ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ایک ایسے وقت جب کہ ہندوستان اپنی جمہوریت کے 71سال مکمل کر کے 72ویں سال میں داخل ہورہا ہے۔ ملک میں یہ موضوع زیرِ بحث آ رہا ہے کہ سارے ملک میں ایک ہی مر تبہ انتخابات ہونے چاہیئے۔ 2014میں پہلی مر تبہ مرکز میں بی جے پی حکومت کے قیام کے بعد برسر اقتدار پارٹی کے حلقوں کی جانب سے اس بحث کا آ غاز کیا گیا تھا کہ کیوں نہ عوام کو زحمت سے بچانے کے لئے اور سرکاری خرچ کو کم کرنے کے لئے پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت منعقد کئے جائیں۔
اس پر سیاسی پارٹیوں سے رائے بھی طلب کی گئی تھی۔ ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیوں نے اس کے خلاف رائے دی تھی۔ بی جے پی چونکہ اس نظریہ کی محرک ہے۔ اس لئے اس نے ایک ہی وقت الیکشن رکھنے کی بھر پور وکالت کی تھی۔ چند دن پہلے خود وزیر اعظم نے ایک بار پھر اس موضوع کو چھیڑا ہے۔ بی جے پی اس مو ضوع پر ملک گیر سطح پر سیمنارس بھی رکھنے کا اعلان کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے پسِ پردہ بی جے پی کے عزائم کیا ہیں۔ ہندوستان جو ایک وسیع و عریض ملک ہے کیا یہ ممکن ہے کہ یہاں اس نوعیت کے انتخابات کرائے جا سکیں۔ اس سے واقعی جمہوریت کی بنیادیں مستحکم ہوں گی یا پھر ہندوستانی جمہوریت دنیا کی نظر میں ایک مذاق بن کر رہ جا ئے گی؟ 130کروڑ کی آ بادی والا یہ ملک اپنی کچھ انفرادی خصو صیات بھی رکھتا ہے۔ اسی لئے دستور سازوں نے ہندوستان کو کثرت میں وحدت قرار دیا ہے۔ اس ملک کے مختلف علاقوں کی زبان، تہذیب اور روایات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دستورہند میں ان تمام پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملک میں ہمہ جماعتی نظام (Multi Party System) کو رائج کیا گیا۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انتخابات کے مو قع پر عوام کو اپنے نمائندوں کو منتخب کر نے میں سہولت کے ساتھ آزادی بھی حا صل ہو۔ امریکہ یا بر طانیہ کی طرح یہاں دو جماعتی نظام (Two Party System) نہیں ہے۔ اس طرح کے سسٹم میں رائے دہندوں کو محدود حق اختیارہوتا ہے۔ دو میں سے کسی کم برے کو منتخب کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح دستور سازوں نے ایک جماعتی نظام(One Party System) کی بھی تائید نہیں کی۔ اس سے جمہوریت برائے نام ہو کر رہ جاتی ہے۔ سابقہ یو ایس ایس آر اور چین اس کی مثالیں ہیں، جہاں کیمونسٹ پارٹی کے سوا کسی اور پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد ہمہ جماعتی نظام کو لاگو کرنے کا مقصد یہی تھا کہ عوام اپنی پسند کی کسی بھی پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کر یں۔ یہ اس ملک کی بد قسمتی رہی کہ دستور تو ہمہ جماعتی نظام کی وکالت کر تا ہے لیکن یہاں ایک پارٹی کی حکومت ہی زمانہ دراز تک چلتی رہی۔ Single Dominants Partyیعنی ایک پارٹی کے غلبہ کے اس تصور نے کانگریس کو ایک نا قابل تسخیر پارٹی کے روپ میں ابھارا۔ آزادیِ وطن کے بعدکم و بیش نصف صدی تک کانگریس بلا شرکتِ غیرے اقتدار کے مزے لوٹتی رہی۔ ایک مختصر عرصہ کے لئے جنتا پارٹی کے ہاتھوں میں اقتدار آیا لیکن مختلف پارٹیوں کا یہ معجون زیادہ دن نہیں چل سکا۔ ایک لمبے عر صہ تک اقتدار میں رہنے سے کانگریس بھی وہ رنگ ڈھنگ اختیار کرتی چلی گئی جو جمہوریت کو مطلق العنانی میں ڈھال دیتا ہے۔ کانگریس نے اندرا گاندھی کے دور میں یہی چاہا کہ ملک سے تمام سیاسی پارٹیوں کا اثر و رسوخ ختم ہوجائے اور کانگریس جمہوریت کے نام پر اپنی من مانی کر تی رہے۔ چناچہ یہ نعرے بھی کانگرسیوں نے لگائے کہ India is Indira, Indira is Indiaیعنی ہندو ستان ہی اندرا ہے اور اندرا ہی ہندوستان ہے۔ اس کا خمیازہ کانگریس کو بھگتنا پڑا
