پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
ٹریفک جام ہو چکی تھی ہما ری گاڑی آگے جانا اب ناممکن تھی میں نے اپنے ساتھی کی طرف اجا زت طلب نظروں سے دیکھااور گاڑی سے نیچے اتر گیا روڈ بلاک ہو چکا تھا لگ رہا تھا جیسے سارے شہر کی گاڑیاں اِس محلے میں آگئی ہوں اب میں پید ل اپنی منزل کی طرف تیز قدموں سے چل رہا تھا ہر انسان مسجد کی طرف جا رہا تھا جہاں پر میرے جاننے والے کے والد صاحب کا جنا زہ تھا مرنے والا معاشرے کا بااثر انسان تھا اس کا بیٹا بھی صاحب ِ اقتدار تھا پرا ئیوٹ اور سرکا ری نیم پلیٹ والی گاڑیوں کی بھر مار تھی آخر کا ر تھو ڑا چلنے کے بعد ہی میں اس مسجد تک پہنچ گیا جہاں پر جنا زہ ہو نا تھا جنا زہ آنے میں ابھی وقت تھا لیکن مسجد کا وسیع و عریض صحن تقریبا بھر چکا تھا
شہر کے ہر طبقے کے با اثر مشہور لو گ آئے ہو ئے تھے لو گ مختلف ٹو لیوں میں گپیں مار رہے تھے یہ جنا زے سے زیا دہ سما جی تقریب لگ رہی تھی اِسی دوران شہر کا مشہور انسان بھی اپنے حواریوں کے ساتھ آگیا اب مختلف لو گ اس کے گرد اکٹھے ہو کر اس کی خو شامد کر نے لگے اس کے لیے راستہ بنا رہے تھے اس کا کا لر ٹھیک کر رہے تھے اس کا حال احوال پو چھ رہے تھے وہ جو بھی با ت کر تا سب ہا ں میں ہاں ملا ئے جا رہے تھے ایسے ایسے دانشور اس کی خو شامد میں لگے تھے جو خو د کو پھنے خاں سمجھتے ہیں میں ان کا میراثی پن دیکھ کر حیران ہو رہا تھا ہر کو ئی آگے بڑھ کر اس کی مداح سرائی کر رہا تھا ہر کو ئی اس کی تو جہ کا طالب تھا ہر کو ئی اس کی گڈ بک میں آنا چا ہ رہا تھا اِسی طرح کی چند اور بھی ٹو لیاں بنی ہو ئی تھیں جہاں پر کو ئی نہ کو ئی طا قتور با اثر بند ہ تھا اور اس کی مدح سرائی کر نے والی فوج اِسی دوران جنا زہ آگیا اب جنا زہ شروع ہوا جنا زے کے بعد کا منظر اور بھی حیران کن تھا جنا زے پر آنے والا ہر بندہ مر نے والے کے بیٹے کے پاس جا کر اپنی حا ضری لگوا رہا تھا جنا زے میں شریک انسانوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی نہ کسی طرح اپنا منہ مرنے والے کے بیٹے کو دکھا سکیں اس کے گر د بند وں کا سیلاب امڈ ا ہو ا تھا لوگ ایک دوسرے کو دھکے دے کر اس کے قریب جانے کی کو ششیں کر رہے تھے اور جس کو قریب جا نے کی سعاد ت نصیب ہو تی وہ جاتے ہی مر نے والے کی مداح سرائی شروع کر دیتا مر نے والا کا خلا صدیوں تک پو را نہیں ہو سکتا اور کر ہ ارض پر اس جیسا کو ئی نہ تھا اس کے جانے کا سب سے زیا دہ غم صرف مجھے ہی ہے جو اپنا چہر ہ دکھا لیتا جو اپنی حا ضری لگوا لیتا وہ فاتح عالم کی طرح واپس مڑتا چہرے پر کامیا بی کی لا لی ڈورے مار رہی ہو تی جیسے و ہ بہت بڑا معرکہ ما ر کر واپس آیا ہے لو گوں کو مر نے والے کا بالکل بھی غم نہیں تھا وہ صرف مر نے والے کے بیٹے کا قرب اور تو جہ چاہ رہے تھے خو شامدی نما ئشی کلچر اپنے عروج پر تھا جنا زے پر بھی آنیو الے اپنے تعلقات کے چکر میں پڑے ہو ئے تھے میں انسانوں کے اِس رویے پر حیران تھا کہ ہما رے معا شرے کا دیوالیہ پن اِس سے زیا دہ کیا ہو گا کہ ہم جنازوں پر بھی نمائش خو شامد کے چکر میں ہو تے ہیں ہمیں خدا کے فضل اور اپنی صلا حیتوں کا بلکل بھی احساس نہیں ہو تا بلکہ ہوا کے گھو ڑے پر سوا ری کا چسکا پڑا ہوا ہے میں حیرت سے انسانی کھو کھلے رویوں پر غو ر کر تا واپسی کی طرف مڑا لیکن انسانوں کا رویہ میرے دما غ میں سوچ کی کئی لکیریں چھو ڑتا چلا گیا آپ اگر روزانہ کے معاملات پر غور کریں تو ہر جگہ آپ کو ایسا ہی رویہ نظرا ٓئے گا آپ تعا رف کرا تے ہیں تو دوران تعارف اپنے طاقتور سرکاری افسروں کا تعارف کر ا تے ہو ئے اپنا تعارف کرا ئیں گے کہ میرا فلاں رشتہ دار