ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770
کورونا وائرس کی ہوش رُبا تبا ہی سے اس وقت ساری انسانیت تڑپ رہی ہے۔ ہمارے اپنے ملک ہندوستان کے حالات دن بہ دن دھماکو ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر روز مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر طرف ایک نفسا نفسی کا عالم ہے۔ دواخانوں میں مریضوں کو بیڈ نہیں مل رہے ہیں۔ وقت پر آکسیجن نہ ملنے سے لوگ موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیں۔ ہر آدمی حیران اور پریشان ہے۔
حکمرانوں کی کاہلی اور ان کی غفلت کی سزا عوام بھگت رہی ہے۔ گزشتہ سال کوویڈ کی پہلی لہر نے ملک میں خوف اور دہشت کا جو ماحول پیدا کر دیا تھا، اس سال اس سے کئی گُنا زیادہ حالات بد ترین ہو گئے ہیں۔ حالات کی اسی سنگینی کا نوٹ لیتے ہوئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کویڈ۔19 کے بڑھتے ہوئے بھاری اضا فہ کو "قومی بحران”قرار دیتے ہوئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے ہیلتھ انفرا سٹر کچر کے متعلق رپورٹ طلب کی۔ سپریم کورٹ نے منگل (27/ اپریل(کو کئے گئے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ ایسے نازک وقت، جب کہ شہریوں کی جان خطرہ میں پڑی ہوئی ہے خاموش تماشائی بنی نہیں رہ سکتی۔ قبل ازیں مدراس ہائی کورٹ نے پیر (26/ اپریل)کے روز ایک کیس کی سماعت کر تے ہوئے ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے لئے الیکشن کمیشن کو ذ مہ دار قرار دیتے ہوئے اس کی زبردست سرزنش کی۔ چیف جسٹس مدارس ہائی کورٹ نے یہ سخت ریمارک بھی کر دیا کہ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں پر قتل کا مقدمہ دائر کرنا غلط نہ ہوگا۔ حالیہ دنوں میں پانچ ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن کے ضمن میں سیاسی پارٹیوں نے جس انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی اسی کے تناظر میں مدارس ہائی کورٹ کو یہ سخت جملے کہنے پڑے۔ عدالت نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب کہ انسانوں کو زندگی کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے ایسے وقت سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں اور ریلیاں نکا ل رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پہلے تو ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کر کے عوام کی زندگی کو جوکھم میں ڈال دیا اور دوسری طرف کوویڈ۔19کے رہنمایانہ اصولوں کی پاسداری کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ ان اصولوں کی سیاسی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دھجیاں اُ ڑادیں لیکن الیکشن کمیشن نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ دستوری ادارہ کی اس مجرمانہ خاموشی پر عدالتوں کو نوٹ لینا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس بات کی کوئی تو قع نہیں ہے کہ کوویڈ۔ 19پر قابو پانے کے لئے حکومت کوئی سنجیدہ اقدامات کرے گی۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد بھی اس بات کی امید نہیں ہے کہ جنگی خطوط پر اس وباء پر قابو پانے کے لئے واقعی مودی حکومت کوئی ٹھوس اقدامات کرے گی۔ اس وقت ہندوستان کویڈ کے معاملے دنیا میں سر فہرست آ گیا ہے۔ دو لا کھ سے زیادہ لوگ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ضروری دواؤں کے نہ ملنے سے لوگ دم توڑ دے رہے ہیں۔ ملک کا قومی میڈیا جوہمیشہ مودی حکومت کی قصیدہ خوانی میں لگا رہتا ہے اس قومی بحران کے دوران اپنی صحافتی دیانت داری سے فرار اختیار کر رہا ہے۔ بیرونی میڈیا ہماری حکومت کی چشم پوشی کو آ شکارہ کر رہا ہے تو ملک کے وزیراعظم کی پیشانی پر بَل آجارہے ہیں۔گز شتہ دنوں نیو یارک کے اخبار "The New York Times”نے اپنی 25/ اپریل 2021(اتوار) کی اشاعت میں یہ سرخی لگا ئی کہ As Covid Ravages India,true toll is undercounted” اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب حکومت کویڈ سے متاثر افراد کے نام بھی بتا نا نہیں چاہتی ہے۔
