امانت علی قاسمی
سرسید نے پیر جی محمد عارف کے واسطے سے ا پنے نظریات کو چند بنیادی اصولوں کا لباس پہنا کر حضرت نانوتوی ؒ کے سامنے کو یہ کہہ بھیجا تھا کہ میری تمام تر تحریروں کی بنیاد میرے یہی نظریات ہیں جن کی وجہ سے علماء میری تکفیر کرتے ہیں، یہ تکفیر حضرت نانوتوی کی طرف سے نہیں ہوئی تھی، لیکن حضرت نانوتوی کی علمی حلقوں میں ایک پہچان تھی، آپ کی عبقریت کو تسلیم کیا جاتا تھا،اس پس منظر میں سرسید نے یہ عریضہ حضرت نانوتوی کو پیش کیاتھا کہ بزرگان سہارن پور ان اصولوں پر نظر ڈال لیں اور اگر کوئی اس میں غلطی ہے تو نصیحت فرماسکتے ہیں وہ نصیحت کارگر ہوگی اور اگر یہ اصول صحیح ہیں تو حضرت نانوتویؒ اس کی تصدیق فرمادیں گے۔جب یہ خط حضرت نانوتویؒ کو موصول ہوا تو حضرت نے بھی پیر جی محمد عارف کے توسط سے ہی جواب ارسال فرمایا۔ حضرت کے خادم مولانا محمد حیات صاحب نے اسے بعد میں شائع فرمادیا۔
سر سید کے کل پندرہ اصول ہیں ان میں ایک تو ذات باری سے متعلق ہے، چار قرآن مجید، دو آپ ﷺ کی ذات اور باقی احکام اسلام سے متعلق ہیں۔زیادہ تر اصول سرسری نظر میں عقل کے بالکل موافق معلوم ہوتے ہیں، لیکن حضرت نانوتوی کی نگاہ بصیرت میں وہ بالکل اصول شرع کے موافق نہیں تھے اس لیے آپ نے ان پر تعلیقات کی ہیں۔ یہاں سرسید کے چند اصول او راس پر حضرت نانوتوی کی تعلیق و تردید کو اختصار اور تسہیل کے ساتھ پیش کیا جارہاہے۔
ان کا پہلا اصول یہ ہے کہ خدائے واحد ذو الجلال ازلی و ابدی و خالق و صانع تمام کائنات ہے۔ اس پر حضرت نانوتوی ؒ فرماتے ہیں واقعی خدا تعالی ازلی و ابدی خالق و صانع تمام کائنات کا ہے، فاعل ہوں یا افعال اور افعال اختیاری ہوں یا اضطراری یہی وجہ ہے کہ خداتعالی کو کائنات کا مالک اور کائنات کو اس کا مملوک سمجھنا چاہیے۔رہا حسن و قبح کا جھگڑا اس کا مبنی اگر اسی حکم پر ہے تب تو خیر ہر حکم حسن ہے اورحسن و قبح کی رعایت امرو نہی کے باب میں مجبوری نہیں بلکہ حکمت و فضل کی وجہ سے ہے۔
ان کادوسرا اصول یہ ہے کہ اللہ کا کلام اور پیغمبر کا کلام خلاف واقعہ اور خلاف حقیقت نہیں ہوسکتاہے۔اس پر حضرت نانوتوی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ اللہ کا کلام اور رسول اللہ کا کلام خلاف واقعہ اور خلاف حقیقت نہیں ہوسکتا لیکن حقیقت اور واقع کو دریافت کرنے کی اس بہتر کوئی صورت نہیں ہوسکتی ہے کہ خدائے تعالی اور رسول اللہ کے کلام کی طرف رجوع کیا جائے، اس سلسلے میں اگر عقل،نقل کے مخالف ہوجائے تو اس کا ہر گز ا عتبار نہیں ہوگایعنی عقل کا تقاضہ ہے کہ کلام اللہ اور احادیث رسول اللہ کو صحیح اور عقلی دلائل کو غلط سمجھے اس کے برعکس نہیں، اگر کھچ کھچا کر بھی قرآن وحدیث عقل کے مطابق ہوجائے تو بہت اچھا ورنہ عقل کی کمی تصور کیا جائے نہ یہ کہ اپنے خیالات کو اصل اور قرآن وحدیث کو کھیچ تان کر اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی جائے۔