ایس پی یا کمشنر ہے یا وزیر ہے اگر ہم اِس طرح کا تعارف نہ کرائیں تو ہما را ہا ضمہ درست نہیں ہوتا اور اگر کسی کا شجرہ نصب اعلی ہے تو وہ شجر ہ نصب لو گ گلے میں لٹکا ئے پھر تے نظر آتے ہیں دوسروں پر اپنے اعلی شجرے کا رعب ڈالتے ہیں آپ ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جا ئیں آپ کو ہر خا ندان میں سپو ت اور کپو ت ملتے ہیں سپو ت وہ جو پسماندہ غریب طبقے کے ماں با پ کا بیٹا ہو اور اپنی صلا حیتوں سے خو د بھی بڑا بنے اور اپنے خاندان کا نام بھی اونچا کرے اورکپو ت وہ جو مشہور خاندان کا چشم و چراغ ہو مگر اپنی حما قتوں برے کرتوتوں کی وجہ سے خو دبھی رسوا ہو اور اپنے خاندان کے نام پر بھی دھبہ ہو۔ ہم یہ بھو ل جا تے ہیں کہ اقبا ل ایک معمو لی شریف گھرا نے میں پیدا ہوا مگر اپنے فضل و کما ل اور علمی برتری کیوجہ سے وہ آج اپنی اگلی پچھلی سات پشتوں کے معتبر حوا لہ بن چکا ہے شکسئپیر ایک معمولی قصاب کا بیٹا تھا لیکن اپنی صلا حیتوں کے بل بو تے پر آج دنیا کا کون سا کونہ ایسا ہے جہاں اس کے چاہنے والے موجودنہیں صدیوں کا غبا ر بھی ایسے لوگوں کی شہرت کو دھندلا نہیں کر سکتا آپ عبا و قبا کے زور پر پیر طریقت نہیں بن سکتے جبہ و دستار کے بل بو تے پر مفتی علا مہ نہیں کہلا سکتے اپنے نام کے بینر مال روڈ پر لگوا کر ہر کو ئی لیڈر بن سکتا ہو تو پھر تو یہ کام ہر دولت مند کر سکتا ہے اور نہ ہی آپ شجر ہ نصب کے زور پر معا شرے کے معزز شخص کہلا سکتے ہیں اگر آپ حقیقی شہرت چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی کا ر کر دگی بہتر کر نا ہو گی۔ مغربی اقوا م کا مقا بلہ انگریزی بو لنے سے نہیں بلکہ کا رکرد گی سے آگے بڑھنا ہو گا بینر لگا کر نہیں کر دار دکھا کر لوگوں کے دلوں میں اتر نے کا ڈھنگ سیکھیں ملک چوہدری سردار صاحب کی بجا ئے انسان بننے کی جدو جہد کریں ہما رے صاحب اقتدار بھی ہو ش کے ناخن ہیں کیونکہ اقتدار سے نا پا ئیدار تعریف سے زیا دہ کثیف اور حکو مت سے زیا دہ کھو کھلی چیز شاہد ہی کو ئی ہو مسند اقتدار پر قابض شخص کے لیے لاکھوں جان دینے والے نکل آتے ہیں اقتدار کی راہداریوں سے نکل آنے کے بعد ایک بھی رونے والا نہیں ملتا صاحب اقتدار کے خوان اقتدار کی جھو ٹی ایڑیاں چوسنے والے ان کے اقتدار جانے کے بعد ان کی ہی تا زہ بو ٹیاں نو چتے ہیں کل تک ان کی نگا ہ غلط انداز کے تمنائی آج خو د ان کے لیے تیر انداز بنے ہو ئے ہیں کل جومیاں صاحب سے ایک پل کی جدائی سہنے کی تاب نہیں رکھتے تھے آج انہیں بھو لے بسرے خوا ب کی مانند بھلا چکے ہیں جوراہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں وہی بعد میں آنکھیں دکھاتے ہیں دن رات طواف کر نے والے لا ف و گزاف بکتے ہیں صدقے واری جانے والے اظہا ربیزاری کر تے نظر آتے ہیں انعام پانے والے الزام دیتے نظر آتے ہیں سلامیاں دینے والے خامیاں نکالتے تلوے چاٹنے والے پاں کے کانٹے بن جاتے ہیں انسان جانتا بھی ہے کہ وہ مو ت کا شکا ر ہو گا اور اگلے پل کی کسی کو بھی خبر نہیں لیکن پھر بھی دنیا داری کے رنگوں اور ناک اونچی کر نے کی بیما ری سے نکلتا ہی نہیں اِس دنیا کے لیے ایک بار شیر خدا حضرت علی نے کہا تھا اے دنیا میں تجھے تین طلاقیں دیتا ہوں میں جانتا ہوں کہ تو نے کبھی کسی سے وفا نہیں کہ تو وہ بو ڑھی بد صورت عورت ہے جس نے اپنی بد صورتی ظاہری حسن و جمال میں چھپا رکھی ہے تو وہ سانپ ہے جس کی کھا ل نرم مگر اندر زہر بھرا ہواہے تو وہ مر دہ ہے جس کی قبر پر چونا مل کہ اجلا کیا گیا ہے تو وہ اندر ائن ہے جس کا رنگ خو ش اور ذائقہ ترش ہے جا میں تجھے تین طلا قیں دیتا ہوں تو میرے لیے نہیں اور میں تیرے لئے نہیں ہوں۔