اسی دوران دیگر ممالک کے اخبارات نے بھی ہندوستانی حکومت کوکویڈ کی روک تھام کے بارے میں کوئی واضح پالیسی اختیار نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ دی ٹائمز میں شائع ایک مضمون میں یہ تحریر کیا گیا کہ مودی نے ہندوستان کو لاک ڈاؤن سے نکال کر کویڈ کی تباہی و بر بادی میں ڈھکیل دیا۔ آسٹر یلیاء کے اخبار "دِی آسٹریلین”نے بھی اس مضمون کو شائع کیا۔ اس مضمون کی اشاعت کے ساتھ ہی سو شیل میڈ یا میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ بی جے پی حکومت نے اس کا سخت نوٹ لیتے ہوئے ہندوستانی ہائی کمیشن کو اس کے خلاف کاروائی کر نے کی ہدایت دے دی۔ کسی بیرونی اخبار کی جانب سے حقیقت بیانی پر وزیراعظم کا آپے سے باہر ہوجانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ اس وقت دنیا ایک گلو بل ولیج میں تبدیل ہو گئی ہے۔ کسی بات کو یا کسی واقعہ کو چُھپا کر رکھنا اب نا ممکن ہو گیا ہے۔ ہندوستان کا گودی میڈیا اگر حقائق بیانی سے گریز کرے گا تو عالمی میڈیا ہماری ناکامیوں کو طشت از بام کرے گا۔ یہی کچھ صور حال اس وقت درپیش ہے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے ہیں کہ کویڈ پر قابو پا لیا گیا ہے اور حکومت اس چیلنج سے نمٹنے میں کا میاب ہو چکی ہے اور دوسری نعشوں کے ابنار لگتے جا رہے ہیں۔ آکسیجن کے انتظار میں مریض وینٹی لیٹر پر آ جارہے ہیں اور بعد میں موت کی نیند سونے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس وقت ایسی بھیانک صورت حال سے ہمارا ملک گذر رہا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے ساری دنیا میں ہندوستان کی ساکھ بھی متا ثر ہو رہی ہے۔
آزمائش کے اس نازک وقت ہندوستانی مسلمانوں کو کیا رول ادا کرنا ہے اس پر سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ کوویڈ۔19کی وباء کے آغاز کے ساتھ ہی اس ملک کے مسلمانوں نے انسانیت کے ناطے کوویڈ کے متاثرین کی مدد کو اپنا دینی فریضہ مانتے ہوئے ہر سطح پر امدادی کام انجام دئے۔ مسلمانوں کی بڑی تنظیموں اور جماعتوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے اداروں اور انجمنوں نے بھی حتی المقدور پریشان حال لوگوں کی مدد کی۔ جہاں کھانے کی ضرورت تھی وہاں کھانا دیا گیا جہاں دواؤں کی ضرورت تھی وہاں دوائیں دی گئیں۔ انتہا یہ کہ جو لوگ اپنے عزیزوں کو مرنے کے بعد دفنانے یا جلانے کے لئے تیار نہیں تھے وہاں بھی مسلم نوجوانوں نے یہ فرض انجام دے کر انسا نیت کا بہترین مثال نمونہ پیش کیا۔ آج پھر ایک بار اس ملک کے مسلمانوں کویہ ثابت کر نا ہے کہ چاہے ان کے خلاف کوئی کتنا ہی زہر اُ گلے، چاہے کوئی انہیں ملکِ بدر کرنے کیلئے قانون بنائے یاکوئی انہیں ہجومی تشدد کا شکار بناکر ان کے معصوموں کو بے گناہ قتل کردے اور کوئی ظالم حکو مت ان کے نوجوانوں کو بغیر کسی قصور کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دے۔ یہ سب ظلم و بر بریت کو سہتے ہوئے بھی مسلمان آزمائش کے لمحات میں خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتا۔ اس کے دین اور مذہب میں یہ تعلیم دی گئی کہ "تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا "آج ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی شکایتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس قول کا عملی ثبوت دینا ہو گا۔ اس نازک وقت میں ملک کے مختلف علاقوں سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہیں مسلمانوں نے اپنی مسجدوں کو کویڈ کے مریضوں کے علاج کے مختص کر دیا ہے۔ کہیں بڑے پیمانے پر آکسیجن سلنڈرس کی فراہمی میں مسلمان آ گے آئے ہیں۔ ناگپور کے پیارے خان کے جذ بہ خدمت کو سلام کہ انہوں نے اپنی زکوٰۃ کے ایک کر وڑ روپئے کی رقم آکسیجن کی خریدی پر لگادئے اور پورے ناگپور کے مسیحا بن کر سامنے آ ئے ہیں۔ ناگپور ہندو ستان کا وہ شہر ہے جہاں سے اب تک نفرت اور تعصب کا پیغام اہلِ ملک کو ملتا رہا۔ پیارے خان کے اس جذ بہ انسانیت کا کچھ نہ کچھ اثر ناگپور میں واقع آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر کے ذ مہ داروں پر بھی ہوگا۔اور ان میں کوئی مثبت سوچ پیدا ہوگی۔
