خاندانی نظام کا استحکام ۔۔ پُر امن اور بہترمعاشرہ کا ضامن

Share

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد (حیدرآباد)
9885210770

مضبوط خاندان، مضبوط سماج "کے زیر عنوان آج سے ملک گیر سطح پر دس روزہ مہم کا آغاز
خاندان،سماجی زندگی کی وہ بنیادی اکائی ہے جس پر سارے سماج کی ترقی اور بقاء کا دارومدار ہے۔ اگر خاندانی نظام کی جڑیں کھو کھلی ہوجائیں تومعاشرتی زندگی میں انتشار اور بدامنی کو پھیلنے سے روکنا نا ممکنات میں سے ہوجا تا ہے۔اس وقت ہندوستانی سماج جس بارود کی ڈھیر پر کھڑا ہواہے اس کی ہولناکی سب ہی محسوس کر رہے ہیں۔ ہر ایک اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ سماجی بگاڑ کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی جدوجہد کو تیز کردیا جائے تاکہ سماجی زندگی مزید بحران کا شکار نہ ہو۔

لیکن جب تک خاندانی نظام کو صحیح خطوط پر منظّم نہیں کیا جائے گا ایک بہتر اور خوشگوار سماج کا قیام کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ خاندان افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور جب تک افراد کے طورطریقوں میں مثبت تبدیلی نہ آ ئے اور وہ خاندان کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری اپنی ذ مہ داری نہ سمجھیں ایک پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ خاندان ہی دراصل بنیاد کا وہ پتھر ہے جس پر سماج کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ جس طرح کسی عمارت کو صرف رنگ و روغن سے آراستہ کر دینے سے اُ س عمارت کی مضبوطی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی جب تک کہ اس کی بنیاد کو مضبوط نہ رکھا جائے، اس طرح کوئی سماج اس وقت تک اچھے برگ و بار نہیں لا سکتا جب تک خاندانی نظام مضبوط نہ ہو۔ قرآنِ مجید نے خاندان کے وجود کو اللہ تعالیٰ کے احسان میں شمار کیا ہے۔ خالقِ کائنات کے اس احسان کی انسان قدر کرے۔ اسلام نے جس خاندانی نظام کی بنیاد رکھی ہے یہ انسان کو قلبی اور روحانی سکون عطا کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مغربی تہذیب کی یلغار نے جہاں سماجی زندگی کے بہت سارے شعبوں میں مشرقی تہذیب کو اپنی جال میں لے لیا ہے وہیں سب سے زیادہ خاندانی نظام کے تار وپود کو اکھاڑ پھینکنے میں اپنی ساری طاقت جھونک دی۔ مغرب کا خاندانی نظام اور اس کا سماج تو اس وقت اپنی تباہی اور بربادی کی انتہا پر ہے اسی کے ساتھ وہ مشرقی اقوام کو بھی اس آگ میں جھلسادینا چاہتا ہے تا کہ یہاں کی صدیوں سے جاری روایات بھی خاکستر ہو جائیں۔خاندانی نظام کے بکھراؤ نے مغرب کی جو درگت بنادی اسے دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ اس کے کڑوے اور کسیلے پھل چکھنے کے بعد بھی اگر اعلیٰ اقدار کے حامل معاشرے مغرب کی زلف کے اسیر ہوجائیں تو انہیں بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔وہ ساری خبا ثتیں جس میں اس وقت مغربی معاشرہ ڈوبا ہوا ہے وہ سب ہماری سماجی زندگی کا حصہ بن جائیں گی۔ آج مغرب میں مقدس رشتوں کا پاس و لحاظ ختم ہو گیا ہے۔ عورتیں بغیر شادی کے مائیں بن رہیں ہیں۔ عورت اور مرد کا بغیر شادی کئے ساتھ رہنا اب معیوب نہیں رہا ہے۔ مستقل شادی کا تصور ایک دقیانوسی خیال مانا جا رہا ہے۔ والدین کی نگہداشت اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل اولاد کے لئے لازمی نہیں رہی۔ والدین اپنے بچوں کو کوئی حُکم نہیں دے سکتے ہیں۔ شوہر اپنی بیوی سے کوئی جائز مطالبہ بھی نہیں کر سکتا۔ اس کی آز ادانہ چلت پھرت پر کوئی کنڑول کرنے کا اسے کوئی حق حا صل نہیں ہے۔ جہاں ناداروں، ضیعفوں اور کمزوروں کو زندگی سے اچھی موت لگتی ہے۔ کیوں کہ وہ خاندان اور سماج کے لئے ایک بوجھ مانے جا تے ہیں۔ کیا ایسا سماج انسانیت کے لئے سود مند ہو سکتا ہے جہاں ہر طرف نفسا نفسی ہو۔ مشرقی سماج مغرب کی اندھی تقلید کر تے ہوئے اسے اپنا مسیحا سمجھے تو یہاں بھی خاندانی نظام کی وہ بھیانک صورت حال سامنے آئے گی جس سے اس وقت مغرب دوچار ہے اور وہ اس سے نکلنے کی سعیِ ناکام بھی کر رہا ہے۔
خاندانی نظام کا استحکام ہی درا صل سماجی زندگی کو خو شگوار بنانے میں کلیدی رول ادا کر تا ہے۔ خاندان میں انتشار پیدا ہوجائے توسماجی مسائل کا انبار لگ جاتا ہے۔اس وقت ہندوستانی سماج جس دوراہے پر کھڑا ہوا ہے اور جس کشا کش کو ہم دیکھ رہے ہیں اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر خاندانی نظام کو مضبوط کرلیا جائے تو خود بخود سماجی مسائل کا حل نکل آ ئے گا۔ اس ضمن میں سماج کے ہر فرد کو اپنا نمایاں کردار ادا کرنا ہوگا۔ خاص طور پر خواتین میں یہ احساس اُ جاگر کر نے کی ضرورت ہے کہ ان کے ذریعہ خاندانی نظام میں تعمیری تبدیلی لائی جاسکتی ہیں۔ مغرب نے سب سے زیادہ نشانہ عورت کو بنا یا ہے۔ نِت نئے طریقوں سے عورتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش مغربی طاقتوں کی جانب سے ہو رہی ہے۔ اپنے آپ کو انسانی حقوق کے چمپئن کی حیثیت سے پیش کر تے ہوئے مغربی تہذیب کے علمبردار آزادی نسواں کا نعرہ دے کر عورتوں کو ان کی دیرینہ روایات سے بر گشتہ کرنے کی پوری جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔ جدیدیت اور ترقی کے نام پر عورتوں کو مردوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنایا جا رہا ہے۔ عو رتوں کے مقابلہ حسن کے نام پر عورت کے جسم کی نمائش کی جا رہی ہے۔ عورت کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں عو رتوں کو سیاسی میدان میں تحفظات تو دئے گئے۔ ان کے لئے بلدیہ، اسمبلی اور پارلیمنٹ کے حلقے مخصوص کئے گئے۔ تعلیم اور روزگار میں رزیرویشن بھی دیا گیا۔ لیکن عورت کی سماجی حیثیت کو اب بھی دِ ل سے قبول نہیں کیا گیا۔ ہمارے وطنِ عزیز میں ہر سال تقریبا ایک لاکھ بچیوں کا رحمِ مادر میں قتل ہو جاتا ہے۔ کوئی اس پر سوال اٹھانے والا نہیں ہے۔ عورت کی عصمت ریزی اور قتل کے کتنے ہی واقعات حالیہ دنوں میں ہماری آ نکھوں کے سامنے ہوئے۔ ہتھرس (یو پی) میں جو گھناؤنا جرم ہوا، اس پر کا فی ہنگامہ تو ہوا لیکن کیا خاطیوں کو قرارِ واقعی سزا ملی؟ ہر سال عالمی سطح پر "یومِ خواتین”بڑے تزک و اہتمام سے ساری دنیا میں منایا جاتا ہے لیکن کیا کبھی اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ ہر سال کتنی دلہنیں زندہ جلا دی جاتی ہیں۔ ہندوستان کے وزیراعظم نریندرمودی نے "بیٹی پڑھاؤ۔ بیٹی بچاؤ”کا خوشنما نعرہ تو دیا لیکن کیا لڑکیوں کے لئے حصولِ علم کی وہ ساری سہولتیں فراہم کی گئیں جس کو اختیار کرتے ہوئے وہ علم کے میدان میں آ گے بڑھ سکتی ہیں۔ "Empowerment of Women”یعنی عورتوں کو با اختیار بنانے کی بڑی بڑی باتیں مختلف گوشوں سے کی جا تی ہیں لیکن عورت کو وہ مستحقہ مقام و مرتبہ دنیا دینے میں ناکام ہو گئی جس کی وہ مستحق ہے۔ خاندانی نظام سے آزادی نے عورت کے تحفظ پرسوالیہ نشان لگا دیاہے۔ مغرب نے جس آزاد سماج کا تجربہ کیا تھا وہی تجربہ ہندوستانی سماج بھی کر رہا ہے۔ عدالتوں کی جانب سے بغیر شادی کے عورت اور مرد کو ساتھ رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ ایک عورت کا دوسری عورت سے اور ایک مرد کا دوسرے مرد سے شادی کرنا اب قانون کی نظر میں جرم نہیں رہا ہے۔ بین مذہبی شادیوں کے رواج نے حرام کاری کو عام کر دیا ہے۔ آر ایس ایس پروپگنڈا کر رہی ہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو بھلا پھسلا کر ان سے شادی کررہے ہیں۔اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے لَو جہاد کا نعرہ گھڑا گیا۔ اور اب بی جے پی کی ریاستی حکومتیں مذہب بدلنے کے خلاف قانون بھی منظور کر چکی ہیں۔ اس قانون کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو ہراساں کرنے کا ایک اور ہتھیار فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں آ گیا۔مسلم لڑکیاں بھی مسلم معاشرے میں دَر آئی جہیز کی لعنت کی وجہ سے غیر مسلم نوجوانوں سے شادیاں رچا رہی ہیں۔ اس طرح مسلم خواتین اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ اپنی خاندانی روایات سے بھی بغاوت کر نے پر مجبور ہو رہی ہیں۔ کیا امت کے مذہبی رہنماء، سیاسی قائدین، دینی جماعتیں اور دانشور مسلم معاشرہ کی اس تباہی کو صرف دیکھتے رہیں گے؟
جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خواتین نے حالات کے اسی پسِ منظر میں "مضبوط خاندان، مضبوط سماج”کے عنوان پر ملک گیر سطح پر ایک دس روزہ مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مہم 19 / تا 28/ فروری1 202سارے ملک میں چلائی جائے گی۔ اس مہم کے ذریعہ ہندوستانی سماج کے تمام افراد تک یہ پیغام پہنچایا جائے گا کہ خاندان کی بہتر انداز میں نگہداشت سے ہی ایک پرامن اور خوشحال سماج کی تشکیل ممکن ہے۔ اس مہم کے مخاطب ملک میں بسنے والے سارے خاندان ہوں گے لیکن خاص طور پر مسلم خاندانوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے خاندانی نظام کی اعلیٰ اقدار کو اپناتے ہوئے دیگر براداران وطن کے لئے ایک مثالی نمونہ بنیں۔ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اسلام کی واضح تعلیمات ہونے کے باوجود مسلم خاندان اور مسلم معاشرہ بھی اُ س طوفانِ بَلا خیز کی زَد میں آگیا جو مغرب کی جانب سے اٹھا۔ مغربی تہذیب کی چکا چوند نے مسلم خاندانوں کو بھی اس تہذیب کا گرویدہ بنا دیا۔ عوام تو عوام، خواص بھی مغربی تہذیب کے گُن گانے لگے ہیں۔ اچھے خا صے دینی گھرانے اس تہذیب سے متا ثر ہیں۔ مسلم خاندانوں میں طلاق کا بڑھتا ہوا فیصد، مطلقہ کے حقوق کی ادائیگی سے گریز، شادی بیاہ کے موقع پر اسراف، لڑکیوں کو وراثت میں شرعی حصہ نہ دینا، جائیداد کی تقسیم میں نا انصافی سے کام لینا، اب مسلم خاندانوں میں ایک عام با ت ہو گئی۔ اب اسے بُرا سمجھنے کا رجحان بھی ختم ہو رہا ہے۔ خونی رشتوں کا جہاں پاس ولحاظ نہ ہو وہاں یتیموں، بیواؤں اور دیگر رشتہ داروں کو کون پوچھتا ہے۔ دولت کی ریل پیل نے رشتوں کو رسمی بنا کر رکھ دیا۔ دولت مند افراد اپنے قریبی اعزاء کا تعارف اجنبیوں کے طور پر کرانے لگے ہیں۔معاشی مسائل نے مشترکہ خاندان کو اب قصہ پارینہ بنا دیا ہے۔ اب تو مسلم خاندانوں میں بھی غیر محسوس طریقہ سے "ہم دو، ہمارے دو "پر عمل ہورہا ہے۔ اب وہ کشادہ ذہنی اور وسیع النظری مسلم معاشرے میں نہیں رہی جو ہمارے اسلاف میں تھی۔ اب تو بچیوں کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ سسرال والوں کی خدمت کرنا تمھاری ذ مہ داری نہیں ہے۔ وہ شوہر کا کام ہے کہ وہ اپنے والدین کی فکر کرے تم کو اس بارے میں سوچ کر پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ جب کسی معاشرے میں یہ سوچ پیدا ہوجائے تو خاندان کا بگڑنا اور بکھرنا یقینی ہے۔ مسلم خاندان اس وقت جس دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو مسلم خاندانوں نے نظرانداز کر دیا۔ جماعت اسلامی ہند کی خواتین اس مہم کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے حصول کا جذ بہ اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کر نا چا ہتی ہیں۔ اس مہم کا مقصد اسلامی اقدار و کردار کی بنیاد پرمعاشرہ کی تشکیل ہے۔ اس مہم کے ذریعہ مسلم خاندانوں سے بیجا رسومات اور غیر شرعی طور طریقوں کو ختم کرنا ہے۔ اس مہم کو چلانے کا ایک اہم اور اصل مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی سماج کو انسانوں کے خود ساختہ نظریات سے نجات دلا کر اسلام کے آ فاقی پیغام سے روشناس کراتے ہوئے انہیں یہ بتانا ہے کہ جس خالق نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اُ س نے انسانوں کو زندگی گذارنے کا طریقہ بھی بتا دیا ہے۔ وہی طریقہ اور وہی راستہ انسانیت کے لئے سکون اور راحت فراہم کر سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کا شعبہ خواتین جن اعلیٰ و ارفع مقا صد کو لے کر آج سے جس مہم کا آغاز کر رہا ہے یہ وقت کا تقاضا ہے۔ اس کے پیغام کو عام کرنا صرف خواتین کی ذ مہ داری نہیں ہے بلکہ امت کے ایک ایک فرد کو اس مہم کو بامقصد اور مفید بنانے کے لئے آگے آ تے ہوئے اپنا تعاون دنیا چاہئے تاکہ مضبوط خاندان اور مضبوط سماج کا خواب پورا ہوسکے۔ اس خواب کی تعبیر صرف اور صرف اسلام کے عائلی نظام کے نفاذ سے پوری ہو گی۔ اللہ کرے کہ یہ مہم مسلم خاندان اور مسلم سماج کو اسلامی خاندان اور اسلامی سماج میں بدلنے میں مہمیز کاکام دے۔

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
Share
Share
Share