تبصرہ نگار: ڈاکٹر برہان رشید([1])
[1] اسسٹنٹ پروفیسر، شاہِ ہمدان انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، یونیورسٹی آف کشمیر، سری نگر، جموں اینڈ کشمیر (انڈیا)۔ email:
دُروس الادب حضرت علامہ سیّد سلیمان ندویؒ ([1]) کی تالیف ہے۔ یہ دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، انڈیا سے چھپی ہے۔ کتاب کے اِس نسخہ میں سنِ اشاعت کا ذکر نہیں، البتہ سید صباح الدین عبد الرحمٰن صاحب ؒ نے اپنی کتاب "مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تصانیف (ایک مطالعہ)” میں لکھا ہے: "جب سید صاحبؒ ستمبر 1908ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں علمِ کلام اور عربی انشاء کے معلم مقرر ہوئے تو اُن سے عربی کی دو ریڈریں لکھوائی گئیں —— سید صاحبؒ نے دُروسُ الادب کے نام سے دو ریڈریں اسی مقصد کو سامنے رکھ کر لکھیں”۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب سن 1908 ء سے چھپنا شروع ہوئی اور آج تک – جب کہ ایک صدی سے زائد زمانہ گزر چکا ہے – مسلسل چھپ رہی ہے، اور طلبہ برابر اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔
یہ کتاب عربی تراکیب، نحو و صرف کے ضروری قواعد، چھوٹے چھوٹے فقرے اور جملے، اور مختصر لیکن اہم مضامین سیکھنے کے لئے دو چھوٹے چھوٹے حصّوں (اجزاء) پر مشتمل ایک مفید کورس ہے۔ پہلے جزء میں 32 صفحات، اور دوسرے جزء میں 60 صفحات ہیں۔
[1] علامہ سیّد سلیمان ندوی صاحب ؒ (وِلادت: 1884ء، وفات: 1952ء) کی شخصیت سے نہ صرف خواص بلکہ عوام بھی پوری طرح واقف ہیں کیونکہ مسلمان گھروں میں سے ایسا کون گھر ہوگا جہاں آپ کی تصنیف "سیرۃ النبیؐ” اور "رحمتِ عالم” موجود نہ ہو۔ آپ جہاں بذاتِ خود ایک جامع اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے وہیں علامہ شبلی کے شاگردِ خاص ہونے، اور اُن کے نا تمام کارناموں کو پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی وجہ سے ماہ سے خورشید ہوگئے، اور عرب و عجم کے علمی اور مذہبی حلقوں میں اللہ پاک نے آپ کو شہرت سے نواز دیا۔ علومِ دینیہ اور علومِ ادبیہ پر پوری دسترس حاصل تھی۔ آپ ایک عظیم المرتبت عالم، مؤرخ، ادیب، شاعر، صحافی، ماہرِ تعلیم، اور سیاست داں تھے۔ آپ 22، نومبر 1884 ء کو بہار کے ایک مردم خیز قصبہ دیسنہ (پٹنہ) میں ایک علمی و مذہبی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد آپ 1901 ء میں دار العلوم ندوہ میں داخل ہوئے اور 1906 ء میں یہاں سے سندِ فراغت حاصل کی۔ یہیں آپ کی ملاقات علامہ شبلی نعمانیؒ سے ہوئی اور اُن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی رہنمائی میں علم و ادب سے عمر بھر کے لئے پیمانِ وفا باندھ لیا۔ آپ نے ملک کے اندر اور بیرونِ ملک بے شمار سفر کئے۔سن 1940 ء میں ایک زبردست روحانی انقلاب پیدا ہوا گو کہ آپ ہمیشہ پاک صاف اور تقویٰ و پرہیزگاری والی زندگی ہی گزارتے رہے، اس کے باوجود قلبی سکینت اور روحانی ترقی کے لئے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے آستانہ پر جاکر اپنا سر نیاز جھکا دیا۔ حضرت تھانویؒ کو بھی علم و فن کے ایک شہباز اور گلستانِ رسالت کے ایک عندلیبِ خوشنوا، اسلام کے ایک سفیر اور ضمیر کو اپنے سایۂ عاطفت میں لینے میں بڑی مسرت ہوئی۔ 22 نومبر 1953 کو کراچی میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ آپ نے گوناگوں علمی اور دینی خدمات انجام دیں، اور بلند پایہ اور محققانہ مضامین و تصانیف سے دُنیا کے کتب خانوں کو مالامال کردیا۔ آپ کی تصانیف کی تعداد بہت زیادہ ہے، چند مشہور ترین تصانیف کے نام یہ ہیں: حیاتِ امام مالک، دروس الادب، بہادر خواتین اسلام، تاریخ ارض القرآن، سیرتِ عائشہ، عرب و ہند کے تعلقات، عربوں کی جہاز رانی، خیام، حیاتِ شبلی، اور سیرۃ النبیؐ، نقوشِ سلیمانی (ماخذ: سیّد صباح الدین عبد الرحمٰن ؒ، مولانا سید سلیمان ندویؒ کی تصانیف (ایک مطالعہ)، دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔ اور شاہ معین الدین احمد ندوی، حیاتِ سلیمان، دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا)۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بندہ نے یہ دونوں جزء حرفًا حرفًا پڑھے۔ کتاب بہت مفید ہے۔ پہلے جزء میں مفرد الفاظ کے ساتھ ساتھ مختصر فقروں اور جملوں کی مشق ہے۔ اور نحوی تراکیب و اجزاء؛ جیسے: مسند اور مسند الیہ، مضاف اور مضاف الیہ، جملہ اسمیہ، جملہ فعلیہ، فاعل، مفعول، ظرف، اسم تفضیل، تمییز، حرفِ مشبہ بالفعل، لاءِ نفی جنس، صلہ و موصول، اور ضمیر، وغیرہ کے استعمال کو ایک غیر محسوس طریقہ سے ذہن نشین کرایا گیا ہے۔ پھر ایک طرف عربی سے اُردو ترجمہ تو دوسری طرف اُردو سے عربی ترجمہ کرنا بھی سکھایا گیا ہے، اور اس کے لئے مستقل مشقیں کرائی گئی ہیں۔ اس حصّہ میں اسمیہ اور فعلیہ جملوں کو علٰحدہ علٰحدہ بیان کیا گیا ہے تاکہ طلبہ کو ان کی پہچان ہوجائے اور ان کے فرق کو بھی سمجھ لیں، بعد میں دونوں طرح کے جملوں کو ملے جلے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
اور دوسرے جزء میں چھوٹے چھوٹے پیراگراف (paragraphs) اور مضامین (essays) کے ذریعہ سے عربي تحریر و تقریر، اور تلفظ و تکلم سکھایا گیا ہے۔بعض پیراگراف اور مضامیں کے عنوان بھی قائم کئے ہیں، مثلًا: "فِي الضَّیْفِ (ج: 2، ص: 36)”، "فِي الْبُوسَطَةِ (ج: 2، ص: 41)”، "فِيْ زِیَارَةِ الصَّدِیْقِ (ج: 2، ص: 42)”، وغیرہ۔ دوسرے جزء میں جزء اوّل کے مقابلہ میں الفاظ زیادہ مشکل استعمال ہوئے ہیں اور افعال میں ثلاثی مجرد کے اُوپر کے ابواب بھی استعمال ہوئے ہیں، جیسے: الاستعانة، التقليم، الانفلال، الانخراق، الترقيع، الاضطهاد، الاستيذان، التثاوب، التشميت، وغیرہ۔ ایک مُبتدِی کو اس جزء کو پڑھتے ہوئے ڈکشنری کا استعمال بار بار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ البتہ ہر پیراگراف اور مضمون سلیس، شگفتہ، دلچسپ اور عام بول چال کے اعتبار سے نہایت مفید ہے۔ ہاں بعض فقرے اور جملے مکرر، سہ کرّر بھی آئے ہیں۔ ہر سبق کے صدر میں اُس سبق کے مشکل اور خاص خاص الفاظ کو ایک ایک کرکے لکھا گیا ہے تاکہ طالبِ علم پہلے ہی ان الفاظ کے معنی یاد کرے، اور پھر سبق کو پڑھے، جس سے سبق پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ سبق کے اُوپر جو الفاظ دئے گئے ہیں اُن میں اسماء کے مفرد صیغے دئے گئے ہیں، اور افعال کے مصادر دئے گئے ہیں جن کے افعال یا مشتقات آگے سبق میں استعمال ہوئے ہیں۔مثلًا "الْبَابُ الثَّانِيْ فِي الْمُکَالَمَاتِ (ج: 2، ص: 34)” کے صدر میں جو الفاظ دئے گئے ہیں وہ یہ ہیں: الحضور. التعليم. القراءة. الكتابة. الخطابة. برء القلم ([1]). تقليب الأوراق. إمساك القلم. الإصلاح. الإخطاء. النسيان. الحفظ. الذكر. ظاہر ہے کہ یہاں جو اسماء دئے گئے ہیں وہ مفرد صورت میں ہیں اور باقی مصادرہیں جن کے افعال اور مشتقات آگے سبق میں استعمال ہوئے ہیں۔
