امانت علی قاسمی
تحقیق کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقت کو بیان کیاجائے، سچائی کو اجاگر کیا جائے، ایسی تحریریں یاانکشافات جو اب تک پردہ خفاء میں ہیں ان کو منظر عام پر لایا جائے، متفرق چیزوں کو جمع کرنا یا غیر مرتب اجزاء کو مرتب کرنا بھی تحقیق کے دائرے میں آتاہے، کسی خاص موضوع سے متعلق ان تمام دستیاب معلومات کو سلیقے سے جمع کرنا جو تحقیق کی دسترس میں ہوں اور انہیں ایسی جدید نئی شکل میں ترتیب دینا جو سابقہ معلومات کی تائید کرے یا وضاحت کرے یا عمدگی میں ان سے بہتر ہو یہ بھی تحقیق کا موضوع ہے۔
تحقیق سے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں، مشکل مسائل کا حل نکلتاہے، زمانے کی تبدیلی اور زبان و بیان کے اسلوب میں ارتقائی مراحل کاپتہ چلتاہے،وقت کی نزاکت وذمہ داری، مسائل وامکانات،مواقع اور حصولیابیاں یہ بھی تحقیق کے ذرائع سے ہی وجود میں آتی ہیں؛ اس لیے کہناچاہیے کہ تحقیق زندہ عمل ہے، اور زندگی کی علامت ہے،جس قوم میں تحقیق کا تسلسل ہوتاہے اور جس معاشرے میں تحقیقی عمل کی ا ہمیت ہوتی ہے وہ قوم اور معاشرہ نہ صرف زندہ ہے؛ بلکہ زندگی بخشنے کی صلاحیت رکھتاہے۔آگے بڑھنااس کا مقدر ہے، وہ سماج نہ صرف ا پنے لیے؛بلکہ دوسرے کے لیے مفید تر ثابت ہوسکتاہے۔
مختلف موضوعات پر اس وقت تحقیق کا عمل جاری ہے، ہر میدان میں ترقی ہورہی ہے، سائنس و ٹکنالوجی کی یہ ترقی تحقیق کی ہی رہین منت ہے، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر، موبائل اور جدید آلات و وسائل کی فراہمی اور اس کے ذریعہ ترقی کی یہ رفتار درحقیقت تحقیق کا ہی عمل ہے، آج جس طرح مختلف میدانوں میں تحقیق کایہ تسلسل جاری ہے، اسلامیات کے میدان میں بھی اس کی رفتار سست نہیں ہوئی ہے،گو کہ رفتار تیز نہیں ہے۔عرب ملکوں میں، اسی طرح پڑوسی ملک میں اسلامیات پر خاصہ کام ہورہا ہے، پاکستان میں ”اردو دائرہ معارف اسلامیہ“ سیرت کا”نقوش نمبر“، علم حدیث میں ”المدونۃ الجامعۃ“ اس طرح کے کئی تحقیقی کام منصہ شہود پر آچکے ہیں، ہندوستان میں ماضی میں حیدرآباد سے ”دائرۃ المعارف“کے ذریعہ بہت سی علمی و تحقیقی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں؛لیکن غور کیا جائے تو اس وقت ہندوستان میں تحقیق کا کوئی بڑا کام نہیں ہورہاہے، ہندوستان میں صدیوں علم و تحقیق کا بازار گرم رہاہے، اور یہاں کے دینی مدارس نے اہل علم کی جو کھیپ تیار کی ہے، اس نے پوری دنیا میں اپنی روشنی بکھیری ہے،یہاں ایسے بہت سے گل و لالہ اور مہ و انجم پیدا ہوئے جنہوں نے باہر کی دنیامیں رہ کر بڑا علمی کام انجام دیا ہے، مولانالطیف الرحمن بہرائچی نے ”الموسوعۃ الحدیثیۃ لمرویات الامام ابی حنیفہ“ بیس ضخیم جلدو ں میں شائع کی ہیں،ڈاکٹر اکرم ندوی کی ۳۴جلدوں میں شائع محدثات انسائکلوپیڈیا ”الوفا باسماء النساء“ بھی قابل ذکر کارنامہ ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تیس کروڑ سے زائد ہے، اوریہاں پر اسلامیات اور دینیات کے موضوعات پر لکھنے، پڑھنے اور پڑھانے کی صدیوں پرانی تاریخ ہے،بڑے بڑے دینی و اسلامی ادارے ہیں،یہاں پر سرمایہ ملت کانگہبان دارالعلوم دیوبند ہے، جس نے اپنے قیام کے وقت سے ملک و ملت کے لیے عظیم قربایناں دیں ہیں، عظیم افراد تیار کیے ہیں،جس کی حیرت انگیز تاریخ ہے،قابل فخر کارنامے ہیں، یہاں پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے جس نے عصری علوم کے مختلف میدانوں میں قابل ذکر کارنامے انجام دیے ہیں، اس کے فیض یافتہ دنیاکے مختلف خطوں میں مختلف سطح پر سماجی و علمی خدمات سے وابستہ ہیں،علی گڑھ میں عصری علوم کے ساتھ دینی علوم اور اسلامیات کی تعلیم کانظم ابتداء سے ہی ہے،باضابطہ دینیات کے شعبے ہیں، اور اسلامیات پر کئی رسالے نکلتے ہیں۔