سرسید کا تیسرا اصول یہ ہے قرآن مجید کلام الہی ہے کوئی حرف اس کا نہ خلاف حقیقت ہے اورنہ خلاف واقعہ ہے۔اس پر حضرت نانوتوی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ اصول تو صحیح ہے مگر اس کبری کے لیے کوئی صغری عقل سے دریافت کرنا ہم سب کا کام نہیں۔ عقل کے ذریعہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے یا یہ واقع ہے اور اگر ہم کہیں تو کلام اللہ کا جو متبادر اور عام فہم معنی ہے اس کے مطابق ہوتو درست ہے ورنہ درست نہیں اور معنی مطابقی سے زیادہ مراد لینے کی بھی اجازت نہیں ہاں اگر دلیل عقلی یا نقلی سے ایسی بات ثابت ہوجائے تو معنی مطابقی کے مخالف نہیں تو اس کو قبول کرنے میں میں کوئی مضائقہ نہیں، حضرت نے مثال دی ہے کہ جاء نی زید سے زید کا آنا ثابت ہوتا ہے سوار ہوکر یا پیدل آنا ثابت نہیں ہوتا ہے۔
سر سید کا چوتھا اصول یہ ہے کہ قرآن مجید کی جس قدر آیات خلاف حقیقت یا خلاف ظاہر معلوم ہوتی ہیں وہ دو حال سے خالی نہیں یا تو ان آیات کا مطلب سمجھنے میں ہم سے غلطی ہوئی ہے یا جس کو ہم نے حقیقت اور واقع سمجھا ہے ا س میں غلطی کی ہے اس کے برخلاف کسی محدث یا مفسر کا قول قابل تسلیم نہیں۔اس پر حضرت نانوتویؒ فرماتے ہیں کہ کلام اللہ کے مخالف نہ کسی محدث کا قول معتبر ہے نہ کسی مفسر کا؛ بلکہ اگر حدیث کلام اللہ کے مخالف ہوں تو موضوع سمجھی جائے گی، البتہ تخالف و توافق کا سمجھنا ہم جیسوں کا کام نہیں ہے اس کے لیے تین علموں کی ضرورت ہے معانی قرآنی کا علم یقینی، معانی قول مخالف کا علم یقینی، اختلاف کا علم یقینی، جس کے پاس یہ علوم نہ ہوں اور وہ معانی قرآن میں دخل اندازی کرے تو اس کی دخل اندازی اسی طرح ہے جیسے کسی حاذق طبیب کی بات میں کسی نیم طبیب کی دخل اندازی،اس لیے کہ خطاء نسیان کی وجہ سے حاذق حکیم سے طب کے قوانین کی مخالفت ممکن ہے مگر ادویہ پر گرفت کرنا نیم حکیم کا کام نہیں۔ایسے ہی محدث اور مفسر سے خطاء و نسیانا قرآن کی غرض کے خلاف ممکن ہے لیکن ہم جیسے نیم ملا کا یہ منصب نہیں کہ ہم اسے دریافت کرسکیں،یا مخالفت کے سلسلے میں ہمارا قول معتبر ہوجائے، ہاں دوتفسیر میں سے کسی ایک کو اپنے علم و وجدان کے ذریعہ راجح قرار دینا آسان ہے۔
سرسید کا پانچواں اصول یہ ہے کہ جس قدر کلام الہی حضور ﷺ پر نازل ہوا وہ سب بین الدفتین موجود ہے ایک حرف بھی اس سے خارج نہیں اگر ہو تو پھر قرآن مجید کی کوئی آیت بطور یقین قابل عمل نہیں رہے گی کیوں کہ ممکن ہے کہ کوئی آیت خارج رہ گئی ہو جو آیت موجودہ بین الدفتین کے برخلاف ہو۔ حضرت نانوتوی ؒ نے اس اصل کو تسلیم نہیں کیا وہ فرماتے ہیں کہ کسی آیت کا منسوخ الحکم ہو کر دفتین سے خارج ہوجانا وجوب عمل قرآنی میں مخل نہیں ہے اگر ہمیں کسی آیت کا منسوخ التلاوت ہوجانا معلوم جائے تو ہر گز ا حکام واجبہ میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔سر سید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کوئی آیت منسوخ التلاوت نہیں ہے اس لیے کہ اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ جو آیت منسوخ ہو کر خارج ہوگئی ہے وہ موجود آیت کے خلاف ہو۔حضرت نانوتوی فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اگرمنسوخ آیت ہمیں معلوم ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ہاں جو آیت خارج ہے اگر متعین طورپر معلوم نہ ہو او راس کا حکم معلوم نہ ہو تو یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ شاید وہ حکم ناسخ ہو اور احکام موجودہ میں سے کوئی حکم منسوخ ہو۔