کورس کا دوسرا جزء دو بابوں پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا عنوان "الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي الْجُمَلِ وَ الْفِقَرِ (ص: 2-33)” ہے، اور اس میں زیادہ تر چھوٹے چھوٹے جملے ہیں جنہیں ایک نقطہ (full stop) کے ذریعہ سے ایک دوسرے سے ممیز کیا گیا ہے۔ اور یہ جملے کسی خاص ترتیب یا جوڑ پر نہیں لکھے گئے ہیں بلکہ صرف ذیرِ بحث قواعد کو مد نظر رکھ کر مختلف جملے لائے گئے ہیں۔ اور دوسرے باب کا عنوان "الْبَابُ الثَّانِيْ فِي الْمُکَالَمَاتِ (ص: 34- 57) ” ہے، اور اس میں زیادہ تر پیراگراف اور مختصر مضامین ہیں۔ دوسرے جزء کے آخری حصّہ میں کچھ مشکل الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں (جیسا اُوپر بھی اس کا ذکر آیا ہے) جن کے معنی معلوم کرنے کے لئے ایک مُبتدی کو بار بار ڈکشنری دیکھنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، اسی لئے آخر میں دو تین صفحات پر مشکل اور جدید الفاظ کا اُردو معنی دیا گیا ہے، اور اس کا عنوان "قَامُوسُ بَعْضِ الْكَلِمَاتِ الْجَدِيْدَةِ (ص: 58-60)” رکھا گیا ہے۔
الغرض یہ کتاب تقریبًا ہر طرح کی نحوی ترکیبوں، مختصر فقروں، اہم جملوں اور دلچسپ مضمونوں کا ایک بہترین مجموعہ ہے جنہیں اگر غور سے پڑھا اور سمجھا جائے تو عربی لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنے میں بہت مہارت حاصل ہوجائے گی۔ البتہ اس کتاب میں قواعد اور تراکیب وغیرہ کی وضاحت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف ان کے مطابق عربی فقرے اور جملے لائے گئے ہیں تاکہ ان تمام قواعد و تراکیب کی خوب عملی مشق ہو۔ اس لئے اس کتاب کو شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان قواعد اور تراکیب وغیرہ کو سیکھا جائے، اور جنہوں نے انہیں پہلے سے سیکھا ہے اُن کے لئے یہ کتاب اور بھی آسان ہےاور نہایت مفید اور کار آمد بھی۔
کتاب کے تمام حصّے قابلِ فہم ہیں، اور بغیر کسی شدید کاوِش کے پوری کتاب حل ہوجاتی ہے، تمام عبارتیں بآسانی سمجھ میں آتی ہیں۔ ویسے تو کتاب کے دونوں اجزاء میں کتابت / املاء کی غلطیاں زیادہ نہیں ہیں، تاہم دورانِ مطالعہ بعض جگہ بندہ کو کتابت کی کچھ غلطیاں بھی نظر آئیں جن میں سے اکثر کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
کتاب میں درج لفظ / الفاظ | صحیح کیا ہوسکتا ہے | حوالہ جلد نمبر اور صفحہ نمبر |
السَّاعَةُ | السَّاعَةَ | ج: 1، ص: 8 |
هو أفضل خُلْقًا | هو أفضل خُلُقًا | ج: 1، ص: 11 |
إحدى عشر امرأة | إحدى عشرة امرأة | ج: 1، ص: 12، سطر نمبر: 2 |
المملُكَةُ | المملَكَةُ | ج: 1، ص: 3، 4، 17، 18، 24، وغیرہ۔ |
الإمرأة التي | المرأة التي | ج: 1، ص: 27 |
نحن قارؤن | نحن قارؤون | ج: 1، ص: 29 |
ليت الإمرأة | ليت المرأة | ج: 1، ص: 13 |
مُنْذَ الجمعةِ | مُنْذُ الجمعةِ | ج: 2، ص: 13 |
بَرَءَ الْقلم | برى القلم | ج: 2، ص:34 |
بَرَأْتَ الْقلم | بَرَيْتَ الْقلم | ج: 2، ص:34 |
افتح هذه المقلمة تجدُ فيها | افتح هذه المقلمة تجدْ فيها | ج: 2، ص:41 |
يَذْهَبُ لِيَعُودُهُ | يَذْهَبُ لِيَعُودَهُ | ج: 2، ص: 47 |
وَ كَتَبَ لِيْ وَصْفَةً وَ شُرْبُ الدَّوَاءَ كُلَّ يومٍ. | وَ كَتَبَ لِيْ وَصْفَةً وَ شُرْبَ الدَّوَاءِ كُلَّ يومٍ. | ج: 2، ص: 48 |
مُولِعٌ | مُولَعٌ | ج: 2، ص: 49 |