اس کے علاوہ مظاہر العلوم سہارن پور،ندوۃ العلماء لکھنؤ، اشاعت العلوم اکل کوجامعۃ الفلاح ا اور اس جیسے سینکڑوں بافیض ادراے ہیں۔یہاں پر ملت اسلامیہ کی کئی قابل ستائش تنظیمیں ہیں، جنہوں نے ملک و ملت کے لیے، بہتر سماج کے لیے اور مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی و سیاسی ترقی کے لیے بڑی کوششیں کی ہیں،جمعیۃ علماء ہند جس کی ذیلی شاخیں پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں اور ایک مضبوط نیٹ ورک ہے، جس نے ہندوستان کی آزادی سے لے کر موجودہ حالات میں سماج کی خوشحالی و ترقی کے لیے، بڑی جد جہد کی ہے، اس کی بڑی روشن تاریخ اورتابناک ماضی ہے۔یہاں پر جماعت اسلامی ہے، جو مسلمانوں کی منظم اورمضبوط تنظیم ہے جس کی کارکردگی محتاج تعارف نہیں ہے، جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ علماء ہند، مسلم پرسنل لا،یہ مسلمانوں کی بڑی تنظمیں ہیں، جن کے ملک و ملت پر اچھے اثرات ہیں اس کے علاوہ فقہ اکیڈمی انڈیااور دارالمصنفین اور اوبجیکٹب اسٹڈیز جیسی علمی تنظمیں بھی ہیں۔
لیکن یہ شکوہ اپنی جگہ قائم ہے کہ دائرۃ المعارف کے بعد کسی ادارے کی طرف سے اسلامیات پر کوئی بڑا تحقیقی کام نہیں ہوسکا ہے،انفرادی سطح پر بہت سے حضرات علماء نے تحقیق کے خشک ہوتے باغیچے کو سیچنے اور سیراب کرنے کی کوشش کی ہے، دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی سعید احمد صاحب ؒ، پروفیسر یاسین مظہر صدیقی صاحب ؒ مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب جیسے اصحاب علم نے یقینا علمی دنیاکو سیراب کیا ہے،لیکن باضابطہ تحقیق کے ادراے قائم کرکے نئی روشنی فراہم کرنے، قدیم مخطوطات کو جدید قالب میں ڈھالنے، نئے موضوعا ت پر حسب ضرورت جس طرح کام کرنے کی ضرورت ہے اس سطح پر کام نہیں ہوسکاہے۔ہم مستشرقین کے کاموں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مستشرقین نے پہلی مرتبہ علوم اسلامیہ کے بڑے ذخیرے کو ایڈیٹ کرکے شائع کیا اور آج تک ہم انہی کی ایڈیٹ شدہ کتابوں کو پڑھتے ہیں ہم نے از سر نو ان کتابوں کو طبع نہیں کرایا ہے۔عالم عرب میں بڑے بڑے ناشران کتب بزنس کے طورپر وہ خوشنما ٹائٹل کے ساتھ کتابیں طبع کرتے ہیں جن میں تصحیح کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور ہم انہی کتابوں پر اکتفاء کرتے ہیں چاہے وہ اغلاط کامجموعہ کیوں نہ ہو۔یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ہے؛بلکہ حقیقت واقعہ ہے،میں نے خود ”فتاوی شامی“کے مطالعہ کے دوران اس کا مشاہدہ کیاہے،ہر جلد میں اغلاط کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز تھی لیکن ہندوستان میں ناشران کتب انہی کتابوں کا عکس طبع کرتے ہیں جس کاصرف ظاہر دیدہ زیب ہوتاہے۔
اس سلسلے میں اسباب کا جائز ہ لینا بھی ضروری ہے، جس ملک نے پوری دنیا کو علم و تحقیق کی روشنی دی، آخر اسی علمی دنیامیں خشک سالی کیوں؟ اس کا اگر منصفانہ جائز ہ لیاجائے اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو چند باتیں سامنے آتی ہیں:
تحقیقی کام کے لیے باصلاحیت افراد کی ٹیم، طویل وقت اور کثیر صرفہ کی ضرورت ہوتی ہے،کسی بڑے علمی و تحقیقی پروجیکٹ کے لیے یہ تینوں چیزیں لازمی ہیں،ہندوستان جیسے ملک میں اسلامیات کے میدان میں تحقیق کے لیے سرکاری امداد کی توقع فضول ہے، غیر سرکاری امداد میں جو اداروں اور تنظیموں کے پاس بڑاسرمایہ جمع ہوتاہے وہ زکوۃ کی مد کا ہوتاہے جس سے اس طرح کے علمی کاموں کی گنجائش کم ہوتی ہے،مدارس میں عام طورپر ان کاجوبجٹ ہوتا اسے ہی پورا کرپانامشکل ہوتاہے، تنظیمیں جن مقاصد کے لیے سرمایہ دار مخیر حضرات سے پیسے