ثمرین فردوس بنت علی یار خان
پوسد مہاراشٹر
زمین پر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار کرشمہ سازیاں ہیں اور انہی کرشمہ سازیوں میں سے ایک حسین شاہکار وجود زن ہے۔عورت کے وجود کے بغیر ہم اس دنیا کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔اگر عورت کا وجود نہ ہوتا تو یہ دنیا بے رونق اور انسانی زندگی بے معنی ہوتی. عورت کی قدر و قیمت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کی پرورش ایک عظیم عورت نے کی ہو۔
عورت کے بلند مقام کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے ساتھ درپیش مسائل پر ایک طویل سورت النسائنازل کی، اسلام ہی وہ واحد عظیم مذہب ہے جس میں عورت کا مقام اعلیٰ اور عورت کا مرتبہ اونچا ہے۔عورت (بیٹی) سے حسن سلوک کرنے پر مرد کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہو.” (ترمذی)یعنی اسلام نے ہمیں یہ بات بڑی آسانی سے بیان کی کہ انسان کے اچھے و برے ہونے کی دلیل انکا اپنی عورتوں سے سلوک ہے۔ نیک انسان ہونے کی بنیادی شرط عورت سے حسن سلوک کرنا ہے پھر وہ سلوک ماں، بیوی، بہن یا بیٹی سے ہو۔
اسی بات کو شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب بیان کیا ہے کہ:-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں
صالح عورتیں وہ ہوتی ہیں جو اطاعت شعار ہو اور اپنے مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت ونگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ (النساء، 34)
موجودہ دور میں عورتوں کو آزادی سے جوڑنے کی بہت کوششیں کی جارہی ہیں، گھر کی چار دیواری کو قید اور ازدواجی زندگی کو مجبوری کہا جارہا ہے لیکن یقین جانیے عورتوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال کر آزادی دلانے والے لوگ کبھی عورتوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ایسے لوگ مفاد پرست اور خود غرض ہوتے ہیں جو صرفِ عورتوں کا حسبِ ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نہ عورتوں سے ہمدردی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے مسائل سے۔اللہ تعالیٰ نے عورت کی تخلیق مرد کی پسلی سے کی ہے اور پسلی دل کے سب سے قریب ہوتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ عورت زیادہ جذباتی ہوتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے عورتوں کے جذبات کے اندر چھپی محبت کو دیکھا ہے؟ ضرور دیکھا ہوگا تو اس محبت کی قدر کیجیے، اور ان کے جذبات کو ان کی کمزوری مت سمجھیے۔ عورت کے جذبات کا مزاق اڑانے کے بجائے عورت کے جذبہ کی قدر کیجئیے کیونکہ وہ عورت کا جذبہ ئایمان ہے تھا جس کی بدولت محمد بن قاسم نے، طارق بن زیاد نے ہسپانیہ اور صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کیا۔اسلامی تاریخ ہی نہیں بلکہ پوری عالمی تاریخ کا کوئی بھی باب عورتوں کے کارناموں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکا۔ وہ یورپ کی دل کش عورتیں ہی تھیں جنھوں نے مسلم جنگجوؤں کے جذبہ کو سرد کیا تو وہ ہماری ہی عظیم مائیں تھی جنھوں نے اپنے جذبہئایمانی سے مسلم سپاہیوں کے جذبات کو حرارت بخش کر انھیں فاتحین بنایا۔
عورت کو ہمیشہ مرد نگہباں کی ضرورت ہوتی ہے چاہے وہ باپ، بھائی، شوہر ہو یا بیٹا۔عورت کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتے رہیں کہ اس کے پہلے خیر خواہ اس کے محرم رشتہ (باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا) ہیں، ان کے علاوہ وہ کسی غیر سے خیر کی توقع نہ رکھیں ورنہ اس کا نتیجہ نقصاندہ ہوسکتا ہے۔
نے پردہ، نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
عورت کو چاہیے کہ اپنی حکمت اور دانائی سے خیر و شر میں تمیز کرے۔عورتوں کو اللہ نے باطنی طور پر ایک غیر معمولی صلاحیت بخشی ہے، صبر جس کا مظاہرہ عورت کو ظاہری طور پر کرنا پڑتا ہے اور اسی طرز کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے مردوں کو بھی بخشی ہے جسے درگزر کہتے ہیں جس گھر کے مردوں میں درگزر اور عورتوں میں صبر کی صلاحیت ہوتی ہے ایسے گھرانے دنیا میں جنت کا عملی نمونہ ہوتے ہیں۔عورتوں کے لیے دنیا کی ہر شے کرنا ممکن ہے کوئی چیز ان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی سوائے ان اپنی سوچ کے تو صرف اپنے ذہنوں کو صاف رکھیے اور دلوں کو پاک رکھییانشائاللہ کائنات کی ہر جائز شئے آپ کے لیے ممکن ہے۔
ڈاکٹر مبشرہ فردوس، اورنگ آباد کیا خوب لکھتی ہے کہ:- ہم بی بی فاطمہ کی فطری طبیعت کو گھر کی چار دیواری اور حضرت ام عمارہ کو میدان عمل میں دیکھتے ہیں، دونوں خواتین اپنی فطرت کے مطابق کام کر رہی ہیں پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے کبھی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میدان جہاد کے لیے ام عمارہ کی مثال دے کر نہیں اکسایا اور نہ کبھی ام عمارہ سے کہا کہ وہ فاطمہ کی طرح گھر میں لگی رہیں، گویا جس عورت کی جو صلاحیت ہو جس میدان کے وہ قابل ہو اس میدان میں کام کرے۔تو برائے کرم عورتوں کا ایک دوسرے سے موازنہ نہ کریں نا ہی ایک عورت کو دوسری پر تشبیہ دیں کیونکہ ہر عورت فطری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ بس ان میں موجود صلاحیتوں، مہارتوں اور قابلیتوں کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔
تو اس یوم خواتین پرخواتین اپنے اندر موجود اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں مزید نکھاریں اور ان صلاحیتوں کو صرف اپنے رب کی رضا اور اپنی آخرت کی کامیابی کے لیے استعمال کریں۔