آج ضرورت ہے کہ احسان جتانے کے بجائے مسلمانانِ ہند انسانیت کی خدمت کو اپنا مشن بنالیں۔ اسلام میں عبادات کا وسیع مفہوم ہے۔ رمضان کے اس مبارک مہینے میں ہم جہاں نمازوں، روزوں، قرآنِ مجید کی تلاوت، اور ذِکر و اذکار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حا صل کر نا چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ انسانیت کی خدمت، تقّربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ قیامت کے روز اللہ تعالی ان بندوں سے زیادہ خوش ہوگا جو لوگوں کے کام آ ئیں ہوں۔ قرآنِ مجید میں متعدد آیات میں اللہ کے بندوں کو خدمت خلق کی تعلیم دی گئی۔ یہاں صرف ایک آیت کا ترجمہ بطورِ یاد دہانی کے پیش کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو۔ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ پر، یوم آخر پر، ملائکہ پر، اللہ کی نازل کردہ کتا بوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے۔۔ اور۔۔ اپنا دل پسند مال اللہ کی محبت میں اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں مسافروں، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔۔(سورہ البقرہ آیت 177) اس ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عبادت محض کسی رسم کی ادائیگی کا نام نہیں ہے۔ کوئی مسلمان پّکا نمازی ہوجائے، تہجد گذار بن جائے، صبح و شام ذکرِ الہٰی میں مشغول رہے لیکن اپنے مال میں سے کوئی صدقہ و خیرات نہ کرے، اس کے پڑوسی بھوکے پیاسے، اس کے رشتہ دار علاج کے لئے تڑپتے رہیں اور یہ سب وہ دیکھتا رہے تو کیا ایسا بندہ اللہ کا مقرب ہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ "قیامت کے روز اللہ تعا لیٰ فرمائے گا گہ اے ابنِ آدم! میں بیمار ہوا تھا اور تُو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا، ا ے رب! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا آپ تو سارے جہاں کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرافلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ پھر فرمائے گا اگرتو اس کی عیادت کرتا تو، مجھے اس کے پاس پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم! میں بھو کاتھا تونے مجھے کھلایا نہیں، بندہ کہے گا، اے میرے رب! میں آپ کو کیسے کھلاتا آپ سارے جہاں کے مالک ہیں۔ اللہ تعالی فرمائے گا کہ فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے اسے نہیں کھلایا، اگر اسے کھلاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر اسی طرح اللہ تعالیٰ کہے گا کہ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، بندہ اسی بات کو ددہرائے گا کہ اے میرے رب میں آپ کو پانی کیسے پلاتا جب کہ آپ سارے جہاں کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بندے سے کہے گاکہ فلاں شخص نے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا، اگر پلایا ہوتا تو اس کا اجر میرے پاس پاتا”اس حدیث نبویﷺ سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ انسانیت کی خدمت ایک اعلیٰ ترین عبادت ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرما یاکہ "تم میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے "اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں امت مسلمہ کو انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنالینا چاہئے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت جب کی کویڈ کی اس بَلا نے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مسلمان اس وباء سے گھبرانے اور خوف کھانے کے بجائے انسانوں کی خدمت کو اولین ترجیح دیں۔ رمضان کے اس مبارک مہینہ میں اللہ یہ دیکھنا چاہتا کہ میری بندگی کا دعویٰ کرنے والے میرے بندوں سے کتنی محبت کر تے ہیں اور ان کی مصیبت میں کتنے کا م آ تے ہیں۔ اسلام میں جہاں حقوق اللہ کو ادا کرنے کی تلقین کی گئی وہیں حقوق العبادکے ادا کرنے کے بارے متوجہ کیا گیا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ "مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اللہ کو وہ بندہ پسند ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ حسن ِ سلوک کر ے۔ اسی نکتہ کو شاعر مشرق علامہ اقبال ؒنے اس طرح پیش کیا کہ: خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے: میں اس کا بندہ بنوں کا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
One thought on “انسانیت کی خدمت کو اپنا مشن بنا لیجئے :- ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد”
جناب ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد کا عالمانہ تجزیہ رہا صحیح حکمت عملی کے ذریعے کرونا کی روک تھام کرسکتے تھے افسوس حکمران افسر شاہی اور قائدین کی عدم دلچسپی نے لاکھوں کی تعداد میںاموات ہوئ انشا اللہ اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ بنی نوع کی حفاظت فر ماۓ آمین