وصول کرتی ہیں ان میں جیلوں میں بند مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی، سیلاب و فساد میں بتاہ ہوئے لوگوں کی باز آبادکاری اور تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کو خود کفیل بنانے جیسے موضوعات ترجیحات میں شامل ہیں اور یہ سارے ہی امور اپنی جگہ اہم اوروقت کی ضرورت ہیں؛ اس لیے ان موضوعات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، ہندوستان میں سرمایہ دار حضرات تعلیمی ادراوں میں بسا اوقات بلڈنگ کے لیے بجٹ دے دیتے ہیں؛لیکن جب ان سے کسی تحقیقی کام کے لیے کسی بڑے بجٹ کامطالبہ کیاجائے تو وہ غیر ضروری کام سمجھ کر اس جانب توجہ نہیں دیتے ہیں؛ اس لیے میں سمجھتاہوں کہ اس بحران کے پیچھے مالی وسائل کی کمی سب سے بڑا سبب ہے۔
آزادی کے بعد سے ہی مسلما ن مختلف سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل سے دوچار ہیں، جس کی وجہ سے بھی تحقیق کے میدان کی طرف جس قدر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے تھی اس طرح توجہ نہیں ہوسکی۔عصری و دینی تعلیم کی تقسیم نے ایک عرصے تک خود مسلمانوں کو آپس میں دست وگریباں رکھااور ایک لمبا عرصہ ہم نے اسی میں گزار دیا ہے کہ دینی تعلیم ضروری ہے یاعصری تعلیم اور تقسیم صحیح ہے یانہیں، اس تقسیم کی اب ضرورت ہے یانہیں؟ اب اگر چہ اس طرح کی بحث و تکرار کی نوبت نہیں آتی؛ لیکن تقسیم نے جو دوریاں پیدا کیں ہیں وہ ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر دینی مدارس سے کوئی تحقیقی کام منظر عام پر آئے تو یونیورسٹی میں اس کی پذیرائی نہیں ہوتی اوراگر یونیورسٹی میں اسلامیات پر کوئی قابل قدر کام ہو تو مدارس کی چہار دیورای تک اس کی پہنچ نہیں ہوتی ہے۔
ترجیحات کا فرق بھی اس مسئلے میں حائل رہاہے، اداروں اور تنظیموں کے ترجیحات میں یہ چیزیں شامل نہیں رہی ہیں، ان کے پروجیکٹ اور عزائم میں تحقیق کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔
حوصلہ افزائی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہوسکتاہے، عہد عباسی میں کسی کتاب کے ترجمہ پر کتاب کے وزن کے برابر درہم و دینار سے نوازا جاتا تھا اور بڑے بڑے انعامات دیے جاتے تھے، اب اگر کوئی شخصی طورپر بھی بڑا کارنامہ کرے تو اداروں کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے تحقیقی کام کرنے والوں کا جذبہ سرد پڑ جاتاہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ منصفانہ اور حقیقت پسندانہ جائز ہ لیاجائے کہ آخر وہ کیا اسباب ہیں اور ان کا ہم کس طرح تدارک کرسکتے ہیں؟ مالی وسائل کی کمی یقینا تحقیق کے میدان میں ایک بڑی رکاوٹ ہے،لیکن جس طرح عزم و ہمت کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے تعلیمی اداروں کی حفاظت کی ہے،مشکل حالات میں بھی اپنے قومی اداروں کے تحقظ کو یقینی بنایاہے، کوئی بعید نہیں ہے کہ تحقیق کے لیے درکار وسائل کو مہیا نہ کیاجاسکے، ہم اپنے بجٹ میں اگر اس کااضافہ کرتے ہیں اور اس کی اہمیت کا لوگوں کو احساس دلاتے ہیں تو یقینا اس کمی کو پوراکیاجاسکتاہے،خاص طور پر جو بڑی تنظیمیں ہیں اگر وہ اس جانب کوشش کریں تو میرا خیال ہے مالی وسائل کی کمی نہیں ہوگی۔ اسی طرح جو علمی تنظیمیں ہیں وہاں بھی اگر اس کا کوئی معقول نظم قائم کیاجائے اور اچھے محقق علماء کی خدمات حاصل کرکے نئے فضلاء کی تربیت کا کام انجام دیا جائے اور علم و تحقیق کے لیے فضلاء کی ٹیم تیار کی جائے جن سے تحقیقی کاموں میں مدد لی جائے تو ہندوستان کے مسلمان اور یہاں کے ادارے جس خوش اسلوبی کے ساتھ تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں اسی طرح تحقیقی خدمات میں بھی نمایاں کارنامہ انجام دیں گے۔