ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
91+9885210770
الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تواریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ آسام، مغربی بنگال، تامل ناڈو اور کیرالا کے ساتھ پڈو چیری میں ہونے والے یہ انتخابات اس لئے اہمیت کے حامل ہیں کہ ان انتخابات کے نتائج ملک کی سیاست پرگہرے اثرات مرتب کریں گے۔ مرکز میں بر سر اقتدار بی جے پی جہاں ان ریاستوں میں اپنی طاقت کو بڑھانے میں کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتی ہے وہیں ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی نو شتہِ دیوار پڑھتے ہوئے آپس میں مفاہمت کا رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آسام میں بی جے پی کی حکومت ہے اور اب وہاں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار پر آنے سے روکنے کے لئے کانگریس کی قیادت میں 6اہم سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہوا ہے۔ ان میں لالو پرساد کی آر جے ڈی، سی پی آئی، سی پی آئی (ایم) اور دیگر پار ٹیوں کے علاوہ مولانا بدر الدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف بھی اس "مہا جٹ”میں شامل ہے۔ یہ پارٹیاں آپس میں واقعی اپنے اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے رائے دہندوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کا میاب ہوجاتی ہیں تو آسام میں بی جے پی کی شکست یقینی ہے۔ آسام اسمبلی کے آنے والے الیکشن اس لئے بھی دوررس اہمیت کے حامل ہیں کہ یہیں سے بی جے پی نے این آر سی کا شو شہ چھوڑا ہے۔ کوویڈ۔۹۱کے آنے سے پہلے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خوف نے ملک میں جو افراتفری کا ما حول پیدا کر دیا تھا وہ آج بھی شہریوں کے ذہن میں محفوظ ہے۔ آسام میں این آر سی کے نام پر لاکھوں افراد کو جیلوں میں بند کر کے رکھدیا گیا ہے۔ ہزاروں افراد کو شہریت سے محروم کر کے ان کو ملک سے نکا لنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گزشتہ دنوں یہ بات دوہرائی ہے کہ ملک میں جلد از جلد پھر سے این آر سی کا عمل شروع کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت کے ان ارادوں کو تقویت اس وقت مل جائے گی جب بی جے پی دوبارہ آسام میں حکو مت بنانے میں کا میاب ہوجائے گی۔ اس لئے آسام میں بی جے پی کی انتخابی شکست ملک کو متحد رکھنے اور عوام میں پائی جانے والی این آر سی کی دہشت کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ حالات کی اسی سنگینی کو محسوس کر تے ہوئے ریاست کی سیکولر پارٹیوں نے حکمران بی جے پی کے خلاف اپنا ایک متحدہ محاذ بنایا ہے۔ لیکن یہ بات تشویشناک ہے کہ آسام کی ایک اہم سیاسی پارٹی، آسام گنا پریشد، جو اپنے آ پ کو سیکولر پارٹی کہتی ہے لیکن لاکھوں شہریوں کو این آر سی کے بہانے ملک بدرکرنے کی تیاری کرنے والی پارٹی کے ساتھ مفاہمت کرتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سیکولر اقدار کا کتنا پاس و لحاظ رکھتی ہے۔ آسام کے بعد اگر مغربی بنگال کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہورہا کہ بی جے پی اس مر تبہ پوری تیاری کے ساتھ مغربی بنگال کا الیکشن لڑ رہی ہے۔ ممتا بنرجی ہی اس وقت ایک ایسی نڈر لیڈر نظر آ رہی ہیں جو بی جے پی اور خاص طور پر وزیراعظم نریندرمودی کو للکار رہی ہے۔ بنگال کی "دیدی”کے ہاتھوں سے اقتدار چھیننا بی جے پی کے لئے اتنا آسان نہیں ہے۔ ممتا بنرجی نے سی پی آئی (ایم) کے 38سالہ دورِ حکمرانی کو ختم کر کے مغربی بنگال میں ترنمول گانگریس کی حکومت پہلی مرتبہ مئی 2011میں بنائی تھی۔ اس طرح ممتا بنرجی نے دنیا کی سب سے طویل کیمونسٹ پارٹی کی ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔ملک کی قدیم سیاسی پارٹی کانگریس سے رشتہ توڑ کر ممتا بنرجی نے ترنمول کانگریس بناکر یہ انتخاب جیتا تھا
مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کو جہاں بی جے پی سے کانٹے کا مقا بلہ ہے وہیں لیفٹ پارٹیوں اور کانگریس کے درمیان انتخابی سمجھوتہ سے سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا اندیشہ ہے۔ ترنمول کانگریس کا جو ووٹ بینک ہے وہی کانگریس کا ہو سکتا ہے اور لیفٹ پارٹیاں بھی اسی پر نظریں لگائی ہوں گی۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کا ووٹ سیکولر پارٹیوں کے حق میں ہی استعمال ہوگا۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا ہے یہ سارے ووٹ کسی ایک سیکولر پارٹی کی جھولی میں جائیں گے۔ حالیہ دنوں میں فُرفُرا شریف کے پیر زادہ مولانا عباس صدیقی بھی انتخابی میدان میں کود پڑے ہیں۔ انڈین سیکولر فرنٹ کے نام پر ایک پارٹی بنا کر وہ سیاسی پارٹیوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ مغربی بنگال کے مخصوص علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، عباس صدیقی اپنا اثر رکھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 294رکنی اسمبلی میں یہ 30تا35نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرکے 10تا 15حلقوں سے کامیاب بھی ہوتے ہیں تو اس کا کیا خاص اثر پڑے گا، اگر بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں کا میاب ہوجائے۔ سی پی آئی (ایم) اور کانگریس شدید نظریاتی اختلافات رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر آ سکتے ہیں تو ترنمول کانگریس کو ساتھ لینے میں ان پارٹیوں کو تردد کیوں ہے۔ تر نمول کانگریس کی اپنی کوئی آ ئیڈلوجی نہیں ہے۔ ممتا بنرجی خود یوتھ کانگریس کی لیڈر رہ چکی ہیں۔ کانگریس قیادت سے زِچ آکر ممتا نے کانگریس کو چھوڑا تھا۔ اس وقت جس طرح کانگریس کی قیادت اپنے قدیم کانگریسوں کو خاطر میں نہیں لارہی ہے ایسا سابق میں بھی ہوتا رہا۔ مغربی بنگال میں بی جے پی کی شکست کو یقینی بنانے کے لئے تمام سیکولر پارٹیوں کے درمیان کم از کم نشستوں پر مفاہمت کا ہونا لازمی ہے۔ اگر ایک حلقہ سے دودو، تین تین سیکولر پارٹیوں کے امیدوار اپنی قسمت آزمائیں گے تو بی جے پی امیدوار کی قسمت جاگ جائے گی۔ تادم تحریر سیاسی پنڈتوں کا یہ کہنا ہے مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کو کا میابی ملے گی اور ممتا بنرجی تیسری مر تبہ ریاست کی چیف منسٹر بنیں گی۔انتخابی حکمتِ عملی کے ماہرپرشا نت کشور نے یقین کے ساتھ یہ کہا کہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کو پھر ایک بار اقتدار ملے گا۔ پرشانت کشور، ملک کی انتخابی سیاست پرگہری نظر رکھتے ہیں اور سابق میں انہوں نے ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوں کو اپنی خدمات دیتے ہوئے اپنی کا میاب حکمتِ عملی کے ذریعہ انہیں انتخابات میں کا میابی دلائی۔ اس وقت وہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کے لئے مہم چلارہے ہیں۔ بہار کی آر جے ڈی نے بھی ترنمول کانگریس کی تائید کی ہے۔ آر جے ڈی کے صدر لالو پرساد نے کہا کہ اس تائید کا مقصد بی جے پی کو اقتدار پر آنے سے روکنا ہے۔ آر جے ڈی کے لیڈر تیجسوی یادو نے ممتا بنرجی سے کولکاتا میں ملاقات کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ ان کی ہر طرح کی مدد کے لئے تیار ہے۔، انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے ملک کے لوگوں کو ٹھگ لیا ہے اسے سبق سکھانا ہی ہوگا۔ اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی نے بھی ترنمول کانگریس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ممتا بنرجی کو تیجسوی یادو اور اکھلیش یادو جیسے نوجواں قائدین کی تائید حاصل ہو جائے تو بنگال میں بی جے پی کے خواب کبھی پورے نہیں ہو سکتے ہیں۔بنگال کے الیکشن میں مسلم ووٹوں کی بڑی اہمیت رہے گی۔ مغربی بنگال کے 30% ووٹ مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں۔ مرشدآباد میں 66.2%، مالدہ میں 51.3% ، اترّ دیناجپور میں 50% مسلم رائے دہندے ہیں۔ ریاست کے دیگر مقامات پر بھی ان کا فیصد اتنا ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کا کا میاب کراسکتے ہیں۔ مجوزہ الیکشن میں مغربی بنگال کے مسلمانوں کو اپنی سیاسی دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کرنالازمی ہے اور ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے کہ کسی بھی حالت میں فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے کا مو قع نہ ملے۔
