پہلے 1917میں انگریزوں نے "اعلانِ بالفور”کے معاہدہ کے ذریعہ یہودیوں کو فلسطین میں اسی منصوبہ کے تحت لا کر بسا یا تھا۔ یہ برطانوی حکومت کی بد دیانتی تھی کہ اس نے ایک طرف عربوں کو یہ طفل تسلی دی کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور دوسری یہودیوں کو یہ یقین دلایا کہ وہ فلسطین کو ان کے لئے قومی وطن بنائیں گے۔ چناچہ اس یقین دہانی کو عملی جا مہ پہناتے ہوئے 14/ مئی 1948کو فلسطین میں مملکتِ اسرائیل قائم کردی گئی۔۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا، جس کے بعد سے فلسطینیوں کو اس کی قیمت اپنا خون دے کر چکانی پڑ رہی ہے۔ عرب حکمران اس وقت بھی صہیونی طاقتوں کے نرغے میں آ گئے اور عالم عرب میں اسرائیل کی شکل میں ایک خونخوار خنجر اپنے دل میں گھوپنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اور اب بھی ان کی مجرمانہ خاموشی بتا رہی ہے کہ وہ اسرائیل سے سودا کر نے تیار ہیں۔ فلسطینیوں کی لاشوں پر دنیا آج سیا ست کھیل رہی ہے لیکن فلسطینی بھی اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ قبلہ اول کے تقدس کے لئے کی جانے والی ان کی یہ جد و جہد رائیگاں نہیں جا ئے گی۔ ان کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ اسرائیل کی وحشیانہ بربریت کی انتہا کے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے پست نہیں ہو ئے ہیں۔ ایک ایک گھر سے دو، دو، چار چار جنازے اٹھ رہے ہیں لیکن ان کی پیشانیوں پر کم ہمتی کے نشان نہیں ہیں۔ باپ اپنے جوان بیٹوں کو شہید ہوتا دیکھ کر خوش ہورہا ہے کہ اس کا بیٹا اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا ہے۔ مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو حوصلہ دے رہیں کہ شہادت کی موت کا کتنا بڑا مرتبہ ہے۔ کہیں کوئی آہ و بکا نہیں ہے۔ پوری سرزمینِ فلسطین اس وقت میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ اسرائیل غزہ پر بمباری کر کے فلسطینیوں کی جا نیں لے رہا ہے لیکن فلسطینی محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ایک دن ضرورآ ئے گا کہ فلسطینی کا میاب ہوں گے۔ اصل مسئلہ ساری دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ اول کے تئیں جد و جہد کا ہے۔ کیا ہم محض قرداوں کو منظور کر کے یا اسرائیل کو کوستے ہوئے مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی طاقت کا مسلمانوں سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسرائیل کی طاقت مسلمانوں کے مقابل انتہائی کم ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلمان ایک ارب سترّ کروڑ ہیں جب کی یہودی ایک کروڑ بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے 57ممالک کی فوج 70لاکھ ہے جب کہ اسرائیل کے پاس صرف دو لاکھ فوج ہے۔ لیکن سائنس و ٹکنالوجی میں اسرائیل مسلمانوں سے کافی آگے ہے۔ مسلمان اگر ان ذرائع کا بھر پور استعمال کر تے ہوئے ایمانی جذبہ کے ساتھ آ گے بڑھتے ہیں تواسرائیل کو شکست دی جا سکتی ہے