سرسید کا چھٹا اصول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی انسان کا قول و فعل بغیر حضور ﷺ کی سند کے دینیات میں قابل تسلیم نہیں ہے یا کوئی انسان ایسا نہیں کہ ان کی بات کو تسلیم نہ کرنے سے کفر لازم آئے، کسی غیر نبی کے قول کو قابل تسلیم سمجھنا شرک فی النبوۃ ہے۔حضرت نانوتوی ؒ سمجھتے ہیں کہ سرسید کا یہ اصول انکار حدیث کی طرف لے جانے والا ہے اس لیے حضرت نانوتوی ؒنے اس پر مدلل گفتگو کی ہے۔ حضرت نانوتوی ؒ فرماتے ہیں کہ خدا تعالی کو بادشاہ، انبیاء علیہ السلام کو وزراء یا نواب اور علماء و ائمہ و مجتہدین کو حاکم ماتحت وزراء سمجھنا چاہیے، اللہ تعالی تو بالذات مطاع ہیں اور انبیاء اگر چہ بالعرض ہیں لیکن رسالت کے یقین اور معصومیت کی وجہ سے ان کی پیروی بھی یقینی ہے،البتہ علماء کے عہدہ نیابت میں کلام ہے کیوں کہ یقین کے ساتھ معلوم نہیں کہ یہ واقعی نائب رسول ہیں اور اگر یہ یقین کے ساتھ معلوم ہوجائے تو یہ معلوم نہیں کہ ان کا یہ فعل ہواء ہوس یا خطاء ونسیان کی وجہ سے نہیں ہے۔لیکن اس قسم کے خیالات ظنی ہیں، اور ہم دیکھتے ہیں کہ کم سے کم وجوب کے لیے ظن ضروری ہوتاہے؛چنانچہ دیکھتے ہیں کہ ایک صحیح حدیث جو کہ مفید ظن ہے لیکن اس کی مخالفت سے فسق لازم آتاہے اگر یہ وجوب کا فائدہ نہ دیتی تو گناہ اور فسق کیوں کر لازم آتاہے ظاہر ہے کہ قاضی کو دو گواہوں سے یا سامع کو حدیث واحد سے یقین حاصل نہیں ہوتاظن کا فائدہ حاصل ہوتا ہے تو اگر ظن یہ وجوب کا فائدہ دیتا ہے تو جہاں دینیات میں دو قول مختلف ہوں اور ایک کی طرف ظن غالب ہو تو موافق قاعدہ مذکورہ سے بھی وجوب ہی ثابت ہوگا۔
یہ کہہ دینا کہ کسی کا قول و فعل بلا سند قابل تسلیم نہیں تو راویوں کا یہ کہنا کہ یہ روایت قول خدواندوی ہے یا قول نبوی ہے کیوں کر قابل تسلیم ہوسکتاہے کیوں کہ یہ بھی تو غیر نبی کا قول ہے اوراگر راوی کا یہ قول حسن ظن کی وجہ سے قابل قبول ہے تو فقہاء اور علماء نے کیا گناہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ حسن ظن نہیں؟ اگرچہ فقہاء کے قول کی سند ہمیں معلوم نہیں لیکن حضرات فقہاء اور علماء ربانی راویان حدیث سے استحقاق ظن میں کسی اعتبار سے کم نہیں اور فقہاء کا اقوال مستخرجہ میں دو منصب ہے ایک استخراج واستنباط کا اور دوسرا روایت کا کیوں کہ اگر یہ منصب ان کے لیے تجویز نہ کیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ یہ لوگ کذاب اور دروغ ہیں گوتھے اور آثار صدق و دیانت کے موجود ہونے کے باوجود اگر کسی کو کذاب کہنا درست ہے تو راویان حدیث کو کذاب کیوں نہیں کہا جاتاہے۔حاصل یہ کہ جس طرح ہم راویان حدیث کے ساتھ حسن ظن رکھ کر ان کی بات مان لیتے ہیں اسی طرح کا حسن ظن فقہاء کے ساتھ رکھ کر ان کی بات بھی تسلیم کرنی چاہیے۔ہاں فقہاء کے احکام مستخرجہ کا وجوب احکام منصوصہ کے وجوب سے کم تر ہوگا مگر یہ کمی ایسی ہوگی جیسے نماز کی فرضیت اور روزہ کی فرضیت میں کمی بیشی ہے اس لیے یہ کہنا تو غلط ہے کہ انبیاء کے علاوہ کسی کا قول تسلیم نہیں، ہاں یہ بات مسلم ہے کہ اس کے انکار سے کفر عائد نہیں ہوتا ہے جس طرح کہ حدیث واحد کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا لیکن فسق لازم آتاہے اس لیے یہاں بھی فسق لازم آئے گا، اگر چہ بہت تھوڑا ہی سہی۔