ہندوستانی جمہوریت کی کمزرویوں میں ایک سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ یہاں سسٹم سے زیادہ شخصیت پر ستی کا رجحان عام ہے۔ اب نریندرمودی نے ایک ملک ایک الیکشن کا جو شو شہ چھوڑا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ اب ملک کی ساری سیاسی پارٹیوں کو ختم کر کے اپنا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ملک میں بیک وقت پار لیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کئے جائیں تو وہ کسی جذباتی ایشو کو عوام کے سامنے لاکر پورے ملک میں اپنی پارٹی کی حکومت بنانے میں کا میاب ہو سکتے ہیں۔ ایک ملک ایک الیکشن کا نظریہ علاقائی پارٹیوں کے لئے سّم قاتل ثابت ہوگا۔ ہر ریاست میں علاقائی پارٹیاں اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔ اس وقت ملک کی تقریبا ہر ریاست میں علاقائی پارٹیاں موجود ہیں۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس، آندھرا پردیش میں تلگو دیشم اور وائی ایس آر کانگریس، بہار میں جے ڈی یو، یوپی میں سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی، تامل ناڈو میں ڈی ایم کے اور اے آئی ڈی ایم کے وغیرہ موجود ہیں۔ غرض یہ کہ ہندوستان کے ہر علاقہ میں ان علاقائی پارٹیوں کا وجود ہے۔ اور بہت ساری ریاستوں میں انہیں اقتدار بھی حاصل ہے۔ ایسے میں بی جے پی، ایک ملک ایک الیکشن کی تجویز پیش کر تی ہے تو اس سے یہی ثا بت ہوتا ہے کہ وہ ان علاقائی پارٹیوں کو اقتدار کے سر چشموں سے دور کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ جذباتی مسائل کو چھیڑ کر با آسانی رائے دہندوں کے ووٹ بٹور سکتی ہے۔ یکم ڈسمبر 2020کوہوئے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں بی جے پی نے جس جارحانہ انداز میں مہم چلائی اس سے پورے حیدرآباد کے سیاسی ماحول میں ہلچل پیدا ہوگئی۔ بی جے پی اپنی حکمتِ عملی میں کا میاب بھی ہوئی اور اسے 150رکنی کارپوریشن میں 48حلقوں میں کامیابی بھی ملی۔ صرف ایک ہفتہ کی اس مہم کے دوران بی جے پی کے قائدین نے وہ زہر اُگلا کہ بر سرِ اقتدار پارٹی کے حلقوں میں دراڑ ڈالتے ہوئے وہاں بھی اپنی کامیابی کو درج کرائی۔ ٹی آر ایس جس نے 2016 میں گریٹر حیدرآباد کے کار پوریشن انتخابات میں 99 حلقوں میں کا میابی حاصل کی تھی اسے صرف 56بلدی وارڈس میں کامیابی ملی۔ ٹی آر ایس قیادت دعویٰ کر رہی تھی کہ اسے ایک سو سے زائد نشستیں حا صل ہوں گی۔ کم وقت میں اس نو عیت کے سیاسی فائدے بی جے پی آ نے والے وقت میں ایک ملک ایک الیکشن کے ذریعہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ملک کے موجودہ جمہوری ڈھانچہ کو بدلنے کے مقصد سے ہی یہ نعرہ دیا جارہا ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے بار بار کے الیکشن کے بجائے صرف ایک مرتبہ کا الیکشن کافی ہے۔ اگر ملک میں اس نظریہ کو تقویت دی جائے تو اس سے ریاستوں کے لئے نئے مسائل پیدا ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے انتخابات میں قومی مسائل زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں ریاستی مسائل پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ دونوں کے بیک وقت انتخابات سے ریاستی مسائل کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرا بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ اگر مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوجائے تو وہ عوام کے بنیادی مسائل سے صرفِ نظر کرتی ہے۔ اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت من مانی اقدامات کرنے لگتی ہے۔ اس کا تجربہ ہندوستانی عوام کو بارہا ہوتا رہا۔ کانگریس جب مرکز اور ملک کی مختلف ریاستوں میں برسر اقتدار رہی تو اس نے عوامی توقعات کو پورا کرنے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں وجود میں آئیں۔ عوام نے بھی علاقائی پارٹیوں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے انہیں حکومت بنانے کا موقع دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب بھی علاقائی پارٹیوں پر عوام کا اعتماد باقی ہے۔ بی جے پی ایک ملک ایک انتخاب کے تحت علاقائی پارٹیوں کی اہمیت کو ختم کرنا چاہتی ہے تا کہ سارے ملک پر اس کا اقتدار قائم ہوجائے۔