کیرالا، جہاں سی پی آئی ایم کی زیر قیادت لیفٹ ڈیمویٹک فرنٹ(ایل ڈی ایف) کی حکومت ہے۔ بی جے پی ریاست میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرکے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔ کیرالا کے چیف منسٹر پنارائی وجین، اپنا ایک صاف ستھرا سیاسی امیج رکھتے ہیں لیکن کیرالا کی یہ روایت رہی کہ وہاں رائے دہندے حکومتوں کو بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی کانگریس کی قیادت میں سیکولر پارٹیاں اقتدار پر آ تی ہیں اور کبھی کیمونسٹ پارٹیوں کا محاذ وہاں حکومت تشکیل دیتا ہے۔ یہ عجیب سیاست ہے کہ مغربی بنگال میں سی پی آئی ایم اور کانگریس ایک دوسرے سے اتحاد کئے ہیں، بہار میں بھی یہ اتحاد قائم ہے لیکن کیرالا میں یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کا یہ دوہرا پن ہی ملک میں فرقہ پرست پارٹیوں کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع دے رہا ہے۔ کیرالا سارے ملک میں ایک سیکولر ریاست کی حیثیت سے مشہور ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح بھی سو فیصد ہے۔ کیرالا میں کوئی شخص ان پڑھ نہیں ملے گا۔ یہاں کی عوام کا سیاسی شعور بھی کافی پختہ ہے اس لئے بی جے پی کو کیرالا میں ابھی تک کوئی بڑی کا میابی نہیں ملی۔ لیکن اس الیکشن میں وہ شہریوں کومذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے ووٹ بٹورنا چاہتی ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ کی ریاستی سیاست میں اچھی خاصی نمائندگی کی وجہ سے کیرالا کے مسلمان بھی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں تعلیمی، معاشی اور سیاسی میدان میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ بی جے پی چاہتی ہے ریاست کی فرقہ وارانہ ہم آ ہنگی کو متاثر کر کے رائے دہندوں کے ذہنوں کو آلودہ کردے تا کہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھا یا جا سکے۔ تامل ناڈو میں جیہ للیتا اور کرونا ندھی کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ریاست میں ایک سیاسی خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اس خلا کو بی جے پی اپنی طاقت کے ذریعہ پورا کرنا چاہتی ہے۔ فلم اسٹار رجنی کانت، تامل ناڈو کی سیاست میں چھانے کی تیاری کر رہے تھے اور توقع کی جارہی تھی کہ وہ آ نجہانی قائدین کی جگہ لیں گے۔لیکن اچانک انہوں نے اپنے سیاست میں داخلہ کے فیصلہ سے دستبرداری اختیار کرلی۔ ان کے اس غیر متوقع اقدام سے ان کے فلمی پرستاروں میں بھی مایوسی پھیل گئی۔ واضح رہے کہ تامل ناڈو میں فلمی شخصیتیں ہی سیاسی افق پر اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتی رہیں۔ ایم۔ جی، رام چندرن ہوں کہ کروناندھی ہوں یا جیہ للیتا ہوں یہ سب فلمی دنیا سے سیاست کے میدان میں آئے۔ اب بھی وہاں یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ اب تامل ناڈو میں ایسی کوئی کرشماتی سیاسی لیڈر شپ نہیں ہے جو عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا سکے۔اس صورت حال کا بی جے پی فائدہ اٹھاتے ہوئے تامل ناڈو میں اپنی پہلی حکومت بنانا چاہتی ہے۔ پڈو چیری، ایک جو ایک یونین ٹریٹری ہے، اس کے انتخابی نتائج ملک کی سیاست پر کوئی خاص اثر ڈالنے والے نہیں ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے درمیان اصل جنگ آسام، بنگال، کیرالا اور تامل ناڈو میں ہوگی۔ ان ریاستوں میں سیکولر پارٹیوں کو کا میابی ملتی ہے تو 2024 میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی کو تیسری مرتبہ حکومت بنانے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ 27/ مارچ سے پہلے مرحلہ کی ووٹنگ کا آ غاز ہوگا اور 29/ اپریل تک 8مرحلوں میں یہ سارا عمل مکمل ہوگا۔ 2/مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔پانچ ریاستوں کے18کروڑ رائے دہندے اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔ الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیاں عوام کو رجھانے میں لگ گئی ہیں۔ مختلف سرکاری اسکیمات کو روبہ عمل لانے کے وعدے کئے جارہے ہیں۔ایسے وعدے ہر الیکشن کے موقع پر کئے جا تے ہیں۔ اب ملک میں الیکشن نظریات اور اقدار کی بنیاد پر نہیں ہورہا ہے بلکہ دھونس اور دھاندلی سے الیکشن میں کا میابی حاصل کی جارہی ہے۔اس لئے عوام کا اعتماد بھی جمہوریت پر سے دن بہ دن ٹھتا جا رہاہے۔