هُوَ أَحْوَكُ | هُوَ أَخُوكَ | ج: 2، ص: 11 |
اس کے علاوہ بہت سی جگہوں پر امر کے ہمزۂ وصل کو اس طرح "إ” لکھا ہے (مثلًا: إسمع، إقرأ، إفتح، أذكر، وغیرہ)، حالانکہ "أ – إ” ہمزۂ قطعی کے لئے مقرر ہے۔ اسی طرح اُن افعال ثلاثی مزید کے شروع میں بھی "إ ” لکھا ہے جو کہ ہمزۂ وصل سے شروع ہوتے ہیں (مثلًا: إجتنب، الإستعانة، إنحرق، وغیرہ)۔ اس لئے بہتر ہے کہ ایسی جگہوں پر ہمزۂ وصل کا حرف یعنی "ا” لکھا جائے۔
چند گزارشات [2]:
جزء اوّل، صفحہ 5 میں لفظ "جَارٍ” دیا ہے۔ یہ "اَلْ” کے بغیر اس لفظ کی شکل ہے، اگر اس کو "اَلْ ” کے ساتھ بھی دیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا یعنی اگر اس طرح لکھا جاتا: "جَارٍ / اَلْجَارِيْ"، اس صورت میں اس لفظ کی دونوں شکلیں سامنے رہیں گی۔
اُس یاء کو کہ جس کا تلفظ یاء ہوتا ہے نہ کہ الف، اُس کو ہر جگہ دو نقطوں کے ساتھ لکھا جاتا تو زیادہ اچھا تھا، مثلًا: یَجْرِيْ الْمَاءُ (ص: 5)، هِيَ عَالِمَةٌ (ص: 5)، صديقي (ص: 5، 19)، وغیرہ۔
جزء اوّل، صفحہ 20 پر سبق کا عنوان "مسند الیہ بہ ترکیب اضافی” ہے، اس لئے یہاں تمام جملوں میں مبتدا مرکب اضافی ہی لایا گیا ہے، لیکن ایک جملہ اس میں اس طرح ہے "الرَّجُلُ كَامِلٌ” جس میں "الرَّجُلُ” مبتدا اور "كَامِلٌ ” خبر ہے یعنی اس جملہ میں مبتدا مرکب اضافی نہیں بلکہ ایک مفرد اسم ہے۔ اس لئے یہ جملہ یہاں مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
جزء اوّل، صفحہ 25 پر ترکیب موصوف صفت کو بطور مبتدا استعمال کرنے کی مشق ہے، اسی سلسلہ میں "عربی میں ترجمہ کرو” کی ایک مشق بھی ہے۔ اس مشق میں جو بھی جملہ ہے اُس میں سے ہر ایک میں موصوف صفت کا مرکب مبتدا ہے، لیکن صرف آخر میں "آپ لوگ” لکھا ہے، اس کا ترجمہ عربی میں "أَنْتُمْ” ہوگا لیکن اس کا نہ موصوف صفت سے کوئی تعلق ہے، اور نہ یہ پورا جملہ ہے، معلوم ہوتا ہے کہ کاتب سے یہاں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے۔
جزء ثانی، صفحہ 24 میں ایک جملہ اس طرح ہے "ذَهَبْتُ غَدًا إِلَى السُّوقِ"، اصل متن میں لفظ "غَدًا” لکھا ہے حالانکہ یہاں پر لفظ”أَمْسِ” ہونا چاہئے کیونکہ یہ گزرے کل کی بات ہورہی ہے، اور "غَدًا ” آنے والے کل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔گو حاشیہ پر لفظِ أَمْسِ لکھ کر اس کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ لفظ غَدًا کو ہٹاکر وہاں لفظ أَمْسِ لکھ دیا جائے۔
بعض جگہ تمرین ہے اور بعض جگہ نہیں ہے۔ اس لئے تمارین میں وسعت اور تنوع دونوں میں اگر اضافہ کر دیا جائے تو کتاب کی افادیت میں اور اضافہ ہوگا۔
سید صباح الدین صاحبؒ لکھتے ہیں: "طلبہ کی ذہنی اور دماغی اصلاح و تربیت کی غرض سے با معنی اور پاکیزہ جملے بھی تحریر کئے گئے ہیں، جابجا قرآن مجید کی آیتیں اور فقرے [3]درج کئے گئے ہیں، اور آخر میں بعض مختصر سورتیں بھی نقل کی گئی ہیں تاکہ طلبہ کے مذہبی ذہن کی بھی نشو و نما ہوتی جائے۔” یعنی جزء دوم کے بابِ کے آخر میں سورۂ نصر، اخلاص، الکوثر، اور سورۂ عصر ہے، اور باب دوم کے آخر میں سورۂ فاتحہ۔
[1] ہمارے پاس اس کتاب کا جو نسخہ ہے اُس میں "برء القلم” ہی ہے، یہ کتابت کی غلطی ہے، صحیح لفظ "بری القلمَ” ہے۔
[2] یہاں پرہمارا رُوئے سخن ناشرین کی طرف ہے۔
[3] مثلًا: اقرأ باسم ربك. من قتل مؤمنا متعمدًا فجزاءه جهنم. إن الله يحب المحسنين. أحسن كما أحسن الله إليك، وغیرہ۔