اسی طرح سر سید صاحب کا یہ کہنا کہ دوسروں کے قول کو قابل تسلیم سمجھنا شرک فی النبوۃ ہے، حضرت نانوتوی فرماتے ہیں کہ یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے یہ اس صورت میں لازم آئے گا جب کہ دوسرے کے قول کی اتباع حضور کی اتباع کی طرف سمجھا جائے جیسے کہ آباء و اجداد کی رسوم کی پیروی سنت کے مقابلہ میں کی جائے جس سنت کے ثبوت کا یقین ہے اور آبا ء کے رسوم کی کوئی سند نہیں ہے تو بے شک وہ شخص شرک فی النبوۃ میں مبتلا ہے۔اگر اپنے آبا کے ساتھ ان کو یہی عقیدہ ہے جو انبیاء علیہ السلام کے ساتھ ان کے پیروؤں کو ہونا چاہیے تب تو وہ لوگ شرک حقیقی اور کافر حقیقی ہیں۔
سرسید کا ساتواں اصول یہ ہے کہ: دینیات میں سنت نبوی کی اطاعت میں ہم مجبور ہیں اور دنیاوی امور میں مجازا، اس مقام پر سنت سے میری مراد احکام دین ہے یعنی امور دین میں آپﷺ کی اطاعت کی جائے گی امور دنیا میں آپ کی اطاعت نہیں ہے۔اس پر حضرت نانوتوی ؒ فرماتے ہیں کہ دین آپ ﷺ کے اقوال کا نام ہے تو یہ تفریق کس طرح ہوسکتی ہے کہ دین کے باب میں آپ کی اتباع ضروری ہوگی اور دنیا کے باب میں آپ کی اتباع مجازا ہے، اس کے بعد حضرت نانوتوی ؒ فرماتے ہیں آپ ﷺ کے ارشادات یا تو امر ہیں یا مشور ہ ہے اگر امر وجوب کے لیے ہے تو اس کی اتباع واجب ہے اور اگر امر استحباب کے لیے ہے تو اتباع مستحب ہے اور مشورہ میں رسول اللہ ہوں یا کوئی اور کوئی واجب الاتباع نہیں ہے۔البتہ انسان کے اپنے اختیاری افعال پر دو قسم کا نتیجہ مرتب ہوتاہے دنیوی نفع و نقصان اور اخرو ی نفع و نقصان اور دنیوی نفع و نقصان میں تو آدمی کو اختیار ہے لیکن اخروی نفع و نقصان میں آدمی کو اختیار نہیں ہے اخروی نفع و نقصان کے سلسلے میں ا نبیاء کو صرف مشیر سمجھنا شرک فی النبوۃ کی بنیاد کو مستحکم کرتا ہے یا انبیاء کو عوام کی طرح سمجھنا ہے بالکل غلط ہے اس لیے کہ بسا اوقات انبیاء کا مشورہ بھی وحی کی بنیاد پر ہوتا ہے جب کہ عوام کا مشورہ اٹکل سے ہی ہوتا ہے۔
دوسری بات حضرت نانوتی ؒ یہ فرماتے ہیں بعض دنیاوی کامیابی وفلاح کے راستے آخرت کے معارض ہوتے ہیں جیسے چوری، قزاقی،غصب وغیرہ یہ مخالفت شرہ کی وجہ سے ممنوع ہیں اور بعض دنیاوی فلاح کے طریقے موافق ہوتے ہیں جیسے وعظ گوئی، یا قرآن خوانی پر کچھ لینا یہ اس وجہ سے ممنوع ہوجاتے ہیں کہ سرکاری غلام،سرکاری کام پر اجرت نہیں مانگ سکتاہے اور جو نہ موافق ہو نہ مخالف ان کو اگر فلاح کا ذریعہ قرار دیں تو بجا ہے۔ اس میں دنیاوی فلاح میں ہمیشہ یہ ملحوظ رہے گا کہ آخرت کے فلاح کے معارض نہ ہوں چنانچہ بیو ع و اجارات کا فساد و بطلان سب اسی پر مبنی ہے۔
خلاصہ یہ کہ آپ ﷺ کا امر جس امر میں بھی ہو واجب الاتباع یا مستحب الاتباع ہوگا ہاں مشورہ واجب الاتباع یا مستحب الاتباع نہیں البتہ حسن ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے مشوروں کو بھی اوروں کے مشورے پر مقدم رکھا جائے۔