بی جے پی نے اپنی پہلی معیاد کے دوران ملک سے کانگریس کو پوری طرح ختم کرنے کا منصوبہ بنا یا تھا۔ اس میں وہ بڑی حد تک کا میاب بھی ہوئی۔ 135سالہ قدیم پارٹی کی آج جو حالت ہوگئی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ بہار میں ہوئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس صرف 19حلقوں میں کا میاب ہو سکی۔ جب کہ اس نے 70نشستوں پر مقا بلہ کیا تھا۔ بہار میں ایک طویل عرصہ تک کانگریس حکومت کرتی رہی۔ لیکن اب ریاست کی سیکولر پارٹیوں سے اتحاد کے بعد بھی کانگریس اپنی ساکھ بچانے میں ناکام ہوتی جارہی ہے۔ بی جے پی ملک کی ساری ریاستوں کو اسی طرح ٹھکانے لگانا چاہتی ہے جس طرح اس نے 2014کے عام انتخابات کے بعد ملک کو کانگریس سے مکت کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ایک ملک ایک الیکشن کے پیچھے دراصل یہی نظریہ کام کر رہا ہے کہ کسی طرح ملک کے ہمہ جماعتی نظام کو ختم کر کے ایک پارٹی سسٹم کو ملک میں لاگو کر دیا جائے۔ جب ملک میں بیک وقت الیکشن کرائے جا ئیں گے تو بی جے پی کسی نہ کسی نوعیت کا پروپگنڈا کر تے ہوئے اپنی کامیابی کو یقینی بنائے گی۔ 2019کا الیکشن اس نے محض پلوامہ پر دہشت گرودں کے حملہ کو بنیاد بنا کر جیت لیا۔ اپنی پہلی معیاد کے دوران بی جے پی نے جو کچھ وعدے کئے تھے اس میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ اقتدار پر آ نے سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ ہر غریب کے کھاتے میں 15لاکھ روپئے جمع کرائے جا ئیں گے۔ ہر سال بڑی تعداد میں نوجوانوں کو روزگار دیا جائے گا۔ کسانوں کے قرضے معاف کئے جائیں گے۔ بی جے پی حکو مت نے بیرون ملک سے کالا دھن واپس لانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ کالا دھن تو واپس نہیں آیا البتہ وزیراعظم نے راتوں رات نوٹ بندی کا اعلان کر کے غریب عوام کی زندگی کو مزید اجیرن کر دیا۔ ایک سو سے زائد لوگوں کی جانیں نوٹ بندی کے فیصلے نے لے لی۔ اس کے بعد سے ملک کی معیشت کوجو گہن لگا اس سے ملک کا ہر شہری بخوبی واقف ہے۔ ان ساری ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے عوام پھر بی جے پی پر بھروسہ کیسے کر سکتی تھی۔ اس لئے بی جے پی کے دوبارہ اقتدارپر آ نے کے امکانات موہوم ہو تے جا رہے تھے۔ ایسے میں جموں و کشمیر میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا۔ بی جے پی کو زندہ رہنے کے لئے آ کسیجن مل گئی۔ چناچہ ملک کے سارے مسائل پسِ پشت ڈال دئے گئے اور قوم پر ستی کا ہّوا کھڑا کر کے بی جے پی نے اپوزیشن پارٹیوں کو انتخابی میدان میں پچھاڑ دیا۔ پلوامہ کے دہشت گردانہ واقعہ پر ملک کے سارے ہی طبقوں نے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطا لبہ کیا۔ ہر ایک نے اس واقعہ کی بھر پور انداز میں مذ مت کی۔ لیکن بی جے پی نے پاکستان کے فو جی اڈّے پر سر جیکل اسٹرئیک کرنے کا دعویٰ کر کے لوک سبھا کے الیکشن میں اپنی کامیابی کو یقینی بنا لیا۔ اس دہشت گردانہ حملہ کو روکا جا سکتا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر ہندوستانی جوانوں کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔ بی جے پی حکومت اس اپنی سنگین غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے ملک کی عوام کی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے میں کا میاب ہو گئی۔ اسی طرح کے واقعات آئندہ بھی پیش آسکتے ہیں۔ اس لئے ایک ملک ایک الیکشن کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی زبردست کوشش جاری ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے اس کی تائید کے بعد بی جے پی کے دیگر قائدین بھی اس کے حق میں بیانات دینے لگے ہیں۔ اگر بی جے پی اپنے ارادوں میں کامیاب ہوتی ہے تو ملک میں جمہوریت کے نام پر مطلق العنانی کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ہندوستان نے اپنی جمہوریت کا سفر بڑی کا میابی سے طے کیا ہے لیکن موجودہ صور ت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ محبان وطن 72 واں یومَ جمہوریہ آنے سے پہلے طے کریں کہ وہ کس طرح ملک میں جمہوریت کا تحفظ کریں گے ورنہ فسطائی طاقتیں اپنے مشن میں کا میاب ہو جائیں گے۔